بے شمر سائے کا پاس
ڈوبتا سورج اداس
کھول کر البم کھُلا
کل بہو تھی آج ساس
سونگھتی آنکھوں میں دیکھ
کاغذی پھولوں کی باس
مکتب غم کا عمل
اکتساب و اقتباس
رات کو تنہائی کی
روشنی کیا آئے راس
کوئی آنسو پی گیا
پانچ دریاؤں کی پیاس
یا مرے جانے کا دکھ
یا ترے آنے کی آس
صبح منتی ہی نہیں
شام بیٹھی ہے اداس
پھر وہی قطع و برید
پھر وہی خوف و ہراس
جنگلوں کی بھیڑ میں
پیڑ سب تنہا، اداس
ساقی و مینا و مے
ہوشمندی کی اساس
میرا گھر بھی ہوتا کاش
تیرے گھر کے آس پاس
چھپتا پھرتا تھا ضیا
درد نکلا دل شناس
٭٭٭