فوقیت دیتے ہیں دانائی کو نا دانی پر
طنزِ دشوار پسندی ہے تن آسانی پر
جلوہ در جلوہ ہے، کیا جانے، خدا خیر کرے
آئینہ خانے کو حیرت میری حیرانی پر
گھر سے نکلا تو ادھر لائے قدم وحشت کے
سوچ کا سایہ پڑا دشت کی ویرانی پر
ہائے اس شمع کی قسمت، جو بھری محفل میں
رات بھر جلتی رہی سوختہ سامانی پر
کافری جس کو ہو آئینۂ نور ایماں
کیوں نہ دل ناز کرے اس کی مسلمانی پر
کفش بردار انہی کا ہوں ضیا، میرا سلام
سعدی و حافظ و خاقانی و قآنی پر
٭٭٭