رات تارا جو آسماں سے گرا
دن نکلتے کھجور میں اٹکا
اس پری چہرہ کا جو عکس پڑا
آب آئینہ بن گیا دریا
مجھ سے اب پوچھتا ہے ہر منظر
ایسا منظر کسی نے دیکھا تھا
استعاروں میں ہو گئے تحلیل
شیریں، فرہاد، کوہ، کلہاڑا
سر برہنہ ہے دن کا سورج اب
چادرِ شب کا ڈال دو سایا
میں بھی للکارتا اسے اک بار
بارہا اس نے مجھ کو للکارا
کیوں نہ پہلے ملی مجھے یہ خبر
تھا مرے گھر میں تیرا بھی کمرا
بول، خونِ شہید، میں کب تک
بوجھ اٹھائے پھروں صلیبوں کا
شمعِ منزل کی روشنی پھیلی
راستہ اپنے آپ میں سمٹا
نگہ لطف کی غلط بخشی
کچھ سمجھنے لگا ہے خود کو ضیا
٭٭٭