ڈال کر آنکھوں میں آنکھیں، بزم دل گرما گیا
کون تھا، دے کر کھلونے جو مجھے بہلا گیا
الٹی گنگا بہہ رہی ہے، مل گئی دل کو زباں
پھر کتا بِ شوق کا کوئی ورق الٹا گیا
فصل ارمانوں کی یخ بستہ دلوں میں کچھ نہ پوچھ
لہلہاتے سبزہ زاروں کو بھی پا لا کھا گیا
میری دکھتی رگ سے جو نالہ اُٹھا تھا شام غم
صبح ہوتے ہوتے وہ کل آسماں پر چھا گیا
پردہ ہائے درمیاں کی کیا شکایت کیا گلا
آنکھ اٹھا کر مجھ سے تیری سمت کب دیکھا گیا
اللہ اللہ آدمی کی خود تباہی کا جنوں
لرزہ طاری تھا زمیں پر، آسماں تھّرا گیا
اے ہجومِ یاس و حرماں، کیا کروں جاؤں کہاں
زندگی کی کشمکش سے جی مرا گھبرا گیا
منحصر ہے سالمیت پر ضیا، رنگِ چمن
ٹُوٹ کر ٹہنی سے جو پت ّہ گرا، مرجھا گیا
٭٭٭