مرکز کا اعتبار اسی دائرے میں تھا
منزل کو پا کے کھویا ہُوا راستے میں تھا
میخانے کا یہ عالم مستی کہ رات بھر
مینا بھی رقص میں تھا، سُبو بھی نشے میں تھا
اب دل کے زخم زخم سے اٹھتی ہے کوئی چیخ
درماں سے بے نیاز تھا جب تک نشے میں تھا
پہچان ہوتی چہروں کی کیا اس دیار میں
اک اور آئینہ بھی جہاں آئنے میں تھا
الفت کے کاروبار کی دلچسپیاں نہ پوچھ
تھا فائدہ زیاں میں، زیاں فائدے میں تھا
کھولی زبان جس نے، گیا دار پر وہی
جو جان کر خموش رہا، وہ مزے میں تھا
تھی جس سکو ن دل کی تلاش اے ضیا مجھے
آہ و فغاں میں تھا نہ وہ شکوے گلے میں تھا
٭٭٭