اک اشتہار شادی اخبار میں چھپا تھا
پڑھ کر اسے نہ جانے کیا دل کو ہو گیا تھا
بنتی اگر تو بنتی دونوں میں کس بنا پر
میں اس کو چاہتا تھا، وہ مجھ کو چاہتا تھا
کہہ دوں اگر وہ مجھ سے ناراض ہو نہ جائے
غیروں سے اُس کا ملنا دل کو بُرا لگا تھا
دم لینے کی بھی فرصت اے وقت تُو نے کب دی
کیا تھک کے بیٹھ جاتے، رستہ تو دوڑتا تھا
اک حادثہ ہوا تھا، اتنی خبر ہے، لیکن
کچھ بھی پتہ نہیں ہے، کیا حادثہ ہوا تھا
مجھ پر بھی ایک ایسا آیا تھا وقت، یارو
جب اُس کی انجمن میں دل میرا بجھ گیا تھا
مقتل میں سر جھکائے، دیوانۂ دل آئے
شہر ِ وفا کی ساری دیواروں پر لکھا تھا
مطرب نے بزم لوُ ٹی، گا کر تری غزل جب
پہچانا کس نے، تو بھی موجود اے ضیا تھا
٭٭٭