ہوش اُڑاتا، رندوں کو چھلتا رہا
دور ساغر رات بھر چلتا رہا
واہ، ذوقِ گرمیِ بزم حیات
سورج اپنی آگ میں جلتا رہا
اجنبی رستوں کی تھی پہچان اسے
کارواں کے ساتھ وہ چلتا رہا
وہ جسے کہتے تھے ہم بوڑھا درخت
بوڑھا ہو کر پھُولتا پھلتا رہا
اس کے ہاتھوں کی لکیریں، کیا کہوں
وہ کف افسوس کیوں ملتا رہا
کیا ہوا جو کیسہ بے جھنکار ہے
اس کا لاکھوں پر قلم چلتا رہا
دل میں گہما گہمی اس ارماں کی ہے
وعدۂ فردا پہ جو پلتا رہا
وقت نے تاکا اسی کو اے ضیا
جو بدلتے سانچوں میں ڈھلتا رہا
٭٭٭