اعتبار اٹھتے ہی عالم معتبر ہو جائے گا
جب خبر آئے گی انساں بے خبر ہو جائے گا
شمع ہو جائے گی اپنی آگ میں جل کر خموش
قصۂ طولانیِ شب مختصر ہو جائے گا
منزلِ مقصود کو پائے گا زیر نقش پا
وہ مسافر جو بھٹک کر راہ پر ہو جائے گا
مستقل غم دل نے چاہا تھا مگر تھی کیا خبر
درد بڑھ کر آپ اپنا چارہ گر ہو جائے گا
میرے تیرے درمیاں اک لمحے کا ہے فاصلہ
آج میرا ہے جو، کل وہ تیرا گھر ہو جائے گا
ٹھوکریں کھانے پہ بھی میں اس لئے گرتا نہیں
کون جانے میرا میں کیا ٹوٹ کر ہو جائے گا
کیا کہوں خواب طلسم ِ شب کی کیفیت ضیا
آنکھ جب کھل جائے گی، وقت سحر ہو جائے گا
٭٭٭