صحرا سے جو پلٹے تو کھلا در نہیں دیکھا
ہم کہتے تھے اپنا جسے وہ گھر نہیں دیکھا
کشتی کہ ڈبو کر جو اُبھارے سر ِ ساحل
طوفاں بکنار ایسا سمندر نہیں دیکھا
تھی میری دروں بینی بھی اک طرفہ تماشا
اندر جسے دیکھا اسے باہر نہیں دیکھا
مرہم سے گریزاں ہے وہ بیگانۂ درماں
اتنا بھی کوئی درد کا خوگر نہیں دیکھا
تدبیر نے پھینکی تو ستاروں پہ کمندیں
بگڑی ہوئی قسمت نے سنور کر نہیں دیکھا
بس ایک ہی جرعے میں جو پی جاتا ہے صحرا
ہم نے تو ابھی تک وہ سمندر نہیں دیکھا
غالب نے کہا کل جو ضیا آج بھی سچ ہے
غالب سا زمانے میں سخنور نہیں دیکھا
٭٭٭