اس نے چھیڑی غزل، ساز زندہ ہوا
دل پُر درد کا راز زندہ ہوا
چڑھ کے سولی پہ دورانِ خوں بڑھ گیا
پڑ گئی جان، سر باز زندہ ہوا
ڈال دی گل پہ کس نے بہاریں نظر
پیکرِ ناز و انداز زندہ ہوا
تشنہ کامی بلا کش کو لے ڈوبتی
تھا در میکدہ باز زندہ ہوا
پر سمیٹے قفس میں وہ تھا مردہ دل
ہوا مائل بہ پرواز زندہ ہوا
ٹکڑے ٹکڑے ہوا سنگباری سے جب
آئینہ، آئینہ ساز زندہ ہوا
مارنے کو مجھے تھا سکوت لحد
دی ضیا کس نے آواز، زندہ ہوا
٭٭٭