دیواریں چُپ، در گویا تھا
ہمسائے میں دل کھویا تھا
کاٹی فصل درد بھی اُس نے
بیج محبّت کا بویا تھا
اُتری تھی آکاش سے گنگا
پاپی دامن جب دھویا تھا
بول ذرا اے رات کے بستر
میں جاگا تھا یا سویا تھا
زہریلے سانپوں میں، میں نے
منزل کو پایا، کھویا تھا
تجھ سے کہوں کیا، میں نے ضیا کیوں
بوجھ صلیبوں کا ڈھویا تھا
٭٭٭