وقت طلوع مستی
نکلا تھا گھر سے راہی
اک سوچ کے سفر پر
صحن چمن میں اُس نے
سورج اگا دیا تھا
لے کر جمالِ ہستی
راہوں کی گرد اڑاتا
حُسن غزل کی دھن میں
نغمات صبح گاتا
ظلمت مٹانے نکلا
رستہ دکھانے نکلا
ہر لفظ اس کا جادو
ہر بات اک تخیل
بن کر ضیائے ہستی
محفل پہ چھا گیا تھا
منزل کو پا گیا تھا
تصویر اس کے فن کی
کندہ ہے دل کی لو پر
جاوید ہو گئی ہے
دھوپ اور چاندنی میں
دنیا کی کھو گیا ہے
خاموش ہو گیا ہے
شاید تھکا تھکا سا
دو پل کو سو گیا ہے
آؤ چراغ اس کا
روشن کریں جہاں میں
دل میں بسائیں اس کو
بھولیں نہ ہم گماں میں
صِدق و صفا پر اس نے
مٹ کر دکھا دیا ہے
اردو کی شاعری کو
اونچا اٹھا گیا ہے
٭٭٭