جیسے ہی سگنل بند ہوا چیزیں بیچنے والے، بھیک مانگنے والے، سواریوں کی طرف دوڑے۔ کچھ بس کے اندر گھس کر اپنا مال بیچنے لگے۔ وہ بھی بھاگا اور اپنے سامنے رکی ہوئی گاڑی کے شیشے کے پاس جاکر آہستہ سے knock کیا۔ خاتون نے شیشہ نیچے کیا۔
’’باجی! یہ گجرے لے لو میں بہت غریب ہوں، مجھے خود پڑھنا ہے، اپنی چھوٹی بہن کو پڑھانا ہے، ماں کا علاج کروانا ہے۔‘‘
وہ سب ایک ہی سانس میں کہہ گیا۔ خاتون نے اس لڑکے پر ایک سرسری نظر ڈالی اور بولی، ’’لائو یہ گجرے مجھے دے دو— اور ہیں تمھارے پاس—؟‘‘ خاتون نے لڑکے سے پوچھا۔
’’جی ہاں باجی۔‘‘ وہ کہہ کر مڑا اور فٹ پاتھ پر رکھی گجروں سے بھری ٹوکری اٹھا لایا۔
’’یہ ٹوکری گاڑی میں رکھ دو۔‘‘
’’پوری ٹوکری۔‘‘ لڑکے نے حیرت سے پوچھا۔
’’ہاں بھئی سب—‘‘ خاتون نے ہنستے ہوئے کہا۔ لڑکے نے جلدی سے ٹوکری گاڑی میں رکھ دی۔
خاتون نے پانچ سو کا نوٹ بڑھاتے ہوئے اس سے کہا، ’’یہ لو تمھارے پیسے۔‘‘
’’مگر میرے پاس تو چُھٹّا نہیں ہے۔‘‘ لڑکے نے نوٹ ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔
’’تم رکھ لو، پیسے واپس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’میڈم میں بھکاری نہیں ہوں۔‘‘ بچے نے کہا۔ لیکن خاتون نے بچے کو مسکرا کر دیکھا اور گاڑی اسٹارٹ کر دی۔
’’سارے میں رکھ لوں۔‘‘ لڑکا حیرت سے بولا۔ اس کا چہرہ خوشی سے دمکنے لگا، آنکھوں میں ستارے چمکنے لگے۔
’’ہاں یہ سب تمھارے ہیں۔ اور سنو، پڑھائی مت چھوڑنا۔‘‘ خاتون نے کہا۔ اتنے میں سگنل کھل گیا تھا، گاڑی روانہ ہوگئی۔
بچہ نوٹ کو مٹھی میں دبائے خوشی خوشی یہ سوچتا ہوا جارہا تھا، آج جب یہ پیسے میں ماں کو دوں گا تو وہ کتنی خوش ہوگی۔ اس کے کتنے کام ہو جائیں گے۔ اچانک اسے ایک زور دار دھکا لگا وہ گر پڑا۔ کوئی شخص اس کی مٹھی جس میں نوٹ تھا، کھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے شور مچایا، لوگ جمع ہوگئے، وہ شخص بھاگ گیا۔
’’ارے یہ تو وہی ہیروئنچی ہے جو اکثر فٹ پاتھ پر بیٹھا نشہ کرتا رہتا ہے۔‘‘ لڑکے نے اسے بھاگتے دیکھ کر پہچان لیا۔
’’اس کے سر سے تو خون بہہ رہا ہے۔ اسے جلدی سے اسپتال لے کر چلو۔‘‘ مجمعے میں سے کسی نے کہا۔
اس نے اپنی مٹھی کھولی اور پانچ سو کا نوٹ محفوظ دیکھ کر اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس کی آنکھوں سے دو آنسو نکلے اور نوٹ میں جذب ہوگئے۔ اس نے نوٹ کو احتیاط سے قمیص کی اندرونی جیب میں رکھ لیا۔