’’حانیہ! کیا یہ ممکن ہے کہ آج گھر جانے سے پہلے تم یہ دوائیں میریؔ گورڈن (Mary Gordon) تک پہنچا دو۔ اس کی طبیعت خراب ہے، وہ لینے نہیں آسکے گی۔ مجھے ایک ضروری کام سے فوراً جانا ہے ورنہ میں خود اس کو دے آتا۔‘‘
مارک (فارمیسی کے مالک) نے مجھ سے کہا۔
پھر فوراً ہی میرا ہاتھ پکڑ کر فارمیسی کے دروازے تک لے گیا اور بولا، ’’دیکھو!، سامنے روڈ کراس کرکے جو بلڈنگ ہے وہ اس میں رہتی ہے۔ گرائونڈ فلور پر۔ تم جینیٹر سے پوچھو گی وہ تمھیں بتا دے گی۔‘‘ میں نے کوئی دو مہینے پہلے مارک کی فارمیسی میں کام کرنا شروع کیا تھا۔
ہمیں پاکستان سے کینیڈا آئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔
آپی کے اسپانسر کرنے پر ہم سب یہاں آئے تھے۔ بھائی کو مِک گِل یونی ورسٹی (Mc Gill) میں ماسٹرز کرنے کے لیے داخلہ مل گیا تھا۔ وہ بہت خوش تھے۔ یہ ان کی خواہش تھی۔ مجھے فارمیسی کے لائسنس کے لیے امتحانات پاس کرنے تھے۔ یہ سب کام چند مہینوں میں تو مکمل ہونے والے نہیں تھے۔ اس سبب سے والد صاحب نے علاحدہ رہنے کا فیصلہ کیا۔ آپی اور راشد بھائی ابو کے اس فیصلے کو ماننے کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔
آپی اور راشد بھائی اونچی کلاس کی زندگی گزار رہے تھے۔ ان کا گھر بھی وِلا جیسا تھا۔ خوب صورت بیک یارڈ، سوئمنگ پول، پیش لان بھی بہت خوب صورت پھولوں سے سجا ہوا۔ ہفتے میں ایک دن مالی آکر دیکھ بھال کرتا۔ ان کے تعلقات کا حلقہ خاصا وسیع تھا۔ ہر وقت پارٹیاں ڈنر وغیرہ ہوتے رہتے تھے۔ آپی کے سارے سسرال والے بھی پاکستان سے ہجرت کرکے کینیڈا آگئے تھے۔ آپی کو ان سے بھی رشتہ داریاں نبھانی ہوتی تھیں۔ ان لوگوں کا بھی ہر وقت آنا جانا لگا رہتا۔ ہمارا معاملہ ان سے ّلگا نہیں کھاتا تھا۔ والد صاحب بے انتہا عزلت گزیں تھے، ان کے ہاتھ میں ہر وقت تسبیح ہوتی۔ حاشر بھائی کو پڑھنا تھا۔ میں بھی زندگی میں کچھ بڑا کرنے کے خواب دیکھنے والی لڑکی تھی۔
ابو کے کافی سمجھانے کے بعد آپی اور راشد بھائی مجبوراً راضی ہوگئے۔ راشد بھائی نے ہی ہمیں اپارٹمنٹ دلوایا۔ جگہ اچھی تھی، شہر کے بیچ، ہر جگہ جانا آسان۔ بلڈنگ میں نیچے فارمیسی دیکھ کر میں نے سوچا کتنا اچھا ہو اگر اس میں مجھے جاب مل جائے تو— فارمیسی کے معاملات کا عملی تجربہ حاصل ہوگا اور لائسنس کی تیاری بھی ہوتی رہے گی۔
میں اپنا ریزیومے (Resume) لے کر گئی۔ مارک نے اسی وقت میرا انٹرویو لیا اور مجھے جاب پر رکھ لیا۔ بغیر کسی بھاگ دوڑ کے مجھے اپنی پسند کی جاب مل گئی اور وہ بھی اسی بلڈنگ میں جس میں میری رہائش تھی۔ یہ سب سوچ کر میں بہت خوش تھی۔ اور بہت دل لگا کر کام کر رہی تھی۔ اکثر وقت کام کرتی رہتی۔ روزانہ فارمیسی میں ہی کھولتی کیوںکہ میں اسی بلڈنگ میں رہتی تھی۔ اکثر مارک گھر چلا جاتا اور بند بھی میں ہی کرتی۔
اسّی سالہ میریؔ مستقل ہماری کسٹمر تھی۔ وہ خوش مزاج ہی نہیں، خوش لباس بھی تھی۔ نیلی آنکھیں، گوری رنگت، بھورے بال کاندھوں تک پڑے ہوئے، آنکھوں پر سنہری فریم کا چشمہ، ہونٹوں پر دائمی مسکراہٹ، تھوڑا سا جھک کر چلتی تھی، واکنگ اسٹک بھی لیتی تھی۔ بڑے صبر سے اپنی باری کا انتظار کرتی تھی۔ دوا لیتے ہوئے کوئی پیاری سی بات ضرور کہتی جس سے اپنائیت کا احساس ہوتا۔ گاہکوں کے ہجوم میں یہ بھی بہت تھا، دوا دیتے وقت ایک آدھ بات ہی ہو سکتی تھی۔ کیوںکہ پیچھے والا کسٹمر اپنی باری کا بے چینی سے انتظار کر رہا ہوتا۔
’’ٹھیک ہے مارک، میں میریؔکو دوا دے آئوں گی۔ نوپرابلم، کوئی مسئلہ نہیں۔‘‘ میں نے مارک کو مطمئن کر دیا۔
فارمیسی بند کرنے کے بعد میں سامنے بلڈنگ میں گئی، سامنے ہی جینیٹر کھڑی تھی، وہ فون پر کسی سے بات کر رہی تھی۔ میں نے اس سے میریؔ کا پوچھا تو اس نے سامنے فلیٹ کی طرف اشارہ کر دیا اور ساتھ ہی اس نے اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے ہوئے میریؔ کو باخبر بھی کر دیا۔
میں نے دروازے کا نوب گھمایا تو دروازہ کھل گیا، میں اندر داخل ہوئی۔ مکمل خاموشی، کوئی نظر نہیں آیا۔ میں نے ہال وے پر ایک نظر ڈالی، سامنے دیوار پر ماں مریم کے سینے سے لگے بیٹے عیسیٰ کی بڑی سی تصویر لگی ہوئی تھی۔ فرش پر خوب صورت ایرانی قالین جس میں میرون کلر زیادہ نمایاں تھا۔ کالے رنگ کے قیمتی لیدر کے صوفے، صوفوں کے دونوں جانب بڑے بڑے قیمتی گلدان پھولوں سے سجے ہوئے۔ دیوار کی دوسری جانب ایکوریم تقریباً دیوار سے جڑا ہوا جس مین رنگ برنگی تیرتی ہوئی رقصاں و شاداں مچھلیاں۔ جن کو دیکھ کر زندگی سے پیار کرنے کو جی چاہنے لگے۔ کچن کی دوسری جانب چار کرسیوں والی ڈائننگ ٹیبل اور اس کے ساتھ بوفے جس میں کراکری، Royal Delton کے برتن اور دوسرے قیمتی برتن بڑے سلیقے سے رکھے ہوئے۔ ہال وے پر نظر ڈالنے کے بعد گھر کے مکین کے ذوق کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا تھا۔ ابھی میں میریؔ کو آواز دینے ہی والی تھی۔ کہ سامنے کمرے سے میریؔ اپنی اسٹک کے سہارے چل کر آتی ہوئی نظر آئی۔
’’حانیہ! تم۔‘‘ بڑی محبت اور تعجب سے وہ مجھ سے مخاطب ہوئی۔
’’آئو بیٹھو۔‘‘ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر صوفے تک لے گئی۔
’’میریؔ! تمھیں تو بخار ہے۔‘‘ میں نے اپنے ہاتھ پر اس کے ہاتھ کی گرمی کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔
’’ہاں مجھے یہ جوڑوں کے درد کی وجہ سے بخار ہوگیا ہے۔ دوا کھائوں گی تو ٹھیک ہو جائوں گی۔‘‘
’’تم بیٹھو، میں تمھارے لیے کافی بناتی ہوں۔‘‘ میریؔ اٹھنے لگی۔
’’نہیں میریؔ، بہت شکریہ، میں صرف دوا دینے آئی ہوں۔ امی سے بھی نہیں کہا ہے، وہ میرا انتظار کر رہی ہوں گی۔‘‘
’’لیکن مجھے ایک بات بتائو کہ تمھاری طبیعت خراب ہے تو تمھارے کھانے پینے کا کیا ہوگا۔‘‘
’’تم فکر نہ کرو، جینیٹر میرا بہت خیال رکھتی ہے۔ اور دوسرے یہ برابر میں جو پڑوسی ہیں، وہ بھی بہت خیال رکھتے ہیں۔ لنچ میں بھی کیرن (Karen) سوپ اور سینڈوچ لائی تھی اور خود اپنے ہاتھ سے کھلا کر گئی۔‘‘
میں اٹھی ڈائننگ ٹیبل پر جو پانی سے بھرا جگ رکھا تھا اس میں سے گلاس میں پانی ڈالا، پیکٹ میں سے دوائیں نکالیں، میریؔ کو دوا کھلائی اور باقی دوا اس کو بتا کر ٹیبل پر رکھ دی۔ اس سے جازت مانگی۔
’’پہلے تم وعدہ کرو، کسی دن فرصت سے آئو گی۔‘‘ میریؔ نے اتنی محبت سے کہا کہ میں انکار نہ کرسکی۔
’’یہ کہہ کر اب تم آرام کرو۔‘‘ میں گھر آگئی۔
میں نے دوسرے دن مارک کو بتایا کہ میں نے کل میری کو دوا پہنچا دی تھی۔ اور بتایا، ’’وہ بہت روک رہی تھی اور اس نے مجھ سے وعدہ لیا کہ میں فرصت سے کسی وقت اس کے گھر آئوں—‘‘
’’میری بہت اچھی عورت ہے— ویری سویٹ۔ میں اسے برسوں سے جانتا ہوں۔ تم ضرور جائو اس کے گھر۔‘‘ مارک نے کہا۔
آہستہ آہستہ میریؔ کے ساتھ میری دوستی بڑھتی گئی۔ حالاںکہ کہاں اسّی سال کی میریؔ اور میری عمر پچیس برس۔ عمر کا اتنا بڑا فرق ہونے کے باوجود مجھے اس سے ایک قسم کا لگائو سا ہوگیا تھا۔ اس کے دل میں بھی میں اپنے لیے محبت اور خلوص محسوس کرتی تھی۔ فارمیسی کی جاب اور لائسنس کے امتحان کی تیاری کی وجہ سے مجھے بہت کم فرصت ملتی تھی۔ لیکن پھر بھی کبھی کبھی میریؔ کے پاس جانے کا وقت نکال لیتی تھی۔
ایک دن میریؔ کے ساتھ بیٹھی اس کے بیڈ روم میں کافی پی رہی تھی۔ میری نظر دیوار پر لگے ایک بڑی سے فریم پر پڑی۔ جس میں میریؔکے ساتھ ایک خوب صورت نوجوان لڑکے کی تصویریں تھیں۔
’’میریؔ! یہ لڑکا کون ہے؟‘‘ میں نے تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
میریؔ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگئی—
اس کے چہرے پر غم کے سایے پھیل گئے۔ پھر بہت غمگین آواز میں بولی:
’’یہ میرا منگیتر ہے آسکر فورڈ (Oskar Ford)‘‘
’’ویری سوری، میں کچھ زیادہ ہی ’ذاتی‘ ہوگئی تھی۔ تمھیں دکھ ہوا۔‘‘ میں نے میریؔ سے معذرت کی۔
’’نہیں نہیں، مائی ڈیئر، ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘ میریؔ نے اپنے آپ کو نارمل کرتے ہوئے کہا:
’’ہم دونوں عمر کے اتنے فرق کے باوجود ایک دوسرے کے دوست بن چکے تھے۔ آج میں تمھیں اپنے اور آسکر کے بارے میں بتاتی ہوں۔ دن میں، میں لائبریری میں بیٹھی موم کا انتظار کر رہی تھی۔ میں نے کسی کو بیٹھنے کی اجازت مانگتے سنا، ’کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟‘ اجازت مانگنے والا آسکر تھا۔
میں نے گردن کے اشارے سے ’ہاں‘ کہا۔ بیٹھنے کے بعد اس نے میری طرف ہاتھ بڑھا کر کہا،
’آسکر— آسکر فورڈ۔‘
تھوڑا سا ہچکچاتے ہوئے میں نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا، ’میریؔ گورڈن—‘
ہمارا ہائی اسکول میں پہلا سال تھا، مجھے معلوم تھا کہ آسکر میری کلاس میں ہے مگر میری کبھی اس سے بات نہیں ہوئی تھی۔ وہ اکثر تنہا ہوتا تھا۔ زیادہ تر کلاس میں بیٹھا کام کرتا نظر آتا تھا۔ کلاس میں صرف تین چار اسٹوڈنٹس سے ہی اس کی دوستی تھی۔ ان سے بھی زیادہ بے تکلف نہیں تھا۔ نہ سیٹیاں بجاتا، نہ آوازیں کستا۔ اپنی دنیا میں مگن رہتا،لیکن جس کسی کو پریشانی میں دیکھتا اس کی ’کین آئی ہیلپ یو‘ کہہ کر مدد کے لیے تیار ہو جاتا۔ سائنس لیب میں وہ مقبول ترین لڑکے کا روپ اختیار کر لیتا۔ ہر طرف آسکر کی آواز لگتی اور وہ اپنے سائنسی تجربے کے ساتھ دیگر اسٹوڈنٹ اور گروپ کے مسائل بھی سلجھا دیتا۔
میں اس سے تو کیا کسی بھی لڑکے سے بات نہیں کرتی تھی۔ ماسوا کوئی کام کی بات کے۔ جب کہ میری دوستیں این، مونا، جولی، کم یہ سب خوب لڑکوں سے باتیں کرتیں اور دوستیاں بھی کرتی تھیں۔ میرے متعلق سب کو پتا تھا۔ اکثر لڑکے، لڑکیاں میرا مذاق اڑاتے۔ ہمارے گھرانے میں لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ آزادانہ گھومتے پھرتے نہیں تھے۔ نہ دوستی کرتے اور نہ ہی ڈیٹ پر جاتے۔ اس بات کی تنبیہ کی جاتی تھی۔ میری چھوٹی بہن لارا تھوڑی سی باغی تھی، لیکن جب گھر میں پتا چلتا تو اس کی شامت آجاتی تھی۔ ایک مرتبہ معلوم ہوا کہ وہ دوست کے ساتھ اسکول سے ہی کسی ڈانس پارٹی میں گئی ہے جہاں لڑکے لڑکیاں سب مل کر ڈانس کر رہے ہیں۔ انھوں نے سب کے ساتھ مل کر خوب ڈانس کیا۔ جب گھر آئیں تو خوب ڈانٹ پڑی اور ان کا اسکول جانا بند ہوگیا۔ موم نے کہا، ’پرائیویٹ پڑھو۔‘ بڑی منت سماجت اور بہت وعدوں کے بعد ان کو اسکول جانے کی اجازت ملی تھی۔ اس کے بعد سے وہ صحیح ہوگئی تھی۔‘‘ بہن کا قصہ سناتے ہوئے میریؔ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔‘‘
’’آسکر نے بائیولوجی کے نئے ٹیچر کے بارے میں بات کرنا شروع کر دی۔ انھوں نے پہلی مرتبہ کلاس لی تھی۔ ’سر جیمسؔ کتنا اچھا پڑھاتے ہیں، ان کا بولنے کا انداز، ان کے سمجھانے کا طریقہ کتنا دل چسپ ہے۔‘ آسکر نے کہا۔
’تم صحیح کہہ رہے ہو ایک ایک لفظ دماغ میں بیٹھ جاتا ہے۔‘ بیالوجی، خاص طور پر بوٹنی جیسے خشک مضمون کو وہ دل چسپ بنا دیتے ہیں۔ اصطلاحوں کو عذاب بنانے کے بجائے اس طرح سے واضح کرکے رکھ دیتے ہیں کہ ساری مشکل آسان ہو جاتی ہے۔ اور بوریت ختم ہو جاتی ہے۔‘ میں بھی ان کے لیکچر سے متأثر ہوئی تھی اس سبب سے آسکر سے دیر تک بات کرتی رہی تاآنکہ موم کا فون آگیا کہ وہ ’باہر انتظار کر رہی ہیں۔‘ میں آسکر کو ’بائی‘ کہہ کر باہر آگئی۔
میں نے آسکر سے اتنی ساری باتیں کر لیں— کیسے کر لیں؟ بعد میں سوچنے لگی۔ ’مجھے اپنے آپ کو روکنا پڑے گا۔‘
آسکر مجھ سے بہانے بہانے سے بات کرنے کی کوشش کرتا مگر میں ضروری بات کے سوا کوئی بات نہ کرتی، میری کوشش یہی ہوتی کہ میں اس سے کم سے کم تعلق رکھوں۔
لاکھ کوشش کے باوجود میں آسکر کے نزدیک ہوتی چلی گئی۔ وہ میرا بہت خیال رکھتا۔ کسی دن میں اسکول نہ آتی تو اسکول کا پورا کام کرکے مجھے دیتا۔ خود اپنے لیے جو نوٹس بناتا وہ مجھے بھی دیتا۔ جب کہ دوسرے لوگ اپنے نوٹس چھاپتے۔
یہ اسکول کا آخری سال تھا اور ہم دونوں ہی کچھ کر دکھانا چاہتے تھے۔ مارکس اچھے نہیں ہوں گے تو اپنی پسند کی یونی ورسٹی میں داخلہ نہیں ملے گا۔ یہ ہمارا مشترکہ مسئلہ تھا۔ آسکر تو بے چارہ جاب بھی کرتا تھا۔ کیوںکہ یونی ورسٹی کی فیس کے لیے اسے پیسے جمع کرنے تھے۔
آسکر نے بتایا تھا کہ اس کے والدین کا کار ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا تھا۔ تایا نے اس کی پرورش کی، وہ کہا کرتا تھا کہ میرے تایا بہت اچھے ہیں، لیکن ’میں ان پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا۔‘
ہم دونوں ہی ڈاکٹر بننا چاہتے تھے۔ آسکر کہتا تھا، ’میں چاہتا ہوں ڈاکٹر بن کر خلقِ خدا کی خدمت کروں۔‘ وہ سچ ہی کہتا تھا۔ میں نے اس کے اندر خدمتِ خلق کی امنگ مشاہدہ کی تھی۔ وہ سب کے کام آتا تھا۔ یوں تو وہ بہت کم گھلتا ملتا تھا، لیکن کسی بھی ضرورت مند کی مدد کرنے اور اس کے مسائل میں شریک ہونے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا۔
یہی وجہ تھی کلاس کے غنڈے اور دادا گیر ٹائپ کے لڑکے بھی اسے کچھ نہیں کہتے تھے۔ ٹیچر بھی اس سے بہت خوش رہتے تھے اس لیے کہ وہ پڑھائی میں بہت اچھا تھا، اچھے گریڈ لاتا تھا، اور ٹیچرز کی بہت عزت کرتا تھا۔
اسکول کا آخری زمانہ تھا۔ گہما گہمی، فنکشنز، گریجویشن کی تیاری اور پھر سمسٹر کی تیاری— آسکر بھی سمسٹر کی تیاری میں مصروف تھا۔ وہ کبھی کبھی کسی کام سے میرے گھر آجاتا تھا۔ میں نے موم کو اس کے بارے میں بتا دیا تھا۔ موم سے اور نانی سے ملوا بھی دیا تھا۔ موم نے مجھے کچھ نہیں کہا۔ ان کو مجھ پر بھروسا تھا۔
ہائی اسکول ختم ہوگیا۔ ہم دونوں کا یونی ورسٹی میں داخلہ بھی ہوگیا۔ ہم دونوں اس بات پر بے حد خوش تھے کہ جس یونی ورسٹی میں چاہتے تھے اسی میں ہم دونوں داخلہ لینے میں کامیاب ہوگئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری محبت کا گھر میں سب کو علم ہوگیا تھا، لیکن پابندی بدستور لاگو تھی۔ میں یونی ورسٹی سے باہر آسکر کے ساتھ کہیں نہیں جاسکتی تھی۔ نہ ہی لنچ یا ڈنر باہر کرنے کی اجازت تھی۔ البتہ وہ گھر آسکتا تھا۔
یونی ورسٹی کا تیسرا سال ختم ہونے کے بعد موم نے میری اور آسکر کی منگنی کرنے کا فیصلہ کیا۔ آسکر سے بات کی، وہ بھی راضی ہوگیا۔ موم نے کہا، ’منگنی کے چھہ مہینے بعد ہم تمھاری شادی کر دیں گے۔ شادی کے بعد تم دونوں جتنا پڑھنا چاہو، پڑھتے رہنا۔‘
منگنی گھر میں ہی انجام پائی، صرف گھر کے لوگ اور چند نزدیک کے دوست، آسکر کے تایا، تائی اور ان کے دونوں بچے بھی شامل تھے۔
آسکر نے منگنی پر میرے لیے اپنی پسند کا آسمانی رنگ کا ڈریس بنوایا تھا اور اپنے لیے بلو کلر کا سوٹ سلوایا تھا۔ منگنی کی رسم ہوئی، ہم دونوں گرجا گئے۔ ایک دوسرے کو انگوٹھیاں پہنائیں۔ اس کے بعد پیانو پر نغمے بجے، موسیقی کی دھن پر رقص ہوا۔ پھر ڈنر شروع ہونے سے پہلے آسکر نے موم سے کہا:
’موم! آج تو ہم دونوں کو ڈنر کے بعد ساتھ باہر جانے کی اجازت دے دیں۔‘
’’ایک شرط ہے کہ تم دونوں جلدی گھر آجائو گے۔ دس بجے تک۔‘‘ موم نے کہا:
ڈنر کے بعد آسکر نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے باہر لے کر چلا تو میں نے پوچھا:
’آسکر ہم کہاں جارہے ہیں؟ موم ناراض ہوں گی۔‘
’میں نے موم سے اجازت لے لی ہے۔‘ کہہ کر گاڑی کا دروازہ کھول کر مجھے بیٹھنے کے لیے کہا، پھر خود بھی گاڑی میں بیٹھ گیا، بیٹھنے کے بعد آنکھیں بند کرکے بولا:
’تمھیں پتا ہے، میں اس وقت فضا میں اڑ رہا ہوں، تم میرے ساتھ ہو۔ میرے چاروں اور کہکشائیں ہی کہکشائیں ہیں۔‘
’چلو اب ہوش میں آجائو، تم زمین پر ہو، گاڑی میں بیٹھے ہو۔‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
وہ بھی ہنسنے لگا، اور پھر اس نے گاڑی اسٹارٹ کی۔
تھوڑی دیر بعد بولا، ’ایک بات تمھیں بتانا بھول گیا۔‘
’کیا؟‘ میں نے پوچھا۔ اس وقت ہماری گاڑی ہائی وے پر ایگزٹ لے رہی تھی۔
’تم بہت خوب صورت—‘ ابھی اس کا جملہ پورا بھی نہیں ہونے پایا تھا کہ ایک زور دار دھماکے کی آواز سنائی دی— اس کے بعد میں بے ہوش ہوگئی۔‘
میریؔ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے— میں بھی رو پڑی۔
میریؔ نے ٹشو سے اپنے آنسوئوں کو خشک کیا۔ پھر کچھ توقف کے بعد بولی:
’’چوبیس گھنٹے کے بعد مجھے ہوش آیا۔ میں زخموں سے چور تھی۔ سر سے پیر تک۔ میرا سب سے پہلا سوال یہ تھا، ’آسکر کیسا ہے؟‘ جواب میں مجھے یہی کہا گیا کہ وہ بھی بہت زخمی ہے۔ وہ دوسرے وارڈ میں ہے۔ آ نہیں سکتا اور نہ ہی تمھاری حالت ایسی ہے کہ تم جاسکو۔‘
ایک مہینے کے بعد جب میری حالت کچھ سنبھلی تو میں نے اس سے ملنے کی ضد کی، تب پتا چلا کہ ’وہ تو اسی لمحے ختم ہوگیا تھا۔‘
میری دنیا اجڑ چکی تھی، میں جینا نہیں چاہتی تھی، لیکن ڈاکٹروں کی انتھک محنت نے چھہ مہینے میں مجھے اس قابل کر دیا تھا کہ میں زندگی گزار سکوں، اور میں جیتی جاگتی عملی دنیا میں لوٹ آئی۔ مجھے اب میڈیکل سے نہ پڑھائی سے کسی چیز سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ ماں کے بہت سمجھانے پر یونی ورسٹی کا آخری سال مکمل کیا۔ اس کے بعد کمپیوٹر کے کچھ کورسز کیے۔ پھر مجھے ایک بہت بڑی کمپنی میں بہت اچھی جاب مل گئی۔ ’زندگی کا سفر خودبخود طے ہو رہا تھا۔‘ ماں نے بھی سمجھایا، دوستوں نے بھی بہت کہا مگر میں اپنے آپ کو شادی کرنے پر راضی نہ کرسکی۔‘‘
تھوڑی دیر رک کر میریؔ نے دبی زبان میں کہا:
’’کئی مردوں نے میری زندگی میں آنے کی کوشش کی مگر میں نے ان کو بتا دیا کہ میری زندگی آسکر کے ساتھ ختم ہوگئی ہے اور دل کے دروازے بھی بند ہیں۔‘‘
اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی اور بولی، ’’البتہ پیٹر (Peter) واقعی مجھ سے سچی محبت کرتا رہا ہے۔ وہ میرے ساتھ بہت شائستگی سے رہتا ہے۔ مجھے بھی وہ اچھا لگتا ہے لیکن دوستی کی حد تک۔ میں نے اس کو اپنی پوری کہانی سنا کر بتا دیا تھا کہ میرے دل میں آسکر کے سوا کوئی نہیں آسکتا۔ البتہ وہ چاہے تو میرا دوست بن سکتا ہے۔
یہ بات اس کی سمجھ میں آگئی اور وہ آج تک میرا دوست ہے۔ اب تو بہت بوڑھا ہوگیا ہے۔ اس کی بیوی اور بچوں سب نے اسے چھوڑ دیا ہے۔ پہلے وہ گھر میں اکیلا رہتا تھا پھر ’سینئر ہائوس‘ چلا گیا۔ میں اس سے کبھی کبھار مل آتی ہوں۔‘‘
پھر اچانک بولی:
’’حانیہ ڈئیر! پتا نہیں کیوں میں نے اپنی زندگی کی ورق ورق کتاب تمھارے سامنے کھول دی۔ میں اس معاملے میں انتہائی ’ٹنگ ٹائڈ‘ ہوں۔ میں نے کبھی کسی کو راز دار نہیں بنایا۔ مجھے امید ہے تم ایک اچھے راز دار کا فریضہ نبھائوگی۔ ایک اہم بات اور میں تمھیں اپنے بارے میں بتانا چاہتی ہوں کہ میں بچی سے جوان ہوئی، اور جوان سے بوڑھی ہوگئی اور عمر کے ہر حصے میں چاہنے والوں میں گھری رہی۔ آرٹس کے اسٹوڈنٹس مجھے ’قلوپطرہ‘، ہیلن آف ٹرائے بلاتے تھے۔ ایک زمانے میں ’مارلن منرو‘ کے لقب سے بھی مشہور ہوئی، لیکن ’یقین کرو حانیہ ڈیئر، میں نے کبھی بھی کسی مرد کو اپنا آپ نہیں سونپا۔‘‘
میریؔ جب یہ کہہ رہی تھی تو اس نے ایک لحظے کے لیے بھی مجھ سے آنکھیں نہیں ملائیں۔ شاید وہ اپنی جگہ تھی بھی نہیں۔
اس نے جب اپنا آخری فقرہ مکمل کیا تو میں نے فوری طور پر سوال کر دیا، ’’آسکر کو بھی نہیں؟’’
’’نہیں نہیں۔ آسکر کو بھی نہیں۔ بے چارہ آسکر—‘‘
’’مائی پوئر ڈارلنگ۔‘‘
لفظ میری کی زبان سے یا منہ سے ادا ہو رہے تھے یا شاید اس کے اندر سے اس کی روح پکار رہی تھی۔ دو روحیں شاید ایک دوسرے کے قریب آگئی تھیں۔ میرا ان دونوں کے درمیان مخل ہونے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ میں اٹھی اور میریؔ کو ’’ٹیک کیئر‘‘، ’’سی یو‘‘، ’’بائی‘‘ وغیرہ کہے بغیر باہر چلی گئی۔
گھر آنے کے بعد امی نے بتایا کہ تمھارے ماموں کا فون آیا تھا، انھوں نے کہا ہے، ’’آکر اپنا گھر بیچ دو یا پھر کرائے پر دے دو۔ دومرتبہ تالا توڑ کر لوگ گھس چکے ہیں۔‘‘
’’تمھارے ابو پاکستان جانے کے لیے بکنگ کروا رہے ہیں۔‘‘
’’امی میرے امتحان کی تیاری۔‘‘ میں نے کہا۔
’’وہیں تیاری کر لینا۔‘‘ امی نے کہا۔
’میں نے مارک کو بتایا کہ میں جاب چھوڑ رہی ہوں۔‘ ’ہم لوگ پاکستان جارہے ہیں۔ اور جانا بہت ضروری ہے۔‘‘
مارک کو بہت دکھ ہوا۔ کہنے لگا، ’’تم رک جائو اپنے Parents کو جانے دو۔ میں تمھارا خیال رکھوں گا اور پھر تمھارا بھائی حاشر بھی تو ہوگا۔‘‘
’’نہیں نہیں۔ میں ابو امی کو اکیلا نہیں چھور سکتی۔ تم پریشان مت ہو۔ میں دو مہینے میں آجائوں گی۔‘‘ میں نے مارک کو تسلی دی۔
جانے کا وقت نہیں ملا، میریؔ کو میں نے فون پر ہی ’بائی‘ کہہ دیا۔ وہ بھی میرے جانے سے بہت اداس ہو رہی تھی۔
گھر کا معاملہ اور کچھ دوسرے معاملات نمٹاتے نمٹاتے دو سے چھہ مہینے لگ گئے۔ وا پس آنے کے بعد میں نے مارک سے کہا، ’’فارمیسی میں تو میرے لیے ’جاب‘ کی گنجائش نہیں ہوگی۔‘‘
’’نہیں نہیں، ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ تم کل سے جوائن کر لو۔‘‘ مارک نے کہا۔
یہ سن کر میری خوشی کی انتہا نہیں تھی۔ میں تو بالکل مایوس تھی۔ میرے منہ سے ایک دم نکلا۔ ’’سچ۔‘‘
’’ہاں بھئی فارمیسی کو تمھاری ضرورت ہے۔‘‘ مارک نے مسکراتے ہوئے کہا۔
کرسمس کا زمانہ تھا۔ فارمیسی میں بہت رش رہتا۔
سب ہی بہت مصروف رہتے۔ بات کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔
مجھے ایک دو مرتبہ میریؔ کا خیال آیا۔ وہ دوا لینے بھی نہیں آئی۔ میںنے اسے فون بھی کیا، فون بھی نہیں ملا۔ اس دن مارک ایک مریض کی دوا کے بارے میں بات کرنے آیا تو میں نے اس سے میریؔ کے بارے میں پوچھا۔
’’تمھیں میریؔ کے متعلق نہیں پتا۔‘‘ وہ حیرت سے بولا۔
’’نہیں۔ کیا ہوا اس کو۔‘‘ میں نے پریشان ہو کر پوچھا۔
’’اسے نمونیہ ہوگیا تھا۔ بہت حالت خراب ہوگئی تھی۔ پہلے کافی دن ہاسپٹل میں رہی۔ تھوڑی بہتر ہونے کے بعد اسے ایک پرائیویٹ ’’سینئر ہوم‘‘ میں منتقل کر دیا گیا،کیوںکہ اس کی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ تنہا رہ سکے۔‘‘
’’مارک! کیا تمھیں ’ سینئر ہوم‘ کا ایڈریس معلوم ہے؟‘‘
مارک نے مجھے ایڈریس دے دیا۔ دوسرے دن جب میں ’سینئر ہوم‘ پہنچی تو معلوم ہوا دو دن پہلے میریؔ اس دنیا کو چھوڑ کر جاچکی ہے۔ اور اس کی باڈی اس کی بہن لاوا کے سپرد کر دی گئی ہے۔
میں نے لارا کو فون کیا۔ اس نے بتایا کل اس کی فیونیرل (funeral) ہے۔ لارا نے روتے ہوئے کہا:
’’تم آئوگی تو اس کی روح خوش ہوگی۔ وہ تمھیں بہت یاد کرتی تھی۔‘‘
میں نے مارک سے کہا، وہ بھی چلنے پر راضی ہوگیا۔ قبرستان سے واپس آنے کے بعد ہم نے لارا سے اجازت چاہی۔ لارا ہمیں یہ کہہ کر ’ایک منٹ رکو‘ چلی گئی۔ جب واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک خوب صورت ڈبیا تھی۔ اس پر میریؔ کے ہاتھ سے لکھا ہوا تھا، ’’حانیہ کے لیے‘‘ اور نیچے میریؔ کے دستخط تھے۔
لارا نے ڈبیا میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا، ’’یہ تمھارے لیے دے کر گئی ہے۔‘‘
میں نے ڈبیا کو کھول کر دیکھا۔ گولڈ کا بہت خوب صورت ’کڑا‘ تھا۔
’’لارا! یہ میں کیسے لے سکتی ہوں۔ یہ تو بہت قیمتی ہے۔‘‘ میرے منہ سے ایک دم نکلا۔
’’تحفے کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ بہت محبت سے وہ تمھارے لیے یہ دے کر گئی ہے۔ تم پہنو گی تو اسے خوشی ہوگی۔‘‘
یہ کہتے وقت لارا کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
میریؔ کو یاد کرکے میری بھی آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔