میں اپنی ڈیوٹی ختم کرکے گھر جانے کے لیے نکلا ہی تھا کہ برآمدے میں سارہ مل گئی۔
’’ڈاکٹر ہاشم! آپ کو ڈاکٹر سلمان بلا رہے ہیں۔‘‘
سارہ نے جو تیز تیز چلنے کی وجہ سے ہانپ رہی تھی، کہا۔
’’کہاں ہیں ڈاکٹر سلمان—؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ایمرجنسی میں۔‘‘
میں اور سارہ تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے ایمرجنسی پہنچے۔
مجھے دیکھتے ہی ڈاکٹر سلمان بولے:
’’یار ابھی ابھی ایک ایکسیڈنٹ کا کیس آیا ہے۔ مریضہ کی حالت سیریس لگتی ہے، تم دیکھ لو میں ان مریضوں کے ساتھ بہت مصروف ہوں۔‘‘ میں وارڈ میں گیا۔ ایک ضعیف العمر خاتون بہت زخمی تھیں۔ فرحین ان کے زخموں کو صاف کر رہی تھی۔ مریضہ بے ہوش تھی۔ میں نے ان کا معائنہ کیا اور فوری طور پر ڈرپ کے ذریعے دوائیں دینے کا انتظام کرنے لگا۔ سارہ میری مدد کر رہی تھی۔
اچانک پولیس انسپکٹر اندر آیا۔
’’سر! مجھے مریضہ کا بیان لینا ہے۔‘‘ پولیس انسپکٹر نے مجھ سے کہا۔
’’مریضہ کا بیان— آپ خود دیکھ لیجیے، کیا یہ بیان دے سکتی ہیں؟‘‘
’’کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ مریضہ کو کتنی دیر میں ہوش آجائے گا؟‘‘ پولیس انسپکٹر نے پوچھا۔
’’کچھ کہا نہیں جاسکتا۔‘‘ میں نے اپنا کام جاری رکھتے ہوئے کہا۔
’’او کے سر! ہم باہر انتظار کرتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر پولیس انسپکٹر اور اس کے ساتھی سپاہی باہر جانے لگے تو سارہ نے انھیں روک کر مریضہ کا پرس دیتے ہوئے بتایا، ’’دو آدمی ان خاتون کو اپنی گاڑی میں لے کر آئے تھے، ایمرجنسی میںاندر تک ساتھ آئے اور یہ پرس بھی رکھ گئے۔ ہم نے اس پرس کو نہیں کھولا ہے۔‘‘
انسپکٹر پرس لے کر باہر چلا گیا۔ اتنے میں ڈاکٹر شمس داخل ہوئے۔
’’سوری ڈاکٹر ہاشم، میں لیٹ ہوگیا۔ اس اچانک ٹریفک جام نے بہت پریشان کیا ہے۔‘‘ ڈاکٹر شمس نے اپنے لیٹ پہنچنے پر معذرت کرتے ہوئے کہا۔
’’اٹس او کے یار۔‘‘ کہہ کر میں نے مریضہ کے متعلق جو ٹریٹ منٹ وغیرہ اس کو دیا تھا، سب کے بارے میں ڈاکٹر شمس کو بتایا اور پارکنگ کی طرف چلا۔ دیکھا برآمدے میں انسپکٹر اور اس کا ساتھی سپاہی بیٹھے ہوئے تھے۔
’’آفیسر! آپ نے پرس چیک کر لیا، کسی رشتے دار وغیرہ کا فون، ایڈریس وغیرہ کچھ ملا۔ گھر والوں کو اطلاع وغیرہ۔‘‘
میں نے پولیس انسپکٹر سے سوال کرنا مناسب سمجھا۔
’’چیک بھی کر لیا۔ ہسپتال کے آفس کے عملے سے اس کے اندر کے سامان کی انونٹری بھی تیار کروا لی ہے۔‘‘ انسپکٹر نے افسرانہ شان سے کہا۔
’’یہ محترمہ سعدیہ ہمدانی ہیں۔ انھیں پورا شہر جانتا ہے۔ کیا آپ نہیں جانتے۔‘‘ انسپکٹر کے لہجے میں تعجب کی آمیزش تھی۔
پھر انسپکٹر نے سعدیہ ہمدانی کے بارے میں تھوڑی بہت تفصیل بتائی۔
’’آفیسر، میں جا رہا ہوں، ڈیوٹی ڈاکٹر آچکے ہیں، آپ ان سے مریضہ کی حالت کے بارے میں معلوم کر سکتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر میں پارکنگ کی طرف نکل گیا۔
دوسرے روز ڈیوٹی انجام دے کر گھر جا رہا تھا کہ اچانک مجھے سعدیہ ہمدانی کا خیال آیا۔ میرے قدم خودبخود ایمرجنسی کی جانب اٹھ گئے۔ وارڈ میں جھانک کر دیکھا، وہ آنکھیں بند کیے لیٹی تھیں۔ ان کے بیڈ کے ساتھ ہی کرسی پر وہ خاتون بیٹھی ہوئی تھیں جنھوں نے سعدیہ ہمدانی کے ساتھ ’’مسکن‘‘ کی ساری ذمہ داری سنبھالی ہوئی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ علاحدہ ہٹ کر کھڑی ہوگئیں۔ میں نے رپورٹس پر ایک نظر ڈالی اور مریضہ کو ڈسٹرب کیے بغیر چپ چاپ باہر نکل گیا۔ باہر سارہ مل گئی۔ اس نے بتایا:
’’مریضہ کی حالت اب کافی بہتر ہے۔ خون بہت ضائع ہونے سے کم زوری البتہ بہت ہے۔ شاید کل تک روم میں شفٹ کر دیں گے۔‘‘
’’گاڑی میں بھی میرا ذہن سعدیہ ہمدانی ہی کی جانب لگا رہا۔
’’کتنی عجیب بات ہے، ان کے پاس کوئی ان کا اپنا نہ تھا۔‘‘ میں سوچ رہا تھا۔
گھر پہنچا تو دیکھا ابو، عاطف انکل کے ساتھ اپنے بیڈ روم میں بیٹھے تھے۔ ان کی چھوٹی سی میز پر سادہ کاغذوں کے پیڈ کے ساتھ نئی کتاب کی فائل رکھی تھی۔ وہ ستر برس سے زیادہ کے تھے لیکن قلم و قرطاس سے ان کا رشتہ نہیں ٹوٹا تھا۔ یہی حال عاطف انکل کا تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ شاہراہوں اور پُلوں کے مختلف اسائنمنٹ اپنے ذمے لیتے رہتے ہیں۔ اضافی پینشن کی خاطر نہیں، بلکہ بقول ان کے آخری سانس تک کچھ کرنے کے جذبے کے تحت۔
دونوں بوڑھوں کی زندگی مثالی بھی تھی اور قابلِ تحسین بھی— میں دونوں کی داستانِ حیات سے بڑی حد تک واقف ہوچکا تھا۔ جب میں ابو کے پاس جاکر بیٹھتا تو وہ اپنا قلم بند کرکے مجھ سے باتیں کرنے لگتے تھے۔ ان کی باتیں ایک طرح کی ’’آپ بیتی‘‘ تھی جو وہ مجھے جستہ جستہ سناتے رہتے۔ میں نے جب بھی ان سے کہتا کہ آپ اور کتابوں کے ساتھ اپنی خودنوشت بھی لکھ ڈالیے تو وہ جواب میں کہتے:
’’ڈاکٹر صاحب! اگر میں نے اپنی حیاتِ رفتہ کی سرجری کی تو دیگر لوگوں کی خانگی زندگیوں پر بھی چھری چلے گی، کیا وہ میرے لیے جائز ہوگا—؟‘‘ یہ سب کہہ کر وہ ہنسنے لگتے، دیر تک ہنستے— شاید اپنے یا دیگر لوگوں کے ماضی میں جھانکتے ہوئے۔
میرے ابو محمد یوسف اسماعیل اور انکل عاطف ایک محلے، ایک ہی گلی اور ایک ایسے مکان میں پیدا ہوئے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کے دالان اور صحن میں ساتھ ساتھ رینگتے پھرے، ساتھ ہی پائوں پائوں چلنا سیکھا۔ ابو نے بتایا تھا۔
’’میری والدہ نے ہم دونوں کو پڑھنا لکھنا سکھایا، میرے والدنے ہم دونوں کو مسجد سے متعارف کروایا جو بغدادی صاحب کی مسجد کہلاتی تھی۔ عاطف کی والدہ نے دونوں گھروں کی بچیوں کو کھانا پکانا، سینا پرونا اور گھر داری کے طور طریقے سکھائے۔ وہ خود بھی بہت سلیقہ مند تھیں۔ انھوں نے اپنے گھر کو بہت خوب صورتی سے سجایا ہوا تھا۔‘‘
ابو اور انکل عاطف نے ابتدا سے انٹر تک تعلیم ساتھ ہی حاصل کی۔ گویا دونوں ہم مدرسہ، ہم جماعت، ہم اسکول اور ہم کالج رہے۔ اب بھی دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اس قدر پیار اور محبت سے رہتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ جس وقت وہ دونوں اکٹھے دکھائی دیتے ہیں میں ان دونوں کو عجوبۂ قدرت کے روپ میں تصور کرتا ہوں۔ اس وقت بھی میرے جذبات ایسے ہی تھے۔
میرے سلام کے جواب میں دونوں نے ’’وعلیکم السلام‘‘ کہا۔
’’کہیے ڈاکٹر ہاشم! کیسا چل رہا آپ کا ہسپتال؟ مریضوں کی خدمت کرکے سیدھے جنت الفردوس میں جگہ بنا رہے ہیں۔ آج کی رپورٹ پیش کیجیے۔‘‘ انکل عاطف نے پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ان کے اس فقرے نے پلک جھپکنے کے وقت میں مجھے ہسپتال سعدیہ ہمدانی کے وارڈ میں پہنچا دیا۔
’’آج کی روداد میں بعد میں پیش کروں گا پہلے آپ یہ بتائیں کہ آپ ’مسکن‘ کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟‘‘
میں نے انکل عاطف سے سوال کر ڈالا۔
’’مسکن، کیسا مسکن، کون سا مسکن؟‘‘ یہ تم مجھ سے کیا معلوم کرنا چاہتے ہو۔ میں کیا جانوں کسی مسکن وسکن کو۔ پوچھنا ہو تو کسی شاہراہ کی مرمت یا کسی اوور ہیڈ برج کے بارے میں پوچھو۔‘‘ عاطف انکل نے مذاق کے موڈ میں جواب دیا۔
’’مسکن خواتین کی فلاح کا ادارہ ہے جس کی سرپرست اعلیٰ سعدیہ ہمدانی ہیں۔ وہ ایک حادثے کا شکار ہو کر ہمارے ہسپتال میں داخل ہیں۔ کیا آپ ان سے واقف ہیں؟‘‘
میں نے عاطف انکل سے ایک اور سوال کر دیا۔ میرے سوال کے جواب میں عاطف انکل نے کسی دل چسپی کا اظہار نہیں کیا لیکن ابو بیچ میں بول پڑے:
’’بیٹے تم نے کیا نام بتایا تھا، دوبارہ بتائو؟‘‘
میں نے قدرے بلند آواز میں ایک ایک لفظ کو علاحدہ علاحدہ کرکے کہا، ’’سعدیہ ہمدانی۔‘‘
نام سن کر ابو نے ’’سعدیہ، سعدیہ، سعدیہ‘‘ تین بار کہا اور عاطف انکل کی جانب دیکھا۔ ابو کی آنکھیں اپنے پپوٹوں کے غلافوں سے خاصی باہر نکل پڑیں۔ ساتھ ہی انکل عاطف سے بولے، ’’چل یار عاطف آج ہاشم بیٹے کے اسپتال چلتے ہیں۔‘‘
عاطف انکل پہلے تو ابو کے اس اچانک ردِعمل سے حیران ہوئے پھر فوراً ہی جیسے کسی سوچ میں ڈوب گئے۔
تھوڑے توقف کے بعد بولے:
’’کل چلیں گے— اور یہ تو سوچو، دنیا میں جگہ جگہ ہمدانی لوگ ہیں۔ پاکستان کے ہر شہر میں کوئی نہ کوئی ہمدانی مل جائے گی یا مل جائے گا۔ کس کس کے پیچھے بھاگیں گے؟‘‘
ابو، جو بڑھاپے میں بھی کسی کام میں خود ، اہلِ غرض سے دو چار قدم آگے رہنے کی فطرت سے چھٹکارا نہ پاسکے تھے، اٹھ کھڑے ہوئے۔ کوٹ وغیرہ پہنا اور واکنگ اسٹک سنبھال کر کھڑے ہوگئے۔ عاطف انکل بھی ابو کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے، وہ واکنگ اسٹک نہیں لیتے تھے۔ ان دو سینئر لوگوں نے مجھے بھی اسمارٹ بنا دیا اور ہم تینوں اسپتال کے لیے نکل پڑے۔
میرا ذہن مجھے تیزی سے ماضی کی طرف لے گیا۔ حیدرآباد دکن ہمدانی خاندان— عاطف انکل کے والد، والدہ، بڑے بیٹے محسن بھائی جان، سعدیہ آپا، دوسری بہن کشور آپی (ان کے بال سنہری اور آنکھیں بھوری تھیں) سب سے چھوٹا بھائی حمزہ— ابو کا بتایا ہوا ایک ایک لفظ میرے کانوں میں گونج رہا تھا۔ ابو بتا رہے تھے:
’’یہ اس وقت کی بات ہے جب محسن بھائی محکمہ پولیس میں افسر لگ گئے تھے، ان کی پوسٹنگ دہلی میں ہوگئی تھی۔ وہاں محسن بھائی کو اپنے ہی محکمے کے ڈی آئی جی صاحب کی بیٹی پسند آگئی۔ یہ پسند یک طرفہ نہیں تھی۔ اس وجہ سے چٹ منگی پٹ بیاہ کی نوبت آگئی۔
شادی کے فوراً بعد عاطف واپس آگیا کیوں کہ اس کے امتحان تھے باقی سب لوگوں کو محسن نے روک لیا تھا۔ پھر یہ ہوا نئے شادی شدہ جوڑے کا ہنی مون پر جانے کا پروگرام بنا۔ اگرچہ دو ہفتوں کا پروگرام تھا۔ محسن بھائی نے جانے سے پہلے سب لوگوں کو ٹرین میں بٹھا دیا اور ٹیلی گرافک لنک کے ذریعے اطلاع بھجوا دی۔ عاطف والدین کو لینے اسٹیشن پہنچا۔ میں بھی عاطف کے ساتھ تھا۔‘‘ ابو چند لمحے کے لیے خاموش ہوگئے پھر بولے:
’’پلیٹ فارم پر ہم دونوں ایک ایک ڈبے میں ڈھونڈتے پھرے۔ عاطف کی آنکھیں ماں باپ، بہنوں اور بھائی کی تلاش میں پھٹی جا رہی تھیں۔ عاطف اور میں تھک ہار کر گھر لوٹے۔ گھر آنے کے بعد عاطف کو اطلاع ملی کہ کسی وجہ سے یہ لوگ نہیں آرہے ہیں۔
دوسرے دن خاموشی رہی، تیسرے دن عاطف کو اطلاع دیے بغیر محسن بھائی اور بھابی کے ساتھ سب لوگ پہنچ گئے۔ البتہ عاطف کی دونوں بہنیں اور چھوٹا بھائی حمزہ ساتھ نہیں تھے۔ جب ان کی ٹرین گوالیار جنکشن کے قریب کسی اسٹیشن کو پار کر رہی تھی کہ ٹرین کے تین ڈبے پٹری سے اتر گئے۔ ان میں سے ایک میں عاطف کے اہلِ خاندان سوار تھے۔ ریلوے والوں نے ان ڈبوں کو دوبارہ پٹری پر لانے کی کوشش کی۔ جب اس میں ناکامی ہوئی تو تینوں ڈبوں کے مسافروں کو جہاں جگہ ملی وہاں بٹھا دیا۔ اسی اثنا میں اغوا کاروں کے ایک منظم گروہ نے ٹرین پر حملہ کر دیا اور ٹرین میں سوار کئی جوان لڑکیوں اور لڑکوں کو اٹھا کر لے گئے۔ محسن بھائی نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا۔ حمزہ مل گیا لیکن زخمی۔ اس کو پولیس کے ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔‘‘
ابو اتنا بتا کر خاموش ہوگئے۔ اس وقت بھی ان کی آنکھیں آنسوئوں سے نم تھیں۔
’’ابو! دونوں بہنوں کا کچھ پتا نہیں چلا؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’عاطف نے روتے ہوئے بتایا تھا۔ ابو نے خاموشی توڑی۔ محسن بھائی کے سامنے اغوا شدہ لڑکیوں کو لایا گیا تھا، ان میں سعدیہ آپا اور کشور آپی بھی تھیں۔ محسن بھائی پولیس آفیسر کی حیثیت سے لڑکیوں کو دیکھنے آئے تھے۔ اپنی بہنوں کو پہچان کر بھی نہیں پہچانا۔ چلتے چلتے قدم ایک لمحے کے لیے رکے، لڑکیاں نگاہیں جھکائے کھڑی تھیں، پھر قدم آگے بڑھ گئے۔ ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔ آواز پر نگاہیں اوپر اٹھیں اور دوسری طرف نگاہیں نیچی ہوگئیں۔ اٹھی ہوئے نگاہیں سوال کر رہی تھی۔‘‘
’’ہمارا کیا قصور ہے؟‘‘
’’لو بھئی ہسپتال آگیا۔‘‘ ابو کی آواز سے میرے خیالات کا تسلسل ٹوٹ گیا۔
میں سعدیہ ہمدانی کے وارڈ میں پہلے داخل ہوا۔ وہاں نرس موجود تھی، ڈاکٹر موجود نہیں تھا۔ مریضہ ہوش میں تھیں۔ میں نے نرس سے مریضہ کا حال پوچھا۔ اس نے بتایا بہت بہتر ہے البتہ زخموں میں بہت تکلیف ہے۔ پھر میں نے مریضہ سے بات کی، خیریت معلوم کرنے کے بعد اجازت مانگی کہ باہر میرے والد اور ان کے دوست آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔
’’کیا ان کو ’مسکن‘ سے متعلق کو کام ہے؟ ’مسکن‘ کے سارے معاملات صادقہ سنبھالتی ہیں۔‘‘ مریضہ نے مجھ سے کہا۔
میں نے مریضہ کو صاف بتا دیا کہ ’مسکن‘ سے متعلق کوئی کام نہیں ہے۔ میرے ابو محمد یوسف اسماعیل اور ان کے دوست انکل عاطف آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔
مریضہ نے دونوں نام بغور سنے— میں نے مریضہ کے چہرے پر پیدا ہونے والے تغیر کو نوٹ کیا۔ مریضہ نے ہاتھ کے اشارے سے اوکے کہا۔ میں فوراً ہی باہر نکل گیا اور ان کو ساتھ لے کر وارڈ میں داخل ہوا۔ سب سے آگے انکل عاطف تھے، اس کے بعد ابو اور سب سے پیچھے میں۔ انکل عاطف نے سلام کیا—! ابھی وہ الفاظ پورے بھی نہ کر پائے تھے کہ فوری طور پر آگے بڑھ کر مریض پر جھک گئے۔ میں نے تیزی سے آگے بڑھ کر ان کو پیچھے سے تھام لیا ورنہ وہ مریضہ پر گرنے والے تھے۔ مریضہ سعدیہ ہمدانی نے دونوں بازو ان کے لیے کھول دیے تھے۔ ’’سعدیہ آپا‘‘ انکل عاطف کے حلق سے گھٹی گھٹی چیخ نکل پڑی تھی۔ ابو دونوں بھائی بہنوں سے قدرے جدا ہو کر کھڑے ہوئے تھے لیکن انھوں نے بھی اپنا سینہ پکڑا ہوا تھا جیسے کسی طوفان کو روک رہے ہوں۔
ایک طویل جدائی کے بعد اچانک اور غیر متوقع ملاقات سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی۔ ہسپتال کا ماحول بھی درمیان میں حائل تھا۔ چھوٹا بھائی اپنی بڑی بہن سے کیا کہے، کیا نہ کہے۔ بہت ساری باتیں کہنی ضروری ہوگئی تھیں— اور ایک اہم سوال زبان کی نوک پر آکھڑا ہوا تھا، سب سے پہلے وہی کرنا پڑا— آپا — کشور آپی کہاں ہیں؟ کیسی ہیں؟
عاطف انکل کے اس سوال سے سعدیہ ہمدانی کے چہرے پر دکھ کے سایے پھیل گئے۔ انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی کی جانب دیکھے بغیر بڑے ضبط و تحمل سے جواب دیا،’’عاطف! ہماری سونے کے بالوں والی شہزادی کہیں گم ہوگئی۔ محسن بھائی نے جب ہم بہنوں کو ’’ڈس اون‘‘ کیا اور ہمیں پہچاننے سے انکار کیا تو وہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہوگئی۔ بہت تلاش کیا، وہ کہیں نہیں ملی۔ میں جب کسی لائق ہوئی تو اخبارات میں اشتہارات لگوائے، ریڈیو سے اعلانات کروائے۔ اطلاع بہم پہنچانے والے کے لیے انعام کی نوید بھی دی۔ اور— اور آج تک اس کی راہ دیکھ رہی ہوں۔‘‘
جب سعدیہ آنٹی کشور آپی کے بارے میں یہ سب بتا رہی تھیں، میں نے دیکھا ابو اپنے رونے کو ضبط کرتے ہوئے وارڈ سے باہر نکل گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ وارڈ سے باہر نکل آیا۔ باہر نکل کر میں نے ابو کو ایک بینچ پر بٹھایا اور ایک بار پھر دبے پائوں وارڈ میں داخل ہوا۔ جس وقت میں دوبارہ وارڈ میں پہنچا عاطف انکل محسن بھائی جان کی ہوائی جہاز کے حادثے میں وفات کا ذکر کر رہے تھے۔ ’’محسن بھائی کی وفات کے ایک ماہ بعد امی معمولی سے بخار میں مبتلا ہو کر اﷲ کو پیاری ہوگئیں، ابو امی جان کے بعد زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے اور مجھے اکیلا چھوڑ گئے۔‘‘
یہ کہہ کر عاطف انکل بلند آواز میں رو پڑے۔ سعدیہ ہمدانی جن کو دل ہی دل میں، میں نے سعدیہ ہمدانی سے سعدیہ آنٹی بنا لیا تھا، پیار سے عاطف انکل کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر صبر کی تلقین کرنے لگیں۔
کچھ دیر وارڈ میں گہرا سکوت چھایا رہا۔ اس سکوت کو سعدیہ آنٹی نے توڑا۔
’’حمزہ—؟‘‘ ان کے ہونٹوں سے نکلا۔
’’حمزہ امریکا میں سیٹل ہوگیا ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے جیسے ہی اسے آپ کے متعلق پتا چلے گا، پہلی ملنے والی فلائٹ لے کر آئے گا۔‘‘ انکل عاطف نے سعدیہ آنٹی کو یقین دلایا۔
’’حمزہ امریکا میں کیا کر رہا ہے؟‘‘ سعدیہ آنٹی نے پوچھا۔
وہ محسن بھائی جان کے ساتھ رہنے لگا تھا۔ انھوں نے اسے اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا بھیجا اور وہ وہیں کا ہوگیا۔
’’وہ کیسے؟‘‘ سعدیہ آنٹی بولیں۔
وہ ایسے کہ پڑھائی ختم ہوئی تو جاب تلاش کی۔ اس کو جاب ملی اور کسی گوری میم کو وہ مل گیا۔ یہ ہے ہمارے امیر حمزہ صاحب قراں کی ’داستانِ امیر حمزہ۔‘
عاطف انکل کے اس فقرے نے سعدیہ آنٹی کے لبوں میں جنبش پیدا کی— ہلکی سی جنبش جس کو مسکراہٹ بھی کہا جاسکتا ہے۔