وہ بہت غمگین اور اداس تھا۔ اس نے نظریں اٹھا کر جھیل کی طرف دیکھا۔ چاندنی رات میں جھیل بہت خوب صورت نظر آرہی تھی۔ جھیل کے پانی میں گاہے گاہے تموج سا ہوتا تھا۔ پھر سکوت— ’’پانی کی لہروں میں کتنی توانائیاں نظر آتی ہیں اور ان کا سکوت— موت‘‘ وہ سوچ رہا تھا۔
بوڑھوں کا یہ گروپ ہر سال اپنے کسی بوڑھے دوست کی سال گرہ پر اکٹھا ہوتا۔ سال گرہ میں سارے بوڑھے مل کر خوب ہلّا گلّا کرتے، پیتے پلاتے، ناچتے گاتے اور سب سے اہم بات یہ کہ سب مل کر خوب جھوٹ بولتے، سچ بولنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں تھی۔ پھر ایک دوسرے کے جھوٹ پر چیخیں مار مار کر ہنستے، شور مچاتے، کبھی کبھی ایک دوسرے کے جھوٹ پر خوب لڑتے اور اسی طرح آدھی رات تک ہنگامہ مچائے رکھتے۔
سال گرہ کے لیے جگہ کا انتخاب سب دوستوں کی پسند اور مشورے سے کیا جاتا۔ اس مرتبہ چاندنی رات کی وجہ سے اس تقریب کے لیے جھیل کے کنارے کا انتخاب کیا گیا تھا۔ اس مرتبہ سال گرہ اس کے دوست جمیل کے انکل کی تھی۔ جمیل کی یہ ڈیوٹی لگی تھی کہ وہ انکل کو لے کر جائے گا اور پھر ان کو اپنے ساتھ ہی واپس لائے گا۔ جمیل نے اپنی دوسراتھ کے لیے اسے بھی ساتھ چلنے کے لیے کہا۔ اگرچہ اس کا دل بالکل نہیں چاہ رہا تھا پھر بھی جمیل کے اصرار کرنے پر وہ راضی ہوگیا۔ دونوں دوستوں کے لیے یہ پہلا تجربہ تھا۔ وہ دونوں بھی بوڑھوں میں گھل مل گئے۔ جمیل بھی ان کے ساتھ مل کر خوب جھوٹ بول رہا تھا، خوب مستیاں کر رہا تھا۔ اچانک اس نے بھی غیر ارادی طور پر بولنا شروع کر دیا۔
’’پہلے اس نے اپنا نام بولا، پھر اپنے نام کی اسپیلنگ بھی بتائی۔‘‘ سب اس کی طرف متوجہ ہو کر ہنسنے لگے۔ وہ بول رہا تھا۔
’’میں اس سال تینتیس برس کا ہوگیا ہوں۔ یہ سال میرے لیے بہت اہم ہے۔ تینتیس سال کی عمر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تختۂ دار پر چڑھایا گیا تھا۔ مجھے اس سال کچھ غیر معمولی کرنا ہے مگر اسی سال میری بیوی مجھے چھوڑ کر چلی گئی اور میرے دونوں بچوں کو بھی اپنے ساتھ لے گئی۔ میں تنہا رہ گیا— غمگین اور افسردہ— پھر وہ خاموش ہوگیا۔ سب اس سے ناراض ہوگئے اور اس سے لڑنے لگے کہ اس نے سچ کیوں بولا۔ وہ یہ سب برداشت نہ کر سکا اور بغیر بتلائے چلا گیا۔
اس کے اس طرح چلے جانے پر سب ہی خاموش ہوگئے۔ جھیل کے ماسوا—
جمیل اٹھا اور گاڑی کی طرف دوڑا۔ گاڑی اپنی جگہ موجود تھی۔ جمیل واپس آکر حیران آواز میں بولا، ’’گاڑی اپنی جگہ موجود ہے مگر وہ وہاں نہیں ہے۔‘‘
’’پھر وہ شیطان کہاں چلا گیا۔‘‘ ان بوڑھوں میں سے کسی نے خاصی بلند ہانک لگائی۔
’’میں یہاں ہوں جھیل کے اندر۔‘‘ جھیل کے کنارے سے اس کی آواز آئی۔ جس کو سنتے ہی سارے بوڑھے کھڑے ہوگئے اور جھیل کی جانب دوڑے۔
جھیل اپنی جگہ موجود تھی اور اس کا پانی ہلکی سرگوشیاں کر رہا تھا۔ اوپر آسمان پر چاند چمک رہا تھا۔ اور اپنے عکس کو پانی کی ریشمی موجوں پر ٹکڑے ٹکڑے ہوتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ تارے اپنی اپنی جگہ پر موجود تھے، لیکن چاندنی نے ان سب کی روشنیوں کو ماند کر رکھا تھا۔ اس رات کی محفل سے صرف وہ غائب تھا۔ بوڑھے اس کا نام لے کر اسے بلائے جارہے تھے۔
بوڑھوں اور جمیل کی آوازوں کے جواب میں وہ ایک ہی فقرہ دُہرائے جا رہا تھا، ’’میں یہاں ہوں جھیل کے اندر۔‘‘ ایک ایک کرکے جھیل اور کی تقریب میں شرکت کرنے والے بوڑھے جھیل کے کنارے جمع ہوگئے۔ اس دن کے برتھ ڈے بوائے جمیل کے انکل کے ساتھ۔ ان سب کا نشہ ہرن ہوچکا تھا۔ جھیل کو بھی چپ سی لگ گئی تھی۔ اس کی آواز بھی آنی بند ہوگئی تھی۔
جھیل نے اپنا ’’نذرانہ‘‘ لے لیا تھا۔ جھیل کے کنارے کھڑے ہوئے سوگوار واپس اپنی جگہ پر لوٹ آئے۔ جیسے ہی وہ سب وہاں پہنچے اچانک وہ ان کے سامنے آکھڑا ہوا اور ہنستے ہوئے بولا، ’’میں جھیل کے باہر تھا اور جھوٹ بول رہا تھا کہ جھیل کے اندر ہوں۔‘‘