مریم اور ثروت ایک ہی اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی دوست تھیں اور اس حد تک ایک دوسرے سے جڑی رہتیں کہ اسٹاف کی دیگر اساتذہ سے ہائی، ہیلو کے لیے بھی وقت مشکل سے نکال پاتیں۔ معمر اساتذہ تو تقاضائے عمری سوچ کر نظر انداز کر دیتی تھیں، البتہ ان کی ہم عمر اساتذہ ان کے خلاف باتیں کرتیں اور اپنی فیورٹ طالبات کو بھی ان کے خلاف مہم جوئی میں لگا کے رکھتیں۔ مریم اور ثروت پر ہم جنس پرستی کی تہمت لگائی گئی کہ دونوں ملازمت چھوڑنے پر آ ہوگئیں۔
کسی نے اسکول کی سرپرست بیگم سلیمہ فاروق کو مشورہ دیا تھا کہ ان دونوں کو اسکول سے فارغ کرنا بہتر ہوگا یا کم از کم دونوں میں سے ایک کو terminate کر دیا جائے تاکہ اسکول کی لڑکیاں ان سے متأثر ہونے سے محفوظ رہ سکیں۔
بیگم سلیمہ فاروق سوئزر لینڈ کی پڑھی ہوئی تھیں۔ ان کے شوہر فاروق پراچہ لبرل ذہن کے انسان اور انتہائی کامیاب صنعت کار تھے۔ میاں بیوی نے حالات پر مزید سوچنے کا فیصلہ کیا۔
مریم اور ثروت نہ صرف اچھی استاد تھیں بلکہ اسکول کے ہر فنکشن کو کامیاب کرانے کی شہرت رکھتی تھیں۔ پھر یہ ہوا کہ دو سے تین ہوگئے۔ دو کو تین میں بدلنے والا ملک کا ابھرتا ہوا آرٹسٹ کمال احمد تھا جس کو اسکول میں فاروق صاحب پکڑ لائے تھے۔ وہ ملک کے سب سے بڑے ’’ٹیلنٹ ہنٹر‘‘ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ باصلاحیت افراد کی ہمت افزائی سے ہی کوئی ملک اور قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے۔ وہ بڑے افسوس کے ساتھ ان خیالات کا اظہار کرتے تھے کہ ’’معاشی بدحالی، اقتصادی پستی اور مفلسی کے سبب پاکستان کے نونہال ِکھلنے سے قبل ہی مرجھانے والے پھولوں کی مانند مٹی ہو جاتے ہیں۔‘‘ کمال میں مستقبل کے ایک اور صادقین کی نمود پا کر وہ اسے اپنی بیگم سلیمہ فاروق پراچہ کے اسکول میں لے آئے اور یہ کہہ کر اسٹاف میں شامل کروایا کہ اس کی تنخواہ اور دیگر الائونس میرے ذمے۔ بیگم سلیمہ فاروق پراچہ اس تجویز سے دل ہی دل میں بہت خوش ہوئیں۔ اسکول میں آرٹ ٹیچر کی کمی تھی، وہ بھی پوری ہوگئی اور اسکول پر کوئی مالی بوجھ بھی نہیں پڑا۔ دیگر انسٹرکشنز کے علاوہ کمال احمد کو یہ خصوصی ہدایت کی گئی:
’’مسٹر کمال احمد! اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ اوّل اور آخر استاد ہیں اور استاد رہیں گے۔ آپ کے مطالبے کے مطابق آپ کو ایک کمرہ مہیا کر دیا جائے گا ضروری سامان کے ساتھ۔‘‘
یوں مسٹر کمال احمد کی ’’پروگریسیو پاکستان انگلش میڈیم اسکول‘‘ میں انٹری ہوگئی۔
کمال احمد دوسرے دن جب اپنا پہلا دن گزارنے اسکول پہنچے تو سب سے پہلے ان کو morning prayer میں کھڑا ہونا پڑا۔ اس کے بعد اسکول آفس جانا پڑا۔ آفس میں ہیڈ کلرک اور ان کے اسسٹنٹ سے سلام علیک، گڈ مارننگ ہوئی۔ ہیڈ کلرک نے کمال احمد کو دور ایک کونے کی جانب بھیج دیا۔ وہاں دو لڑکیاں پہلے سے کھڑی تھیں، ایک لمبا چوڑا رجسٹر رکھا تھا، اس پر دستخط کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ لیکن وہاں کھڑی دونوں لڑکیاں جو اور کوئی نہیں مریم اور ثروت تھیں، ان میں سے ایک یعنی ثروت کا فائونٹین پین اچانک آگے سے کھل گیا تھا اور بہت ساری روشنائی اس صفحے پر پھیل گئی تھی جس پر اس دن اسٹاف کے لوگ بڑی تعداد میں دستخط کر چکے تھے۔ کمال احمد جو ان لڑکیوں سے فاصلے پر کھڑا ہوا تھا صورتِ حال سے واقف ہونے کے لیے قدرے قریب ہوگیا۔ ایک لڑکی (ثروت) جس کی انتہائی خوب صورت، بڑی بڑی آنکھیں آنسوئوں سے بھری ہوئی تھیں اور دوسری لڑکی اس کو دلاسا دینے کے لیے، اس کے بائیں شانے پر ہاتھ رکھے ہوئے تھی۔ اسی دوران ہیڈ اور اسسٹنٹ کلرک موقعۂ واردات پر پہنچ گئے۔
ہیڈ نے بلند آواز میں پوچھا:
’’واٹس دی میٹر؟‘‘ (کیا مسئلہ ہے؟)
’’وہاٹ ہیپنڈ؟‘‘ (کیا ہوا ہے؟) اسسٹنٹ نے قدرے دبی آواز میں پوچھا۔
ثروت کے حلق سے آواز نہیں نکلی۔ اس نے سر اٹھایا، منہ کھولا لیکن کچھ بولی نہیں، البتہ اس کی آنکھوں میں بھرے آنسو چھلک پڑے۔
’’انک ہیڈ اسپلٹ اون دی مَسٹر رول‘‘ (مسٹر رول پر روشنائی گر پڑی) مریم بولی۔
’’ہُوز فالٹ اِٹ از؟‘‘ (کس کا قصور ہے؟) ہیڈ کلرک نے مزید بلند آواز میں پوچھا۔ اس کی آواز میں ریزر بلیڈ کی کاٹ تھی۔
’’آئی ایم ویری ویری سوری، آئی ایم سو سوری، سب میرا قصور ہے، اچانک میرا پین کھل گیا اور رجسٹر پر اتنی ساری روشنائی پھیل گئی۔‘‘ کمال احمد نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
ہیڈ کلرک منصور علی غصہ سے کانپنے لگے۔ پھر انھوں نے اپنا منہ پھیرتے ہوئے لڑکیوں کو مخاطب کرکے کہا:
’’مس ثروت جمیل اور مس مریم برگنزا، یومائنڈ یور اون بزنس اینڈ رَن اَوے ٹو یور کلاسز پلیز—‘‘
(مس ثروت جمیل اور مس برگنزا آپ اپنے کام سے کام رکھیں اور اپنی کلاس کی جانب دوڑ جائیں مہربانی کرکے۔)
’’مسٹر کمال احمد یو پلیز کم وِد می۔‘‘ (مسٹر کمال احمد آپ مہربانی کرکے میرے ساتھ آئیں۔) ہیڈ کلرک منصور علی نے فیصلہ کن انداز میں کہا اور اپنی میز کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے اپنے اسسٹنٹ سے اردو میں بولے:
’’دیکھنا بھئی عبدالرحمن صاحب مَسٹر رول کے مسئلے سے کس طرح نمٹا جاسکتا ہے، اور ہاں بڑی میڈم کو تو ہر حال میں اس کی رپورٹ کرنا ہے۔‘‘
کسی نے بھی اس بات کا نوٹس نہیں لیا کہ ثروت کا منہ ایک بار پھر بغیر آواز کے کھلا، اس کے قدم بھی زمین میں رگڑنے لگے۔ اگر مریم اس کو گھسیٹتے ہوئے فوری طور پر باہر نہ لے جاتی تو وہ نہ تو آفس سے باہر جاتی اور نہ ہی اصلی حقیقت کو مخفی رہنے دیتی کہ muster roll پر روشنائی کے گرنے کی تمام تر ذمہ داری اصل میں اس کے پین، اور خود اُس پر ہے، نہ کہ آرٹسٹ کمال احمد پر۔
منصور علی ہیڈ کلرک نے کمال احمد کو اپنی میز کے قریب رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھنے کے لیے کہا۔ مَسٹر رول کی اہمیت پر چھوٹا سا لیکچر دیا، لیکن نہ تو ان کی آواز اونچی ہوئی اور نہ ہی اس میں ریزر بلیڈ کی کاٹ آئی۔ کمال احمد کی جواں عمری اور قبول صورتی نے ان کو منصور علی کے آفس سے گھر پہنچا دیا۔ ان کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔ تین بیٹیاں تھیں، دو بڑی بیٹیوں کی شادی ہوچکی تھی۔ ایک سب سے چھوٹی شادی کی عمر کو پہنچ چکی تھی۔ اندر ہی اندر وہ کمال احمد کو اپنے داماد کے روپ میں دیکھ رہے تھے۔
اسکول میں مرد اساتذہ کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ کمال احمد کو پی ٹی ماسٹر کے کمرے میں بیٹھنا پڑتا، جب تک ان کے کمرے کا انتظام نہ ہوجاتا۔ ایک کمرہ مس اسٹروٹل کے لیے وقف تھا۔ وہ موسیقی کی استاد تھیں اور لڑکیوں کو پیانو بجانا سکھاتی تھیں۔ شہر میں وہ شیکسپیئر کے ڈرامے پیش کروانے کے سلسلے میں اپنی ایک شناخت بنا چکی تھیں۔ کمال احمد ان کے پاس آتا جاتا رہتا تھا۔ اس سبب سے کمال احمد نے کلرک آفس سے چھٹکارا پانے کے بعد پی ٹی ماسٹر کے کمرے میں جانے کے بجائے مس اسٹروٹل کے کمرے کی راہ لی۔
مریم، ثروت کو کلرک آفس سے باہر کھینچ لانے میں کامیاب تو ہوگئی لیکن سارا دن اس کی ثروت سے بحث جاری رہی۔ اسکول کے لنچ کے وقفے میں بھی، اسکول کے بعد ثروت کے گھر میں بھی، آرٹسٹ کا مَسٹر رول پر روشنائی کے گرنے کے واقعے کو اپنے سر لینا موضوع بنا رہا۔ عمل کے ساتھ اس کی شخصیت اور موٹیو (motive) پر بھی سوچا جاتا رہا۔ ثروت جمیل مصر تھی کہ اس کا ہیڈ کلرک منصور علی سے ملنا اور اصل حقیقت بیان کرنا اشد ضروری ہے۔ مریم برگنزا کا استدلال یہ تھا کہ ’’جو ہونا تھا ہوگیا۔‘‘
اِسپلٹ اِنک از اِسپلٹ اِنک گر گئی سو گر گئی۔۔کس پر گری—
برسوں پرانے مَسٹررول پر گری— ہیڈ کلرک منصور علی پر گری— یا پھر باضمیر مس ثروت جمیل پر جو معاملے کو طول دینا ضروری سمجھتی ہیں— شاید اپنے دل سے کمال کے دل تک—؟
’’مریم، مریم ہر وقت شرارتی سوچ— خدا کی بندی کبھی تو باز آجا— میرے دل کا کمال کے دل سے کیا واسطہ—؟‘‘
’’واسطہ ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ پیدا ہوچکا— کیوں نہ اس کو اِنک اسپلٹ واسطہ، کہا جائے، یا پھر ’مَسٹر رول واسطہ‘ کیسا رہے گا—؟‘‘
اچانک پڑوس کی ایک بزرگ خاتون ان کی جانب آگئیں اور مریم کو کسی کام میں لگا دیا، کچھ وقت کے لیے دونوں سہیلیوں کی نوک جھونک رک گئی۔ پڑوس کی خاتون کے جاتے ہی مریم کی رگِ شرارت ایک بار پھر پھڑکنے لگی۔
’’آرٹسٹ کے بارے میں سوچو، میں تو اس پر عاشق ہونے جارہی ہوں۔ کتنا شولرس، اور کتنا ہینڈسم— او مائی گاڈ— وائو۔ میرا تو یہ خیال ہے کہ ہم دونوں کو باجماعت اس پر مرنے لگنا چاہیے۔ کتنا مزہ آئے گا۔ ہم دو بلیّاں اور ایک آرٹسٹ چوہا۔‘‘
مریم ایک پائوں پر کھڑی ہو کر گھوم گئی۔ اور ثروت کو اٹھا کر اس کے ساتھ ناچنے لگی۔ ثروت اس کے ساتھ نہ تو ہنسی میں شریک ہوئی اور نہ ہی ناچ میں۔
مریم، ثروت کے اس اکڑفوں رویے پر بگڑ گئی اور ثروت سے کچھ دور ہو کر خاموش بیٹھ گئی۔
’’تم ناراض کیوں ہوتی ہو۔ آرٹسٹ کے اس اقدام سے تم کچھ زیادہ ہی متأثر ہوگئی ہو، یہ مرد شولری ہے اور کچھ نہیں۔ تم سمجھتی کیوں نہیں میری جان۔‘‘ ثروت نے کہا۔
’’چلو مان لیا، آرٹسٹ نے جو کیا وہ مرد شولری تھی تو کیا تم اس کو دو تھپڑ لگانے جا رہی ہو—؟‘‘ مریم بولی۔
’’میں کلرک آفس جا کر اپنے پین کا گناہِ عظیم قبول کرنے جارہی ہوں۔‘‘
’’جانتی ہو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟‘‘ مریم نے کہا۔
’’کیا نتیجہ ہوگا؟‘‘ ثروت نے پوچھا۔
’’تمھاری چھٹی کر دی جائے گی۔‘‘ مریم نے کہا۔
’’وہ کیسے—؟‘‘ ثروت نے پوچھا۔
’’وہ ایسے کہ اسکول کی انتظامیہ ہم دونوں میں سے ایک کو نوکری سے نکالنے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔‘‘ مریم نے کہا۔
’’تمھیں کیسے پتا چلا؟‘‘ ثروت نے پوچھا۔
’’کیا تم نہیں جانتی ہو کہ ٹیچنگ اسٹاف میں میری کیمونٹی کی کثرت ہے۔ اور اس میں یہ بات عام ہوچکی ہے۔‘‘ مریم نے کہا۔
’’وہ بے شک مجھے نکال دیں۔ سنا نہیں، ایک در بند ہوتا ہے مالک سو در کھول دیتا ہے۔‘‘ ثروت نے جواب دیا۔
’’تم کو ستر دروازے یا سو دروازے کھلوانے ہی ہیں تو اس کے لیے کوئی اور باعزت طریقہ اختیار کرو۔‘‘ مریم نے کہا۔
’’اور— اور۔ کمال احمد آرٹسٹ اینڈ کمال احمد دی شولرس کو کچھ نہ کہو۔ تم یہی چاہتی ہو نا—؟‘‘ ثروت نے کہا۔
’’جی— جی مس ثروت جمیل صاحبہ۔ کمال احمد دی آرٹسٹ آپ کے ایک پیارے سے ’تھینک یو سومچ‘ کا حق دار بنتا ہی بنتا ہے۔‘‘ مریم نے شوخی سے کہا۔
’’یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔ اب بہت تاخیر ہوچکی ہے۔ جو گزر گیا، سو گزر گیا۔‘‘ ثروت نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
’’اور— اگر اس نے خود تمھاری جانب پیش قدمی تو—؟‘‘ مریم بولی۔
’’یہ تو وہ کرے گا ہی۔‘‘ ثروت نے بڑے اعتماد سے کہا۔
’’پھر تم کیا کرو گی؟‘‘ مریم نے پوچھا۔
’’میں اسے attitude دوں گی تاکہ اس کے بڑھتے ہوئے قدم رک جائیں۔ اور — اور مس مریم برگنزا کی جانب ٹرن ہو جائیں۔‘‘ ثروت نے آنکھیں چمکا کر کہا۔
پھر دونوں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوگئیں، اور شوخیوں، شرارتوں اور ہنسی کا ایک چشمہ پھوٹ نکلا۔
ثروت جمیل کا قیاس، خدشہ یا خیال غلط ثابت ہوا۔ دن گزرتے گئے۔ کسی بھی موقعے پر آرٹسٹ کمال احمد تمکنت، غرور اور شان سے سر اونچا اور سینہ چوڑا کرکے ثروت پر یا ثروت+ مریم کی جوڑی پر نازل نہیں ہوا۔ کہیں سامنا ہوا بھی تو اپنی کسی مصروفیت کی محویت میں گزر گیا، جیسے ان لڑکیوں سے لاتعلق ہو۔ وہ تھا بھی ہمہ وقت مصروف۔ اس کو اسکول میں ایک اچھا سا آرٹ اسٹوڈیو قائم کرنے کی اجازت مل گئی تھی۔ وہ اکثر و بیشتر تنہا اِدھر اُدھر دوڑتا بھاگتا نظر آتا۔ کبھی کبھی اس کے ساتھ اسکول آف آرٹ اینڈ آرکی ٹیکچر سے تعلق رکھنے والے کوئی بزرگ ہوتے یا کوئی کارپینٹر یا معمار، اسکول اسٹاف میں سے مس اسٹروٹل کے علاوہ کوئی اور دیکھا نہیں گیا۔ مس اسٹروٹل اس کی لنچ پارٹنر تھیں۔ مشہور تھا کہ دونوں میں ففٹی ففٹی کی شراکت ہے۔
لیڈیز اسٹاف روم میں اس جوڑی کا خوب مذاق اڑایا جاتا۔ کسی بہت پرانی مووی کا پرانا مقبول نغمہ خواتین اساتذہ کو یاد آگیا تھا۔
’’بڈھی ہے گھوڑی، لال ہے لگام، کیسی یہ جوڑی بنائی مورے رام‘‘
ان اساتذہ میں سے جنھوں نے ثروت + مریم کی جوڑی پر ہم جنس پرستی کا الزام لگایا تھا، ایک نے ایک شوشہ چھوڑا تھا کہ ’’آرٹسٹ بچائو تحریک‘‘ شروع کرنا ضروری ہے ورنہ مس اسٹروٹل، وَرجِن کوئن اوف پروگریسیو پاکستان انگلش میڈیم اسکول اس لڑکے کو پورے کا پورا نگل جائے گی۔
اسکول میں آرٹسٹ کی انٹری سے اچھا یا برا، یہ ضرور ہوا کہ لیڈیز اسٹاف کے اسکینڈل کے فور فرنٹ سے ثروت + مریم جوڑی نہ صرف پیچھے بلکہ خاصی پیچھے چلی گئی۔
ثروت کا یہ خیال بھی غلط ثابت ہوا کہ وہ آرٹسٹ کو اپنے خصوصی attitude (جو اس نے دل میں سوچ رکھا تھا) سے مار گرائے گی، بلکہ خود اس خجالت کی زد میں آگئی کہ آرٹسٹ کو ’’شکریہ‘‘ بھی نہ کہہ سکی جو اس پر واجب آتا تھا۔
ثروت اپنا سارا وقت آرٹ کے مشاغل میںصرف کرتی تھی۔ اس نے دورانِ تعلیم اپنے اسکول کی ڈرائنگ ٹیچر کے کہنے پر ڈرائنگ کے دو امتحانات اِیلیمنٹری اور انٹر بھی پاس کر لیے تھے، وہ بھی پہلی پوزیشن حاصل کرکے۔ اس کا آج نہیں تو کل پی پی اسکول میں متعینہ آرٹسٹ سے رابطہ فطری امر تھا۔ اس کا آرٹسٹ سے گریز کرنا ناقابلِ فہم تھا۔ اور باتوں کے علاوہ مریم نے ثروت کو معاملے کے اس رُخ پر بھی متوجہ کیا تھا۔ لیکن وہ اس نکتے پر کیسے سوچتی جب کہ وہ اس زعم یا خوش فہمی میں مبتلا تھی کہ آرٹسٹ مَسٹررول پر روشنائی کے گرنے اور پھیلنے کے الزام کو اپنے سر لینے کی مہان ہیروٹک ڈیڈ کو کیش کرنے خود اس سے یا ان کی جوڑی سے کنٹیکٹ کرے گا۔
آرٹسٹ نے اپنے کیے کو کیش نہ کرکے ثروت کی بند شخصیت میںدروازہ، دروازہ نہیں بلکہ چور دروازہ کھول دیا تھا۔
اس کی انٹری بھی ہوچکی تھی۔ عین ممکن ہے اسے اپنی انٹری کی خبر ہی نہ ہو۔
ثروت جمیل، آرٹسٹ کمال احمد ایک جانب اور دوسری جانب پی پی اسکول کی انتظامیہ اپنے فیصلے کرنے میں لگی ہوئی تھی۔ اسکول کو اس معیار کے آرٹ اسٹوڈیو کی ضرورت نہیں تھی، جس معیار کا اسٹوڈیو آرٹسٹ کمال احمد کے خواب کی تعبیر کی صورت میں سامنے آیا۔ چناں چہ میڈیم سلیمہ فاروق پراچہ نے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی ٹھان لی۔ اسکول کی انتظامیہ نے نوٹس جاری کیا اور اسٹوڈنٹس اور اسٹاف کو ہدایت کی گئی کہ آرٹ، ڈرائنگ، گرافک، اسکلپچر سے دل چسپی رکھنے والی طالبات اور ٹیچنگ فیکلٹی کے ممبران اور خاص طور پر وہ جنھوں نے آرٹ اور ڈرائنگ کے امتحانات پاس کیے ہوں، آرٹسٹ کمال احمد سے رابطہ کریں۔
ساتھ ہی نیوز چینلز، اہم اخباروں اور برقی میڈیا پر پروگریسو پاکستان انگلش میڈیم اسکول کے اس قابلِ فخر اقدام کے بارے میں مختصر لیکن جامع فیچر پیش کروائے۔ اس ضمن میں آرٹسٹ کمال احمد کی بھی خاصی شہرت ہوگئی۔
آرٹس کریٹکس کے تبصرے بھی سامنے آئے۔ ان کے ذریعے یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ کمال احمد نے اقبال مہدی کی شاگردی اختیار کی، ان کی بیگم کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا بھی کھایا لیکن جلد ہی ان کو چھوڑ بھاگے۔ کچھ عرصہ ژوبی کے زیرِ اثر بھی رہے۔ ’’ان کے بارے میں ابھی کوئی ایک رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔‘‘ آرٹ ناقدین کی اجتماعی رائے کچھ ایسی نکلتی تھی۔ بہرحال آرٹ اسٹوڈیو کی خبریں سامنے آنے سے پروگریسیو پاکستان اسکول کی شہرت اتنی بڑھی کہ داخلوں کے موسم کے آغاز سے قبل ہی اپنے بچوں کو پی پی اسکول میں داخل کرانے کے خواہش مند والدین نے اسکول کا رخ کرنا شروع کر دیا اور میڈیم سلیمہ فاروق پراچہ اور اسکول انتظامیہ ایک باقاعدہ اکیڈمی تشکیل دینے اور پی پی اسکولوں کا ایک چین قائم کرنے پر مجبور ہوگئیں۔
مس ثروت جمیل کو اسکول کی انتظامیہ کے نوٹس کی تعمیل کرتے ہوئے آرٹسٹ کمال کے سامنے آنا پڑا، وہ ڈرائنگ کے امتحان کی استاد کے ساتھ کمال احمد کے اسٹوڈیو پہنچ گئی۔
مریم برگنزا حسبِ معمول اس کے ساتھ تھی۔ کمال احمد نے ثروت کی اسناد دیکھیں اور مس برگنزا سے پوچھا، ’’آپ کی اسناد—؟‘‘ جواب دینے کے بجائے مریم برگنزا بے اختیار ہنس پڑی۔
ایک جانب تو ثروت کی بڑی بڑی خوب صورت آنکھیں تو دوسری طرف مریم کا روشن چہرہ اور اس جانب آرٹسٹ اور اس کی نگاہِ حسن شناس۔
ثروت جمیل اور مریم کی ثنویت تثلیث کے مرحلے میں داخل ہوگئی تھی۔ مثلث تشکیل پانے لگا تھا۔
اسی گہما گہمی میں کافی وقت گزر گیا، گرمیوں کی چھٹیاں بھی آگئیں۔ آج اسی سلسلے میں میڈیم سلیمہ فاروق پراچہ کی ٹیچنگ اسٹاف کے ساتھ میٹنگ تھی— چھٹیوں میں اساتذہ کو کیا تیاری کرنا تھی، وغیرہ وغیرہ— یہ سب میٹنگ میں طے ہونا تھا۔
میٹنگ ختم ہونے کے بعد مریم نے سب کو کارڈ تقسیم کیے سوائے میڈم سلیمہ فاروق پراچہ کے، ان کو پہلے ہی دیا جاچکا تھا۔
’’ثروت کی شادی‘‘ مسز منظور کے منہ سے نکلا۔ ’’کمال احمد کے ساتھ‘‘ مسز شگفتہ حیرت سے چیختے ہوئے بولیں۔
میڈیم سلیمہ فاروق پراچہ مسکرا رہی تھیں۔ وہ ان معمر اساتذہ کی طرف دیکھے ہوئے بولیں، ’’جی ہاں! آرٹسٹ کمال کی شادی مِس اسٹروٹل کی منہ بولی بیٹی مس بتول فاطمہ سے۔ آپ لوگ مِس اسٹروٹل اور کمال احمد کو کونگریٹ کریں۔‘‘
میڈم سلیمہ فاروق پراچہ نے اس روز تنہائی ملتے ہی اپنے آپ میں سوچا، کمال کے مِس اسٹروٹل کے قریب آنے اور ان کے گھر آنے جانے سے باتیں بنانے والوں نے مِس اسٹروٹل کو نشانہ بنایا، ’بڈھی گھوڑی لال لگام‘ وغیرہ۔ کسی نے ان کی منہ بولی بیٹی بتول فاطمہ کے بارے میں نہیں سوچا۔ شدت پسندوں نے بتول فاطمہ کے پورے خاندان کو ان کی لبرل فکر اور طرزِ زندگی کے سبب دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ اس وقت بتول فاطمہ مِس اسٹروٹل کے گھر پیانوں کے Lesson لے رہی تھی۔ حالات نے اس گھر کو اس کی پناہ گاہ بنا دیا تھا۔ مِس اسٹروٹل نے اپنی عزیز دوست راحمہ کی بیٹی بتول فاطمہ کی تعلیم و تربیت کا انتظام ایک مسلمان لڑکی کی طرح کرکے نہ صرف ایک اچھی ماں کا رول ادا کیا تھا بلکہ اپنی دوست راحمہ کے ساتھ دوستی کا حق ادا کیا تھا۔ اور آرٹسٹ کمال سے اس کی شادی کرکے اپنی دوستی پر مہرِ محبت ثبت کر دی تھی۔
ثروت اور مریم کی جوڑی کا مسئلہ، مسئلہ ہی رہا۔ ’’ان کو اسکول سے باہر پھینک دینا درست ہوگا۔‘‘ باہر کی دنیا— جتنی زبانیں اتنی ہی باتیں؟‘‘
میڈم سلیمہ فاروق پراچہ کا ذہن سنجیدہ سوچوں کے بھنور میں گھرا ہوا تھا۔