میں کچن میں کام کر رہی تھی۔ اچانک ڈھول بجنے کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ آوازیں قریب تر ہوتی جارہی تھیں، ڈھول کی آوازوں کے ساتھ اب ’’دما دم مست قلندر‘‘ کی بھی آوازیں آنا شروع ہوگئی تھیں۔ ایک دم میرے منہ سے نکلا:
’’لو بھئی، سہون کے متوالے فقیر چندہ لینے آگئے۔‘‘
یہ سال میں ایک مرتبہ اور کبھی دو مرتبہ اسی انداز سے چندہ لینے آتے تھے۔ پانچ یا چھہ آدمی ہوتے۔ ایک شخص ڈھول بجاتا، ایک بڑا سا چمٹا ہاتھ میں اٹھائے ہوئے اس کو بجاتا، تیسرا لکڑی کی ایک تختی میں لگے گھنگھروئوں کو بجاتا چوتھا بڑا سا جھنڈا ہاتھ میں اٹھائے ہوئے ہوتا اور باقی لوگ ناچنتے ہوئے ’’دما دم مست قلندر‘‘ کے نعرے لگاتے۔ جب تک یہ گلی میں رہتے، آوازوں کا ایک سیلاب پوری فضا کو اپنی لپیٹ میں لیے رہتا۔
یہ لوگ ہمارے گیٹ کے نزدیک آچکے تھے۔ اور آوازوں کا شور— مت پوچھیں۔ میں ایک دم بھاگی ’’منال‘‘ کہتی ہوئی۔ مجھے یقین تھا وہ آوازوں کے شور سے گھبرا کر اٹھ چکی ہوگی اور رو رہی ہوگی لیکن کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا منال اسی طرح لیٹی سو رہی تھی جیسے میں نے اسے لٹایا تھا۔ میں نے جلدی سے اس کی ناک کے سامنے اپنی انگلیاں رکھیں۔ اس کی سانس چل رہی تھی۔ پھر میں نے اس کی نبض دیکھی، ہاتھ پکڑنے سے وہ تھوڑی سی کلبلائی، نبض بھی بالکل صحیح تھی۔ پوری طرح مطمئن ہونے کے بعد میں اٹھی اور پیسے نکال کر چوکی دار کو دیے کہ وہ ان لوگوں کو دے دے۔ پیسے ملنے کے بعد وہ مست آگے بڑھ گئے اور آوازوں کا شور آہستہ آہستہ کم ہوتا چلا گیا۔
’’منال اتنے شور میں کیسے بے خبر سوتی رہی؟‘‘ یہ سوال مجھے پریشان کر رہا تھا۔
احمد آفس سے آئے، میری شکل دیکھ کر پوچھنے لگے، ’’کوئی پریشانی ہے؟‘‘
میں نے ان کو اپنی پریشانی کی وجہ بتائی۔ ہم دونوں نے کچھ ٹیسٹ کیے۔ منال کو بٹھا کر اسی کے پیچھے جاکر اسے آوازیں دیں، تالیاں بجائیں، برتن گرائے، برتنوں کو بجایا مگر اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ وہ اسی طرح بیٹھی رہی اپنے ایک کھلونے کو لیے ہوئے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اسے کسی بھی آواز سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔
ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، ہماری قوتِ گویائی جیسے سلب ہوچکی تھی۔ ہماری نگاہوں نے ایک دوسرے سے وہ سب کچھ کہہ دیا جو ہم کہنا نہیں چاہتے تھے۔
احمد نے چائلڈ اسپیشلسٹ سے وقت لیا، منال کو لے کر ہم اس کے پاس گئے۔ اس نے منال کا معائنہ کیا، دوسرے ماہر ڈاکٹروں سے بھی رجوع کیا۔ ڈاکٹروں کی پوری ٹیم نے اس کا معائنہ کیا، کئی ٹیسٹ کیے۔ پھر ایک دن ڈاکٹری فیصلہ ہم پر بجلی گرا گیا کہ منال تمام زندگی سن نہیں سکے گی۔ یہ سننے کے بعد مجھ پر اور احمد پر کیا گزری، بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ہم دونوں بالکل گم سے ہوگئے تھے۔ لب مرتعش تھے لیکن آواز نہیں نکل رہی تھی۔ بڑی مشکل سے میں نے یہ سوال کیا، ’’کیا منال بول سکے گی؟‘‘ ان پانچ ڈاکٹرز کی ٹیم میں سے ایک ڈاکٹر نے میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا:
’’منال آواز کو سن نہیں سکے گی تو اس کے دماغ کے نظام کو اس کا علم نہیں ہوگا کہ آواز کیا Phenomenon ہے اور اس کا کوئی فنکشن ہے؟ اس طرح جب کوئی آواز، کوئی آہٹ سن نہیں سکے گی تو اس کو اس کا علم نہیں ہوسکے گا کہ الفاظ، زبان، موسیقی کیا چیز ہوتی ہے۔ نتیجتاً گویائی سے بھی محروم رہے گی۔‘‘
میں اس حقیقت سے بخوبی واقف تھی کہ جب کوئی سن نہیں سکتا تو وہ بول بھی نہیں سکتا۔ پھر بھی نہ جانے کیوں یہ سوال کیا تھا۔ شاید میری یہ خواہش تھی کہ میں غلط ثابت ہو جائوں اور ڈاکٹرز یہ کہہ دیں کہ منال ’’قوتِ گویائی‘‘ سے محروم نہیں ہے۔
فی الحال ہم دونوں اپنے اس دکھ کو دبائے احمد کی والدہ ’’ماں جی‘‘ کو سنبھالنے میں لگ گئے۔ وہ اپنی اکلوتی پوتی، جسے وہ بہت چاہتی تھیں، اس کے متعلق یہ سب جان کر بہت دکھی ہوگئی تھیں۔ ان کا بی پی ہائی ہوگیا تھا، ان کی شوگر بڑھ گئی تھی۔ منال کی ددھیال بہت مختصر تھی۔ احمد اور ارشد، یہ صرف دو بھائی تھے۔ بہن کوئی نہیں تھی۔ ارشد بھائی ایم بی اے کرنے امریکا گئے اور وہیں سیٹل ہوگئے۔ ایک پاکستانی فیملی میں شادی کر لی اور اب ان کے تین بیٹے تھے۔ ارشد بھائی کی بیوی بہت اچھی طبیعت کی تھیں بہت ملنسار اور محبت کرنے والی۔ یہ لوگ ماں جی کی وجہ سے پاکستان آتے رہتے تھے۔ پچھلے سال یہ لوگ پاکستان آئے تھے، جب منال چھہ ماہ کی تھی۔ ارشد بھائی اس سے بہت پیار کرتے تھے۔ گود میں اٹھائے پھرتے۔ اکثر کہتے، ’’میرے چار بچے ہیں تین بیٹے اور ایک بیٹی۔‘‘ ارشد بھائی کو جب منال کے متعلق پتا چلا تو ان کو بہت دکھ ہوا۔ لیکن اس کے باوجود انھوں نے ہم سے ایسی باتیں کیں جس سے ہمیں حوصلہ ملا۔
کچھ عرصے میں ہم نے اس صدمے کو قسمت کا لکھا جان کر قبول کر لیا۔ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ منال بھی بڑی ہو رہی تھی۔ وہ اب دو سال کی ہوچکی تھی، میں اور احمد کسی ایسے ادارے کی تلاش میں تھے جس میں ایسے بچوں کو تعلیم و تربیت دی جاتی ہو۔ ہمیں جہاں بھی ایسے اسکول کا پتا چلتا، ہم وہاں جاتے، پورا سروے کرتے۔ لیکن ہم دونوں مطمئن نہیں ہوپا رہے تھے۔
کسی نے ہمیں کلفٹن میں ایک ایسے پرائیویٹ اسکول کا بتایا۔ میں اور احمد دونوں وہاں گئے۔ اسکول نرسری سے لے کر میٹرک تک تھا۔ یہ صرف اسکول ہی نہیں تھا۔ اس میں اشاروں کی زبان سکھائی جاتی تھی۔ بچوں کو تربیت بھی دی جاتی تھی۔ اشاروں کی زبان میں اخلاق و آداب کے رموز ان کی ادائیگی سکھائی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ والدین چاہیں تو ان کو بھی اشاروں اور حرکتوں سے اظہارِ خیال کی تعلیم دی جاتی تھی۔ بچوں کے رجحان کو دیکھ کر مختلف کام (skills) بھی سکھائے جاتے تھے جیسے بیکنگ (Baking)، کٹنگ (Cutting)، سلائی (Sewing)، فائن آرٹس (Fine Arts)، ایمبرائیڈری (Embraidery) وغیرہ۔
ہمیں یہ پسند آیا اور ہم نے منال کو اس اسکول میں داخل کر دیا۔
میں نے اور احمد نے فیصلہ کیا کہ ہم بھی ’’اشاروں کی زبان‘‘ سیکھیں گے تاکہ اپنی بیٹی سے بات چیت کر سکیں۔
میں صبح منال کو اسکول لے کر جاتی۔ اور پھر خود بھی دو گھنٹے کی کلاس لیتی۔ اس کے بعد میں گھر آجاتی۔ احمد آفس کے بعد جاتے، وہ بھی کلاس لیتے اور منال کو ساتھ لے کر آجاتے۔ ہم تینوں کی ایک چھوٹی سی دنیا علاحدہ بن گئی تھی۔ ماں جی کو اگرچہ یہ اشاروں کی زبان نہیں آتی تھی، زیادہ تر میں اور کبھی کبھی احمد مترجم بن جاتے۔ اس طرح دادی ، پوتی ایک دوسرے سے بات کر سکتی تھیں۔
ارشد بھائی کا فون آتا رہتا تھا۔ ایک دن فون پر انھوں نے بتایا کہ وہ ہم سب کو اسپانسر کر رہے ہیں۔ بہت دیر بات کی کہنے لگے، ’’تم لوگ یہاں آجائو گے تو ہم لوگ امریکا میں بھی اور امریکا سے باہر بھی منال کو ماہرینِ سماعت بچوں کے ڈاکٹروں کے پاس لے جائیں گے۔ ضرور کچھ نہ کچھ بہتری کی صورت نکل آئے گی۔‘‘ ارشد بھائی نے بتایا کہ ان ملکوں میں معذور افراد کے لیے بہت سہولتیں ہیں۔ یہاں پر جہاں فلک بوس عمارتیں ہیں وہاں وھیل چیئر کے ذریعے معذور افراد کو اندر داخل ہونے کے لیے ایک ڈھلان کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ بسوں میں بھی وھیل چیئر کے ذریعے داخل ہونے کی اور بیٹھنے کی سہولت دستیاب ہوتی ہے۔ معذور افراد کے لیے یہاں گاڑیاں مختص ہوتی ہیں۔ فون کرنے پر وہ گاڑیاں آتی ہیں، شاپنگ وغیرہ کرنے کے لیے جانا چاہیں، لے کر جاتی ہیں، پھر ایک مقررہ وقت پر گھر چھوڑ دیتی ہیں۔ اور یہ کہ مغرب کی دنیا میں معذور افراد بے کار تصویر نہیں کیے جاتے ہیں۔ یہاں پر معذور افراد دفتروں میں کام کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں انسان کی معذوری کو نااہلی تصور نہیں کیا جاتا، ایسے افراد اپنی ذہنی صلاحیتوں اور اپنے ہنر (Skills) کے لحاظ سے معاشرے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہاں پر معذور افراد کو عزت دی جاتی ہے اور ہر شخص ان کی مدد کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔
ارشد بھائی کی باتیں سن کر بہت خوشی ہوئی اور اطمینان بھی۔ کاش! ہمارے معاشرے میں بھی لوگ اس طرح سوچنے لگیں۔ یہاں تو معذور افراد کو دیکھ کر لوگوں کا رویہ یا تو تمسخرانہ ہوتا ہے یا پھر ترس کھانے والا۔ منال کے ساتھ بھی یہی ہو رہا تھا۔ ابتدا میں جب لوگوں کو معلوم ہوا تو باقاعدہ طور پر لوگ ہم دردی جتانے آئے اور بہت افسوس کا اظہار کیا۔ اب بھی کچھ لوگ، جب بھی ان سے ملاقات ہوگی، منال کا پوچھتے ہوئے اس پر ترس ضرور کھاتے ہیں، بلکہ اس پر ہی کیا مجھ پر بھی ترس کھاتے ہیں، کہتے ہیں، ’’پتا نہیں اﷲ کی اس میں کیا مصلحت ہے، ایک ہی اولاد دی اور وہ بھی ایسی؟‘‘
پہلے منال ان باتوں کو نہیں سمجھتی تھی، لیکن اب وہ بڑی ہو رہی تھی، اسکولوں میں پڑھ رہی تھی، گفتگو کے اشارے سمجھنے لگی تھی۔ منال بے حد ذہین اور حساس تھی، وہ لوگوں کے چہروں کے تأثرات کو بھی پڑھ لیتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جیسے جیسے وہ بڑی ہو رہی تھی لوگوں کے سامنے جانے سے کتراتی تھی۔ کوئی آتا تو وہ اپنے کمرے میں چلی جاتی۔
وقت گزر رہا تھا۔ منال نے پانچویں پاس کر لی تھی۔ اسی دوران ہمارے امریکا جانے کی کارروائی مکمل ہوگئی اور ہم سب امریکا چلے گئے۔
پہلے ارشد بھائی نے منال کو شکاگو ہی کے ماہر سماعت ڈاکٹروں کو دکھایا۔ جب کوئی امید نظر نہ آئی تو پھر منال کو کینیڈا، جرمنی اور فرانس کے ماہرِ سماعت ڈاکٹروں کو دکھایا۔ کسی نے بھی کوئی طمانیت بخش جواب نہیں دیا۔
ہمارے پاس تو اتنے پیسے نہیں تھے۔ ارشد بھائی نے سارے اخراجات ادا کیے۔ احمد نے اور میں نے بہت منع کیا کہ ہم نے شکاگو میں دکھا دیا ہے جب یہ ڈاکٹر کسی قسم کی کوئی امید نہیں دلا رہے ہیں تو پھر مزید کیا امید وابستہ کی جاسکتی ہے مگر ارشد بھائی نہیں مانے۔ کہنے لگے، ’’ہمیں کسی قسم کی کوئی تشنگی باقی نہیں رہنا چاہیے۔‘‘
شکاگو میں ہم نے منال کو ISD (Illionois School of Deaf) میں داخل کر دیا۔ پرنسپل نے بتایا کہ ہم اپنے اسکول کے بچوں کو ایک پُراعتماد اور اپنی کفالت کرنے والے شہری بناتے ہیں۔ ہمارے پاس بچوں کو لکھنا، پڑھنا اور Mathematics سکھائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف کام (Technologies) جس میں بچے کا رجحان ہو، سکھائی جاتی ہیں۔ تاکہ وہ ملازمت کرکے ایک عام شہری کی طرح زندگی گزار سکیں۔
اس اسکول میں بچے وہیں رہتے، صرف ہفتے میں دو دن سنیچر اور اتوار کو گھر جاتے۔ منال یہاں بہت خوش تھی۔ ایک ہفتہ کے بعد آتی، اپنے اسکول کی ساری باتیں بتاتی، خوب ساری باتیں کرتی۔ اس کو خوش اور زندگی میں آگے بڑھتے دیکھ کر ہم سب بھی بہت خوش تھے۔
منال نے ہائی اسکول مکمل کر لیا۔ وہ اب ایک خوب صورت اور بااعتماد لڑکی بن چکی تھی۔ ہم سب بھی اس کی کامیابی پر بہت خوش تھے۔ چند دن اسی خوشی میں گزر گئے پھر ایک دن منال نے خواہش ظاہر کی کہ وہ آگے پڑھنا چاہتی ہے اور Gallaudet University میں پڑھنا چاہتی ہے۔
اس یونی ورسٹی کے متعلق معلومات حاصل کیں تو پتا چلا کہ یہ یونی ورسٹی واشنگٹن میں ہے۔ سماعت اور گویائی سے محروم طلبہ کے لیے دنیا کی سب سے بڑی درس گاہ ہے۔ اس جامعہ میں ساری دنیا سے لڑکے اور لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ یہاں کالج سے لے کر پی ایچ ڈی تک کی ڈگری کی تعلیم کا انتظام ہے۔ پوری دنیا میں اس یونی ورسٹی کا جواب نہیں ہے۔ البتہ یونی ورسٹی کی فیس بہت زیادہ ہے سالانہ اخراجات تقریباسینتیس ہزار ایک سو اٹھاسی یو ایس ڈالر تھے۔ ان پیسوں کو ایک ساتھ دینے کے بجائے ماہانہ فیس کے طور پر بھی ادائیگی کی جاسکتی تھی۔ یہ تقریباً تین ہزار یو ایس ڈالر بنتے تھے۔
اگرچہ یہ رقم بہت زیادہ تھی لیکن ہماری منال کے علاوہ کوئی اولاد تو تھی نہیں۔ احمد کی بھی بہت اچھی جاب تھی اور میرا ’’بوتیک‘‘ بھی بہت کامیاب جا رہا تھا۔
البتہ سفر لمبا تھا، ماسٹرز کرنے کے لیے چار سال درکار تھے۔ راشد بھائی نے بھی ہمت بڑھائی۔ انھوں نے فیس کے معاملے میں ہم سے شیئر کرنے کے لیے کہا۔ لیکن ہم نے ان سے یہی کہا، ’’اگر ضرورت ہوگی تو پھر آپ ہی سے لیں گے۔ فی الحال ہمیں کرنے دیں۔‘‘ منال نے کہا ، طلبہ کے لیے قرض کی بھی سہولت ہے میں لون لے لوں گی۔ احمد نے منال سے کہا، ’’تم پیسوں کی فکر نہ کرو، جس مقصد کے لیے تم یونی ورسٹی میں داخلہ لے رہی ہو، اس مقصد کو سامنے رکھو اور دل لگا کر پڑھو۔ ہم لوگ ہیں نا۔‘‘
منال کے ساتھ ہم لوگ بھی گلاڈیٹ یونی ورسٹی گئے۔ ہم دیکھ کر حیران رہ گئے، درس گاہ کیا، یہ تو ایک شہر ہے۔ یہاں درس گاہ کے ساتھ رہائش گاہیں، دکانیں، سپر مارکیٹس، ریستوران سب کچھ موجود ہے۔ یہاں زندگی ہے، محبت ہے، ہم رشتگی ہے، رونقیں ہیں، گہما گہمی ہے۔ ان تمام لوگوں کے رابطے کا ذریعہ اشاروں کی زبان ہے۔ میں ان لوگوں کو دیکھ کر حیران ہو رہی تھی کہ یہ لوگ آپس میں زندگی کے معاملات میں کتنے آرام سے ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے ہیں، خواہ وہ اشاروں کی زبان ہی کیوں نہ ہو۔ یونی ورسٹی میں چند لوگ ایسے بھی تھے جو سن بھی سکتے تھے اور بول بھی سکتے تھے، وہ اپنی خوشی سے یہاں جاب کر رہے تھے لیکن ان سب کے رابطے کا ذریعہ بھی اشاروں کی زبان تھی۔
منال کا ایڈمیشن ہوگیا، اس کی رہائش بھی وہیں کیمپس میں تھی۔ ہم لوگ واپس آگئے۔ منال سے ویک اینڈ پر فون کے ذریعے بات ہوتی رہتی۔ منال کے فون کے ساتھ ایک ٹائپ رائٹر منسلک تھا، منال اپنی بات ٹائپ کرتی۔ ایسے افراد کے لیے ایک آپریٹر چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر رہتی ہے۔ وہ یہ ٹائپ کیا ہوا پیغام پڑھ کر مطلوبہ فرد کو فون کرتی۔ اور پھر اس فرد کا جواب آپریٹر خود ٹائپ کرکے منال کو دیتی۔ اس طرح فون پر گفتگو ہوتی رہتی۔ چھٹیوں میں وہ ہم سے ملنے آجاتی۔
منال ہمیں ای میل بھی کرتی۔ اس کی ای میل سے اندازہ ہوا کہ یہ لوگ کتنے متحرک، کتنے ہوشیار اور با خبر رہتے ہیں۔ انھیں معلوم رہتا ہے کہ دنیا میں کیا ہو رہاہے، کیا ہونے والا ہے؟ یہ سارے دوست مل کر ایک ساتھ شاپنگ کرتے، بیڈمنٹن کھیلتے، فلمیں دیکھتے، اسٹڈی کرتے۔
کبھی کبھی میں سوچتی ’’یہ جگہ منال کے لیے ہی وجود میں آئی ہے اور منال اس جگہ کے لیے وجود میں آئی ہے۔‘‘
منال کے بہت زیادہ دوست نہیں تھے۔ جو قریبی دوست تھے، وہ سب طبقۂ نسواں سے تعلق رکھتے تھے۔ لڑکوں سے دوستی ’’ہائے— ہیلو‘‘ تک تھی۔
منال کا آخری سیمسٹر تھا۔ اس نے آنے کے لیے منع کیا تھا۔ اس نے ای میل کیا تھا کہ ’’پڑھائی بہت ہے، ان چھٹیوں میں نہیں آسکوں گی۔‘‘
ہم نے سوچا اسے سرپرائز دیا جائے اور میں، احمد اور ارشد بھائی اس سے ملنے پہنچ گئے۔ وہ ہمیں دیکھ کر بے حد خوش ہوئی اور حیران بھی۔
منال نے ہمیں ایک لڑکے سے ملوایا کہ یہ میرا دوست بھی اور پڑھائی میں میری بہت مدد کرتا ہے۔ وہ دو سال سے اسی یونی ورسٹی میں پڑھا رہا ہے۔ میں اسے ایک سال سے جانتی ہوں۔ بہت کیئرنگ (caring) اور مخلص ہے۔
ہمیں حیرانی ہوئی کیوں کہ منال لڑکوں سے دوستی نہیں کرتی تھی۔
زین بہت اچھا لڑکا لگا۔ شکل و صورت سے بھی بہت اچھا تھا۔ بات چیت اور رکھ رکھائو میں بھی بہت خوب۔ ارشد بھائی اور احمد کو بھی زین بہت پسند آیا۔ زین کے جانے کے بعد احمد نے پوچھا:
’’کیا تم اسے پسند کرتی ہو، اس سے شادی کرنا چاہتی ہو؟‘‘
منال شرما گئی اور آہستہ سے سر ہلا دیا۔
’’تو پھر تم ہمیں زین کے والدین سے ملوائو۔‘‘ ارشد بھائی نے کہا۔
’’زین کے والدین نیویارک میں رہتے تھے دو سال پہلے ایک حادثے میں ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کے انتقال کے بعد بھائی، بہن یا خاندان کے اور لوگ کوئی بھی زین سے تعلق نہیں رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
دوسرے دن احمد اور ارشد بھائی نے بلا کر زین سے بات کی۔ زیادہ بات احمد ہی کر رہے تھے کیوں کہ ارشد بھائی اشاروں کی زبان تھوڑی بہت سمجھتے تھے۔
دو دن بعد زین اور منال کے کچھ دوستوں کو بلا کر ہم نے ان کی منگنی کر دی اور شادی کی تاریخ بھی سیمسٹر کے بعد کی طے کر لی۔
شکاگو آنے کے بعد میں سوچ رہی تھی، یہ سب اتنی جلدی کیسے ہوگیا۔ ڈر تھا ماں جی ناراض ہوں گی کہ ان کو بتایا بھی نہیں اور منگنی کر دی۔ مگر ماں جی کو جب پتا چلا وہ بہت خوش ہوئیں۔
منال کے سمیسٹر ختم ہونے کے بعد ہم نے شکاگو میں ان کی بہت دھوم دھام سے شادی کی۔ سب ہی دیکھ کر کہہ رہے تھے ’’کتنی خوب صورت جوڑی ہے۔‘‘ رخصت ہو کر منال واشنگٹن چلی گئیں۔ زین نے یونی ورسٹی کے نزدیک دو کمروں کا فلیٹ لے لیا تھا۔ دونوں اپنی زندگی میں بہت خوش تھے۔ رزلٹ کے بعد منال نے بھی اسی یونی ورسٹی میں پڑھانا شروع کر دیا۔ منال نے ہمیں خوشی خوشی ای میل کیا تھا کہ اسے اسی یونی ورسٹی میں جاب مل گئی ہے۔ ہم سب بھی منال کے لیے بہت خوش تھے اور اس کے مستقبل سے مطمئن بھی۔ اب ہمیں یہ خدشہ اور فکر نہیں تھی کہ ’’ہمارے بعد منال کا کیا ہوگا؟‘‘
اس دن منال کا فون آیا، ’’ہم لوگ نانا، نانی بننے والے ہیں۔‘‘ میں خوشی سے اچھل پڑی۔ دل چاہ رہا تھا منال کو لپٹائوں، پیار کروں— سب لوگ اس خبر سے بہت خوش تھے۔ لیکن مجھے دل ہی دل میں یہ سوال بار بار ستا رہا تھا۔ یہ بچہ بھی ان ہی کی طرح ہوا تو—؟
یا پھر یہ بچہ نارمل ہوا تو—؟
لیکن میں نے کسی سے کچھ نہیں کہا۔ شاید سب ہی یہ بات سوچ رہے ہوں گے مگر کہنے کی ہمت نہیں تھی۔
پھر وہ دن آیا جب ڈاکٹر نے بتایا ’بیٹا‘ ہوا ہے۔ ہم سب کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ یہاں پر چوبیس گھنٹے کے اندر بچے کا پورا ’’چیک اپ‘‘ ہوتا ہے کہ آیا بچہ نارمل ہے یا کوئی نقص ہے۔ ایک طرف بے حد خوشی دوسری طرف فکر ’’کیا یہ بچہ اپنے ماں باپ کی طرح ہوگا؟‘‘ کافی حد تک یہی یقین تھا کہ وہ اپنے ماں باپ کی طرح ہی ہوگا۔
نرس بچے کو لے کر آئی ساتھ ہی ڈاکٹر بھی تھی۔
مجھ سے مخاطب ہوئی، آپ کا نواسہ بالکل نارمل ہے۔ ’’مبارک ہو۔‘‘ ڈاکٹر نے بچے کو نرس کی گود سے لے کر میری گود میں دیتے ہوئے کہا۔
ڈاکٹر! کیا یہ سن سکے گا؟ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
’’یہ سن بھی سکے گا اور بول بھی سکے گا۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔ ہم سب بہت خوش تھے اور منال اور زین بھی اس بات سے بے حد خوش تھے کہ ان کی اولاد میں وہ کمی نہیں جو ان لوگوں میں ہے۔
دو ماہ بعد منال نے اپنے گھر جانے کی تیاری شروع کر دی۔ زین اسے لینے آرہا تھا۔
ہم سب دل ہی دل میں پریشان تھے کہ یہ اس بچے کو کیسے پالیں گے، ’گونگے بہروں کی بستی میں‘ میں تو یہ بچہ بھی ویسے ہی ہوجائے گا۔ ہم نے آپس میں ایک دوسرے سے یہ بات کہی بھی تھی۔ لیکن منال اور زین سے کسی نے کچھ نہیں کہا کیوں کہ یہ ان کی اولاد تھی، اور انھیں اس بات کا پورا اختیار ہے کہ وہ اپنی اولاد کو کیسے پالنا چاہتے ہیں۔ ہمیں تو ایک اور غم بھی تھا کہ ان لوگوں کے جانے کے بعد کتنا سناٹا ہو جائے گا۔ زریاب سے کتنی رونق تھی۔ اس کی کلکاریاں پورے گھر میں گونجتی تھیں۔
منال کے جانے کا دن آگیا۔ سامان گاڑی میںرکھا جارہا تھا۔ سب بے حد افسردہ تھے، منال اور زریاب سے جدائی کے سبب۔ ’’چلیں بھئی گاڑی میں بیٹھیں ورنہ لیٹ ہو جائیں گے۔‘‘ احمد نے کہا۔
اتنے میں زین، زریاب کو گود میں لے کر آیا اور میری گود میں ڈال دیا، اور بولا، ’’آج سے یہ آپ کا بیٹا ہے۔ آپ نے جیسے منال کو پالا ہے، اب آپ اسے پالیں گی۔‘‘
میں نے اسے لپٹا لیا۔ میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ شاید تشکر کے آنسو، اﷲ تعالیٰ نے مجھے پچیس برس بعد ایک بیٹا عطا فرمایا تھا۔
ماں جی بھی اپنے پڑنواسے کے ساتھ کھیلتے ہوئے خود بھی بچی بن گئی تھیں۔ ارشد بھائی نے ’’زریاب‘‘ کو تحفۂ خداوندی قرار دیا تھا۔