ڈرائیو وے پر اپنی گاڑی پارک کرکے نیچے اتری تو میں نے دیکھا ایک جانب چھوٹی سی چڑیا نیچے سے اوپر اڑنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن اپنی اس کوشش میں ناکام ہو کر ڈرائیو وے کے سیاہ فرش پر بار بار گرے جارہی تھی— اس کو پکڑنے میں زیادہ دقت نہیں ہوئی۔ جیسے ہی میں نے اس کو پکڑا اس کا ساتھی جو وہیں کہیں موجود تھا زور زور سے چیں چیں کرنے لگا۔ جب میں نے ہاتھ میں چڑیا کو لے کر چلنا شروع کیا تو وہ میرے اردگرد اڑنے لگا اور چیخنے لگا۔ میں نے چڑیا کو ہاتھ میں لے کر دیکھا، وہ زخمی تھی۔ اس کے دائیں پنگوٹھے پر ایک بڑا سا کانٹا پیوست تھا۔
میں اسے گھر کے اندر لے گئی۔ گھائو پر مرہم لگانا بھی ضروری تھا۔ میں نے اس کے ساتھی کو خاموشی کی زبان میں صورتِ حالات سے آگاہ کیا تاکہ وہ پریشان ہونا بند کر دے۔ لیکن وہ چپ نہیں ہوا۔ اس کی چیں چیں گھر کے اندر بھی میری سماعت کو متأثر کرتی رہی۔ میں نے اپنی چھوٹی بہن سیمی کو آواز دی۔ اس نے میرے ہاتھ میں چڑیا دیکھ کر فوری طور پر اسے اپنے ہاتھ میں لینا چاہا۔ لیکن جب میں نے اسے چڑیا کے دائیں بازو میں گھپا ہوا کانٹا دکھایا تو اس کی چیخ نکل گئی۔ ’’ہائے باجی! بے چاری چڑیا چچ— چچ— یا میرے اﷲ۔‘‘ سیمی چڑیا کی تکلیف کا سوچ کر پریشان ہوگئی۔ پھر ہم دونوں نے ڈاکٹر کی طرح اپنے دل کو مضبوط کرکے کانٹے کو چڑیا کے پنکھ سے باہر کھینچ لیا۔ اینٹی سیپٹک سے اس کی ڈریسنگ کی اور اسے ڈریسنگ ٹیبل پر بٹھا دیا۔ چڑیا بھی تھوڑی تھوڑی دیر میں چیں چیں کی آوازیں نکالتی رہی تھی اور اڑنے کی کوشش بھی کرتی رہی تھی۔ لیکن اسی دوران اس نے اپنی چیں چیں بند کر دی تھی شاید اس کے حسیاتی وجود کو یقین ہوچکا تھا کہ وہ دشمنوں سے محفوظ اور دوستوں کی حفاظت میں ہے۔ اس نے اڑنے کی کوشش بھی بند کر دی تھی۔ ڈرائننگ ٹیبل پر وہ اپنے زخمی پنکھ کھولے بائیں کروٹ لیٹ گئی تھی۔ مجھے خدشہ تھا کہ شاید وہ مرنے جارہی ہے۔ سیمی بھی شاید اس کی موت کا ہی سوچ رہی تھی۔ آنسو اس کے سرخ و سفید گالوں تک بہہ نکلے تھے۔ اس کے دونوں ہونٹ کپکپا رہے تھے، ہلکی آواز میں وہ ’’یااﷲ، یا رحمن، یارحیم‘‘ کا ورد کر رہی تھی جو اس کا ہر پریشانی میں معمول تھا۔ اس دوران چڑیا کے ساتھی نے بھی اپنی باطنی حس کی مدد سے ہمیں ڈھونڈ نکالا تھا اور ڈائننگ روم کے بند دروازے کے شیشے پر اپنی چونچ سے ضربیں لگا رہا تھا۔
میں نے سیمی کو لپٹا لیا اور اس کے آنسو خشک کیے پھر چڑیا کو لے کر اوپر اپنے کمرے میں آگئی۔ سیمی بھی میرے ساتھ ساتھ تھی۔ میں نے چڑیا کو ایک کونے میں قالین پر بٹھا دیا۔ وہ بے حسن و حرکت بیٹھ گئی۔ اس نے اپنا صحیح والا بازو بھی نہیں پھیلایا اور نہ ہی اڑنے کی کوشش کی۔ جس جگہ میں نے اسے بٹھایا تھا، وہ میرے حساب سے میرے کمرے کا سب سے محفوظ گوشہ تھا۔ سیمی چڑیا کو کچھ دیر دیکھ کر باہر چلی گئی۔ سیمی کے جاتے ہی میں نے اپنے کمرے کا دروازہ اچھی طرح لاک کر لیا۔ مبادا دادی جان کی پالتو بلی ’’جانم‘‘ کمرے میں تشریف لے آئے اور— اس کے بعد آگے سوچنا میں نے گوارا نہیں کیا۔ البتہ ’’خدا نہ کرے‘‘ میری زبان سے آپ ہی آپ نکل پڑا۔
کمرے میں رات دبے پائوں داخل ہوگئی۔ میں کچھ دیر کتاب پڑھتی رہی اور پھر بغیر آواز کے مالک کی خدمت میں اپنے اس دن کے معروضات پیش کیے جن میں چڑیا کے لیے دعاے صحت بھی شامل تھی۔ اور پھر اپنے آپ کو نیند کے سپرد کر دیا۔ شہر میں رات کیا ہوا، کیا نہیں ہوا، اور دنیا میں کہاں کہاں کیا ہوا، کیا نہیں ہوا، کچھ خبر نہیں۔ البتہ میرے چھوٹے سے کمرے میں جب میری آنکھ کھلی تو دیکھا ہماری مریضہ یعنی چڑیا صاحبہ نہ صرف پھدکتی پھر رہی تھیں بلکہ اڑنے کی کوشش فرما رہی تھیں۔ میں نے بڑھ کر دروازہ کھولا اور پھر بڑی احتیاط سے دروازہ بند کرکے باہر نکل کر حالات کا جائزہ لیا۔ باہر سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا۔ دادی جان کی بلی ’’جانم‘‘ کا بھی دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔ ’’معمول کے مطابق رت جگا منا کر کہیں پڑی اونگھتی ہوگی۔‘‘ میں نے سوچ۔
ہماری مریضہ چڑیا کو دروازہ کھلنے کا احساس ہوگیا تھا۔ میں نے آہستہ سے دروازہ کھولا، کمرے کے اندر نظر ڈالی اور چڑیا کو دیکھنے کے لیے اندر قدم رکھا ہی تھا کہ ہماری مریضہ میرا شکریہ ادا کیے بغیر ’’پُھر‘‘ سے اڑ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔ میں جھپٹ کر اس کے پیچھے گئی، نیچے بیک یارڈ کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور چڑیا اس دروازے سے باہر جاچکی تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ اس گھر میں برسوں سے رہ رہی ہو۔ اور سارے رستوں سے واقف ہو۔ میں بہت خوش تھی کہ چڑیا کا زخم صحیح ہوگیا اور وہ پوری طرح اڑنے کے قابل ہوگئی۔
اوپر آکر میں نے اپنے کمرے کی اس کھڑکی کا رخ کیا جہاں چڑیا کا ساتھی چیں چیں مچا رہا تھا۔ وہ بھی غائب تھا۔
’’وہ رات اپنے گھونسلے میں اپنے دیگر اہلِ خانہ کے ساتھ سونے گیا ہوگا۔‘‘ میری سوچ نے مجھے مطمئن کر دیا۔
’’لیکن یہ کیا؟‘‘ کھڑکی کے نیچے پڑے ننھے پر— دادی کی چہیتی ’’جانم‘‘ چڑیا کے ساتھی کو تناول فرما چکی تھی۔ ننھے ننھے پر اس کی باقیات تھے۔