اتوار کا دن تھا، ہم سب ناشتا کر رہے تھے۔ امی مجھ سے مخاطب ہوئیں، ’’شارمین! آج تمھیں کچن میں میرا ہاتھ بٹانا ہوگا۔ رات کے کھانے پر افتخار عارف بھائی اور عذرا آرہے ہیں۔‘‘
’’امی! یہ لوگ بہت دونوں کے بعد آرہے ہیں نا—؟‘‘
’’ہاں!‘‘ امی نے مختصر سا جواب دیا۔
’’بھئی کھانے میں ریشمی کوفتے ضرور ہونا چاہییں۔ تمھارے ہاتھ کے ریشمی کوفتے افتخار کو بہت پسند ہیں۔‘‘ ابو نے امی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اچھا ہوا آپ نے یاد دلا دیا ورنہ مجھے تو خیال ہی نہیں تھا۔‘‘ امی نے کہا۔
افتخار انکل اور ابو ہائی اسکول سے ایک دوسرے کے دوست تھے اور یہ دوستی اب تک چل رہی تھی۔ امی نے ان کی ضیافت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی، خود بھی خوب تھکیں اور مجھے تھکایا۔
دوسرے دن میں ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ امی صوفے پر آکر میرے پاس بیٹھ گئیں۔ ریموٹ اٹھا کر ٹی وی بند کر دیا، اور بولیں:
’’افتخار بھائی اور عذرا تمھارا رشتہ لے کر آئے تھے، اپنے بیٹے فیصل کے لیے۔ فیصل کینیڈا ماسٹرز کرنے گیا تھا۔ ماسٹرز کرنے کے بعد اسے ٹورانٹو میں اچھی جاب مل گئی اور وہ وہیں کا ہوگیا۔‘‘ تھوڑے توقف کے بعد پھر بولیں، وہ ہمارے گھر کئی مرتبہ آیا ہے، تم نے اسے دیکھا ہے۔ پھر بھی وہ تصویریں دے گئی ہیں، دیکھ لینا۔ ایک مہینے کی چھٹی کرکے وہ پاکستان آرہا ہے اسی دوران وہ لوگ نکاح، شادی، رخصتی سب کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’امی! اتنی جلدی—‘‘ میں چیخ پڑی۔ اور بولی، ’’ہرگز نہیں۔ مجھے آگے پڑھنا ہے۔ آپ انھیں منع کر دیں۔‘‘ میں نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
’’اچھے رشتے روز روز نہیں ملتے۔ تمھارے ابو نے ’ہاں‘ کر دی ہے۔ تصویریں دیکھ لینا۔‘‘ امی نے اٹھتے ہوئے کہا۔
ہماری شادی ہوگئی۔ دونوں خاندانوں کی طرف سے پہلی شادی تھی۔ بڑی دھوم دھام رہی۔ شادی کے بعد بھی اتنا مصروف وقت گزرا کہ کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ دعوتیں، گھومنا پھرنا، شاپنگ اور پھر فیصل کے جانے کا وقت آگیا اور وہ کینیڈا واپس چلا گیا۔
تقریباً چھہ ماہ میں میرے پیپرز مکمل ہوگئے، ویزا مل گیا اور میں کینیڈا پہنچ گئی۔ سچ پوچھیے تو مجھے امریکا، کینیڈا وغیرہ جانے کا بالکل شوق نہیں تھا۔ مجھے اپنا ملک پاکستان بہت پسند ہے اور میں وہیں رہنا چاہتی تھی۔ قسمت مجھے کینیڈا لے آئی۔ لیکن یہاں آکر مجھے بہت اچھا لگا تھا۔ صاف ستھرا، ہرا بھرا شہر۔ لوگ بھی تقریباً سب ہی اچھے ہیں۔ جھوٹ نہیں بولتے۔ وعدہ خلافی نہیں کرتے۔ جھوٹی تعریفیں کرکے اپنا مال نہیں بیچتے، بھروسا کرتے ہیں، اپنی بات پر قائم رہتے ہیں، آگے بڑھ کر دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔ اور سب سے اہم بات، اپنے ملک کے قانون کا احترام کرتے ہیں۔ میں سوچ رہی تھی— ان لوگوں نے مسلمانوں کی ساری اچھائیاں لے لی ہیں۔
ایک دن میں حنا کے ساتھ بازار گئی۔ اس نے سعید بھائی کے لیے کئی شرٹیں خریدیں، اپنے لیے بھی بہت سے ڈریسز لیے۔ میں نے حنا سے پوچھا، ’’تم اتنے سارے کپڑے ایک ساتھ کیوں خرید رہی ہو۔‘‘ کہنے لگی:
’’سب تھوڑی خریدوں گی۔ گھر جا کر پہن کر دیکھوں گی جو ڈریس پسند آئے گا رکھوں گی باقی واپس کر دوں گی۔ واپسی کی جلدی بھی نہیں ہے۔ تین ہفتے واپسی کی مدت ہے۔‘‘ یہ سن کر میں حیران رہ گئی۔ پاکستان میں تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
فیصل بہت کم بولتا ہے۔ کتنی ہی باتوں کا تو جواب ہی نہیں دیتا۔ اس کے دوستوں کا حلقہ بھی محدود تھا۔ چھہ سات خاندان تھے، انھی کے گھر آنا جانا تھا۔ ہم عمروں میں سعید بھائی اور حنا ہمارے گھر کے بہت نزدیک رہتے تھے۔ میری حنا سے بہت دوستی ہوگئی تھی۔ سعید بھائی بھی مجھے اپنی چھوٹی بہن کی طرح سمجھتے تھے۔ فیصل بھی ان دونوں سے بہت بے تکلف تھا۔ دونوں میرا اور فیصل کا بہت خیال رکھتے تھے۔ مجھے یہاں کے طور طریقے سکھانے میں حنا کا بڑا ہاتھ ہے۔ عبیرہ اور احسن کی پیدائش پر بھی دونوں نے بہت ساتھ دیا تھا۔ فیصل کو اور مجھے کہیں جانا ہوتا تو ہم دونوں بچوں کو حنا کے پاس چھوڑ دیتے۔ حنا خوشی خوشی رکھتی اور بچے بھی اس کے پاس بہت خوش رہتے۔
پھر میں نے محسوس کیا فیصل کچھ دنوں سے ان لوگوں کو ناپسند کرنے لگا ہے۔ اکثر ان لوگوں کے جانے کے بعد وہ مجھ سے کسی نہ کسی بات پر جھگڑتا۔ حنا مجھ سے کہیں ساتھ چلنے کے لیے کہتی تو اس وقت تو خاموش ہو جاتا بعد میں کہتا، ’’جانے کی ضرورت نہیں کوئی بہانہ کر دو۔‘‘ شاید اس کا یہ ردِ عمل اس لیے ہو کہ وہ دونوں میرے ساتھ بہت محبت سے رہتے تھے۔ مجھے کوئی اور وجہ سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ میں نے فیصل کے دل و دماغ اور روح میں جھانکنے کی کوشش کی مگر مجھے سارے دروازے مقفل ملے۔ فیصل جیسے انٹروورٹ آدمی سے پہلی بار واسطہ پڑا تھا۔ میرے خاندان میں اس جیسا کوئی نہ تھا۔ وہ شاید نرگسیت میں بھی مبتلا تھا کیوں کہ وہ اپنے سوا کسی دوسرے کے بارے سوچنے سمجھنے سے قاصر تھا۔ وہ اپنے اندر کی خودغرض سوچوں اور مانگوں سے لحظہ بھر نجات حاصل نہیں کر سکتا تھا، شاید نجات کا خواہاں بھی نہیں تھا۔ وہ جاہتا تھا ہر بات اس کی مرضی کے مطابق ہو۔ گھر کے اندر بھی میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کر سکتی تھی۔
پہلے تو صرف جھگڑتا تھا۔ مجھے لڑائی جھگڑے سے بہت گھبراہٹ ہوتی تھی۔ میں اکثر خاموشی اختیار کر لیتی تھی۔ مگر اس پر بھی بات ختم نہیں ہوتی تھی۔ پھر گالیوں پر آگیا۔ میں نے اسے سمجھایا، ’’فیصل! مجھے گالیاں سننے کی بالکل عادت نہیں ہے، بہت تکلیف ہوتی ہے۔‘‘ لیکن اس کا اثر الٹا ہی ہوا۔
احسن دو سال کا تھا تو ہم لوگ پاکستان گئے۔ وہاں میں نے کسی سے بھی فیصل کے اس رویے کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ سب ہمارے آنے سے بے حد خوش تھے۔ میں ان لوگوں کی خوشی برباد نہیں کرنا چاہتی تھی۔ سب کو یہی ظاہر کیا کہ میں بہت خوش ہوں۔
میں نے فیصل سے بہت کہا کہ مجھے تین چار مہینے کے لیے پاکستان میں ہی چھوڑ دو، دونوں بچے بہت چھوٹے ہیں۔ سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مگر وہ نہ مانا اور میں ’’قیدِ بامشقت‘‘ گزرانے ٹورانٹو پہنچ گئی۔
پاکستان سے آنے کے بعد حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوتے گئے۔ فیصل نے اب اکثر ہاتھ اٹھانا بھی شروع کر دیا تھا۔ میں بچوں کی وجہ سے اس رشتے کو نبھانا چاہتی تھی۔ میں کوشش کرتی کہ کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے تلخی پیدا ہو۔ اکثر میری تمام کوششیں بے سود ثابت ہوتیں۔ ایسا لگتا جیسے وہ جان بوجھ کر یہ سب کر رہا ہے۔
اس دن حنا کے گھر ڈنر تھا۔ کافی لوگ جمع تھے۔ کھانے کے بعد چائے، کافی کا دور شروع ہوا اور ساتھ ہی ہنسی مذاق، ایک دوسرے پر جملے کسنا— فیصل نے مجھ سے کہا:
’’شارمین، گھر چلو۔‘‘
میں چلنے کے لیے تیار ہوئی مگر حنا اور سعید بھائی نے ہم لوگوں کو نہیں آنے دیا۔ گھر پہنچے تو فیصل کا موڈ بہت خراب تھا۔ میں نے بچوں کو ان کے کمرے میں لٹایا اور خود اپنے بیڈ روم میں آکر سونے کی تیار کرنے لگی۔
فیصل اچانک میرے بال پکڑ کر بولا، ’’جب میں نے کہا تھا گھر چلو تو فوراً کیوں نہیں اٹھیں۔‘‘
’’میرے بال چھوڑیں مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔‘‘ اس نے مجھے زور سے دھکا دیا۔ میں بیڈ سے نیچے گر پڑی۔ سامنے ہنگر پڑا تھا، اس نے اٹھا کر مارنا شروع کر دیا اور پھر مجھے دھکے دے کر کمرے سے باہر نکال دیا۔ اور خود کمرہ بند کرکے سو گیا۔ صبح کب اٹھا— کب آفس گیا— مجھے نہیں معلوم۔
میں فیملی روم میں آکر بہت روئی، پھر نہ جانے کب مجھے نیند آگئی اور میں صوفے پر ہی لیٹ کر سوگئی۔ جب آنکھ کھلی تو دن نکل چکا تھا۔ اٹھنے کی کوشش کی— اٹھا ہی نہیں جارہا تھا۔ پورا جسم درد کر رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ مجھے مسلسل مار رہا ہے۔ بچوں کو اسکول بھی نہیں بھیجا۔
پھر ہمت کرکے بمشکل تمام اٹھی۔ بچوں کا اور اپنا ضروری سامان سوٹ کیس میں ڈالا اور ٹیکسی بلا کر دونوں بچوں کو لے کر سعید بھائی کے گھر پہنچ گئی۔ سعید بھائی گھر پر ہی تھے۔ وہ دونوں میری حالت دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ان لوگوں کو ہمارے اندرونی حالات کا بالکل علم نہیں تھا۔ بہرحال کسی کو تو یہ سب بتانا تھا۔
سعید بھائی میرے حالات سن کر بہت غصے میں آئے بولے، ’’ابھی پولیس کو کال کرو۔ دماغ صحیح ہو جائے گا۔‘‘
میں نے منع کر دیا۔ ابو اور افتخار انکل کی پرانی دوستی کا خیال آگیا۔
دوسرے دن فیصل آیا اور مجھے گھر چلنے کے لیے کہا۔ میں نے کہا، ’’ایک شرط پر چلوں گی۔‘‘
’’کوئی شرط ورط نہیں۔ چلنا ہے تو چلو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کھڑا ہوگیا۔
میں خاموش بیٹھی رہی۔ وہ تھوڑی دیر کھڑا رہا، پھر چلا گیا۔
میں ایک مہینہ حنا کے گھر رہی۔ فیصل دوبارہ مجھے بلانے نہیں آیا۔ سعید بھائی نے مجھے ایک موبائل کمپنی میں ملازمت دلوا دی۔ فلیٹ بھی کرایے پر مل گیا۔ دو کمروں کا فلیٹ گرائونڈ فلور پر۔ یہ فلیٹ بلڈنگ ان لوگوں کے لیے مختص تھی جو مظلوم اور بے سہارا ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ بلڈنگ میں کرایہ بہت کم تھا۔ بلڈنگ کا بیک یارڈ بہت خوب صورت تھا۔ بڑا سا لان، چاروں طرف پھلوں کے درخت پھولوں کے پودے وغیرہ بہت خوب صورتی سے لگائے ہوئے۔ ہمارے ٹی وی لائونج کا بڑا سا شیشے کا دروازہ اس بیک یارڈ میں کھلتا تھا۔ اس بلڈنگ کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ یہ شہر کے بیچوں بیچ ہے۔ اسکول، یونی ورسٹی، آفسز سب نزدیک۔ بچوں کے اسکول میں ایڈمیشنز بھی کرا دیے گئے ایسا لگا زندگی ایک ڈگر پر آگئی ہے۔
میرے اور فیصل کے راستے جدا ہوگئے تھے۔ وہ بچوں سے فون پر بات کرتا تھا۔ کبھی کبھی ان سے ملنے بھی آتا۔ وہ بچوں سے محبت کرتا تھا، لیکن بچے اس سے نہ ہی ملنا چاہتے اور نہ ہی بات کرنا چاہتے تھے۔ گھر کے حالات نے بچوں کے ذہنوں پر اچھے اثرات مرتب نہیں کیے تھے۔ احسن مجھ سے کہتا:
’’موم میں بڑا ہو جائوں، ڈیڈ سے آپ کے سارے بدلے لوں گا۔‘‘
میں دونوں بچوں کو سمجھاتی۔ وہ تمھارے ڈیڈ ہیں۔ تم لوگوں کو ان کی عزت کرنا چاہیے، ان سے محبت کرنا چاہیے، ہمیشہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے پیش آنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔
وہ بچوں سے ملنے آتا باہر ہی باہر مل کر چلا جاتا۔ نہ ہی میں اسے اندر بلاتی اور نہ ہی اس سے بات کرتی۔ بچوں کے اسکول میں بھی گارڈین کے طور پر میں نے تنہا اپنا نام لکھوایا تھا۔
بہتے دریا کی مانند وقت گزر رہا تھا۔ عبیرہ ہائی اسکول میں آگئی تھی اور احسن کا مڈل اسکول میں یہ آخری سال تھا۔ یہ دونوں بچے میری زندگی، میری کل کائنات تھے۔ میں اپنے بچوں کے ساتھ بہت خوش تھی۔
ایک دن میں ڈاکٹر سارہ کے آفس اپنی رپورٹس لینے گئی۔ کچھ دنوں سے میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی، ڈاکٹر سارہ کے کہنے پر میں نے یہ ٹیسٹ کروائے تھے۔ رپورٹس دیتے ہوئے ڈاکٹر سارہ نے مجھ سے کہا:
’’شارمین! میں جو تمھیں بتانے جا رہی ہوں، تمھیں حوصلے سے سننا ہوگا۔‘‘
ڈاکٹر سارہ سے میری اچھی دوستی تھی وہ میرے تمام حالات سے واقف تھی۔
’’کیا بات ہے، جلدی سے بتا دو، میرا دل بری طرح دھڑک رہا ہے۔‘‘ میں نے کانپتی آواز میں کہا۔
’’تمھیں کینسر ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی میری آنکھوں کے نیچے اندھیرا چھا گیا۔ پوری دنیا گھومنے لگی۔ ذہن میں سب سے پہلے یہ سوال ابھرا۔ ’’میرے بچوں کا کیا ہوگا؟‘‘
ڈاکٹر سارہ نے مجھے بہت تسلی دی اور کہا:
’’گھبرائو نہیں۔ سرجری کرکے یوٹرس نکال دیں گے پھر کوئی خطرے کی بات نہیں ہوگی۔‘‘
مگر ’کینسر‘ لفظ ہی ایسا ہے کہ دل دہل جاتا ہے اور زندگی کی نائو ڈوبتی نظر آتی ہے۔
ایسا محسوس ہوا تھا زندگی میں جیسے سکون آگیا ہے، ہم سب خوش اور مطمئن تھے۔ پھر یہ اتنا بڑا دھماکا— زندگی ایک بار پھر اتھل پتھل ہونے لگی۔
سرجری کی بہت نزدیک کی تاریخ دے دی گئی۔ کیوں کہ بقول ڈاکٹر سارہ ’’جلد از جلد یہ سرجری ہو جانا چاہیے۔‘‘
میں نے صرف اپنے نزدیک کے ایک دو دوستوں کو ہی بتایا تھا جس میں حنا اور سعید بھائی بھی شامل تھے۔ ان دونوں نے اور ڈاکٹر سارہ نے بھی ڈاکٹر بن کر نہیں، دوست بن کر بہت ساتھ دیا۔ سرجری کامیاب رہی۔ تھوڑے عرصے کے بعد مجھے ’’کینسر فری‘‘ قرار دے دیا گیا۔ میں بہت خوش تھی۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ اتنا مشکل مرحلہ اتنی آسانی سے کیسے ختم ہوگیا۔
فیصل کو میری سرجری کا پتا چلا تو اس نے مجھے ’’گٹ ویل سون‘‘ کا کارڑ بھیجا۔ عبیرہ نے میل سے لا کر دیا۔ میں نے ایک نظر دیکھا اور دوسرے کارڈوں میں شامل کر دیا۔ عبیرہ اور احسن نے بھی باپ کے بھیجے ہوئے کارڈ کو کوئی اہمیت نہیں دی۔
سر جری سے قبل رات کو میں اٹھی، کارڈوں میں سے فیصل کے کارڈ کو نکالا اس پر چھپے ہوئے نقش و نگار پر، پھولوں پر اور اس پر لکھے ہوئے ایک ایک حرف پر ہاتھ پھیرتی رہی اور دیکھتی رہی تھی۔
فیصل کے بارے میں شروع زمانے میں حنا سے معلومات حاصل ہوتی رہیں۔ بعد میں یہ ہوا کہ وہ میڈیا کا آدمی بن گیا۔ اس کی زندگی کھلی کتاب بنتی گئی۔ وہ ایک کامیاب بزنس مین بن چکا تھا۔ اس کا چیری کے کاروبار میں کسی کمپنی سے تعلق تھا۔ پہلے اس نے اس کمپنی میں ملازمت کی۔ بعد میں وہ اس کمپنی میں شریک شیئر ہولڈر ہوگیا۔ ایک جانب اس کمپنی میں شیئر بڑھتے گئے، دوسری جانب اس کمپنی نے کاروبار میں تیزی سے ترقی کی اور اپنی حریف کمپنیوں پر سبقت لے گئی۔ فیصل نے بزنس اور کمپنی کے معاملات میں زیادہ سے زیادہ دل چسپی لینا شروع کر دی جو کمپنی کے منافع اور ساکھ کا موجب ثابت ہوئی۔
میں نے محسوس کیا فیصل کے بارے میںبچوں کے رویوں میں تبدیلی آتی جارہی ہے۔ ٹی وی پر جب وہ فیصل کو دیکھتے تو ان کی آنکھوں کی چمک بڑھ جاتی۔ بلڈنگ کے لوگوں پر بھی یہ حقیقت آشکار ہوچکی تھی کہ فیصل سے ہم لوگوں کا کیا رشتہ ہے۔ یوں تو اس ملک میں کوئی کسی کے معاملے میں دخل نہیں دیتا۔ لیکن چوں کہ یہ بلڈنگ خاص لوگوں کے لیے بنائی گئی تھی اس لیے کچھ آوازیں اٹھیں۔ میں نے جب یہ محسوس کیا تو بلڈنگ کے لوگوں سے زیادہ سوشلائز کرنے لگی اور جانے انجانے اپنے فارغ اوقات میں بلڈنگ کے رہائشی لوگوں کے لیے ممکنہ فلاحی کاموں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔
بلڈنگ کے بچوں کے لیے کوچنک کلاسز اور لڑکیوں کے لیے کڑھائی، سلائی سکھانے کی ابتدا کی۔ احسن اور عبیرہ بھی ہمارے ساتھ تھے، بلڈنگ کے کچھ لوگ بھی شامل ہوگئے۔ کامیابی نہیں کامیابیاں جیسے ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔ بلڈنگ میں ہمارے دونوں پروجیکٹ نتیجہ خیز ثابت ہو رہے تھے۔ ایک انقلاب سا بپا ہوگیا تھا۔ بلڈنگ کی خواتین اس کے علاوہ چھوٹے موٹے دوسرے فلاحی کاموں میں بھی مصروف ہوچکی تھیں۔ بے سہارا خواتین سہارا دینے والی خواتین بن چکی تھیں۔
ہم لوگ جلد ہی حکومت کی اجازت سے طالب علموں کے لیے ایک ٹیوشن سینٹر اور لڑکیوں کے لیے سلائی کڑھائی سکھانے کے لیے درس گاہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ قابل اساتذہ سے خدمات حاصل کیں اور اسی طرح سلائی کڑھائی کے لیے مستند، پیشہ ور ماہرین کا انتخاب کیا۔ ان کی تنخواہوں کے لیے مالی اعانت کی اپیلیں کیں۔
ایک دن میڈیا والے ہماری بلڈنگ میں گھس آئے اور میں ان کے گھیرے میں آگئی۔ میڈیا کا ہر فرد ہماری ہمت، حوصلے اور وژن کی داد دینے کے ساتھ مجھ سے یہ سوال ضرور کر رہا تھا کہ ’’آپ کے رفیقِ حیات کہتے ہیں کہ آپ ’خاتونِ خانہ‘ ہیں لیکن ہمیں تو آپ ایسی نہیں لگتیں۔‘‘
میں نے ہر کسی سے یہ سوال سنا اور پھر سب سے مخاطب ہو کر ایک مختصر سا جواب دیا، ’’آپ لوگوں نے خاتونِ خانہ کا ایسا روپ بھی دیکھ لیا جو آپ نے اس سے پہلے نہیں دیکھا ہوگا۔‘‘
ایک چونکا دینے والے تجربے سے گزرتے ہوئے میں نے یہ بھی دیکھا کہ جو لوگ معترض تھے وہ بھی ہم سے رابطے کر رہے تھے اور ہمارے کام کی تعریف کر رہے تھے۔ میں بے حد خوش تھی۔ پہلی بار صرف اور صرف اپنی زندگی جینے کے بجائے خلقِ خدا کی زندگی جی رہی تھی۔
حنا اکثر و بیشتر فیصل کا ذکر چھیڑ دیتی۔ اس کے خیال میں فیصل کے بارے میں مجھے سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ وہ کہتی، ’’دیکھو شازمین یہ کھلی زیادتی ہے جو تم اپنے اور فیصل کے ساتھ روا رکھ رہی ہو۔‘‘
’’کیسی زیادتی؟‘‘
’’یہ زیادتی نہیں ہے تو اور کیا ہے۔ خود بھی اکیلی ہو اور وہ بھی— اس نے اتنے برس کے بعد بھی شادی نہیں کی۔‘‘
’’حنا! تم بھی کیا بچوں کی سی باتیں کر رہی ہو۔ وہ دولت کما رہا ہے۔ اسمبلی میں بھی پہنچ گیا ہے، سنا ہے کسی سیاسی پارٹی کی طرف سے۔ اس کو کسی شارمین کی کیا ضرورت ہے۔ نجانے کتنی شارمینیں اس پر واری ہو رہی ہوں گی۔‘‘ میں نے حنا کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’تم کو معلوم ہے میڈیا والے جب فیصل سے پوچھتے ہیں:
’آپ اپنی مسز کو ساتھ لے کر کیوں نہیں چلتے تو وہ کیا جواب دیتا ہے؟‘
’ہاں! یہی کہ ’مسز شارمین فیصل خاتونِ خانہ ہیں۔‘ میں نے حنا سے کہا۔
’’شارمین! پھر بھی—‘‘ حنا، فیصل کی وکالت کر رہی تھی۔
حنا میں اور مجھ میں اس ایک ہی انداز کی بحث و تمحیص وقفے وقفے سے ہوتی رہتی تھی۔ سعید بھائی کا مؤقف بھی حنا کے مؤقف سے ملتا جلتا تھا۔ دونوں کی یہی خواہش تھی کہ میرے اور فیصل کے درمیان سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے۔
اسی دوران سعید بھائی کا ٹرانسفر ہوگیا۔ چھہ سات گھنٹے کی ڈرائیو تھی۔ وہ دونوں مجھے چھوڑ کر مانٹریال چلے گئے۔ اتنے مخلص لوگوں کی جدائی مجھے تنہا کر گئی۔ دونوں کی جوڑی بھی خوب تھی۔ ان کے ہاں اولاد نہیں ہوئی۔ دونوں میں کوئی نقص بھی نہیں تھا۔ بس اﷲ کی رضا کی دیر تھی— لوگوں نے بچہ گود لینے کی تجویز پیش کی مگر دونوں نے انکار کر دیا۔ دونوں ایک دوسرے میں مگن تھے، خوش تھے اور حنا بہ رضاے الٰہی—
فیصل کے بارے میں روز بروز میری معلومات میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ اس کو شخص سے شخصیت میں تبدیل ہوتا ہوا محسوس کرکے کبھی کبھی میں یہ سوچنے لگتی کہ یہ، وہ فیصل کیسے ہوسکتا ہے جو ایک انتہائی چھوٹے ذہن کا اپنے اندر میں سکڑا، سمٹا، خود پسند، خود غرض، نرگسیت کا مارا آدمی تھا۔ کسی شخص میں اتنی تبدیلی، اتنا واضح میٹا مورفوسس ہونا ناممکن ہے؟
ماہرِ نفسیات سے علاج— لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس کو کسی ماہرِ نفسیات سے مدد لینے کی چاہت ہی کیوں پیدا ہوئی— مجرم ضمیر— لیکن احساسِ جرم کہاں سے آیا—؟ کیا اس کے عقب میں شارمین، تم— تم ہو— کوئی میرے اندر دبی آواز میں کہتا۔
فون کی گھنٹی بجی— کس کا فون ہوسکتا ہے، یہ نمبر یاد نہیں آرہا، میں نے نمبر دیکھ کر سوچا۔
’’ہیلو!‘‘ میں نے کہا۔
دوسری طرف فیصل کا سیکریٹری تھا، کہنے لگا:
’’کل رات فیصل کے دل میں شدید درد کی وجہ سے وہ اسے ہسپتال لے کر آیا ہے۔ وہ بے ہوش ہوگیا تھا۔ ڈاکٹر کے مطابق اسے ’’ہارٹ اٹیک‘‘ ہوا ہے۔ ہوش آنے پر اس نے مجھے بلوا کر تمھیں فون کرنے کے لیے کہا ہے۔‘‘ پھر کچھ توقف کے بعد بولا، ’’شارمین! اس وقت فیصل کو تمھاری ضرورت ہے۔‘‘
’’میں ہسپتال پہنچتی ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔
یہ معلوم کرکے وہ کون سے ہسپتال میں ہے، میں نے فون رکھ دیا۔
دونوں بچوں کو ناشتا دینے کے بعد میں نے بچوں سے کہا، ’’تمھارے ڈیڈ کی طبیعت خراب ہے۔ وہ ہسپتال میں ہیں، میں انھیں دیکھ کر آتی ہوں پھر تم دونوں کو لے کر چلوں گی۔ ڈیڈ کی صحت اور زندگی کے لیے دعائیں کرنا۔‘‘
ہسپتال کے راستے میں رک کر میں نے ایک اچھا سا گل دستہ خریدا۔
گل دستہ خریدنے کے دوران میرے وجود کا اندرون فیصل کے لیے دعائیں مانگتا رہا۔ اسی کیفیت میں ڈوبی ہوئی میں اسپتال پہنچ گئی۔
انکوائری پر ہی فیصل کا سیکریٹری کھڑا مل گیا۔ شاید وہ میرا انتظار کر رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر بولا:
’’تم شارمین ہو؟‘‘
’’جی۔‘‘ میں نے مختصر سا جواب دیا۔
اس نے مجھے انتظار گاہ میں بٹھایا اور خود میرے ملنے کے لیے ڈاکٹروں سے اجازت لینے چلا گیا۔ ڈاکٹر کسی کو ملنے نہیں دے رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے، ’’فیصل کی حالت ٹھیک نہیں ہے، وہ بار بار بے ہوش ہو رہا تھا۔ ہم کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
سیکریٹری کے بہت اصرار پر مجھے چند لمحوں کے لیے ملنے دیا گیا۔ مجھے دیکھتے ہی فیصل کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ اس نے میرے دونوں ہاتھ تھام کر کہا، ’’شارمین! واپس آجائو۔‘‘
وہ بے حد کم زور دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے پیشانی پر سے اس کے بالوں کو ہٹایا۔ پیار سے اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور پھر اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ میری آنکھوں سے بھی مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ اتنے میں کارڈیو لوجسٹ ڈاکٹر ہیریسن داخل ہوئے۔ مجھے باہر جانے کے لیے کہا گیا۔
میں باہر جاکر کھڑی ہوگئی۔ میرے ہونٹ متحرک تھے۔ میں دل ہی دل میں بارگاہِ رب العزت میں سجدہ ریز ہو کر فیصل کی درازیِ عمر کی بھیک مانگ رہی تھی۔
باہر نکل کر میں نے گھر جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا اور فون پر بچوں سے بات کی۔ بچے اپنے ڈیڈ کی حالت پوچھتے ہوئے رو رہے تھے۔ بچوں نے بتایا، حنا اور سعید بھائی وہاں پہنچ گئے ہیں۔ حنا نے مجھ سے بات کی، ’’شارمین حوصلہ رکھو۔ میں ہسپتال آرہی ہوں۔ تمھارے ساتھ رہوں گی۔ سعید بچوں کا خیال رکھیں گے۔‘‘
بچے ہسپتال آنے کی بہت ضد کر رہے تھے۔ میں نے سمجھایا، جیسے ہی ڈاکٹر، فیصل سے ملنے کی اجازت دیں گے، میں تمھیں فوراً بلوا لوں گی۔‘‘
حنا آتے ہی مجھ سے لپٹ گئی۔ میں بھی اس کے گلے لگ کر خوب روئی۔ حنا نے بتایا کل رات فیصل کے سیکریٹری نے ہمیں فون کرکے بتایا تھا۔ فجر کی نماز پڑھ کر ہم لوگ یہاں آنے کے نکل گئے تھے۔
’’میڈم آپ کے شوہر کی حالت کافی بہتر ہے۔ وہ زندہ رہنے کے لیے خود بھی کوشش کر رہا ہے۔ اس کو نیند کا انجکشن لگا دیا ہے، وہ سو رہا ہے۔ آپ اسے باہر سے دیکھ سکتی ہیں۔ اندر مت جانا۔‘‘ ڈاکٹر ہیریسن یہ مجھ سے کہتے ہوئے چلے گئے۔
’’میں نے باہر سے کھڑے ہو کر فیصل کو دیکھا۔ اس کے چہرے پر زندگی کی چمک لوٹ آئی تھی۔‘‘
حنا نے میرے ساتھ ہسپتال میں رات گزاری۔ صبح ڈاکٹر نے یہ خوش خبری سنائی کہ ’’فیصل کو وارڈ میں شفٹ کیا جارہا ہے۔ اب فیصل کی حالت خطرے سے باہر ہے۔‘‘
فیصل کی، میری اور بچوں کی زندگی میں ایک نیا موڑ آگیا تھا۔
میرے کہنے پر فیصل نے ایک ٹرسٹ قائم کر دیا تھا۔
’’فیصل شارمین ہیومن ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کے نام سے۔
میں نے بلڈنگ والے سارے کام جاری رکھے تھے بلکہ فیصل نے ان کو مزید وسعت دے دی تھی۔