اگر آپ کبھی سانگھڑ گئے ہیں تو آپ نے یہ محسوس کیا ہوگا کہ سندھ کے سب شہروں کے مقابلے میں سانگھڑ ایک خاص خوش بو رکھتا ہے۔ آپ خواہ نواب شاہ ریلوے اسٹیشن سے سانگھڑ میں داخل ہوں یا شہداد پور سے لیکن سانگھڑ کی حدود شروع ہوتے ہی ایک خاص خوش بو آپ کا استقبال کرے گی، بلکہ آپ کے پورے حسی وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ کہتے ہیں سانگھڑ کا علاقہ اگلے زمانے میں باغوں کا علاقہ تھا۔ شہر چھوٹا سا تھا لیکن اپنے باغوں کی بدولت سندھ کا لاہور کہلانے لگا تھا۔ اب وہ بات نہیں رہی تھی۔ باغ دھیرے دھیرے غائب ہوگئے تھے۔
وقت نے سانگھڑ سے باغ چھین لیے۔ باغ تو چلے گئے لیکن سانگھڑ کی فضائوں میں رچی بسی خوش بوئیں برسوں کے بعد بھی باقی ہیں۔ کہتے ہیں انسان دنیا سے چلا جاتا ہے لیکن اس کی روح ان مقامات کے چکر لگاتی رہتی ہے جہاں اس نے اچھے بُرے دن گزارے ہوتے ہیں۔ شاید سانگھڑ کے باغوں کی ارواح کو بھی یہی شوق ہوگیا ہے۔ وہ سانگھڑ کے چکر لگاتی رہتی ہیں اور یہ کہ ان کا کثرت سے آنا جانا ہے جس کے سبب سانگھڑ میں ایک مخصوص خوش بو پائی جاتی ہے۔
میں نے سانگھڑ ہائی اسکول سے میٹرک کیا تھا۔ میٹرک کرتے ہی مجھے والدین نے حیدرآباد بھیج دیا تاکہ میں آگے پڑھ سکوں۔ ایسا نہیں تھا کہ سانگھڑ میں کالج نہیں تھا، ایک چھوڑ دو کالج تھے مگر حیدرآباد میں میرے تایا رہتے تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ میں ان کے ساتھ رہوں۔ میرے والد ملازمت کے سلسلے میں اسلام آباد میں رہتے تھے۔ تایا نے کراچی جاکر ایک نئی فیکٹری قائم کر لی تھی اور وہ مجھے اپنے ساتھ کراچی لے گئے۔
سانگھڑ چھوڑنے کے بعد میں کوئی تیسری بار وہاں جارہا تھا۔ سانگھڑ میں میرے تین دوست رہتے تھے، بشیر، اکبر اور جیٹھا نند۔ میں ان تینوں دوستوں کو دوست، بھائی سب کچھ مانتا تھا۔ اب کی مرتبہ میں نے ان تینوں کو بہت پریشان پایا۔
ان کی پریشانی کچھ فلمی سی تھی۔ میرا خیال ہے کہ محبت صرف سینما کے پردے پر اچھی لگتی ہے۔ اصل زندگی میں اس کا وجود کہاں—؟ بہرحال بشیر مجھ سے مختلف خیالات کا مالک نکلا۔ وہ ایک حسینہ کا دیوانہ ہوچکا تھا۔ سانگھڑ رومان وغیرہ کے سلسلے میں بالکل بنجر شہر تھا۔ شاہی بازار میں صبح سے شام تک چکر لگائیں، آپ کو کوئی خاتون نظر نہیں آسکتی۔ یہ اور بات ہے کہ آپ کسی سات برس یا اس سے کم عمر لڑکی یا ساٹھ برس سے زیادہ عمر کی صنفِ نازک سے تعلق رکھنے والی ہستی کو خاتون کہنے پر مصر ہوں۔
بشیر، اکبر اور جیٹھانند نے دن رات کی منطق بازی سے مجھے اس بات پر راضی کر لیا کہ میں بشیر مغل کے عشق میں مددگار بنوں۔ اس سلسلے میں مجھے صرف یہ کرنا تھا کہ ہدایت اﷲ تونیو کو راستے سے ہٹانا تھا۔ اس سلسلے میں مجھے اس کا قتل وغیرہ نہیں کرنا تھا (کاش! اس وقت میں یہ جان سکتا کہ کچھ کام قتل سے بھی زیادہ بھیانک ہوتے ہیں) بلکہ مجھے تو صرف یہ کرنا تھا کہ ہدایت اﷲ سے دوستی کرکے اس کی ملاقات اس ٹولے سے کرادوں جس نے جمڑائو نہر کے ریگولیٹر والی تفریح گاہ کے قریب ایک اوطاق میں منشیات کا اڈہ قائم کر رکھا تھا۔ اس کام کے لیے میرا انتخاب اس لیے کیا گیا تھا کہ میں ہدایت اﷲ کے لیے اجنبی تھا۔ سب کا خیال یہی تھا کہ ہدایت اﷲ کو ان لوگوں اور نشے میں الجھا کر بشیر مغل کے لیے راستہ صاف کیا جاسکتا ہے اور ہوا بھی یہی— میں اپنا یہ فرض انجام دے کر واپس کراچی چلا گیا اور پھر دوبارہ سانگھڑ گیا تو اپنے دوست بشیر احمد مغل کی شادی میں شریک ہونے کے لیے۔ ہمارا دوست اپنے رومانس میں کامیاب ہوچکا تھا اور اس کی اس کامیابی میں میرا اہم کردار تھا، یہ سوچ کر میں پھولے نہیں سما رہا تھا۔
شادی کی رات جب دعوت میں مہمان کھا پی کر رخصت ہو رہے تھے میں کسی کام سے اس جگہ گیا جہاں غریبوں اور بھکاریوں میں ضیافت کے بعد کا بھت تقسیم کیا جارہا تھا۔ مجھے یوں لگا جیسے ان لوگوں میں ہدایت اﷲ بھی موجود تھا۔ میلے کچیلے سیاہ چرم جیسے کپڑے۔ جو جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے تھے، ہڈیوں کا ڈھانچا بدن، چہرہ جیسے مدتوں سے نہ دھلا ہو اور ماحول سے بے نیاز آنکھیں دیکھ کر بھی، نہ دیکھنے والی— جو منشیات کے عادی افراد اور خاص طور پر ہیروئنچیوں کے لیے مخصوص ہیں— میں جس کام سے وہاں گیا تھا وہاں سے نمٹ کر اپنے ہنستے کھیلتے دوستوں میں شامل ہوگیا۔ لیکن ہدایت اﷲ کا بے نور چہرہ بار بار میری نگاہوں کے سامنے آجاتا، جیسے وہ مجھے گھور رہا ہو۔
شادی کے تیسرے دن میں وقت نکالنے میں کامیاب ہوگیا اور سیدھا سول اسپتال کے عقب میں نظامانی پاڑے میں جاپہنچا۔ جہاں ایک کوٹھی نما مکان میں ہدایت اﷲ تونیو کے والد رئیس اﷲ بخش تونیو رہا کرتے تھے۔ لوگوں نے بتایا اپنے اکلوتے بیٹے کو ہیروئن سے چھٹکارا دلانے کی کوشش میں ناکام ہو کر رئیس اﷲ بخش نے نہر میں چھلانگ لگا دی۔ جب کہ ہدایت اﷲ کی ماں لالی بیگم چریا (پاگل) ہوگئی تھی جنھیں باندھ کر رکھا جاتا تھا۔ اور اگر باندھ کر نہ رکھا جائے تو وہ کوٹھی سے بغیر چادر کے باہر نکل جاتی تھیں۔ جائیداد پر کسی دور کے چچا نے قبضہ کر لیا تھا۔ اور وہ ظالم یا اس کے کارمدار ہدایت اﷲ کو کوٹھی کے آس پاس بھی دیکھ لیتے تو اس پر کتے چھوڑ دیا کرتے۔ وہاں سے وزنی دل اور بوجھل قدموں کے ساتھ واپس لوٹا۔ میں بشیر احمد مغل کی خوشیوں کو ملیا میٹ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ البتہ اکبر نظامانی اور جیٹھانند کو میں نے یہ باتیں بتائیں تو انھوں نے کہا کہ ہمیں یہ سب کچھ پہلے ہی معلوم ہے۔ میں ان دونوں کو ساتھ لے کر کسی سے مانگی ہوئی جیپ میں ہدایت اﷲ کی تلاش میں نکل پڑا— ہمیں زیادہ پریشان ہونا نہیں پڑا۔ جلد ہی اس کے بارے میں اطلاع مل گئی۔ ٹیلی فون ایکسچینج کی نئی عمارت کے عقب میں ایک امیر شخص نے غریبوں کے لیے لنگر کا اہتمام کیا تھا۔ لوگوں نے اسے وہیں جاتے دیکھا ہے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو وہ وہاں سے جاچکا تھا۔ مزید پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ وہ اس ٹیکری کی جانب گیا ہے جس کو سروائی فقیر کی ٹیکری کہتے ہیں۔ اس ٹیکری پر چڑھنے کے لیے ہمیں جیپ چھوڑنا پڑی۔ جیٹھانند اور اکبر نظامانی شرما شرمی میرے ساتھ تھے ورنہ انھیں پورے معاملے سے شاید کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ میں اکیلا ہی ٹیکری پر چڑھنے لگا جیسے جیسے میں اوپر چڑھ رہا تھاکتوں کی آوازیں میرے کان کے پردے پھاڑ رہی تھیں۔ یوں لگ رہا تھا جیسے سارے شہر کے کتے ٹیکری پر جمع ہو کر بھونک رہے تھے۔ بالآخر جب میں ٹیکری کے اوپر پہنچا تو میری آنکھوں نے وہ نظارہ دیکھا جو میں زندگی بھر نہیں بھول سکوں گا۔ کتوں نے ہدایت اﷲ کو گھیر رکھا تھا، وہ اخبار کی ایک پوٹلی کو کتوں کی دسترس سے بچانے کے لیے اس پر سجدے کی حالت میں گرا ہوا تھا۔ میں نے کتوں کو للکارا اور ان کی طرف پتھر بھی پھینکے لیکن وہ تعداد میں بہت زیادہ تھے، اس لیے شاید میری للکار اور پتھر کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ ہدایت اﷲ پر جھپٹ جھپٹ کر بھونکتے رہے۔ میں تیزی سے الٹے پائوں بھاگا اور جب دوبارہ اکبر نظامانی اور جیٹھانند کے ساتھ ٹیکری پر پہنچا تو کتوں کے بھونکنے کی شدت میں کمی آچکی تھی، لنگر کے چاول بکھرے پڑے تھے اور ایک خونی لکیر ان چاولوں سے ہوتی ہوئی ٹیکری کے دوسری جانب جارہی تھی۔ ہم تیز قدموں کے ساتھ اس لکیر کے تعاقب میں چلے۔ نیچے ٹیکری کے آدھی ڈھلان پر ایک ببول کے پیڑ کے پاس ہدایت اﷲ بے سدھ پڑا تھا۔ لہولہان جسم کے ساتھ— میں اس کے جسم پر جھکا تو مجھے یوں لگا کہ اس کے چہرے پر آنکھوں کی جگہ دو پتھر جڑے ہوئے تھے۔ وہ مرچکا تھا۔
سانگھڑ سے واپس ہوتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ راستے میں وہ خوش بو نہیں ملی جو سانگھڑ کی پہچان تھی، شاید میں نے اس خوش بو کا خون کر دیا تھا یا میرے اندر سے پھوٹنے والی بدبو نے اس خوش بو کا گلا گھونٹ دیا تھا۔ میں اپنے اندر کی بدبو کو صاف محسوس کر رہا تھا۔ یہ بدبو سروائی فقیر کی ٹیکری سے میرے ساتھ لگی تھی— اور پھر وہ لکیر— لہو کی— جو مرحوم یا مقتول ہدایت اﷲ کے جسم پر ختم ہوئی تھی۔
’’آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ ضرور کچھ ہو رہا ہے میرے ساتھ— جیٹھانند، اکبر نظامانی اور اس المیے کا اصل کردار بشیر احمد مغل، کیا واقعی یہ سب اس معاملے سے اتنے ہی لاتعلق ہیں جتنا وہ ظاہر کر رہے ہیں— یہ بدبو کب ختم ہوگی اور یہ لکیر مجھے کہاں تک لے جائے گی—؟ رئیس اﷲ بخش تونیو کی طرف— یا ہدایت اﷲ کی والدہ لالی بیگم کے پاگل پن کی طرف— یا پھر خود ہدایت اﷲ کی طرف— نشہ— کتے اور موت!!‘‘