جیسے ہی میں نے اپنے آفس میں قدم رکھا، میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ آج دونوں بہنیں سارہ اور حنا اپنی امی کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں۔
پانچ سال سے یہ تینوں میری patient's list میں ہیں یا یوں سمجھ لیجیے پانچ سال سے میں ان کی فیملی ڈاکٹر ہوں۔ اس طویل عرصے میں سارہ اپنی چھوٹی بہن یا اپنی ماں کے ساتھ کبھی نہیں آئی۔ دونوں بہنوں میں ہمیشہ اختلاف رہتا تھا۔ دونوں بہنیں ایک دوسرے کی برائی کرتی رہتی تھیں۔ ضعیف العمر ماں کو حنا ہی سنبھالتی تھی جب کہ اسے جوب بھی کرنا ہوتی تھی اور مجھے یہ بھی علم تھا کہ گھر کے سارے کام حنا ہی نمٹاتی ہے۔
کبھی کبھی راشدہ بیگم اپنی بڑی بیٹی سارہ کے لیے بڑے دکھ سے کہتیں، ’’سارہ بہت خود غرض ہے، اپنے مطلب پر نظر رکھتی ہے۔ ساتھ رہتی ہے لیکن کیا مجال جو کبھی اپنی ماں یا چھوٹی بہن کا خیال کرے۔ میں کتنی ہی بیمار ہوں، اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘
میں نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے دیکھا راشدہ بیگم نے اپنے ہاتھ عجیب طریقے سے رکھے ہوئے تھیں۔
’’آپ کے ہاتھ کو کیا ہوا؟‘‘ میں راشدہ بیگم سے مخاطب ہوئی۔ اس سے پہلے وہ مجھے جواب دیتیں سارہ بولی:
’’حنا ان کو پارک لے کر گئی تھی، یہ بیچ پر بیٹھی تھیں، پارکنگ ایریا بالکل نزدیک تھا، ایک بڑی عمر کے شخص نے گاڑی نکالتے وقت بریک کے بجائے ایکسیلیٹر دبا دیا۔ گاڑی نے بنچ کو اڑا دیا مگر شکر ہے رب کا امی بچ گئیں۔ ان کے ہاتھ میں چوٹ آئی ہے اور گرنے کی وجہ سے جسم میں بھی۔‘‘
میں دل میں سوچ رہی تھی، چلو دیر میں ہی سہی سارہ کے دل میں ماں کی محبت تو جاگی۔
میں نے ان کا اچھی طرح معائنہ کیا، احتیاطاً ایکسرے بھی لکھ دیا اور فزیو تھراپسٹ کے لیے لیٹر بھی دے دیا۔ فزیو تھراپی کروانے کی تاکید کی تاکہ تکلیف کم ہو جائے اور دوائیاں بھی دیں۔
اٹھتے اٹھتے سارہ بولی:
’’ڈاکٹر! ہم اس شخص پر کیس کرنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں آپ کا لیٹر چاہیے ہوگا وکیل کو دینے کے لیے۔‘‘
اوہ! تو یہ وجہ ہے، سارہ کے ساتھ ہونے کی۔
یہ لوگ اس شخص کو سُوْ کرکے اس سے رقم اینٹھنا چاہتے ہیں۔
میں اپنے اندر مسکرائی۔ اندر ہی اندر میں نے یہ بھی سوچا کہ سارہ کے ان کے ساتھ آنے اور آگے بڑھ کر بولنے کا مقصد اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ دوسری پارٹی سے وصول کی ہوئی رقم میں اپنے لیے بڑا حصہ یقینی بنائے؟
نئی نسل کو آئی، می، مائن کی مادّی اخلاقیات سے جوڑنے والے حنا کو کس زمانے، کس نسل اور کس ایتھکس سے جوڑیں گے؟ میرے اندر نے یہ سوال کیا— اپنے آپ سے۔
یہ مجھے کیا ہو رہا ہے، میں یہ سب کیوں سوچ رہی ہوں؟ میں ڈاکٹر ہوں، سائیکاٹرسٹ بھی نہیں— میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا اور سارہ کی ملتجی یا شاید لالچی نظروں میں نظریں ڈالتے ہوئے بولی: ’’ٹیسٹ رپورٹ آجائے، پھر دیکھتے ہیں۔‘‘
میرا یہ جواب سن کر سارہ کا کھلا ہوا چہرہ مرجھا گیا۔ وہ تیزی سے پلٹی اور کلینک سے باہر نکل گئی۔
حنا نے ہمیشہ کی طرح پورے اہتمام سے ’’تھینک یو ڈاکٹر— بائی— اپنا خیال رکھیے‘‘ کہا۔ راشدہ بیگم نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے مجھے دعائیں دیں۔ حنا اپنی ماں کی کرسی دھکیلتی ہوئی کلینک سے باہر گئی۔