’’احمد! ایک بات بتائیے۔ آپ کی شادی ہوگئی، اظہر جو آپ سے چھوٹے ہیں ان کی بھی شادی ہوگئی بلکہ ان کی شادی تو آپ کی شادی سے بھی پہلے ہوگئی مگر آپی جو آپ سے بھی بڑی ہیں، ان کی شادی کا کوئی ذکر نہیں۔‘‘
میں نے آج موقع جان کر احمد سے پوچھ ہی لیا۔
احمد نے چائے کی پیالی میز پر رکھی اور مجھے قریب آنے کا اشارہ کیا۔ میں ان کے پاس صوفے پر آکر بیٹھ گئی۔
احمد نے بڑے پیار سے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور سرگوشی کے انداز میں بولے:
’’کیا یہ بڑی بات نہیں کہ ہماری شادی ہوگئی—‘‘
’’تمھیں یہ تو معلوم ہے کہ میرے خاندان والے ہماری شادی کے لیے بڑی مشکل سے راضی ہوئے تھے— مگر کیسے—؟ وہ تمھیں معلوم نہیں— آج میں تمھیں بتاتا ہوں۔‘‘
ایک دن میں ہاسپٹل سے گھر آیا تو گھر میں سب لوگ جمع تھے تایا سائیں، تائی جی، بی بی (پھوپھی) اماں، بابا سائیں وغیرہ۔ مجھے بلایا گیا اور یہ مشترکہ فیصلہ سنایا گیا کہ تمھاری شادی جہاں تم چاہ رہے ہو وہاں نہیں ہوسکتی کیوں کہ ہمارے ہاں خاندان سے باہر شادیاں نہیں کی جاتیں۔ اور تمھاری پسند تو ہماری زبان اور ہمارے کلچر سے بھی باہر ہے۔
میں نے جواب میں صرف یہ کہا، مجھے آپ سب کا فیصلہ منظور ہے۔ مگر آپ لوگ مجھے کبھی شادی کرنے کے لیے نہیں کہیں گے۔ اور اگر آپ لوگوں نے مجھ سے زبردستی کی تو میں گھر یا شاید یہ ملک ہی چھوڑ کر چلا جائوں—
اس کے بعد میں وہاں سے خاموشی سے اٹھ گیا۔
بابا سائیں مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ پتا نہیں کس طرح— انھوں نے سب کو راضی کر لیا۔
دو ہفتے کی خاموشی کے بعد اچانک بابا سائیں مجھ سے بولے:
نازیہ کے گھر کب چلنا ہے؟
میں خوشی کے مارے ان سے لپٹ گیا۔ اور وہ میرے سر پر اسی طرح ہاتھ پھیرنے لگے جیسے میں چھوٹا سا بچہ ہوں۔ احمد تھوڑی دیر خاموش رہے پھر بولے، ’’آپی کے لیے خاندان بھر میں کوئی لڑکا نہیں تھا۔ تایا سائیں کے حکم سے ان کی ’حق بخشوائی‘ ہوگئی ہے، اس لیے کبھی آپی کی شادی کی بات زبان پر نہ لانا۔‘‘ احمد نے تاکید کی۔
’’یہ ’حق بخشوائی‘ کیا ہوتی ہے؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’قرآن شریف سے شادی۔‘‘ احمد نے سمجھانے کے پیرایے میں کہا۔
’’قرآن شریف سے شادی، آج بھی یہ فرسودہ رسم و رواج؟‘‘
میں نے حیرت سے کہا۔ پھر میں نرم لہجے میں بولی:
’’قرآن شریف اﷲ کی کتاب ہے، اس کو پڑھنے کا حکم ہے، سمجھنے کا حکم ہے، اس کے احکامات پر عمل پیرا ہو کر زندگی گزارنا چاہیے نہ کہ شادی—؟‘‘
احمد نے مزید وضاحت ضروری نہیں سمجھی اور مزید حیرانی میں ڈالتے ہوئے بولے:
’’اور ہاں سنو، سارہ کے لیے بھی خاندان میں کوئی لڑکا نہیں ہے تو تم اس موضوع پر کسی سے بات نہیں کرو گی، مجھ سے بھی نہیں۔‘‘ احمد نے تاکیداً کہا۔
میرا اندر مجھ سے بات کرنے لگا۔
یہ کیسا ستم ہے—؟ یااﷲ بی بی حوا کی بیٹی کا مقدر کیا یہی ہے—؟ میری نظر کے سامنے تاریخِ اسلام کی اوّلین خواتین حضرت بی بی خدیجہؓ، حضرت بی بی فاطمہؓ، حضرت بی بی زینبؓ، حضرت بی بی اسماءؓ آگئیں۔ ان محترم بیبیوں نے باپردہ ہوتے ہوئے بھی اسلام کے لیے کیا کیا کارنامے انجام نہیں دیے۔ یہ بھی تو عورتیں تھیں۔ ان کے علاوہ ملکہ سبا، ملکہ نور جہاں، چاند بی بی، رضیہ سلطانہ، ملکہ وکٹوریہ— اور آج کی عورت جو کسی بھی شعبے میں مردوں سے پیچھے نہیں— پھر یہ بے زبان عورتیں، جن کے لیے زمین تنگ اور آسمان بہت بلند ہے۔ آپی— سارہ—؟
کیا یہ بی بی حوا کی بیٹیاں نہیں ہیں؟
’’ایک وہ بھی عورتیں ہیں جن کے نام کے سکّے چلتے تھے، اور ایک یہ عورتیں جو کچلی ہوئی، زمانے سے ہاری ہوئی، دکھیاری، روتی چیختیں، اذیت ناک زندگی گزارتی ہوئی ہیں۔‘‘
سارہ پیاری اور بے حد خوب صورت تھی، دبلی پتلی گورا رنگ، نظروں کے ذریعے دل میں اتر جانے والے خدوخال، بڑی بڑی آنکھیں، بال گھنے اور کمر کو چھونے کی حد تک لمبے، انٹر سائنس میں تھی، ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھ رہی تھی جس کے مجھے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ میرا بس چلتا تو میں اسے اپنی بھابھی بنا لیتی، مگر یہ ناممکن تھا۔
اس دن لابی میں سے گزرتے ہوئے دیکھا سارہ کے کمرے کا دروازہ کھلا ہے، نوک کرکے اندر چلی گئی۔ سارہ مجھے دیکھ کر ایک دم کھڑی ہوگئی۔
’’بھابھی آپ! آئیے بیٹھیے۔‘‘ متحیر لہجے میں بولی۔
اس کے ہاتھ میں کتاب تھی جیسے ہی وہ کھڑی ہوئی ایک تصویر کتاب سے نیچے گر گئی۔ میں نے جھک کر اٹھالی۔
لڑکے کی تصویر— میں نے دل ہی دل میں سوچا، بڑی حیرانی ہوئی۔
’’یہ تصویر—‘‘ میں ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
سارہ گھبرا سی گئی پھر بولی، ’’یہ میری دوست کے بھائی کی ہے، غلطی سے اس نے کتاب میں رکھ دی ہوگی۔‘‘
میں اس کے بیڈ پر اس کے پاس بیٹھ گئی اور پیارے سے بولی:
’’یہ تصویر تو صمد کی ہے، ابھی چند دن پہلے ہی گھر آیا تھا۔ سب اس سے اس طرح گھل مل کر بات کر رہے تھے جیسے وہ گھر کا ہی ایک فرد ہو۔‘‘ میں تصویر کو پہچان چکی تھی۔
پھر سارہ نے بتایا، ’’میں، صمد اور حمد کی بہن ثنا ہم تینوں نے ایک ہی اسکول میں پڑھا ہے۔ صمد مجھ سے اور ثنا سے دو کلاس آگے تھے۔ وہ ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر کا بیٹا ہے۔ آٹھویں کلاس سے بابا سائیں کے آفس کے کاموں میں ان کی مدد کرتا ہے۔ اکثر اسکول سے سیدھا گھر آجاتا ہے اور پھر رات میں اپنے گھر جاتا تھا۔ ہم لوگ کب بڑے ہوگئے، کب ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے— کچھ پتا ہی نہیں چلا۔ بابا سائیں اور گھر کے سب لوگ اسے بہت پسند کرتے ہیں۔ بابا سائیں کی اجازت سے یہ کمپیوٹر انجینئرنگ کر رہا ہے۔ یہ اس کا دوسرا سال ہے۔ ہم دونوں ایسا خواب دیکھ رہے ہیں جو ناممکن ہے۔ صمد کہتا ہے کہ اگر تم سے میری شادی نہیں ہوئی تو میں تمام زندگی شادی نہیں کروں گا۔‘‘
سارہ نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میںکسی کو کچھ نہ بتائوں۔ میں نے وعدے کے مطابق اپنی زبان بند رکھی ہوئی تھی۔
دو ہفتے سے گھر میں کچھ ایسی فضا لگتی تھی جیسے کچھ زبردست ہونے والا ہے، اچھا یا برا— تایا سائیں بار بار آرہے تھے، کبھی بی بی ساتھ ہوتیں، کبھی تائی جی او رکبھی تینوں— پھر ایک دن کافی لمبی بیٹھک ہوئی، سبھی لوگ اس میں شامل تھے سوائے سارہ کے۔ تایا سائیں نے اعلان کیا ’’مارچ کی پندرہ تاریخ کو ہم برات لے کر آئیں گے۔‘‘
میرے منہ سے نکلنے ہی والا تھا، ’’کس کی برات؟‘‘ مگر مجھے احمد کی نصیحت یاد آگئی، ’’تمھیں کسی معاملے میں نہیں بولنا ہے۔‘‘ اس کے متعلق ساری باتیں بھی طے ہوگئیں۔ طے کیا ہوگئیں بس تایا سائیں جو بھی بول رہے تھے سب خاموشی سے مان رہے تھے۔ مگر میری سمجھ میں پھر بھی نہیں آیا کہ یہ کس کے متعلق ہو رہا ہے۔ بعد میں احمد نے بتایا سارہ کی شادی تایا سائیں کے بیٹے ہاشم سے ہو رہی ہے۔
’’ہاشم سے—‘‘ میں نے حیرانی سے دُہرایا۔
احمد خاموش رہے میں نے کہا، ’’احمد کیا ہوگیا ہے آپ سب لوگوں کو۔ ہاشم سات آٹھ سال کا ہے، اس کی سارہ کے ساتھ شادی کس طرح ہوسکتی ہے؟‘‘
’’نازیہ پلیز! اس معاملے میں جب میں خاموش ہوں تو تم بھی خاموش رہو۔ یہ خاندان کے بڑوں کے فیصلے ہیں۔‘‘
احمد نے مجھ سے التجائی انداز میں کہا۔
جب سارہ کو پتا چلا تو اس نے بہت ہنگامہ کیا— وہ کسی صورت راضی نہیں ہو رہی تھی۔ پھر بابا سائیں نے اس سے اکیلے میں بات کی۔ اتفاق کی بات یہ کہ دونوں باپ بیٹیوں کی اس بات چیت کو میرے کانوں نے بھی سن لیا۔
’’بیٹی سارہ! مجھے بھی پسند نہیں کہ ہاشم سے تمھاری شادی ہو۔ لیکن فرض کرو اگر تمھیں ’کاروکاری‘ کا جھوٹا الزام لگا کر قتل کر دیا جائے؟ تو تم بھی بے قصور ماری جائو گی اور جو شخص تمھارے ساتھ مارا جائے گا وہ بھی بے قصور مارا جائے گا اور بدنامی کتنی زبردست ہوگی۔ جو جرم تم نے کیا ہی نہیں اس کی سزا نہ صرف تم کو، بلکہ ہم سب کو ملے گی۔ بس یہی سب سوچ کر میں نے ہاں کر دی ہے۔‘‘
چند لمحوں کے لیے ایسا سناٹا چھا گیا جیسے ’’موت‘‘ کا ہوتا ہے۔ میرے اندر کسی نے کہا، ’یہ کاراکاری، کاروکاری، اس معاملے میں کہاں سے آدھمکی۔‘
پھر میرے اندر ہی کسی نے جواب دیا، اس ملک میں سب کچھ ممکن ہے۔ کبھی کسی نہر کے ریگولیٹر میں پھنسے ہوئے بے جان جسد کو نہیں دیکھا—؟ محبت کرنے والوں پر گولیوں کی بوچھاڑ یا دونوں کو زندہ جلائے جانے کے بارے میں کچھ نہیں سنا—؟ آج دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے لیکن قبائلی کلچر ہماری زمین میں مضبوطی سے قدم جمائے ہوئے ہے۔ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔
تایا سائیں کا ایک ہی بیٹا تھا، ایک ہفتے پہلے سے ہی شادی کے رسم و رواج شروع ہوگئے تھے۔ تایا سائیں نے کسی چیز میں کوئی کسر نہیں رکھی تھی۔ پورا گائوں ایک ہفتے پہلے سے چراغاں تھا۔ ناچ، گانا، ڈھول، باجے، دھوم دھڑکا— بھنگڑا خنگڑا— سب کچھ—
اسی شور شرابے میں اچانک ایک ہی خبر گشت کرنے لگی۔ ’’سارہ غائب ہے۔‘‘ قریبی کنویں میں وہ پائی نہیں گئی۔ جس سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ اس نے کنویںمیں چھلانگ نہیں لگائی۔ میرا ذہن فوری طور پر صمد کی جانب گیا۔ لیکن میری زبان خاموش رہی، کسی نے مجھ سے کچھ پوچھا ہی نہیں کیوں کہ میں ابھی تک سسرال میں ’’باہر والی‘‘ تھی۔ کیوں کہ نہ تو ان کی ہم کلچر تھی اور نہ ہی ہم زبان— کوئی اور بھی صمد کے بارے میں کچھ بھی سوچ نہیں رہا تھا۔ سب جانتے تھے کہ اس کا امریکا میں ایڈمیشن ہوگیا ہے اور وہ امریکا جانے کے انتظامات میں لگا ہوا ہے۔ سارہ کی تلاش جاری تھی لیکن اس کو تو جیسے زمین نگل گئی تھی یا پھر آسمان نے اوپر اٹھا لیا تھا۔
تیسرے دن صمد کا نام لیا جانے لگا۔ صمد کے گھر سے یہ معلوم ہوا کہ وہ ایک ہفتے سے اسلام آباد گیا ہوا ہے امریکا جانے کے سلسلے میں۔ دو ایک روز بعد یہ افواہ گشت کرنے لگی کہ سارہ صمد کے ساتھ ہے اور دونوں نے نکاح کر لیا ہے۔ دونوں روپوش ہیں۔
اس افواہ کے نتیجے میں قدیمی قبائلی کلچر کے رکھوالے اٹھ کھڑے ہوئے۔ دونوں کو مارنے، غرقِ دریاکرنے یا نذرِ آتش کرنے کے لیے— جتنی جلدی ہوسکے، سارہ کے بابا اور ماں کی قرآن شریف پر حلف اٹھوا کر جان بخشی کر دی۔
جلدی تو کیا وہ تاخیر سے بھی اپنے ارادوں کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔ صمد اور سارہ کا کچھ پتا نہیں چلا۔
مہینوں بعد یہ خبر عام ہوئی کہ صمد اور سارہ امریکا میں پناہ گزیں کی حیثیت سے مقیم ہیں اور شہریت کے لیے ان کی درخواست ضروری مراحل سے گزر رہی ہے۔
میرے اندر کسی نے کہا کہ صمد اور سارہ نے ایک مردہ کلچر کی کہنہ دیوار میں رخنہ ڈال دیا ہے۔ اور صمد ہیں— اور سارہ ہیں— دیوار گرا چاہتی ہے— میں دیکھوں گی— تم دیکھو گی— ہم دیکھیں گے—