ہم سب جس قصبے میں رہتے تھے وہ جسم کی رگوں کی طرح اُلجھی ہوئی پیچ در پیچ پہاڑیوں سے گھرا تھا ۔ ہم میں سے بعض (جو ہم میں سے تھے)کچّی اور کمزور قسم کی لکڑیوں کے مکانوں میں رہتے تھے۔جہاں دیواریں کاغذ کی طرح پتلی اور باریک تھیں اور ہم میں سے بعض (جو ہم میں سے نہیں تھے)بلند اور قد آور عمارتوں میں رہتے تھے ،جہاں دیواروں کا رنگ گہرا سبز تھا۔ دھوپ کی صاف روشنی میں یہ بلند عمارتیں قیمتی پتھروں کی طرح جگمگاتی ہوئی معلوم پڑتی تھیں اورجب ہم ان اطراف سے گذرتے تو حسرت سے ان عمارتوں کی بلندیوں کی طرف دیکھتے تھے ا ور تب ہمیں اپنے کمزور اور تنگ مکانوں کی سیلن اور گھٹن کا احساس ہونے لگتا تھا۔ ہم نے بھی اپنی کھڑکیاں دھوپ کے اطراف میں کھول رکھی تھیں لیکن دھوپ کسی مہذب اجنبی کی طرح ہمارے کمروں میں آنے سے ٹھٹھکتی تھی ۔ ہم نے آج تک دھوپ کا نرم آتشیں لمس دیواروں پر محسوس نہیں کیا تھا ۔ یہاں تک کہ ہماری دیواروں کا رنگ جگہ جگہ سے پھیکا پڑ گیا تھا اور سیاہی مائل ہو گیا تھا۔
ہم نے سفر میں جب بھی کوئی نیا راستہ تلاشنے کی کوشش کی تو قدم ہمیشہ کسی نہ کسی پیچ دار موڑ پر ٹھٹھک گئے تھے اور احساس ہوا تھا کہ ہم مخالف سمت میں بہنے والی ہواؤں میں سانس لے رہے ہیں ۔ایسے موڑ پر ہماری مشعلیں بجھ گئی تھیں اور تب اپنے اطراف میں پھیلے ہوئے غیر ہموار راستوں کی طرف دیکھتے ہوئے ہماری آنکھوں میں بجھی قندیلوں کا دھواں تیرنے لگتا تھا اور ہم محسوس کرتے تھے کہ پیچ دار راستوں سے گھرے پہاڑوں کے اس سفر میں ہم بے حد تھک چکے ہیں ۔ کبھی کبھی ہماری کھڑکیاں مخالف سمت سے آنے والی ہواؤں کے جھونکوں سے زور زور سے آپس میں ٹکرانے لگتیں تو لگتا شایداب ہم کچے مکانوں کی چھتوں سے بھی محروم ہو جائیں گے۔
اس قصبے میں ہمارے ساتھ سبز آنکھوں والا ایک ہم سفر بھی تھا ۔ اگرچہ وہ بھی ہم میں سے تھا اور اس کے کمرے میں بھی گھٹن اور اندھیرا تھا لیکن ہم نے آج تک اس کے چہرے پر دھوپ کی کج ادائی کا کوئی اعتراف نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی اس سے کبھی موسم کی بے اعتنائی کی باتیں سنی تھیں ۔ اس کے کمروں کی دیواروں کا رنگ بھی پھیکا پڑ گیا تھا لیکن وہ ہمیشہ اس پر سبز رنگ چڑھاتا رہتا۔ جب بھی کوئی قندیل بجھ جاتی وہ دوسری جلا لیتااور نئے راستے کی تلاش میں نکل پڑتاجب ہم تیرہ و تاریک موسم کا ذکر کرتے کہ آرزوئیں ہمارے کمروں میں عیب ہوچکی ہیں تو وہ آہستہ سے مسکراتا اور پھر آسمان کی طرف پہلی انگلیاٹھاکر کہتا کہ ایک دن یقینا بارش ہوگی تب ندی ہماری دہلیز کو چھوکر گذرے گی تو ہم صاف اور میٹھے پانیوں میں اپنے ہاتھ دھوئیں گے۔
’’ایسا کب ہوگا ؟ایسا کب ہوگا۔۔۔۔؟ ‘‘ ہم میں سے کوئی تھکے ہوئے لہجے میں پوچھتا تو وہ اسی طرح مسکراتا اور آسمان کی طرف اشارے کرکے کہتا کہ آرزوؤں کی قندیلیں اگر وہاں جلاؤ تو بادل چھٹ جائیں گے اور تب تم سورج کی تمام برکتیں سمیٹنالیکن اس کی باتیں ہماری سانسیں ہموار کرنے میں کارگر ثابت نہیں ہو سکی تھیں ۔ دراصل ہم اس سفر میں اتنا تھک چکے تھے کہ ہمیں اب آگے چلنے کی کوئی خواہش نہیں تھی ۔ ہم میں سے بعض تو سفر کا قصہ ہی ختم کردینے کی باتیں کرتے۔ تب وہ کہتا کہ اس طرح تو ہم آخری سفر میں ہمیشہ کانٹوں پر ہی چلتے رہیں گے۔ پھر وہ ہمارے بازو تھپتھپاتے ہوئے کہتا کہ در اصل بازوؤں کی ان خراشوں نے ہمیں اور قوت عطا کی ہے ۔ مخالف سمت میں بہنے والی ہواؤں نے ہمیں زندہ رکھا ہے ۔ ایک دن جب سورج رنگوں کی تھال لیے ہماری دہلیز پر آئے گا تو ہم سات رنگوں والی دھنک بازوؤں میں قید کرلیں گے ۔
’’ایسا کبھی نہیں ہوگا ۔ایسا کبھی نہیں ہوگا…۔‘‘
’’ ایسا ہوگا۔۔۔۔ضرور ہوگا ۔‘‘ وہ اسی طرح مسکراتے ہوئے کہتا اور ہمیں اس کی آنکھوں میں سبز پروں والی خوش رنگ تتلیاں نظر آتیں۔
ہم سب اسے سبز رنگوں والا پیغمبر کہنے لگے۔
ایک دفعہ ہم میں سے کوئی قصبے کے ممنوعہ علاقے کی طرف چلا گیا۔ وہ جب وہاں سے لوٹا تو اس کی سانسوں میں جلے ہوئے گوشت کی مہک تھی اور آنکھوں میں تھرکتے شعلوں کا نشہ تھا ۔ تب پیغمبر نے ہمیں پانچ جنگلی گھوڑوں کے قصّے سنائے۔ اس نے کہا کہ ایک شخص تھا ۔ اس نے پانچ جنگلی گھوڑے پال رکھے تھے ۔وہ انھیں خوب کھلاتا پلاتاتھا ۔ایک گھوڑا بہت منہ زور تھا (اور بے شک اس گھوڑے پر کسی کا زور نہیں چلتا ہے) وہ اُسے بھی خوب کھلاتا پلاتا رہا پھر اس نے ان گھوڑوں کی باری باری سواری کی اور ہر بار لہولہان ہوا ۔ اس کی پیشانی سیاہ پڑ گئی وہ ایک گہری کھائی میں گرگیا ۔
ایک اور شخص تھا۔ اس نے بھی پانچ جنگلی گھوڑے پال رکھے تھے ۔ وہ ان گھوڑوں کو کم کھلاتا تھا اور منہ زور گھوڑے کو (بے شک اس گھوڑے پر کسی کا زور نہیں چلتا) قابو میں رکھنے کے لیے اور کم کھلاتالیکن اسے بھی ان گھوڑوں کی سواری میں لہو لہان ہونا پڑا۔ منہ زور گھوڑا لہلہاتی ہوئی ہری فصلیں دیکھ کر یکایک بدکا تھا اور نتیجے میں اس کے چوٹیں آئی تھیں ۔
پھر پیغمبر نے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے کہ دوسرے سوار کو بھی اس منہ زور گھوڑے کی ذلتیں اٹھانی پڑیں۔
ہم سب چپ رہے۔
تب پیغمبر نے پانچ اور جنگلی گھوڑوں کی کہانی سنائی ۔ اس نے کہا کہ ایک اور شخص تھا ۔ اس نے بھی پانچ جنگلی گھوڑے پال رکھے تھے ۔ وہ انہیں حسب منشا کھلاتا پلاتا تھا ۔ اس منہ زور گھوڑے کے لیے اس نے چراگاہ خرید لی۔پھر اس نے ان پر سواری کی تو گیت گاتا ہوا واپس آیا تھا۔
تب پیغمبر نے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے کہ ان کی سواری میں وہ سرخ رو ہوا؟
ہم سب چپ رہے۔
ایسا اس لیے ہوا کہ وہ ان گھوڑوں کی سواری کرتے ہوئے بھی ان پر سوار نہیں تھا ۔ اس نے انھیں اپنا تابع بنا لیا اور باقی سواروں پر خود گھوڑے سوار تھے۔
اس کی پیشانی جو ممنوعہ علاقے کی طرف گیا تھا عرق آلود ہوگئی۔
تب پیغمبر نے کہا اس طرح کانٹے بونے کی لذّت میں تم اپنے ہاتھ سیاہ مت کرو ورنہ سفر کے آخری حصے میں تمہارے پاس کیا بچے گا؟
تب ہم میں سے کسی نے کہا کہ یہ سب فضول باتیں ہیں ،جن کے ہاتھ سیاہ ہیں اور پیشانی گرد آلود ہے ان کی عمارتوں پر دھوپ ہمیشہ چمکتی رہی ہے ۔ انہوں نے کانٹوں کی فصلیں اُگائی ہیں ، پھولوں کی فصلیں کاٹی ہیں ۔ایسا کیوں ہے ؟ان کی طرف آسمان کا رنگ کیوں سرخ نہیں ہوتا؟
پیغمبر مسکرایا۔ اس نے کہا کہ ان کے پھولوں میں کوئی رنگ و بو نہیں ہے ۔ یہی پھول سفر کے دوسرے حصے میں انگارے بنیں گے۔
کبھی کبھی پیغمبر کی یہ باتیں ہمارے بازوؤں کو مضبوط بانہوںکی طرح تھام لیتیں اور ہمیں احساس ہوتا کہ ایک دن ہم واقعی سورج کے تمام رنگ سمیٹ لیں گے لیکن ہم گھنے اور سائے دار درختوں کی امید میں ہمیشہ خشک اور ویران راستوں سے گذرتے تھے، پھر بھی پیغمبر کے چہرے پر ہم نے سفر کی کوئی تکان نہیں دیکھی۔ اس نے ہمیشہ اسی طرح رنگ و بو سے پر باتیں کیں۔
ایک بار پیغمبر نے بتایا کہ اس کی بھی ایک کہانی ہے ، ہم سب حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگے تھے۔
اس نے دو بے حد روشن اور ہنستی ہوئی آنکھوں کی باتیں بتائیں ۔ اس نے کہا کہ اس کے بال کالے اور چمکدار ہیں ۔ ہم نے محسوس کیا کہ ان ہنستی ہوئی آنکھوں کے ذکر میں پیغمبر بچوں کی طرح معصوم ہوگیا ہے۔
پھر اس نے کہا جب بادل چھٹ جائیں گے تو وہ ان کالے اور چمکدار بالوں کو بازوؤں میں قید کرلے گا۔
اور ہم نے دیکھا پیغمبر ایک نشاط انگیز احساس سے گزر رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔اور ایک دن پیغمبر کی آنکھوں میں دھنک کا رنگ کھلا ہوا تھا۔ ہونٹوں پر بے حد پر اسرار مسکراہٹ تھی۔ تب اس نے بتایا کہ اس کو آخر بازوؤں کی خراشوں کا صلہ مل گیا ہے۔
ہم سب حیرت اور خوشی سے اس کی طرف دیکھنے لگے۔
اس نے کہا ۔وہ اب سبز پوش وادیوں سے ہوکر گزرے گا۔ سورج اس کی دہلیز پر رنگوں کی تھال لیے آگیا ہے۔
’’ایسا کیسے ہوا ؟ ایسا کیسے ہوا‘‘ ہم سب نے بیک وقت پوچھا تھا ۔
تب اس نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی تھی۔
’’تم سب اس کی لامحدود وسعتوں سے کیوں غافل ہو؟‘‘
ہم سب حیرت سے پیغمبر کو دیکھتے رہے۔
’’اب تم سبزہ زاروں سے گزرتے ہوئے ہمیں بھول تو نہیں جاؤگے؟‘‘
’’نہیں ۔۔۔نہیں۔۔۔ایسا نہیں ہوگا۔‘‘
’’کیا ہم تمہیں روشنی کے اونچے مینار سے نظر آسکیں گے؟‘‘
’’کیوں نہیں۔۔۔۔ کیوں نہیں۔۔۔۔؟ اور سنو! تم بھی کبھی دکھ اور مایوسی کے غیر مناسب احساس سے مت گزرنا کہ دُکھ اور مایوسی برکتوں کے راستے مسدود کردیتے ہیں ۔‘‘
اور پیغمبر نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے ۔اب ان ہنستی ہوئی آنکھوں کو آواز دے گا ۔ اب کالے اور چمکدار بال اس کے شانوں پر لہرائیں گے۔
’’مبارک ہو!‘‘ہم نے بیک وقت کہا تھا ۔
’’ان ہنستی ہوئی آنکھوں کو ہمارا سلام جن میں تمہارے انتظار کی روشنی ہے۔‘‘
پیغمبر مسکرایااور اس نے کہا۔ہاں وہ آنکھیں واقعی مبارک ہیں جو کسی کی منتظر رہتی ہیں ۔
پھر ہمارے درمیان سے وہ چلا گیاتو ہم دیر تک عدم تحفظ کے احساس سے گزرتے رہے تھے۔
لیکن پیغمبر کو گئے دو دن بھی نہیں ہوئے تھے کہ کسی نے خبر دی کہ پیغمبر اب اس سفر میں نہیں ہے۔
اس پر ہم حیرت سے اس کو دیکھنے لگے تھے۔
’’خود اس نے ہی اپنا قصہ ختم کرڈالاتھا۔‘‘ اس شخص نے کہا تھا۔
’’نہیں نہیں ۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔۔۔۔ایسا کیسے ہو سکتا ہے ۔‘‘ ہم نے بیک وقت کہا تھا۔
’’ایسا ہی ہوا ہے ۔۔۔۔ایسا ہی ہوا ہے ۔۔۔۔۔ اس نے جان بوجھ کر خود کو ختم کرڈالا۔‘‘
’’ لیکن کیوں۔۔۔۔؟ ‘‘ ہم نے بیک وقت پوچھا تھا۔
تب اس شخص نے کہا کہ دو ہنستی اور چمکتی ہوئی آنکھوں نے پیغمبر کی طرف دیکھنے سے انکار کردیا تھا۔