وہ اچانک راہ چلتے مل گئی تھی۔
اور جس طرح گڈھے کا پانی پاؤں رکھتے ہی میلا ہو جاتا ہے اسی طرح۔۔۔۔۔۔
اُسی طرح اس کے چہرے کا رنگ بھی ایک لمحے کے لیے بدلا تھا ۔ مجھے اچانک سامنے دیکھ کر وہ ٹھٹھک گئی تھی اور میں بھی حیرت میں پڑ گیا تھا ۔۔۔۔۔ اور تب ہمارے منہ سے ’’ارے تم۔۔۔۔۔! کے تقریباً ایک جیسے الفاظ ادا ہوئے تھے۔ پھر اس نے آنچل کو گردن کے قریب برابر کیا تو میں نے اس پر سرسری سی نگاہ ڈالی تھی۔ وہ یقینا عمر کے اس حصّے میں تھی جہاں عورت پہلے گردن پر پڑتی جھریاں چھپانا چاہتی ہے ۔ اس کے چہرے کا رنگ کمہلایا ہوا لگا اور اس کے لباس سے میں نے فوراً تاڑلیا کہ بہت خوش حال نہیں ہے ۔ اس کی چپل بھی پرانی معلوم ہوئی جو اُس کی ساری سے بالکل میچ نہیں کررہی تھی ۔ چپل کا رنگ انگوٹھے کے قریب کثرت استعمال سے اڑگیا تھا ۔ دفعتاًمجھے اس وقت اپنے خوش لباس ہونے کا گمان ہوا اور ساتھ ہی میں نے محسوس کیا کہ اس کی زبوں حالی پر میں ایک طرح سے خوش ہو رہا ہوں ۔ اس کی خستہ حالی پر میرا اس طرح خوش ہونا یقینا ایک غیر مناسب فعل تھا لیکن میں یہ محسوس کیے بنا نہیں رہ سکا کہ جو رشتہ میرے اور اس کے درمیان استوار نہیں ہوسکا تھا۔ اس کی یہ نادیدہ سی خلش تھی جو احساس محرومی کی صورت میرے دل کے نہاں خانوں میں گذشتہ بیس سالوں سے پل رہی تھی۔
مجھے لگا وہ میری نظروں کو بھانپ رہی ہے ۔ تب اس نے ایک بار پھر گردن کے قریب آنچل کو برابر کیا اور آہستہ سے مسکرائی تو یہ مسکراہٹ مجھے خشک پتّے کی طرح بے کیف لگی ۔۔۔۔اس نے پوچھا تھا کہ کیا میں ان دنوں اسی شہر میں رہ رہا ہوں ۔ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے میں نے بھی اس سے تقریباً یہی سوال کیا تھا جس کا جواب اس نے بھی میری طرح اثبات میں دیا تھا ۔ لیکن ’’ہاں‘‘کہتے ہوئے اس کے چہرے پر کسی غیر مانوس کرب کی ہلکی سی جھلک بہت نمایاں تھی ۔ شاید وہ تذبذب میں تھی کہ اس طرح اچانک ملاقات کی اس کو توقع نہیں ہوگی یا یہ بات اس کو مناسب نہیں معلوم ہوئی ہوکہ میں اس کے بارے میں جان لوں کہ وہ بھی اسی شہر میں رہ رہی ہے لیکن خود مجھے یہ سب غیر متوقع معلوم ہوا تھا۔ میں اعتراف کروں گا کہ مدتوں اس کی ٹوہ میں رہا ہوں کہ کہاں ہے۔۔۔۔؟ اور کیسی ہے۔۔۔۔؟ اور یہ کہ اس کی ازدواجی زندگی۔۔۔۔؟
شاید رشتے مر جھا جاتے ہیں ۔۔۔۔مرتے نہیں ہیں ۔۔۔۔!!
وہ خاموشی سے آنچل کا پلّو مروڑ رہی تھی اور میں بھی چپ تھا ۔ مجھے اپنی اس خاموشی پر حیرت ہوئی ۔ کم سے کم ہم رسمی گفتگو تو کر ہی سکتے تھے ۔۔۔۔۔مثلاً گھر اور بچوں سے متعلق۔۔۔۔لیکن میرے لب سلے تھے اور وہ بھی خاموش تھی ۔۔۔۔ دفعتاً میرے جی میں آیا کسی ریستوراں میں چائے کی دعوت دوں لیکن سوچا شاید وہ پسند نہیں کرے گی۔
دراصل ریستوراں میری کمزوری رہی ہے۔راہ چلتے کسی دوست سے ملاقات ہو جائے تو میں ایسی پیش کش ضرور کرتا ہوں۔ کسی خوبصورت ریستوراں کے نیم تاریک گوشے میں مشروبات کی ہلکی ہلکی چسکیوں کے ساتھ گفتگو کالطف دوبالا ہو جاتا ہے لیکن ہمارے درمیان خاموشی اسی طرح بنی رہی اور تب سڑک پر یونہی بے مقصد کھڑے رہنا مجھے ایک پل کے لیے عجیب لگا تھا ۔۔۔۔۔شاید میں غلط بیانی سے کام لے رہا ہوں ۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کے ساتھ اس طرح بے مقصد کھڑے رہنا ایک خوشگوار احساس کو جنم دے رہا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خود وہ کسی بیزاری کے احساس سے گذررہی ہو لیکن ایک دو بار اس نے پلکیں اٹھا کر میری طرف دیکھا تو مجھے لگا میرے ساتھ کچھ وقت گذارنے کی وہ بھی خواہش مند ہے ۔تب میں نے ریستوراں کی بات کہہ ڈالی تھی۔اس نے فوراً ہاں نہیں کہا ۔ پہلے ادھر ادھر دیکھا تھا ، آہستہ سے مسکرائی تھی اور پوچھنے لگی تھی کہ کہاں چلنا ہوگا تو میں نے ایک دم پاس والے ہوٹل کی طرف اشارہ کیا تھا ۔
ہم ریستوراں میں آئے ۔ کونے والی میز خالی تھی۔ وہاں بیٹھتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ اس کے چہرے پر گرچہ بیزاری کے آثار نہیں ہیں لیکن ایک قسم کی جھجھک ضرور نمایاں تھی ۔ اس درمیان اس کا پاؤں میرے پاؤں سے چھوگیا۔۔۔۔میری یہ حرکت دانستہ نہیں تھی۔۔۔۔۔لیکن مجھے یاد ہے ایک بار بہت پہلے ۔۔۔۔۔۔
تب وہ شروع شروع کے دن تھے جب کلیاں چٹکتی تھیں اور خوشبوؤں میں اسرار تھا اور ندی کی کَل کَل سمندر کے ہونے کا پتہ دیتی تھی ۔۔۔۔مجھے یاد ہے ان دنوں ریستوراں میں ایک بار اس کے ساتھ بیٹھنے کا اتفاق ہوا تھا ۔ میں نے جان بوجھ کر میز کے نیچے اپنا پاؤں بڑھایا تھا اور اس کے پاؤں کے لمس کو محسوس کرنے کی کوشش کی تھی۔۔۔۔۔۔وہ یکایک سکڑ گئی تھی اور آنکھوںمیں دھنک کا رنگ گہرا گیا تھا پھر زیر لب مسکرائی تھی اور میری طرف دزدیدہ نگاہوں سے دیکھا تھا ۔۔۔۔۔لیکن اب ۔۔۔۔۔
اب ہم بیس سال کی لمبی خلیج سے گذرے تھے اور زندگی کے اس موڑ پر تھے جہاں میز کے نیچے پاؤں کا چھو جانا دانستہ حرکت نہیں ہوتی محض اتفاق ہوتاہے اور یہ محض اتفاق تھا اور میری یہ نیّت قطعی نہیں تھی کہ اُس کے بدن کے لمس کو محسوس کروں۔۔۔۔۔ بس انجانے میں میرا پاؤں اس کے پاؤں سے چھو گیا تھا اور کسی احساس سے گذرے بغیر ہم محض ایک بیکار سے لمس کو ایک دم غیر ارادی طور سے محسوس کررہے تھے ۔ اس نے اپنا پاؤں ہٹایا نہیں تھا اور میں بھی اسی پوزیشن میں بیٹھا رہ گیا تھا ۔ اور نہ کلیاں ہی چٹکی تھیں نہ چیونٹیاں ہی سرسرائی تھیں نہ اس کی دزدیدہ نگاہوں نے کوئی فسوں بکھیرا تھا ۔ ہم بیس سال کی لمبی خلیج سے گذر کر جس موڑ پر پہنچے تھے وہاں قدموں کے نیچے سوکھے پتّوں کی چرمراہٹ تک باقی نہیں تھی۔
بیرا آیا تو میںنے پوچھا ۔وہ چائے لینا پسند کرے گی یا کافی ۔۔۔۔۔جواب میں اس نے میری پسند کے اسنیکس کے نام لیے تھے اور مجھے حیرت ہوئی تھی کہ اس کو یاد تھا کہ میں۔۔۔۔۔
کافی آئی تو ہم ہلکی ہلکی چسکیاں لینے لگے ۔۔۔۔۔ وہ نظریں نیچی کیے میز کو تک رہی تھی اور میں یونہی سامنے خلا میں گھو ررہا تھا ۔ اس درمیان میں نے اس کو غور سے دیکھا ۔ اس نے کنگھی اس طرح کی تھی کہ کہیں کہیں چاندی کے اکا دکا تار بالوں میں چھپ گئے تھے ۔ آنکھیں حلقوں میں دھنسی ہوئی تھیں اور گوشے کی طرف کنپٹیوں کے قریب چڑیوں کے پنجوں جیسا نشان بننے لگا تھا ۔ وہ مجھے گھورتا دیکھ کر تھوڑی سمٹی پھر اس کے ہونٹو ں کے گوشوں میں ایک خفیف سی مسکراہٹ پانی میں لکیر کی طرح ابھری اور ڈوب گئی۔
مجھے یہ سب اچھا لگا ۔۔۔۔۔۔پاس پاس بیٹھ کر خاموشی سے کافی کی چسکیاں لینا ۔۔۔۔ایک دوسرے کو کنکھیوں سے دیکھنے کی کوشش۔۔۔۔ اور چہرے پر ابھرتی ڈوبتی مسکراہٹ کی دھندلی سی تحریر۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے پاؤں اب بھی آپس میں مَس تھے ۔کسی نے سنبھل کر بیٹھنے کی شعوری کوشش نہیں کی تھی ۔ مجھے لگا ہمارا ماضی پاؤں کے درمیان مردہ لمس کی صورت پھنسا ہوا ہے ۔۔۔۔۔اور چاہ کر بھی ہم اپنا پاؤں ہٹا نہیں پا رہے ہیں ۔۔۔۔۔جیسے ہمیں ضرورت تھی اس لمس کی ۔۔۔۔اس مردہ بے جان لمس کی جو ہمارا ماضی تھا ۔۔۔۔۔اس میں لذّت نہیں تھی اسرار نہیں تھا ۔۔۔۔۔ایک بھرم تھا ۔۔۔۔۔ماضی میں ہونے کا بھرم ۔۔۔۔۔ان لمحوں کو پھر سے جینے کا بھرم ۔۔۔۔۔اس رشتے کا بھرم جو میرے اور اس کے درمیان کبھی استوار نہیں ہوا تھا۔ میری نظر کافی کی پیالی پر پڑی ۔ تھوڑی سی کافی بچی ہو ئی تھی ۔۔۔۔۔دوچار گھونٹ پھر قصہ ختم ۔۔۔۔ہوٹل کا بل ادا کرکے ہم اٹھ جائیں گے اور میز کے نیچے ہمارا ماضی مردہ پرندے کی صورت گرے گا اور دفن ہو جائے گا ۔۔۔۔بس دوچار گھونٹ۔۔۔۔۔۔ ۔
ان لمحوں کو پھر سے جینے کا بھرم بس اتنی ہی دیر قائم تھا۔۔۔۔۔۔
کافی کا آخری گھونٹ لیتے ہوئے اس نے پوچھا کہ اس ہوٹل میں کمرے بھی تو ملتے ہوں گے ۔۔۔۔؟ میں نے نفی میں سر ہلاتے ہو کہا کہ یہ صرف ریستوراں ہے ۔۔۔۔اور میرا فلیٹ یہاں سے نزدیک ہے ۔۔۔۔!
اچانک مجھے احساس ہوا کہ میں نے بے تکا سا جواب دیا ہے ۔ وہ پوچھ بھی نہیں رہی تھی کہ میں کہاں رہتاہوں ۔۔۔۔؟ اس نے بس یہ جاننا چاہا تھا کہ کہ یہاں کمرے ملتے ہیں یا نہیں اور میں فلیٹ کا ذکر کر بیٹھا تھا ۔ ان دنوں میں اپنے فلیٹ میں تنہا تھا ۔ بیوی میکے گئی ہوئی تھی اور تینوں لڑکے ہاسٹل میں رہتے تھے ۔
مجھے یاد آیا شروع شروع کی ملاقاتوں میں ایک دن ریستوراں میں کافی پیتے ہوئے جب میں نے پاؤں بڑھا کر اس کے بدن کے لمس کو محسوس کرنے کی کوشش کی تھی تو میں نے بیرے کو بلاکر پوچھا تھا کہ یہاں کمرے ملتے ہیں یا نہیں ۔۔۔۔؟ لیکن یہ بات میں نے یوں ہی پوچھ لی تھی اور اس کے پیچھے میرا کوئی مقصد نہیں تھا اور آج اس نے یہ بات دہرائی تھی اور میں نے برجستہ اپنی فلیٹ کی بابت بتایا تھا ۔۔۔۔۔شاید اس کا تعلق کچھ نہ کچھ ماضی سے تھا اور ہمارے لاشعور کے نہاں خانوں میں کہیں نہ کہیں ایک نادیدہ سی خلش پل رہی تھی ۔۔۔۔ مجھے لگا ہوٹل کا کمرہ اور تنہا فلیٹ ایک ڈور کے دو سرے ہیں اور اس سے قریب تر ہونے کی میری فرسودہ سی خواہش اس ڈور پر اب بھی کسی میلے کپڑے کی طرح ٹنگی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔
مجھے حیرت ہوئی کہ ماضی کی ایک ایک بات اس کے دل پر نقش ہے ۔ بیس سال کے طویل عرصے میں وہ کچھ بھی نہیں بھولی تھی بلکہ ہم دونوں ہی نہیں بھول پائے تھے ۔ ہوٹل کا بل ادا کرکے ہم باہر آئے تو اس نے پوچھا گھر میں کون کون رہتا ہے ۔۔۔؟ میں نے بتایا ان دنوں تنہا رہتا ہوں ۔۔۔۔میرا فلیٹ دور نہیں ہے ۔۔۔اگر وہ دیکھنا چاہے تو۔۔۔۔۔۔
وہ راضی ہوگئی۔۔۔۔۔۔
ہم آوٹو پر بیٹھے ۔ وہ ایک طرف کھسک کر بیٹھی تھی اور میں نے بھی فاصلے کا خیال رکھا تھا ۔ تب یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکا کہ ہوٹل کے صوفے پر ہم کتنے سہج تھے اور اب دوری بنائے رکھنے کی ایک شعوری کوشش سے گذررہے تھے ۔اگلے چوک پر ایک اور آدمی اوٹو میں آگیا تو مجھے اپنی جگہ سے تھوڑا سرک کر بیٹھنا پڑا اور اب پھر میرا بدن اس کے بدن کو چھونے لگا تھا ۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ لمس بے معنی نہیں ہے بلکہ تیسرے کی موجودگی ہم دونوں کے لیے ہی نیک فال ثابت ہوئی تھی۔
آوٹو آگے رکا تو میں نے پیسے ادا کیے ۔ فلیٹ وہاں سے چند قدم پر ہی تھا ۔ ہم چہل قدمی کرتے ہوئے فلیٹ تک آئے۔ ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی اس نے ایک طائرانہ سی نظر چاروں طرف ڈالی ۔ کیبنٹ میں ایک چھوٹے سے اسٹیل فریم میں میری بیوی کی تصویر لگی ہوئی تھی ۔ وہ سمجھ گئی تصویر کس کی ہو سکتی ہے۔ اس نے اشارے سے پوچھا بھی۔۔۔۔میں نے اثبات میں سر ہلا یا اور اس کے قریب ہی صوفے پر بیٹھ گیا۔
ہمارے درمیان خاموشی چھا گئی۔۔۔۔۔۔۔
وہ چپ چاپ صوفے پر انگلیوں سے آڑی ترچھی سی لکیریں کھینچ رہی تھی ۔ اچانک اس کا آنچل کندھے سے سرک گیا جس سے سینے کا بالائی حصہ نمایاں ہوگیا۔ اس کا سینہ اوپر کی طرف دھنسا ہوا تھا اور گردن کی ہڈی ابھر گئی تھی جس سے وہاں پر گڈھا سا بن گیا تھا ۔ گردن کے کنارے ایک دو جھریاں نمایاں تھیں ۔ مجھے اس کی گردن بھدی اور بدصورت لگی۔۔۔۔۔ مجھے عجیب لگا ۔۔۔۔میں نے اسے بلایا کیوں ۔۔۔؟ اور وہ بھی چلی آئی ۔۔۔۔ اور اب ہم دونوں ایک غیر ضروری اور بے مقصد خاموشی کو جھیل رہے تھے ۔
آخر میں نے خاموشی توڑنے میں پہل کی اور پوچھا وہ چائے لینا پسند کرے گی یا کافی۔۔۔؟میرا لہجہ خلوص سے عاری تھا ۔۔۔ ایک دم سپاٹ۔۔۔۔مجھے لگا میں چائے کے لئے نہیں پوچھ رہا ہوں ،اپنی بیزاری کا اظہار کررہا ہوں ۔ اس نے نفی میں گردن ہلائی تو میری جھنجھلاہٹ بڑھ گئی ۔ میں نے اسے فلیٹ کا باقی حصہ دیکھنے کے لئے کہا ۔ وہ صوفے سے اٹھ گئی ۔ اسے کچن میں لے گیا۔ پھر بالکنی دکھائی ۔۔۔۔پھر بیڈ روم۔۔۔۔۔
بیڈ روم میں اس نے طائرانہ سی نظر ڈالی ۔۔۔۔سنگار میز کی سامنے والی دیوار پر ایک کیل جڑی تھی ۔ کیل پر ایک چوڑی آویزاں تھی جس سے ایک چھوٹا سا کالا دھاگہ بندھا ہوا تھا ۔ اس نے چوڑی کو غور سے دیکھا اور پوچھا کہ دھاگہ کیسا ہے ۔۔۔۔؟ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ بیوی کا ٹوٹکا ہے ۔
وہ جب بھی گھر سے باہر جاتی ہے اپنی کلائی سے ایک چوڑی نکال کر لٹکا دیتی ہے اور کالا دھاگہ باندھ دیتی ہے ۔ اس کا خیال ہے کہ اس سے غیر عورت کا گھر میں گذر نہیں ہوتا اور میری نظر بھی چوڑی پر پڑے گی تو مجھے اس کی یاد آتی رہے گی ۔
وہ ہنسنے لگی اور طنزیہ لہجے میں بولی کہ عقیدے کا مطلب ہے خوف۔۔۔۔میری بیوی کے دل میں خوف ہے کہ میں ایسا کروں گا ۔۔۔۔اس خوف سے بچنے کے لیے اس نے اس عقیدے کو جگہ دی ہے کہ چوڑی میں کالا دھاگہ باندھنے سے۔۔۔۔۔۔
مجھے اس کی یہ دانشورانہ باتیں بالکل اچھی نہیں لگیں۔ لیکن میں خاموش رہا۔ تب اس نے ایک انگڑائی لی اور بستر پر نیم دراز ہوگئی۔ پھر کیل پر آویزاں چوڑی کی طرف دیکھتی ہوئی طعنہ زن ہوئی کہ میری بیوی مجھے عورتوں کی نگاہ بد سے کیا بچائے گی ۔۔۔؟ بچاری کو کیا معلوم کہ میں کتنا فلرٹ ہوں ۔ مجھے طیش آگیا ۔ میں نے احتجاج کیا کہ وہ مجھے فلرٹ کیوں کہہ رہی ہے ۔ وہ تیکھے لہجے میں بولی کہ میں نے اس کی سہیلی کے ساتھ کیا کیا تھا ۔۔۔۔؟ اس نے مجھے یاد دلایا کہ اس رات پارٹی میں جب اچانک روشنی گل ہوگئی تھی تو۔۔۔۔۔۔۔
میں چپ رہا ۔ دراصل میری ایک کمزوری ہے ۔ عورت کے کولھے مجھے مشتعل کرتے ہیں ۔۔۔۔ایک ذرا اوپر کمر کے گرد گوشت کی جو تہہ ہوتی ہے۔۔۔۔۔
اُس رات یکایک روشنی گل ہو گئی تھی اور اس کی سہیلی میرے پاس ہی بیٹھی تھی ۔ میرا ہاتھ اچانک اس کی کمر سے چھو گیا تھا ۔ میں نے ہاتھ ہٹایا نہیں تھا اور وہ بھی وہا ں بیٹھی رہ گئی تھی ۔۔۔۔اور ہاتھ اگر اس جگہ مسلسل چھوتے رہیں اور عورت مزاحمت نہیں کرے تو۔۔۔۔۔۔
مجھے عجیب لگا ۔ اس کی سہیلی نے یہ بات اس کو بتا دی تھی۔ میں اس سے آنکھیں نہیں ملا پا رہا تھا ۔
میں نے کنکھیوں سے اس کی طرف دیکھا ۔ اس کے ہونٹوں پر شرارت آمیز مسکراہٹ رینگ رہی تھی۔ پھر اچانک وہ مجھ پر جھک آئی اور ایک ہاتھ پیچھے لے جاکر میری پتلون کی پچھلی جیب سے کنگھی نکالی۔ اس طرح جھکنے سے اس کی چھاتیاں میرے کندھے سے چھو گئیں ۔ تب وہ ہنستی ہوئی بولی کہ میں پہلے دائیں طرف مانگ نکالتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ یہ میری انفرادیت تھی اور یہ کہ ہٹلر بھی اسی طرح مانگ نکالتا تھا ۔۔۔۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اس کو ایک ایک بات یاد تھی۔
وہ میرے بالوں میں کنگھی کرنے لگی ۔ اس کی انگلیاں میری پیشانی کو چھو رہی تھیں ۔ مجھے اچھا لگا ۔اُس کا جھک کر میری جیب سے کنگھی نکالنا اور میرے بالوں میں پھیرنا ۔۔۔۔وہ ایک دم میرے قریب کھڑی تھی ۔ اس کے سینے کی مرکزی لکیر میری نگاہوں کے عین سامنے تھی اور اس کی سانسوں کو میں اپنے رخسار پر محسوس کررہا تھا ۔ اس کے کندھے میرے سینے کو مستقل چھو رہے تھے ۔ پھر اس نے اسی طرح کنگھی واپس میری جیب میں رکھی اور آئینے کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔۔میں نے گھوم کر دیکھا ۔۔۔۔ مجھے اپنی شکل بدلی سی نظر آئی ۔ مانگ دائیں طرف نکلی ہوئی تھی۔ میں مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا۔ وہ ہنسنے لگی اور تب اس کی ہنسی مجھے دل کش لگی ۔۔۔۔۔اچانک مجھے محسوس ہوا کہ زندگی ابھی ہاتھ سے پھسلی نہیں ہے ۔۔۔۔ دائیں طرف نکلی ہوئی مانگ ۔۔۔۔ہنستی ہوئی عورت ۔ا۔ور سینے کی ہلتی ہوئی مرکزی لکیر ۔۔۔۔ہم یقینا اس وقت ماضی سے گررہے تھے ۔۔۔۔۔ان دل فریب لمحوں سے گذررہے تھے جہاں ندی کی کَل کَل تھی اور سمندر کا زیر لب شور تھا ۔۔۔۔ وہ خوش تھی۔۔۔۔میں بھی شادماں تھا ۔۔۔۔۔
سرور کے عالم میں میرا ہاتھ اچانک اس کی کمر کے گرد رینگ گیا اور وہ بھی بے اختیار میرے سینے سے لگ گئی۔۔۔۔اس کے ہونٹ نیم وا ہوگئے۔۔۔۔اور یہی چیز مجھے بے حال کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔کولھے پر ہتھیلیوں کا لمس اور نیم وا ہونٹ۔۔۔۔!
میں نے اسے بانہوں میں بھرلیا۔۔۔۔ وہ مجھ سے لپٹی ہوئی بستر تک آئی ۔۔۔۔۔میں نے بلوزکے بٹن ۔۔۔۔۔اس کی آنکھیں بند تھیں ۔۔۔۔اور میں بھی ہوش کھونے لگا تھا ۔۔۔۔۔آہستہ آہستہ اس کی سانسیں تیز ہونے لگیں ۔۔۔۔اور وہ اچانک میری طرف متحرک ہوئی میرے بازوؤں کو اپنی گرفت میں لیا اور آہستہ آہستہ پھسپھساکر کچھ بولی جو میں سمجھ نہیں سکا ۔۔۔۔اس کی یہ پھسپھساہٹ مجھے مکروہ لگی ۔۔۔۔سرشاری کی ساری کیفیت زائل ہوگئی ۔میری نظر اس کے بدن کی جھریوں پر پڑی جو اس وقت زیادہ نمایاں ہوگئی تھیں ۔۔۔۔ مجھے کراہیت کا احساس ہوا ۔۔۔۔۔گردن کے نیچے ابھری ہوئی ہڈیوں کا درمیانی گڈھا۔۔۔۔ سینے کا دھنسا ہوا بالائی حصہ ۔۔۔۔اور نیم پچکے ہوئے بیلون کی طرح لٹکی ہوئی چھاتیاں۔۔۔۔مجھے لگا اس کا جسم ایک ملبہ ہے جس پر میں کیکڑے کی طرح پڑا ہوں ۔۔۔۔۔میں نے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا ۔ میری انگلیاں اس کی چھاتیوں سے جونک کی طرح لپٹی ہوئی تھیں۔۔۔۔میں کراہیت سے بھر اٹھا اور خود کو اس سے الگ کرتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گیا۔
اس نے آنکھیں کھولیں اور کیل پر آویزاں چوڑی کی طرف دیکھا ۔ چوڑی سے لٹکا ہوا دھاگہ ہوا میں آہستہ آہستہ ہل رہا تھا ۔۔۔۔۔اس کے ہونٹوں پر ایک پر اسرار مسکراہٹ رینگ گئی ۔ کچھ وہ بستر پر لیٹی رہی ۔پھر کپڑے درست کرتی ہوئی اٹھی اور شیشے کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ میرے اندر اداسی کسی کہاسے کی طرح پھیلنے لگی ۔ میں ندامت کے احساس سے گذررہا تھا ۔ میں اس کو اپنے فلیٹ میں اس نیت سے لایا بھی نہیں تھا ۔ وہ بس میرے ساتھ آگئی تھی اور جب تک ہم صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے اس بات کا شائبہ تک نہیں تھا کہ بیڈ روم میں داخل ہوتے ہی ہم فوراً۔۔۔۔۔
شاید عمر کا یہ حصہ کھائی دار موڑ سے گذرتا ہے ۔ چالیس کی لپیٹ میں آئی ہوئی عورت اور بچپن کی سرحدوں سے گذرتا ہوا مرد دونوں ہی اس حقیقت سے فرار چاہتے ہیں کہ زندگی ہاتھ سے پھسلنے لگی ہے ۔ ہم نے بھی فرار کا راستہ اختیار کیا تھا جو دائیں مانگ سے ہوتا ہوا سینے کی مرکزی لکیر سے گذرا تھا ۔ میرے ہاتھ پشیمانی آئی تھی اور وہ آسودہ تھی۔ اس کی آسودگی پر مجھے حیرت ہوئی۔ میں نے نفرت سے اس کی طرف دیکھا ۔ وہ اپنے بال سنواررہی تھی اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اسی طرح رینگ رہی تھی ۔ پھر اس نے ماتھے سے بندی اتاری اور شیشے میں چپکا دی۔ مجھے غصہ آگیا۔۔۔۔اس کی یہ حرکت مجھے بری لگی۔ گویا جانے کے بعد بھی وہ اپنے وجود کا احساس دلانا چاہتی تھی ۔ وہ جتانا چاہتی تھی کہ مرد کی ذات ہی آوارہ ہے ،کوئی دھاگہ اس کو باندھ نہیں سکتا ۔ میںنے حسرت سے دھاگے کی طرف دیکھا جس میں میری وفا شعار بیوی کی معصومیت پروئی ہوئی تھی ۔ مجھے لگا میرے ساتھ سازش ہوئی ہے ۔ اس حاسد عورت نے مجھے ایک مکروہ عمل میں ملوث کیا اور ایک معصوم عقیدے پر ضرب لگائی ۔ اب ساری عمروہ دل ہی دل میں ہنسے گی ۔ یقینا اس دھاگے کی بے حرمتی کا میں اتنا ہی ذمہ دار تھا۔۔۔۔ ۔۔۔
پچھتاوے کی ایک دکھ بھری لہر میرے اندر اٹھنے لگی ۔شاید پچھتاوا زندگی کا دوسرا پہلو ہے۔۔۔۔۔ پانی میں لہر کی طرح زندگی کے ہر عمل میں کہیں نہ کہیں موجود۔۔۔۔۔ان گناہوں پر بھی ہم پچھتاتے ہیں جو سرزد ہوئے اور ان گناہوں پر بھی جو ناکردہ رہے۔۔۔۔۔۔ گذشتہ بیس سالوں سے میرے دل کے نہاں خانوں میں یہ خلش پل رہی تھی کہ اس سے رشتہ استوار نہیں ہوا اور آج اس کی مکمل سپردگی کے بعد یہ پچھتاوا ہورہا تھا کہ میں نے مقدس دھاگے کی بے حرمتی کی ۔۔۔۔ایک وفا شعار عورت کے عقیدے کو مسمار کیا۔۔۔۔۔۔
وہ جانے کے لیے تیار تھی اور اسی طرح مسکرا رہی تھی ۔ میں بھی چاہتا تھا کہ جلد از جلد یہاں سے دفع ہو ۔۔۔میں نے نہیں پوچھا کہاں رہ رہی ہے ۔۔۔۔۔؟ اس نے خود ہی بتایا ایک رشتے دار کے یہاں کسی تقریب میں آئی تھی اور کل صبح لوٹ جائے گی۔
اس کے جانے کے بعد سنّاٹا اچانک بڑھ گیا ۔ میں بستر پر پژمردہ سا لیٹ گیا اور آنکھیں بند کرلیں ۔۔۔۔۔مجھے اپنی بیوی کی یاد آئی ۔۔۔۔اتنی شدت سے اس کو پہلے کبھی یاد نہیں کیا تھا ۔۔۔۔اس وقت مجھے اس کی اشد ضرورت محسوس ہوئی۔
میں نے کسی ایذا زدہ مریض کی طرح آنکھیں کھولیں اور کیل پر آویزاں چوڑی کی طرف دیکھا۔۔۔۔چوڑی سے بندھا ہوا دھاگا ہوا میں اسی طرح ہل رہا تھا۔