دونوں وہاں سب کے پاس آ کر کھڑی ہوئی تو زیاد اور سمیر گھٹنوں کے بل بیٹھے۔ زیاد نمرا کے سامنے جبکہ سمیر ارشیہ کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا۔
"ویل یو میری می؟(?Will you Marry me)“ زیاد اور سمیر نے بیک وقت دونوں کو پرپوز کیا تو وہاں کھڑے سب لوگوں نے ہوٹنگ کی۔
نمرا نے بے یقینی سے اپنے ہاتھ اپنے منہ پر رکے اور آنسوں سے لبریز آنکھوں کے ساتھ ہنستے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔
زیاد نے بھی مسکراتے ہوئے اس کی انگلی میں انگوٹھی ڈالی۔ جب کہ ارشیہ خاموشی سے کھڑی سمیر کو دیکھ رہی تھی جبکہ سمیر ہنوز گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھا رہا۔
"ویل یو (?Will you)“ سمیر نے دوبارا سے اپنی بات دوہرائی۔ نمرا اور زیاد نے بھی مڑ کر ارشیہ اور سمیر کو دیکھا۔
"کیا ہوا ہے.... سے سم تھینگ ارشیہ“ نمرا نے اسے خاموش کھڑے دیکھ کہا۔زیاد نے بھی نمرا کی بات پر سر ہلایا۔ جس پر ارشیہ مسکرا دی اور اثبات میں سر ہلایا۔
وہاں کھڑے تمام لوگوں نے ہوٹنگ کی اور پھر سمیر نے ارشیہ کو انگوٹھی پہنائی۔ ارشیہ انگوٹھی کو دیکھ کر مسکرا دی۔ تھوڑی دیر بعد کیک کٹینگ کیا گیا تو سب لوگ سمندر کے کنارے لہروں سے کھیلنے لگے۔ ارشیہ اور سمیر سب سے تھوڑی دور کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ اچانک سے تھوڑی دیر بعد سب نے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی۔
ارشیہ اور نمرا بھی گھر کی طرف چل دی۔ ارشیہ نمرا کو چھوڑ کر گھر گئی تو سامنے حیدر صاحب، اکرام صاحب، جیا بیگم اور نجمہ بیگم بیٹھے باتیں کرنے میں مصروف تھے۔
"ارے دیکھو کتنی لمبی عمر ہے میری بچی کی۔۔۔ آوں۔۔ ادھر میرے پاس بیٹھو “ نجمہ بیگم نے پیار سے ارشیہ کو اپنے پاس بیٹھایا تھا۔پھر کچھ دیر بعد اکرام صاحب اور نجمہ بیگم واپس چلے گئے۔
"ارشیہ بیٹا ادھر بیٹھو میرے پاس بات کرنی ہے تم سے“ جیا بیگم نے ارشیہ سے کہا۔ اس وقت جیا بیگم اور حیدر صاحب لاؤنچ میں ہی بیٹھے ہوئے تھے۔
"ماما ایک منٹ۔۔ میں بابا سے کچھ بات کر لوں“ارشیہ نے جیا بیگم سے کہا اور حیدر صاحب کے پاس بیٹھ گئی۔
"بابا ایک بات کرنی تھی“ ارشیہ نے اجازت طلب لہجے میں کہا۔ دماغ میں وہ اپنے لفظوں کو ترتیب دیے رہی تھی۔
"کہوں میری جان۔۔۔ تمہیں کب سے اجازت کی ضرورت پڑ گئی“ حیدر صاحب نے اسے پیار سے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا جس پر ارشیہ کچھ توقف کے بعد بولی۔
"بابا وہ میری فرینڈ کا بھائی ہے۔۔۔ اسے جاب چاہیے۔۔ بہت ہی ایماندار اور اچھا ہے۔۔۔ اگر ہماری کمپنی میں اسے کوئی اچھی جاب مل جاتی تو۔۔۔“ ارشیہ نے جھوٹ گھڑتے ہوئے بات آدھی ادھوری چھوڑ کر حیدر صاحب کے چہرے کی طرف دیکھا۔
"ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔ پھر پرسوں اسے بلوا لینا“ حیدر صاحب نے اس کے سر پر بوسہ دیتے ہوئے کہا جس پر ارشیہ مسکرائی تھی۔
"پر ایک بات بابا۔۔۔ اس کا انٹرویو پہلے میں خود لوں گئی“ ارشیہ نے شرط رکھی جس کی حیدر صاحب نے ہاں میں سر ہلا کر تاکید کی۔ ارشیہ وہاں سے اٹھ کر جلدی سے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔ اچھی اسے آگے کا لائحہ عمل تیار کرنا تھا۔
"بعد میں بتا دینا جیا بیگم“ جیا بیگم نے اسے آواز دینی چاہی لیکن حیدر صاحب نے انہیں ٹال دیا۔ جس پر جیا بیگم ہلکا سا مسکرا کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔
"ہیلو عزیز۔۔۔ ایک کام ہے۔۔۔ ایک لڑکے کی فل ڈیٹیلز چاہیے مجھے۔۔۔ دو گھنٹوں کے اندر اندر۔۔۔ اور خبردار آگر پاپا کو بھنک بھی پڑی اس بات کی“ ارشیہ نے فون کان سے لگائے حیدر صاحب کے خاص ملازم کو کہا اور آخر میں اسے دھمکی سے بھی نوازا۔
"نمرا کے گھر اس کا آنا جانا ہے۔۔۔ دحیہ کو آج کل وہ قاری سبحان کی جگہ پڑھا رہا ہے۔۔۔ اور یاد رکھا کہ اگر پاپا کو پتہ چلا تو۔۔۔ دو گھنٹے ہیں تمہارے پاس۔۔۔ صرف دو گھنٹے“ ارشیہ نے اسے حکم دیتے ہوئے دھمکیوں سے بھی نوازا اور پھر فون کان سے ہٹا کر ہاتھ میں پکڑ لیا۔
عزیز کو اس نے حیدر صاحب کو نہ بتانے کا اس لیے کہا تھا کہ اگر انہیں پتہ چل جاتا تو وہاں سے کھبی نوکری نہ دیتے اور اگر وہ انٹرویو کے لیے بھی نہ بلاتے تو اس کا جو مقصد تھا وہ کیسے پورا ہوتا۔
تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد اس کے موبائل کی ٹیون بجی تو اس نے ہاتھ بڑھا کر موبائل اٹھا کر میسج کھولا تو اس میں یوسف کی ساری ڈیٹیلز موجود تھی۔ جنہیں وہ زیرِ لب دہرانے لگی۔
"نام: یوسف احمد۔۔۔ عمر: چھبیس سال... تعلیم: ایم اے ایڈ
نعمان انکل کی اکیڈمی میں جاب کرتا ہے.... امپریسو۔۔۔ گھر میں ایک اندھی بہن ہے جس کا نام عبیرہ ہے۔۔۔۔ گھرانہ کافی مذہبی ہے۔۔۔ ماں کی وفات بہن کے پیدا ہونے کے کچھ ماہ بعد ہی ہو گئی تھی جبکہ باپ کی وفات کچھ سال پہلے ہی ہوئی ہے“
ارشیہ نے میسج پڑھ کر موبائل ایک طرف رکھ دیا اور گہری سوچ میں مبتلا ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے نمرا کو فون کیا۔ جو کہ شام کے اس پہر اپنے کمرے میں بے زاری سے کتابوں میں سر دیے بیٹھی تھی۔
"ہیلو نمرا۔۔۔ مبارک ہوں“ ارشیہ نے نمرا کے فون اٹھاتے ہی اسے دوپہر والے واقعے کی مبارک باد دی۔ جس پر نمرا کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری۔ تھوڑی دیر پہلے جو کتابوں کی وجہ سے چہرے پر بیزاری تھی وہ اب مفقود تھی۔
"تمہیں بھی“ نمرا نے بھی اسے کہا جس پر ارشیہ نے ہممم کہہ کر بے اختیار اپنی انگلی میں موجود انگوٹھی کو دیکھا۔ نجانے ایسا کیا تھا کہ اسے خوشی نہیں ہو رہی تھی۔ جب سے وہ اور سمیر ملے تھے تب سے شاید ارشیہ اسے پسند کرنے لگی تھی لیکن کھبی اظہار نہ کیا۔
اظہار کرتے ہوئے اس کی انا اڑے آتی تھی۔ لیکن اب جب بن کہے سب مل رہا تھا تو اسے خوشی نہیں ہو رہی تھی۔ اس نے ساری سوچوں کو پسِ پشت ڈالا۔
"اچھا ایک کام کرو گئی“ ارشیہ نے بات کا آغاز کیا جس پر نمرا نے محض ہنکار بھرا تو ارشیہ نے اسے اپنا تیار کیا لائحہ عمل بتایا۔ جس پر نمرا نے ہامی بھری تو ارشیہ نے اسے پلین پر عمل کرنے کا طریقہ بتایا اور پھر تھوڑی دیر بعد موبائل سائیڈ پر رکھ کر آنکھیں بند کرلیں۔ اور پھر تھوڑی دیر بعد کچھ سوچتے ہوئے فون اٹھا کر زوہیب کو کال کی۔
'''''''''''''''''''''"''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
حائقہ اور عبیرہ ابھی گھر واپس آئی تھی۔ احتیاط کے طور پر حائقہ عبیرہ کو مختلف راستوں سے لے کر گھر پہنچی تھی کہ مبادا اس کے آدمی ان کے پیچھے نہ آ رہے ہوں۔ گھر پہنچ کر اس نے دروازے کی چٹخنی چڑھائی اور نقاب پکڑ کر ٹھوڑی تک کیا اور عبیرہ کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔
"عبیرہ تم نے اسے تھپڑ کیوں مارا؟“ حائقہ نے عبیرہ سے سوال کیا۔
"آپی اس نے میرا ہاتھ پکڑا تھا اور آپ پوچھ رہیں ہیں کہ میں نے اسے تھپڑ کیوں مارا“ عبیرہ نے حیرانی سے الٹا سوال دغا جس کے جواب میں حائقہ کچھ بول نہ سکی۔
وہ جانتی تھی کہ کیسے اِس لڑکی نے خود کو سینچ سینچ کر رکھا ہوا تھا۔ کیسے کوئی غیر محرم بھرے مجمع میں اس کا ہاتھ پکڑ سکتا تھا۔ حائقہ نے پریشانی سے اپنی پیشانی مسلی۔ وہ اس معاشرے کے قانون سے بھی واقف تھی۔ غلطی چاہیے امیر کی ہوں لیکن خمیازہ بھگتنا غریب کو ہی پڑتا تھا۔
اب وہ شخص کیا کرے گا یہ سوچ حائقہ کو پریشان کیے ہوئے تھی۔ عبیرہ نے ہاتھ بڑھایا تو حائقہ نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
"کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ اللّٰہ کی مدد یقینی ہے۔۔ میں نے اسے اس کی غلطی پر تھپڑ مارا تھا“ عبیرہ نے مطمئن لہجے میں کہا جس پر حائقہ بھی مسکرا دی۔ دفعتاً دروازا بجنے کی آواز آئی تو حائقہ نے عبیرہ کی طرف دیکھا اور پھر نقاب ٹھوڑی سے اوپر کرتی دروازے کی طرف چل پڑی۔
"کون“ حائقہ نے ڈرتے ڈرتے مدھم سی آواز میں پکارا۔ اس وقت اسے عبیرہ کی فکر ہو رہی تھی۔
"معزرت خواہ ہوں کہ آپ کو اس وقت پریشان کیا۔۔ لیکن عبیرہ گھر نہیں تھی۔۔ کیا وہ آپ کے گھر ہے“ باہر سے یوسف کی آواز گونجی۔ جب وہ گھر آیا تھا تو عبیرہ گھر نہیں تھی۔ سب سے پہلے اس کا دھیان حائقہ کے گھر کی طرف گیا کیونکہ عبیرہ زیادہ تر یہاں ہی آتی تھی۔
حائقہ اس کی تصدیق کر کے اندر کی طرف بڑھ گئی اور پھر تھوڑی دیر بعد عبیرہ نقاب کیے ہاتھ میں شاپر پڑے باہر آئی تو یوسف نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور اسے لے کر گھر کی طرف چل پڑا
"آج اتنی دیر کیوں ہو گئی“ گھر پہنچ کر یوسف نے عبیرہ سے پوچھا تو عبیرہ نے اسے صرف شوپنگ کے بابت بتایا۔ کھانا کھا کر یوسف اپنے کمروں کی طرف چلے گیا۔ عبیرہ نے وضو کرکے عشاء کی نماز ادا کی اور پھر سکون سے سو گئی۔
یوسف نے کمرے میں آکر اکیڈمی کے بچوں کے پیپرز نکالے اور چیک کرنے لگ پڑا۔ تھوڑی دیر بعد اس کے موبائل پر نعمان صاحب کی کال آئی۔
'''''''''''''''''''''"''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
"زوہیب۔۔۔ زوہیب بیٹا بات تو سنو۔۔۔ زوہیب“ نجمہ بیگم نے لاؤنچ سے گزرتے وہیب کو آوازیں دی۔ زوہیب ان کی آواز کو نظر انداز کرتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ جس پر نجمہ بیگم اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔
زوہیب نے کمرے میں آ کر دروازا بند کیا اور شیشے کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ شیشے میں اپنا عکس دیکھتے ہوئے اس نے ہاتھ اپنے گال پر رکھا۔ اب وہاں تھپڑ کا نشان نہیں تھا لیکن گال تھپڑ کی وجہ سے سرخ تھا۔
ایک دم غصے میں زوہیب نے وہاں پڑی تمام چیزوں کو ہاتھ مار کر زمین بوس کر دیا۔ شیشے کی بوتلیں زمین پر گر کر چکنا چور ہوگئی۔ زوہیب نے اپنے قدم پیچھے کی طرف بڑھائے اور اچانک سے بیڈ شیٹ کو پکڑ کر زمین پر گرا دیا۔
تھوڑی ہی دیر میں نفاست سے سجے کمرے کا حال برا ہو گیا تھا۔ جبکہ غصہ کسی صورت کم ہونے کو نہیں آ رہا تھا۔ کمرے سے نکل کر وہ گاڑی لیے باہر چلا گی۔
کافی دیر یونہی بے مقصد گاڑی سڑک پر بھگانے کے بعد اس کے موبائل پر ٹیون بھجی تو اس نے موبائل نکال کر دیکھا تو کسی ان نون نمبر سے اسے یڈیو بھیجی گئی تھی۔ زوہیب نے ویڈیو چلا کر دیکھی تو وہ صبح زوہیب کے تھپڑ والی ویڈیو تھی۔ جس سے س کے غصے کا گراف مزید بڑھا تھا۔
"ہیلو عدیل۔۔۔ مجھے ایک لڑکی کی فل ڈیٹیلز چاہیے۔۔۔ پندرہ منٹ کے اندر اندر پک سینڈ کی“ زوہیب نے اپنے خاص ملازم کو کال ملا کر حکم سناتے ہوئے کال کاٹ دی۔ ویڈیو میں سے عبیرہ کی تصویر لے کر عدیل کو بھیجی اور فون ڈیش بورڈ پر ڈال کر گاڑی تیزی سے آگے بڑھا دی۔
تقریباً پندرہ منٹ کے بعد اس کے فون پر دوبارا ٹیون بجی تو اس نے اٹھا کر۔دیکھا تو وہاں عدیل کا میسج آیا ہوا تھا۔ اس نے گاڑی ایک طرف روک کر میسج کھول کر پڑھنا شروع کیا۔
" عبیرہ احمد۔۔۔ عمر بائیس سال۔۔۔ اندھی۔۔ ہاہاہاہا اندھی ہے۔۔۔ چلو ہائڈ اینڈ سیک میں مزا بھی آئے گا۔ چل بھئی عدیل ایک اور چڑیا کو جال میں پھنسانے کے لیے تیار ہو جا “ زوہیب نے عدیل کی سینڈ کی ہوئی ڈیٹیلز کو پڑھتے ہوئے قہقہ لگتے ہوئے کہا۔
'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''