ارشیہ کے قدم ڈرائنگ روم کی طرف بے ساختہ تھے۔ یوسف کا چہرہ آدھا واضح ہو رہا تھا۔ ارشیہ نے آگے جا کر دیکھا یوسف کا چہرا دیکھا۔ یوسف تلاوت کرنے کے بعد دحیہ کو سبق پڑھنے کی تاکید کر رہا تھا۔
ارشیہ نے اس کا چہرہ دیکھا تو کچھ پل اسے دیکھتی رہ گئی۔ وہ ایک خوبصورت اور شاندار مرد تھا۔ یوسف نے بے ساختہ سر اٹھایا تو سامنے کسی لڑکی کو دیکھ فوراً سے نظریں جھکائیں تھیں۔ جس پر ارشیہ کا ارتقاء ٹوٹا۔
اس کی یہ حرکت ارشیہ کو ناگوار گزری۔ جبکہ دوسری طرف یوسف کے ماتھے پر بل آئے۔ یوں کوئی عزت دار گھرانے کی لڑکی دیدے پھاڑ کر کیسے کسی غیر کو دیکھ سکتی تھی۔
خفت کے مارے ارشیہ کا چہرا سرخ ہوا تھا۔دحیہ بھی وہاں بیٹھا اپنا سبق دہرا رہا تھا۔ ارشیہ سرخ چہرا لیے وہاں سے نکلی اور نمرا کے کمرے کی طرف چلی گئی۔
"واؤ۔۔۔ کیا حال ہے... کیا ہوا ہے ارشی“ جب ارشیہ کمرے
داخل ہوئی نمرا کمرے میں موبائل میں مصروف تھی ارشیہ کو دیکھ اسے خوشگوار احساس ہوا لیکن اس کا خراب موڈ دیکھ اس نے پوچھا۔
سمجھتا کیا ہے۔۔۔ خود کو۔۔ مجھے مجھے اگنور کرے گا۔۔ یہ جو پارسائی کا ڈھکوسلہ اور نشہ ہے نہ۔۔۔ یوں یوں۔۔ چٹکیوں میں نہ اتار دیا تو میرا نام بھی ارشیہ حیدر نہیں“ ارشیہ نے نمرا کی بات کو نظر انداز کیے غصے کمرے میں چکر کاٹتے ہوئے کہا۔
ارشیہ کو یوسف کا اسے دیکھ کر جلدی سے اپنا سر جھکا لینا اپنی توحین لگی تھی۔ اسی لیے وہ اس وقت غصے میں تھی۔ جبکہ نمرا دوبارا پاس بیڈ پر بیٹھی کر موبائل میں مگن ہو گئی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ ارشیہ کا غصہ صرف وہ خود ہی ٹھنڈا کر سکتی تھی۔
"کیا ہوا ہے۔۔ بتاؤں مجھے“تھوڑی دیر بعد جب اس کا غصہ قدرے کم ہوا تو نمرا نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
"دحیہ کے ٹیچر کا کیا نام ہے“ ارشیہ نے نمرا سے پوچھا۔ جس پر نمرا نے بغیر سر تا پیر بات کے اسے عجیب سی نظروں سے دیکھا لیکن کچھ بولی نہیں کیونکہ وہ بول کر خود کی شامت بلوانا نہیں چاہتی تھی۔
"پہلے تو قاری سبحان پڑھاتے تھے لیکن اب پاپا کا کوئی دوست ہے شاید۔۔۔۔ لیکن ہوا کیا ہے“ نمرا نے اسے تفصیل بتائی اور آخر میں اپنی عادت سے مجبور پوچھ بات کا پوچھ ہی لیا۔
"وہ وہی شخص ہے۔۔۔ وہی جس کی خوبصورتی کے تم سروے کے بعد قصیدے پڑھ رہی تھی۔۔۔ اس نے مجھے اگنور کیا۔۔۔ اتنا گھمنڈ ہے اسے اپنی خوبصورتی کے“ ارشیہ نے غصے سے بتا کر آخر میں وجہ بتائی۔
"ارے وہ مسٹر ہینڈسم “ نمرا نے جوش سے کیا جس پر ارشیہ نے اسے گھوری سے نوازا۔
"بتاتی ہوں میں ایاز کو تمہارا اور انکل کو ایاز کا۔۔ صبر کرو“ ارشیہ نے اسے دھمکی دیتے ہوئے کہا جس پر نمرا کا چہرا اتر گیا۔
"یار وہ شاید واقعی کوئی شریف بندا ہوں“ تھوڑی دیر بعد نمرا نے اسے سمجھانا چاہا۔ جس پر ارشیہ نے اسے پھر سے گھوری سے نوازا تھا۔
"یہ سب پارسا بننے کے ڈھونگ ہوتے ہیں۔۔ کوئی بھی اتنا شریف نہیں ہوتا۔۔۔ ایک بات بتاؤں تمہیں نمرا“ ارشیہ نے نحوست سے کہا۔ آخر میں اس کا لہجہ پر اسرار ہوا تھا۔ جس پر نمرا نے ہمم کہا۔
"تمہیں پتہ ہے۔۔۔ ویسے پیسے میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔۔۔ یہ ہر چیز خرید لیتا ہے۔۔۔ کسی کا سکون چھینتا یے تو کسی کا اعتبار۔۔۔ کسی کی عزت چھینتا ہے تو کسی کی پارسائی“ ارشیہ نے پر اسرار لہجے میں مسکراتے ہوئے کہا۔ نمرا نے ایک نظر اسے دیکھا جس کے چہرے پر اب اطمینان ہی اطمینان تھا جبکہ دماغ مختلف تانے بانے جوڑنے لگا۔
کچھ دیر وہاں بیٹھی دونوں باتیں کرتیں رہی کہ اچانک نمرا کے موبائل پر میسج کی ٹیون بجی۔ جب میسج کھول کر دیکھا تو ایاز کا تھا
"چلو۔۔۔ایاز کا میسج آیا ہے۔۔ سمیر نے فوراً بلوایا ہے۔۔۔ چلو جلدی چلو۔۔۔۔ میں مما اور پھوپھو کو بتا کر ابھی آتی ہوں“ نمرا نے اسے اطلاع دی تو وہ دونوں ایک ساتھ نیچے اتری۔
ڈرائنگ روم کے پاس سے گزرتے اس نے ایک نظر اندر دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا۔ یوسف اب تک جا چکا تھا۔ پھر نمرا اپنی ماما ڈے اجازت کے کر ارشیہ کے ہمراہ سمیر کی بتائی گئی لوکیشن کی طرف چل پڑی۔
''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
"حائقہ باجی مجھے کچھ چیزیں لینی ہیں بازار سے۔۔۔ آپ میرے ساتھ چلے گئی۔۔ بھائی کو تو فرصت نہیں ہے۔۔ کیونکہ اکیڈمی میں آج کل ٹیسٹ چل رہے ہیں“ عبیرہ نے وہاں بیٹھی بچی کا سبق سن کر یاد آنے پر حائقہ سے کہا۔
"ٹھیک ہے۔۔ شام میں چلتے ہیں“ حائقہ نے مسکراتے ہوئے کہا جس پر عبیرہ نے بھی مسکرا کر ہاں میں سر ہلا دیا۔
شام میں دونوں بازار میں شوپنگ کر رہی تھیں۔ عبیرہ اور حائقہ دونوں عبایہ ڈالے نقاب کیے ہوئے تھیں۔ عبیرہ حائقہ کے بازو کو ایک ہاتھ سے پکڑا ہوا تھا۔
تھوڑی دیر شوپنگ کرنے کے بعد وہ دونوں ایک شوز شاپ میں داخل ہوئی۔ ابھی وہ مختلف قسم کی جوتیاں خیکھ رہیں تھیں کہ اچانک کچھ لوگ شاپ میں داخل ہوئے اور طوفانِ بدتمیزی مچا دیا۔
تھوڑی ہی دیر میں زوہیب اور اس کے کچھ دوست شاپ میں داخل ہوئے۔ زوہیب اور اس کے دوست بار بار شوز دیکھتے اور ریجکٹ کر دیتے۔ زوہیب اور اس کے دوستوں گویا ان لوگوں کا مذاق اڑانے کے لیے آئے تھے۔
زوہیب نے شاپ میں ایک طوفانِ بدتمیزی مچا رکھا تھا۔ حائقہ لوگ جو وہاں بیٹھی جوتی لے رہی تھیں شوز لیے بغیر اٹھ کر باہر جانے لگی اب ان کا ارادہ کسی اور دکان سے جا کر لینے کا تھا۔ عبیرہ نے ایک ہاتھ سے حائقہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔
دونوں وہاں سے باہر جانے لگی تو زوہیب نے ایک نظر پاس سے گزرتی عبیرہ کی آنکھیں میں دیکھا اور بے اختیار آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ عبیرہ نے اپنا ہاتھ چھڑوا کر زوہیب کے عمل کے ردِ عمل میں اچانک حائقہ کا ہاتھ چھوڑ کر ایک کھینچ کر تھپڑ اسے مارا جو کہ شاید خوش قسمتی یا بدقسمتی سے زوہیب کے منہ پر پڑا۔
تھپڑ کا شور اتنا تھا کہ سب نے مڑ کر زوہیب کی طرف دیکھا جو کہ بے یقینی کی کیفیت میں اپنے گال پر ہاتھ رکھے عبیرہ کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔ہتک کے احساس سے زوہیب کا چہرا لال بھبوکا ہو گیا۔
زوہیب کے ساتھ ارسل میں آیا تھا جس نے اس سارے واقعے کی ویڈیو ریکارڈ کی تھی۔ ااس نے وہ ویڈیو جلدی سے سمیر کو بھیج کر ایک طنزیہ نظر زوہیب پر ڈالی۔
حائقہ نے زوہیب کا لال بھبھوکا چہرا دیکھا تو اس سے پہلے وہ کچھ کرتا حائقہ نے عبیرہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے تقریباً کھینچتے ہوئے تیز تیز قدم اٹھاتی باہر کی طرف بھاگی۔
زوہیب کی نظروں نے اس کا تعاقب کیا۔ لیکن جب ذہین بیدار ہوا تو وہ اس کے پیچھے بھاگا لیکن اسے وہ دونوں شاپ سے باہر کہی نہ ملی۔ زوہیب کا غصہ سوا ہو رہا تھا۔ ایک چھٹانک بھر کی لڑکی سب کے سامنے اس کے منہ پر تھپڑ مار کر اس کی تضحیک کر گئی۔
حائقہ دکان سے نکل کر جلدی سے حائقہ کا ہاتھ پکڑے بازار کے ایک طرف چلی گئی۔ وہ جلد از جلد کسی محفوظ مقام پر پہنچنا چاہتی تھی۔ وہ جلد ہی دکان سے دور۔ہو۔گئی تو حائقہ نے جلدی سے رکشہ لیا اور گھر واپس چلی آئی۔
''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
حیدر ملک کے گھر حیدر صاحب جیا ملک کے ساتھ ساتھ اکرام ملک اور نجمہ ملک بھی موجود تھے۔ حیدر کو وہ پہلے ہی اپنے آنے کی وجہ بتا چکے تھے۔
"بھابھی میں اور اکرام آپ سے آپ کی بیٹی مانگنے آئے ہیں۔۔۔ بس آپ اپنی بیٹی کو میری بیٹی بنا دیں“ نجمہ ملک نے بڑے مان کے ساتھ جیا ملک سے کہا جس پر انہوں نے ایک نظر پاس بیٹھے حیدر کو دیکھا جنہوں نے انہیں آنکھیں بند کر کے ہاں کرنے کا اشارہ کیا جس پر جیا ملک نے جلدی سے نجمہ کے ہاتھ تھام لے۔
"ارے ارشیہ تو ہے ہی تمہاری بیٹی۔۔۔۔ جب چاہیے آ کر لے جاؤں۔۔۔ ویسے بھی بیٹیوں کو ایک نہ ایک دن ماں باپ کا گھر چھوڑنا ہی ہوتا ہے” آخر میں ان کا دل اداس ہوا تھا۔
"ارے بھابھی آپ فکر کیوں کرتیں ہیں۔۔۔ وہ کون سا غیروں میں جا رہی ہے۔۔ اس کا جب دل چاہے وہ آ جا سکتی ہے۔۔۔ یہ گھر بھی اس کا ہے اور وہ گھر بھی اسی کا ہے“ نجمہ ملک نے جلدی سے انہیں تسلی دی۔ حیدر اور اکرام دونوں اپنی باتوں میں مگن تھے۔
"ٹھیک ہے پھر اس ہفتے کو ارشیہ اور زوہیب کی منگنی رکھ لیتے ہیں“ اکرام صاحب نے مشورہ دیا جس پر سب متفق ہو گئے۔ پھر جیا بیگم اٹھ کر اندر کھانے وغیرہ کا انتظامات دیکھنے چلی گئی۔
''''''''''''''''''''''""""""''"""""""""""
جس دن سے ولی نے ارشیہ کو وہ سب کہا تھا اس دن سے ارشیہ نے ولی سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔ ولی اس دن سے کچھ سکون میں تھا کیونکہ اس نے ایک اچھے دوست ہونے کا فرض نبھایا تھا۔ اسے اپنی زندگی تباہ کرنے سے بچانے کے لیے ایک کوشش کی تھی۔
اس وقت وہ اپنی ماں کے پاس بیٹھا ان کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیے غیر مرئی نقطے کو دیکھ رہا تھا۔ وہ کسی گہری سوچ کے زیرِ اثر تھا۔
ولی کی ماں قومہ میں تھی۔ سات سال ہو گئے تھے انہیں قومہ میں گئے۔ بازار سے گزرتے ہوئے وہ اچانک کای ٹرک اے ٹکر گئی جس کی وجہ سے ان کا سر سڑک کے کنارے پر لگا اور وہ قومہ میں چلی گئی۔
ان کا سب سے بڑا خواب ولی کو باہر پڑھانے کا تھا جس کے لیے انہوں نے دن رات محنت کی۔ ولی کے بابا کی ڈیتھ اس کے پیدا ہونے کے کچھ ماہ بعد ہی ہو گئی تھی۔
ان کا خواب پورا کرنے کے لیے ولی باہر پڑھنے چلا گیا۔ اس کی ملاقات وہاں ایک سیمینار میں ارشیہ سے ہوئی۔ پہلی ملاقات میں ہی ان میں دوستی ہو گئی جو کہ آہستہ آہستہ گہری ہوتی گئی۔
ارشیہ اپنے بارے میں اور اپنے دوستوں کے بارے میں اسے بتاتی تھی۔ یہ سب بھی کہ وہ اس سے چڑتے ہیں۔۔ ولی نے ہمیشہ اچھے دوست ہونے کا فرض نبھاتے ہوئے ہمیشہ اس کی رہنمائی کرتا تھا۔
اب بھی وہ اس کی رہنمائی کر رہا تھا لیکن وہ سمجھنے کی بجائے اس بات کا غلظ مطلب نکال بیٹھی تھی۔ یہ ان کی دوستی میں پہلی بار ہوا تھا کہ وہ اس سے ناراض تھی۔ ورنہ کھبی بھی ولی نے کچھ کہا ہوں۔ ارشیہ اس سے پہلے کھبی ناراض نہیں ہوئی تھی۔
اچانک اس اسے اپنے ہاتھ میں ہل چل محسوس ہوئی تو وہ۔سوچوں کے بھنور سے نکل کر اپنے ہاتھ کو دیکھا تو اس کی ماما کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھا۔ اس کی ماما کے ہاتھ میں ہل چل ہو رہی تھی۔ وہ اپنی ہاتھ ہلانے کی کوشش کر رہیں تھیں۔ولی نے ان کے ہاتھ کو دیکھا اور جلدی سے ڈاکٹر کو فون ملانے لگا۔
کچھ دیر بعد ڈاکٹر نے آ کر ان کا چیک اپ کیا تو ڈاکٹر نے ولی کی زندگی کی نوید اسے سنائی تھی۔ اس کی ماں سات سال بعد قومہ سے واپس آ گئی۔ ولی کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ ڈاکٹر اسے چند ضروری ہدایات دیے کر واپس چلا گیا۔
ولی نے اپنی ماں کا ہاتھ دوبارا سے اپنے ہاتھوں میں لیا تو آنکھوں سے پانی بہہ نکلا۔ اچھی وہ مکمل۔طور پر ہوش میں نہیں آئیں تھیں۔ ابھی انہیں کمزوری تھی اسی لیے وہ مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوئیں تھیں۔ لیکن زیادہ کیئر سے وہ جلد ہی ہوش میں آ جائیں گئیں۔
'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
ارشیہ اور نمرا سمیر کی بتائیں گئیں لوکیشن پر پہنچی تو وہاں خواب ناک سا منظر تھا۔ یہ ساحلِ سمندر کا کنارا تھا جہاں ہر طرف سجاوٹ کی گئی تھیں۔ ہر چیز سفید اور سرخ رنگ سے سجائی گئی تھی۔
سفید پردوں کے ساتھ وہاں گلاب کے پھول سے سجائی ہر چیز بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھی۔ ایاز پہلے سے ہی وہاں موجود تھا۔ سمیر اسے کہی نظر نہ آیا۔ زیاد اسے اور نمرا کو لے کر ایک کمرے کی طرف گیا۔
وہاں ڈمی پر ایک بہت ہی خوبصورت ریڈ اور وائٹ باربی فراکس تھیں۔ اسے دیکھ ارشیہ خوبصورتی سے مسکرائی۔ ایک بیوٹیشن نے آ کر اسے اور نمرا دونوں کو تیار کیا۔ ارشیہ اس سب کو ابھی سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
جلد ہی بیوٹیشن نے دونوں کو تیار کیا تو ان کے گروپ کی ایک لڑکی اندر داخل ہوئی۔ ارشیہ وائٹ فراک میں جبکہ نمرا رید فراک میں تھی دونوں پیاری لگ رہیں تھیں لیکن ارشیہ کوئی باربی ڈول لگ رہی تھی۔
ان سے ملنے کے بعد وہ دونوں کو لے کر باہر کی طرف چلی گئی۔ جہاں سمیر اور زیاد دونوں آف وائٹ تھری پیس سوٹ میں ملبوس نک سک سے تیار کھڑے۔
وہاں ان کے گروپ اور کلاس کے بہت سے لوگ موجود تھے۔ اب دونوں کو سمجھ آیا تھا۔ نمرا کا چہرا خوشی سے دمک پڑا۔ جب کہ ارشیہ نے تاثر نہ دیا۔
دونوں وہاں سب کے پاس آ کر کھڑی ہوئی تو زیاد اور سمیر گھٹنوں کے بل بیٹھے۔ زیاد نمرا کے سامنے جبکہ سمیر ارشیہ کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا۔
"ویل یو میری می؟(?Will you Marry me)“ زیاد اور سمیر نے بیک وقت دونوں کو پرپوز کیا تو وہاں کھڑے سب لوگوں نے ہوٹنگ کی۔
'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''