ارشیہ ساری رات ولی کی باتوں کی وجہ سے پریشان رہی۔ وہ ان ساری سوچوں کو جھٹکنا چاہتی تھی لیکن نہیں وہ ان سے چھٹکارا نہ پا سکی۔
"آہہہہہہہہ“ ارشیہ نے اپنے بال مٹھیوں میں جکڑے اور پھر اٹھ کر سامنے ڈریسنگ پر پڑا سارا سامان نیچے گرا دیا۔ دبیز قالین پر گر کر کچھ سامان بچ گیا تھا۔ اس نے جھک کر ایک پرفیوم کی بوتل اٹھا کر پورے زور سے سامنے دیوار پر ماری جس سے وہ بقتل ٹوٹ گئی اور اس کی ساری خوشبو کمرے میں پھیل گئی۔ سارا کمرہ معطر ہو گیا۔
نہ جانے رات کے کس پہر اس کی آنکھ لگ گئی۔ صبح نو بجے اس کی آنکھ غیر معمولی شور کی وجہ سے کھولی تو اس نے اٹھ کر اس نے ادھر ادھر دیکھا لیکن کمرے کی حالت دیکھ کر اسے الجھن ہونے لگی۔
جس کی وجہ سے وہ اٹھ کر نیچے چلی گئی۔ اس کو نیچے اترتے دیکھ جیا بیگم نے ارشیہ کے بکھرے بکھرے حلیے کو دیکھا۔ ارشیہ نے اتر کر وہاں کھڑی صفائی کرتیں ایک ملازمہ کو اشارہ کیا جس پر وہ منٹ سے پہلے کچن میں غائب ہوئی تھی۔
"یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے ارشیہ“ جیا بیگم نے اسے صوفے پر بیٹھتے دیکھ کہا جس پر اس نے صوفے پر نیم دراز ہو کر اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
"ویسے ہی ماما۔۔ طبیعت ٹھیک نہیں ہے“ ارشیہ نے سہولت سے بہانہ بنایا۔ ملازمہ اس کے لیے جوس لیے اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی تو ارشیہ نے سیدھے ہو کر جوس پکڑ لیا اور اسے اشارے سے جانے کا کہا جس پر وہ دوبارا صفائی کرنے میں مصروف ہو گئی۔
"کیا ہوا ہے میری بیٹی کو“ کمرے سے نکلتے حیدر ملک نے اپنی ٹائی کی ناٹ ٹھیک کرتے ہوئے پوچھا اور چلتے ہوئے اس کے پاس آ کر بیٹھ گئے۔
"کچھ نہیں بابا“ ارشیہ نے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے جواب دیا جس پر حیدر صاحب نے اس کا ماتھا چوما۔
"آج اکرام اور نجمہ آئے گئے شام میں۔۔۔ تو اہتمام کر لیجے گا۔۔۔ ارشیہ تم بھی گھر پر رہنا بیٹا“ حیدر صاحب جیا بیگم کو اطلاع دیتے ہوئے آخر میں ارشیہ سے مخاطب تھے۔
"سوری پاپا۔۔ لیکن آج میرا فرینڈز کے ساتھ گھومنے کا پلین ہے“ارشیہ نے وہاں بیٹھے سہولت سے انکار کیا جس پر حیدر کچھ کہے بغیر آفس چلے گئے۔ اور ارشیہ اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔ جیا بیگم دوبارا سے ملازموں کو صفائی کرنے کی ہدایات دینے لگیں۔
کمرے میں داخل ہونے پر کمرے میں پھیلی خوشبو نے اس کا استقبال کیا۔ ارشیہ کمرے کی حالت نظر انداز کرتی ڈریس لے کر ڈریسنگ روم میں بند ہو گئی اور اپنی حالت درست کرنے کے بعد اپنا موبائل اور گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے واپس نیچے چلی گئی اور باہر جانے سے پہلے ملازمہ کو کمرا صاف کرنے کا حکم سنا گئی۔
اس نے گاڑی کا رخ نمرا کے گھر کی جانب کیا۔ نمرا کے گھر کے پورچ میں گاڑی روک کر وہ ڈرائنگ روم کے پاس سے گزرنے لگی تو جو الفاظ اس کے کانوں نے سنے اس سے ارشیہ کے قدم زنجیر ہوئے۔
''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
عبیرہ آج معمول کے مطابق حائقہ کے گھر آئی ہوئی تھی جبکہ یوسف اپنے نئے شیڈول کے مطابق نعمان صاحب کے گھر گیا تھا۔ اس نے دروازے کے پاس کھڑے ڈور بیل بجائی تو ایک ملازم نے دروازا کھولا۔
یوسف اس کی تقلید میں چلتا ہوا ڈرائنگ روم میں داخل ہوا۔ ملازم اسے وہاں بیٹھنے کا کہہ کر اندر کی طرف نعمان صاحب کے بھانجے کو بلانے چلا گیا۔
تھوڑی دیر بعد ڈرائنگ روم میں ایک دس سالہ بچہ داخل ہوا۔ وضو کا پانی اس کے چہرے پر ابھی بھی موجود تھا۔ جینز شرٹ میں موجود پارے کو اپنے سینے سے لگائے بچہ یوسف کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا۔
"اسلام و علیکم! کیا نام ہے آپ کا“ یوسف نے دوستانہ لہجے میں پوچھا۔ اسے وہ بہت بچہ پیارا لگا تھا۔
"دحیہ علی۔۔۔ آپ کا کیا نام ہے“ نعمان صاحب کے بھانجے نے ہلکا سا مسکراتے ہوئے یوسف کے سوال کا جواب دیے کر سوال کیا تھا۔
"میرا نام یوسف احمد ہے۔۔۔ ماشاءاللہ بہت خوبصورت نام ہے آپ کا۔۔۔ آپ کون سے پارے پر ہوں دحیہ علی“ یوسف نے دل سے اس کے نام کی تعریف کی۔
"اکیسویں پارے۔۔ سورۃ الانبیاء شروع کرنی ہے “ دحیہ کی نرم سی آواز کمرے میں گونجی جس پر یوسف نے مسکرا کر اسے پارہ کھولنے کا کہا اور اس کے ساتھ مل کر تلاوت کرنے کے ساتھ ترجمہ پڑھنا شروع کر دیا۔
Surat No 21
"بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ"
(ترجمہ: شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے.)
Surat No 21 : Ayat No 1
"اِقۡتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمۡ وَ ہُمۡ فِیۡ غَفۡلَۃٍ مُّعۡرِضُوۡنَ ۚ﴿۱﴾"
(ترجمہ: لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا پھر بھی وہ بے خبری میں منہ پھیرے ہوئے ہیں.)
Surat No 21 : Ayat No 2
"مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ ذِکۡرٍ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ مُّحۡدَثٍ اِلَّا اسۡتَمَعُوۡہُ وَ ہُمۡ یَلۡعَبُوۡنَ ۙ﴿۲﴾"
(ترجمہ: ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جو بھی نئی نئی نصیحت آتی ہے اسے وہ کھیل کود میں ہی سنتے ہیں.)
Surat No 21 : Ayat No 3
"لَاہِیَۃً قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ اَسَرُّوا النَّجۡوَی ٭ۖ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ٭ۖ ہَلۡ ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ ۚ اَفَتَاۡتُوۡنَ السِّحۡرَ وَ اَنۡتُمۡ تُبۡصِرُوۡنَ ﴿۳﴾"
(ترجمہ: ان کے دل بالکل غافل ہیں اور ان ظالموں نے چپکے چپکے سرگوشیاں کیں کہ وہ تم ہی جیسا انسان ہے ، پھر کیا وجہ ہے جو تم آنکھوں دیکھتے جادو میں آجاتے ہو۔)
Surat No 21 : Ayat No 4
"قٰلَ رَبِّیۡ یَعۡلَمُ الۡقَوۡلَ فِی السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ۫ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۴﴾"
(ترجمہ: پیغمبر نے کہا میرا پروردگار ہر اس بات کو جو زمین و آسمان میں ہے بخوبی جانتا ہے ، وہ بہت ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔)
دحیہ اس کی نرم سی آواز سن کر ٹھہر گیا۔ اس کی آواز میں اس قدر جادو تھا دحیہ اپنی زبان کو بھی حرکت نہ دیے سکا۔ اس کی آواز سن کر دروازے کے پار کسی اور کے بھی قدم زنجیر ہوئے تھے۔
آیات پڑھ کر یوسف جب خاموش ہوا تو ارشیہ کے قدم بے ساختہ ڈرائنگ روم کی طرف بڑھے تھے۔
'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
زوہیب اس وقت پرسکون نیند لے رہا تھا کہ جب اس کے موبائل کی ٹیون بجی۔ اس نے ناگواری سے آنکھیں کھولنے کی زحمت کیے بغیر نیند میں ہی ٹٹولتے ہوئے موبائل ڈھونڈ کر یس کر کے موبائل کان سے لگایا۔
"کہا ہوں زوہیب ملک“ دوسری طرف سے اکرام صاحب کی آواز سپیکر سے گونجی۔زوہیب نے موبائل کان سے ہٹا کر دیکھا تو اس پر پاپا لکھا دیکھ اس نے آنکھیں بند کرے موبائل دوبارا کان سے لگایا۔
"فارم ہاؤس پر ہوں پاپا۔۔۔ آپ بتائیں کوئی کام تھا؟“ نیند کے خمار میں ڈوبی زوہیب کی آواز گونجی۔
"ہاں۔۔ وہ میں اور تمہاری ماں شام میں تمہارے لیے ارشیہ کا رشتہ مانگنے جا رہے ہیں “ اکرام صاحب نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا جس پر اس نے ہممم کہنے پر اکتفا کیا۔
"ٹھیک ہے۔۔ پھر فائنل ہو جائے تو مجھے بتا دیجیے گا۔۔ بائے“ زوہیب نے کہہ کر فون بند کر دیا۔
"یہ لڑکا ہاتھ سے نکل رہا ہے۔۔ کچھ زیادہ ہی بدتمیز ہو گیا ہے“ دوسری طرف اکرام صاحب موبائل دیکھتے رہے اور پھر غصے سے بولے اور پھر اٹھ کر ملازمہ کو سارا سامان گاڑی میں رکھوانے کا کہہ کر کمرے کی طرف چل پڑے۔
زوہیب نے فون بند کرکے اپنے سامنے بیڈ پر دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ اسے اپنی رات کی کارستانی یاد کیے ہونٹوں پر مسکراہٹ در آئی۔نجانے اس کا خاص ملازم اس لڑکی کو کیسے یہاں لے کر آیا تھا لیکن اس سے اسے کیا۔ اس نے مسکراتے ہوئے سر جھٹکا اور پھر سے سو گیا۔
''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
"ارے سمیر۔۔۔ اب کیا ارادہ ہے تمہارا“ سمیر کے ایک دوست نے اس سے پوچھا جس پر اس نے ناگواری سے اسے دیکھا۔ سمیر اس کے دوست اور اس کے کزن، تقریباً پانچ چھے لوگ سمیر کے فارم ہاوس می بیٹھے ہوئے تھے۔
"چھوڑوں گا نہیں۔۔ بدلا تو لے کر رہوں گا اس ارشیہ کی بچی سے“ ناگواری کی۔جگہ اب غصے نے لے لی تھی۔ سمیر ابھی تک غصے سے بھرا بیٹھا تھا۔
"چل مل کر بدلہ لیتے ان دونوں سو کالڈ انا کے پجاریوں سے“ سمیر کے کزن ارسل نے آرام سے کہتے ہوئے سمیر کے کندھے پر بازو رکھا۔
"کون دو؟۔۔۔۔ ارشیہ کے علاوہ دوسرا کون“ سمیر کے دوسرے دوست نے ارسل سے پوچھا۔
"انا کا پجاری۔۔ دا وان اینڈ اونلی بگڑا رئیس زادہ۔۔۔ زوہیب اکرام ملک“ ارسل نے نحوست سے زوہیب کا تعارف کروایا جس پر سمیر نے بھی اس کی جانب دیکھا۔
"کیوں۔۔ وہ تو تمہارا دوست ہے نہ“ سمیر نے ناسمجھی سے ارسل سے پوچھا جس پر اس نے ناگواری سے سر جھٹکا اور اپنے ساتھ کلب میں ہوئی بے عزتی کی ساری داستان ان کے گوش گزرا دی۔جس پر سمیر نے اس کا کندھا تھپتھپا۔
"اب ملک خاندان اپنی بربادی دیکھے گا“ سمیر نے چہرے پر مسکراہٹ سجائے خباثت سے کہا۔ جس پر ارسل اور باقی سب ہنس دیے۔
'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''"""""""""""