ارشیہ نے گاڑی ولی کے گھر کے آگے روکی اور جلدی سے گاڑی لاک کرتی دروازے کی طرف بھاگ کر دروازا کھٹکھٹایا۔ یہ چھوٹا سا گھر باہر سے دیکھنے میں بہت خوبصورت لگتا تھا اندر سے بھی اسی نفاست کے ساتھ سیٹ کیا گیا ہوا تھا۔
ولی نے پوچھ کر دروازا کھولا۔ مگر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ارشیہ ہی ہوں گئی۔ اسی لیے دروازے کھولتے ہی اوڑھ میں ہو گیا۔
"تو کیسا لگا سرپرائز “ ولی نے دروازے کی اوڑھ میں کھڑے رہ کر پوچھا۔ جس پر ارشیہ نے اندر داخل ہو کر مصنوعی ناراضگی کے ساتھ اس کے کندھے پر مکا جڑا۔
"بتا کر نہیں آ سکتے تھے۔۔ اتنی دیر بعد آئے ہوں۔۔ بندہ رسیو کرنے آ جاتا یے۔۔ کوئی پھول شول لے آتا ہے“ ارشیہ نے ایک قدم پیچھے کھڑے ہو کر بازو پر ہاتھ باندھے کہا۔ جس پر ولی مسکرا دیا۔
"اب لے آتی۔۔۔ کہ ارشیہ حیدر کو کسی نے پھول نہیں دیے“ولی نے اپ ا۔ ازو سہلاتے ہوئے کہا جس پر ارشیہ نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔ جیسے کہنا چاہ رہی ہوں سیریس لی۔
"جاؤں گاڑی میں پڑے ہیں تمہارے لیے پھول۔۔۔ جاؤں لے لو“ ارشیہ نے گاڑی ولی کی طرف بڑھاتے ہوئے ایک ادا سے کہا اور چابی اسے پکڑا کر اندر کی طرف بڑھ گئی۔
"اسلام و علیکم آنٹی! کیا حال ہے۔۔۔ دیکھیں آج میں آئی ہوں۔۔ جلدی سے ٹھیک ہوں جائے“ ارشیہ نے کمرے میں بیڈ پر بے سدھ لیٹی ولی کی والدہ کے پاس بیٹھتے ہوئے عقیدت سے ان کے ہتھیلی پر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔
اتنی دیر میں ولی دروازے کے پاس آ کر کھڑا ہوا۔ اس کے ہاتھ میں مختلف قسم کے پھولوں کے گلدستے تھے۔ ارشیہ نے یک گلدستہ پکڑ کر ولی کی والدہ کے پاس رکھ دیا اور مسکرا پڑی۔ تھوڑی دیر بعد دونوں باہر برآمدے میں کرایوں پر براجمان تھے۔
"کیا ہوا ہے۔۔ یوں اداس نہ ہوں آنٹی جلد ہی ٹھیک ہوں جائے گئی“ ارشیہ نے اس کی آنکھوں میں داسی دیکھتے ہوئے کہا جس پر ولی پھیکا سا مسکرا دیا۔
"مجھے کھبی کھبی ڈر لگتا ہے ارشیہ“ ولی نے اس کے چہرے پر نظریں جمائے بات کی تو ارشیہ نے حیران کن نظروں سے ولی کو دیکھا۔
"کس سے۔۔۔ اگر آنٹی کی۔۔ تم سے“ اس سے پہلے کہ ارشیہ اپنی بات مکمل کرتی ولی اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔ جس پر ارشیہ کو سانپ سونگ گیا۔
"تم دنیا والوں کے لیے اتنی بری ہوں۔۔ تمہارے دوست تک تم سے اکثر چڑتے ہیں۔۔ بقول تمہارے۔۔۔ تو تم میرے ساتھ اتنی مہربان کیوں ہوں“ ولی نے غیر مرئی نقطے کو گھورتے ہوئے ارشیہ سے سوال کیا۔ جس کا جواب تو شاید اس کے پاس بھی نہیں تھا۔
"ارشیہ تم دو دلوں کے ساتھ جی رہی ہوں۔۔ ایک دل تمہارا سختی کرتا ہے۔۔ اسے اپنی انا اور غرور وتکبر بہت عزیز ہیں۔۔ جبکہ دوسرا دل۔۔۔ دوسرا دل تمہارا تمہیں اچھائی کا سبق دیتا ہے۔۔ کوئی انسان دو دلوں کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتا۔۔ گر تم یونہی دہی تو تم اندر سے مر جاؤں گئی ارشیہ“ ولی جو پچھلے کچھ سالوں سے اسے آبزرور کر رہا تھا آج بول پڑا۔
"اس جھوٹ سے نجات حاصل کروں۔۔۔ جس کے ساتھ تم اپنی زندگی بسر کر رہی ہوں۔۔۔ یہ میری ایک ٹیچر ہے بہت اچھی۔۔ تم ان سے رابطہ کر کہ ایک دفعہ اپنی زندگی پر نظرِ ثانی کروں“ ولی نے اس کی طرف ایک کارڈ بڑھایا اور وہاں سے اٹھ کر کمرے کی طرف چلا گیا جہاں سے ابھی اس کی والدہ کی نرس نکل کے گئی تھی۔
ارشیہ پیچھے بت بنی بیٹھی رہی۔ وقت اپنی رفتار سے سرکتا رہا۔ کچھ دیر بعد ارشیہ اٹھی اور گاڑی کی طرف چلی گئی۔ بے دھیانی میں وہ ولی کے دیے گئے کارڈ کو بھی اپنے بیگ میں ڈال چکی تھی۔ گاڑی میں بیٹھ کر سیدھا اس نے اپنے گھر کی راہ لی۔
'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
"روشنی جاؤں۔۔ جا کر عبیرہ کو گھر چھوڑ آؤں “ عبیرہ نے دوپہر کے قریب اسی چھوٹی سی بچی سے کہا جس نے دروازا کھولا تھا۔ جس پر وہ مسکراتے ہوئے جلدی سے اٹھی۔
عبیرہ نے دوپٹے کا نقاب کیا اور روشنی کا ہاتھ پکڑ کر حائقہ کو خدا حافظ کہہ کر واپس چل دی۔
"آپی ایک بات پوچھو۔۔۔ صرف ایک۔۔“ روشنی نے بازار سے گزرتے عبیرہ کے چہرے کو دیکھتے ہوئے اس سے اجازت چاہی جس پر عبیرہ نے نفی میں سر ہلایا تو روشنی چپ ہو گئی۔
گھر کے سامنے پہنچ کر عبیرہ نے چابی روشنی کو پکڑائی جیسے اس نے جھٹ سے پکڑ کر تالا کھولا اور عبیرہ کا ہاتھ پکڑ کر اندر داخل ہوئی۔ عبیرہ نے مڑ کر دروازا بند کیا اور اسے لے کر باہر پڑی چارپائی پر بیٹھ گئی جو کہ روز جاتے وقت یوسف بچھا کر جاتا تھا۔
"اب پوچھو“ عبیرہ نے چہرے سے نقاب ہٹاتے ہوئے پیار سے کہا کر روشنی کو اجازت دی جس پر روشنی خوشی سے چہکی۔
"آپی آپ اپنا نام بنتِ احمد کیوں بتاتیں ہیں“ روشنی نے پر سوچ لہجے میں پوچھا جس پر عبیرہ مسکرا دی۔
"کیوں کہ مجھے اپنا یہ نام پسند ہے“ عبیرہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ جس پر روشنی نے پر سوچ انداز میں سر ہلایا اور پھر خدا حافظ بول کر وہاں سے چلی گئی اور جاتے ہوئے دروازا بند کر گئی۔
پیچھے عبیرہ گھر میں اکیلی رہ گئی تو اٹھ کر آہستہ آہستہ محتاط قدم اٹھاتی بیسن تک گئی اور وضو بنا کر اپنے کمرے میں جا کر قرآنِ مجید کی تلاوت کرنی شروع کر دی۔ گھر میں اس کی پر سوز آواز گونجنے لگی۔
"یوسف ایک کام کروں گئے“ اس وقت وہ اکیڈمی میں بیٹھا بچوں کو پڑھا رہا تھا کہ اکیڈمی کے پرنسپل نعمان اس کے پاس آ کر بیٹھے اور اس سے مدد طلب کی۔
"جی سر کہے کیا کر سکتا ہوں میں آپ کے لیے“ یوسف نے خوش دلی سے پوچھا جس پر نعمان صاحب مسکرا دیے۔
"وہ میرا ایک بھانجا ہے۔۔۔ کیا تم اسے قرآن کی تعلیم دیے سکتے ہوں۔۔۔ دراصل اس کے لیے جو قاری لگوایا تھا وہ بیمار ہو گیا ہے“ نعمان صاحب نے اسے تفصیل بتائی۔
"جی جی بلکل۔۔۔ مجھے خوشی ہوں گئی“ یوسف نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا جس پر نعمان صاحب کے چہرے پر اطمینان در آیا۔
"ٹھیک ہے پھر کل سے تم صبح دس بجے اکیڈمی آنے کی بجائے میرے گھر جا کر اسے پڑھا دینا۔۔۔ اور اسے پڑھانے کے بعد اکیڈمی آ جایا کرنا“ نعمان نے مسکرا کر اسے کل کا شیڈول بتایا جس پر یوسف نے سر ہاں میں ہلا دیا۔
"مجھے خوشی ہوں گئی کہ اگر کوئی مجھ سے قرآن کی تعلیم حاصل کرے گا“ یوسف نے خوش دلی سے کہا جس پر نعمان صاحب اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے واپس چلے گئے جبکہ یوسف لڑکوں کو پڑھانے لگ پڑا۔
''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
" ارے یہ آ گیا محفل کی جان “ کلب میں بیٹھے ایک لڑکے نے دروازے کی طرف اشارہ کیا جس پر آتے ہوئے نفوس کے چہرے پر مسکراہٹ در آئی۔
"ارے زوہیب تو اتنا لیٹ کیوں آیا ہے“ دوسرے لڑکے نے اس سے استفادہ کیا جس پر اس مے ناگواری سے اسے دیکھا۔
"کیوں کیا کلب بند ہو گیا ہے۔۔۔ کہ تو نے دس بجے گھر جانا تھا۔۔ ممی ڈیڈی بچے نے ہاں“ زوہیب نے اسے پچکارتے ہوئے پوچھا جا پر سب کے قہقہے بلند ہوئے جبکہ اس لڑکے کا چہرہ خفت کے مارے سرخ ہوا۔
" لو لیٹس سٹارٹ دا پارٹی بوائز “ زوہیب۔ے بلند آواز میں کہا جس پر سب اس کی تقلید میں کلب کے کاؤنٹر کی طرف۔ لے گئے جہاں ایک لڑکی ان کو ڈرنکس بنا کر دینے لگی۔
زوہیب نے لڑکی کو دیکھا تو ویٹریس کے ڈریس میں کافی پیاری لگ رہی تھی۔ زوہیب نے زراب کا گلاس پیتے ہوئے گہری نظروں سے اسے دیکھا جبکہ باقی سب تھوڑی دیر بعد ڈانس فلور پر جا کر ڈانس کرنے لگے۔
زوہیب نے اپنے آدمی کو اپنے پاس بلایا اور آنکھ سے لڑکی کی جانب اشارہ کیا جو سب سے بے نیاز اپنا کام کر رہی تھی۔ آدمی اس کی بات سمجھ کر سر ہاں میں ہلاتا اسے تسلی دیے کر پیچھے ہٹ گیا۔
زوہیب نے شراب کا گلاس کاؤنٹر پر رکھ کر مسکراتے ہوئے لڑکی کی جانب ٹپ بڑھائی اور وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ کلب سے نکل کر وہ اپنی گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی اپنے فارم ہاوس کی طرف بھگالی۔
"پندرہواں شکار ہے کہ بیسواں۔۔۔ اب تو گنتی بھی بھول چکی یار“ زوہیب نے گاڑی چلاتے پر سوچ انداز میں سوچتے ہوئے کہا اور پھر ہنس پڑا اور گاڑی کو فل سپیڈ میں بھگالیا۔
''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''