"ارشیہ میں یہاں کیسے۔۔۔ میں تو وہاں تھی۔۔۔ عبیرہ کا آپریشن ہو رہا تھا“ حائقہ نے ہوش میں آتے ہی سامنے ارشیہ کو دیکھ پوچھا تھا۔
"حائقہ آپی آپ کو کیسنر تھا۔۔۔ آپ کو پتہ ہے“ ارشیہ نے اس کی بات کا جوا دیے بنا اس سے پوچھا جس پر وہ بے یقین سی اسے دیکھنے لگی۔
اور پھر تھوڑی دیر بعد حائقہ آپریشن تھیٹر کے باہر بیٹھی تھی۔ چپ گم سم سی۔ اس نے زینب اور عبیرہ کو بتانے سے منع کر دیا تھا۔
"تم انہیں جانتی ہوں۔۔۔ یہ کون ہیں“ ولی نے آہستہ سے ایک طرف کھڑی ارشیہ سے پوچھا۔
"ہممم۔۔۔ زینب آنٹی کی جاننے والی ہیں“ ارشیہ نے مختصر سا جواب دیا تھا۔
"ڈاکٹر عبیرہ کیسی ہے“ تھوڑی دیر بعد آپریشن ختم ہوا تو ڈاکٹرز باہر آتے دیکھ حائقہ نے آگے بڑھ کر ان سے پوچھا۔
"انہیں دو گھنٹے بعد ہوش آ جائے گا۔۔ تب ہم کچھ بتا سکتے ہیں کہ آپریشن کامیاب ہوا ہے یا نہیں۔۔۔۔ آیکس کیوز می پلیز“ یہ کہہ کر ڈاکٹر وہاں سے چلا گئی۔ حائقہ واپس وہی بیٹھ گئی۔ ولی نے اسے ایک نظر دیکھا اور واپس مڑ گیا۔ ارشیہ وہی اس کے پاس بیٹھ گئی تھی۔
"آپی آپ کو آرام کی ضرورت ہے“ ارشیہ نے اسے وہاں سر ہاتھوں میں گرائے دیکھ کہا تھا۔
" تمہیں پتہ ہے ارشیہ عبیرہ محض ایک سال کی تھی جب عبیرہ کے پاپا نے اسے مجھے لا کر پکڑایا تھا۔۔۔۔ اور کہا تھا کہ آج سے یہ تمہاری بہن بھی ہے۔۔۔ اس کا خود سے بھی زیادہ خیال رکھنا“ حائقہ نے ہاتھ میں سر گرائے اس کی بات نظر انداز کرے اپنی ہی دھن میں بتا رہی تھی۔
"میں نے اپنا وعدہ ہمیشہ نبھایا۔۔۔ کیا اب زندگی مجھے اتنی مہلت دیے گئی۔۔۔ مانا کہ اس کا بھائی اس کا مجھ سے زیادہ خیال رکھ سکتا ہے“ حائقہ اسی پوزیشن میں بیٹھے ارشیہ سے یا شاید خود سے باتیں کیے جا رہی تھی۔
"آپی مایوس کیوں ہو رہیں ہیں۔۔ اللّٰہ تعالیٰ نے بہتر ہی سوچا ہو گا“ ارشیہ نے اسے حوصلہ دینا چاہا تھا۔
"ارشیہ۔۔۔ ارشیہ تم اگر فارغ ہو تو زینب آنٹی کے پاس چلی جاؤں۔۔۔ ان کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی۔۔ پلیز انہیں میرے بارے میں کچھ مت بتانا” زینب کا خیال آتے ہی حائقہ نے ارشیہ کو زینب کے پاس جانے کا کہا اور آخر میں اسے تاکید کی۔
"آپی آپ گھر چلے جائے۔۔ میں یہی رہ لوں گئی“ ارشیہ نے سمجھانے سے انداز میں کہا جس پر حائقہ نے چہرے پر مسکراہٹ سجائے نفی میں سر ہلایا تھا۔
"نہیں تم جاؤں۔۔۔۔ ہوش میں انے کے بعد عبیرہ کو میری ضرورت پڑے گئی۔۔۔ اس کا بھائی بھی نہیں ہے یہاں“ حائقہ نے کہہ کر اسے جانے کا کہا جس پر وہ بجھے دل سے اٹھ کر زینب کے گھر کی طرف چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد عبیرہ کو روم میں شفٹ کر دیا گیا۔ حائقہ اس کے پاس ہی سٹول پر بیٹھی اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی اور خدا تعالیٰ سے اس کی بینائی واپس آنے کی دعائیں مانگ رہی تھی۔
وہاں سٹول پر بیٹھے بیٹھے ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔ آنکھ تو تب کھولی جب ڈاکٹر نے آ کر عبیرہ کا چیک اپ کیا تھا۔ اللّٰہ نے ان کی دعائیں سن لین تھیں۔ عبیرہ کی بینائی واپس آگئی تھی۔ ڈاکٹر نے دونوں کو خوشی کی نوید سنائی۔ عبیرہ کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی۔
ڈاکٹر اسے ریسٹ کرنے کا اور ضروری ہدایات کر کے واپس چلا گیا۔ عبیرہ نے ہاسپٹل کے بیڈ پر لیٹی عبیرہ کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسوں آئے تھے۔ اس کے آنسوں اپنی بے بسی اور عبیرہ کی خوشی دونوں کے تھے۔ وہ اب کتنی بے بس ہوگئی تھی کہ اس کے پاس وقت کم تھا لیکن اس بات کی خوشی تھی کہ وہ جلد اس فانی دنیا کو چھوڑ کر اپنے مالک کل جہان سے ملنے والی تھی۔ وہ عبیرہ کے لیے خوش تھی کہ اس کی بینائی واپس اسے مل گئی۔
ڈاکٹر کی بات سننے کے بعد اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے تھے:
[حوالہ: سورۃ الرحمٰن (سورۃ نمبر 55) آیت نمبر 13]
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ﴿۱۳﴾
( اے انسانو اور جنات ! ) اب بتاؤ کہ تم دونوں اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
یہ آیت پڑھنے کے بعد اس نے سکون سے آنکھیں بند کیں تھیں۔
''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
"کون ہے “ ارشیہ نے دروازا کھٹکھٹایا تو اندر سے زینب کی آواز گونجی تھی۔ اس وقت ان کے گھٹنوں میں درد ہو رہا تھا وہ مسلسل بیٹھی عبیرہ کے لیے دعائیں کر رہیں تھیں۔ مشکلوں سے انہوں نے دروازا کھولا۔
"اسلام و علیکم زینب آنٹی“ ارشیہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا۔ اسے دیکھ زینب کو خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔
"آ جاؤں میری بچی“ زینب نے کھولے سے اسے اندر آنے کا کہا جس پر وہ دروازا بند کر کے انہیں سہارا دیا اور انہیں لے کر کمرے میں آئی۔
"کیا ہوا ہے کچھ پریشان لگ رہی ہوں“ زینب نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے پوچھا تھا جس پر وہ پھیکا سا مسکرائی۔ چند ہی دنوں میں ارشیہ ان سے مانوس ہو گئی تھی۔ ایک عجیب سا سکون تھا اس گھر میں۔
"آنٹی میں نے اسے چاہا تھا۔۔۔ اس کی محبت میں میں نے خود کو اس کے رنگ میں ڈھالنا شروع کر دیا۔۔م میں اس جیسی بننے کی کوشش کر رہی ہوں۔۔ پھر بھی مجھے شکست ہوئی۔۔ میں نے دن رات دعاؤں میں اسے مانگا تھا۔۔ پھر بھی نہیں ملا مجھے وہ “ ارشیہ نے مدھم آواز میں کہنا شروع کیا تھا۔ بات کرتے کرتے اس کی آنکھ سے ایک آنسو ٹپکا تھا۔ حلق میں آنسوں اٹکے تھے
"اللّٰہ کی رحمت سے کھبی مایوس نہیں ہوتے۔۔۔ اللّٰہ کے گھر میں صرف دیر ہے۔۔۔ اللّٰہ سے شکوہ نہیں کرتے۔۔۔ کہتے ہیں جیسے تو راضی ویسے میں راضی“ زینب نے اس کا آنسوں صاف کرتے ہوئے نرم سے لہجے میں کہا تھا۔
" ساری دنیا کو چھوڑ میں نے صرف ایک شخص سے محبت کی۔۔۔ اس کی محبت میں پرانی ارشیہ مر گئی۔۔ اس کی جگہ ایک نئی ارشیہ نے سانس لینا شروع کی۔۔۔ میں نے اس کے پیچھے اپنا آپ بھولا دیا لیکن وہ نہیں مل رہا۔۔۔۔ میرے نصیب میں وہ کیوں نہیں ہے“ آج وہ اپنے دل کی باتیں کر رہی تھی۔ زوہیب سے منگنی کا اسے دکھ تھا۔ اس نے جیسے چاہا اسے پاہ نہیں سکتی۔۔ وہ کوشش کر رہی تھی لیکن منزل پانے سے پہلے ہی وہ منزل سے کوسوں دور ہوتی جا رہی تھی۔
"تم نے ایک شخص کے پیچھے سب کچھ چھوڑ دیا۔۔۔ اس کی محبت میں اپنے آپ کو بھلا دیا۔۔۔ وہ تمہیں نہیں مل رہا تو تم رب سے شکوہ کر رہی ہوں۔۔۔ جو تمہارے پاس نعمتیں موجود ہیں اس کا شکریہ ادا کیا۔۔۔ دیکھو بیٹا اس میں بھی شاید کوئی بہتری ہو گئی۔۔۔ اس مالکِ کل جہان نے کھبی تم سے کہا کہ تم میری عبادت نہیں کرتی۔۔ میری نعمتوں کا شکر بجا نہیں لاتی“ زینب نے نرمی سے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ آخر میں ان کی خود کی آواز بھیگی تھی۔
ارشیہ نے ایک نظر انہیں دیکھا۔ وہ سچ ہی تو کہہ رہی تھیں۔۔ اس کے پاس اتنی نعمتیں تھیں۔ اس نے کھبی ایک دفعہ بھی زبان سے شکر بجا نہیں لایا۔
" ارشیہ ایک بات پوچھو“ زینب نے ارشیہ کے ہاتھ کڑے دھیرے سے کہا تھا۔ جس پر ارشیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
"تم ماشاء اللّٰہ اب نمازیں بھی پڑھتی ہوں۔۔۔ تم تلاوت کیوں نہیں کرتی۔۔۔ وہ تو اللّٰہ کا کلام ہے“ زینب نے آہستہ سے پوچھا۔ وہ جانتی تھیں کہ ارشیہ اب نمازیں پڑھنا سٹارٹ ہوں گئی ہے۔اسی لیے انہوں نے آج پوچھا تھا۔
"تلاوت۔۔۔ نماز میں پڑھ لیتی ہوں۔۔۔ نماز پڑھنے میں مجھے تھوڑی ہچکچاہٹ ہوتی تھی۔۔۔۔ لیکن اب نہیں ہوتی۔۔ لیکن تلاوت۔۔۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں۔۔ میں دھتکار دی جاؤں گئی۔۔ میں نے کھبی کوئی نیکی نہیں کی۔۔ چند دن ہوئے ہیں مجھے نماز پڑھتے۔۔۔جب میں سوچتی ہوں تو میرے کیے گئے گناہ اپنے پورے قد و قامت کے ساتھ میرے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔۔ اور پھر میں۔۔۔ مجھ میں اتنی ہمت نہیں رہتی۔۔۔ کہ اپنے مالکِ کل جہان سے ہم کلام ہوں“ ارشیہ نے وجہ بتائی۔ بات کرتے وقت اس کا گلے میں آنسوں کا گولہ اٹکا تھا۔ اس کی آنکھوں میں نمی واضح تھی۔ بات کرتے وقت اس کی گرفت زینب کے ہاتھوں پر مضبوط تر ہوتی گئی تھی۔
"تمہیں کس نے کہا کہ وہ اللّٰہ جس کی صفات میں سے ایک صفات غفور ورحیم ہے۔۔ وہ تمہیں دھتکار دیے گا۔۔ جس نے تمہیں نماز پڑھنے کی ہدایت بخشی۔۔ وہ تمہیں اپنا کلام نہیں پڑھنے دیے گا۔۔ یہ سب شیطان کا بہکاوا ہو گا“ زینب نے اس کی آنکھوں میں آنسوں دیکھ اسے حوصلہ دیا اور سورۃ المؤمن کی آیت نمبر 3 کا ترجمہ سنایا۔
[حوالہ: سورۃ المؤمن (سورۃ نمبر 40) آیت نمبر 3]
غَافِرِ الذَّنۡۢبِ وَ قَابِلِ التَّوۡبِ شَدِیۡدِ الۡعِقَابِ ۙ ذِی الطَّوۡلِ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ ﴿۳﴾
جو گناہ کو معاف کرنے والا ، توبہ قبول کرنے والا ، سخت سزا دینے والا ، بڑی طاقت کا مالک ہے ۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ اسی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے ۔
جس پر ارشیہ کی انکھ سے ایک قطرہ گرا تھا۔ یہ بات ابھی ارشیہ کی سمجھ سے باہر تھی کہ وہ آنسوں اللّٰہ کی اتنی محبت پر اس کی آنکھ سے آنسوں گرا تھا یا شاید وہ ندامت کا آنسوں تھا۔ بلاشبہ وہ آنسوں قیمتی تھا۔ زینب نے ایک اور سورۃ النمل کی آیت کا ترجمہ سنایا۔
[حوالہ: سورۃ النمل (سورۃ نمبر 27) آیت نمبر 92]
وَ اَنۡ اَتۡلُوَا الۡقُرۡاٰنَ ۚ فَمَنِ اہۡتَدٰی فَاِنَّمَا یَہۡتَدِیۡ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ ضَلَّ فَقُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُنۡذِرِیۡنَ ﴿۹۲﴾
اور یہ کہ میں قرآن کی تلاوت کروں ۔ اب جو شخص ہدایت کے راستے پر آئے ، وہ اپنے ہی فائدے کے لیے راستے پر آئے گا ، اور جو گمراہی اختیار کرے ، تو کہہ دینا کہ : میں تو بس ان لوگوں میں سے ہوں جو خبردار کرتے ہیں ۔
ارشیہ نے اپنے ہاتھوں کو زینب کے ہاتھوں سے آزاد کر کے دیکھا تھا۔ اتنے دنوں سے اس کے دل پر جو بوجھ تھا وہ سرک چکا تھا۔
ارشیہ ایک بات بولو۔۔۔ بیٹا اب تم حجاب اوڑھا کرو“ تھوڑی دیر خاموشی ان کے درمیان قائم رہی تو زینب نے اس کے گلے میں موجود دوپٹے کو دیکھ کر کہا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ ارشیہ آہستہ آہستہ نیکی کی طرف راغب ہو رہی ہے۔۔ وہ اسے ایک باحیا عورت بنانا چاہتی تھی۔ زینب کے کہنے پر ارشیہ نے نظریں اپنی ہتھیلی سے اٹھا کر زینب کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں واضح سوال تھا کیوں؟
[حوالہ: سورۃ الاحزاب ( سورۃ نمبر 33) آیت نمبر 59]
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یُّعۡرَفۡنَ فَلَا یُؤۡذَیۡنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۵۹﴾
اے نبی ! تم اپنی بیویوں ، اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادریں اپنے ( منہ کے ) اوپر جھکا لیا کریں ۔ ( ٤٧ ) اس طریقے میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی ، تو ان کو ستایا نہیں جائے گا ۔ ( ٤٨ ) اور اللہ بہت بخشنے والا ، بڑا مہربان ہے ۔
ارشیہ زینب کو دیکھتی رہ گئی۔۔ جس پر زینب نم آنکھوں سے مسکرا کر ہاں میں سر ہلانے لگی۔
''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
"ہاں کہا ہوں۔۔ میرے پہنچنے سے پہلے فارم ہاوس پہنچو“ زوہیب کی غصے بھری آواز سپیکر میں گونجی۔ حکم صادر کر کے زوہیب نے فون بند کر دیا۔ اور گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی۔ گاڑی فل سپیڈ میں اپنی منزل کی طرف رواں تھی۔
تھوڑی دیر میں وہ فارم ہاوس کے باہر گاڑی کھڑے کر کے لمبے لمبے ڈاگ ھرے اندر گیا۔ اندر داخل ہوتے سامنے اسے عدیل اور اس کے ساتھ کھڑے کچھ آدمی نظر آ گئے۔
"تم لوگوں کو میں نے کس لیے رکھا ہے۔۔ ہاں“ زوہیب نے غصے سے دھاڑا تھا۔ اس کا غصہ کسی طرح کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
"ہجڑوں کی فوج پال رکھی ہے میں نے۔۔۔ ایک لڑکی۔۔ وہ چھٹانک بھر کی لڑکی تم لوگوں سے ڈھونڈی نہیں جا رہی۔۔۔ دفعہ ہو جاؤں سب کے سب دو دن دو دن ہیں تم سب کے پاس۔۔۔ اگر تم لوگ اسے ڈھونڈ نہ سکے تو اپنے کفن دفن کا انتظام کر لینا۔۔ اب دفعہ ہو جاؤں سب کے سب یہاں سے۔۔ شکل گم کروں“ زوہیب نے غصے سے انہیں وارن کرنے سے انداز میں کہا اور وہاں سے ان سب کو جانے کا کہا تھا۔ جس پر سب کے سب سر جھکائے وہاں سے چلے گئے۔
ان کے جانے کے بعد زوہیب وہاں ایک باہر کی طرف کھولتی کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اور سگریٹ سلگا کر ہونٹوں میں دبائی۔
"اوئے یہ کیا۔۔ اس کو اس لڑکی سے کیا لینا دینا“ ایک آدمی نے باہر آتے ہی دوسرے کو کہنی مارتے ہوئے پوچھا تھا۔
"لگتا ہے زوہیب اکرام ملک کے برے دن شروع ہو چکے ہیں۔۔ ایک مہینے سے اس چھٹانک بھر کی لڑکی کے پیچھے پاگل ہو رہا ہے بدلہ لینے کے لیے۔۔۔ لیکن اب مجھے بدلے سے آگے کی بات لگتی ہے“ دوسرے مسکراتے ہوئے کھوئے کھوئے لہجے میں پیش گوئی کی تھی۔
زوہیب نے غور سے اس شخص کا چہرا دیکھا تھا جہاں مزاق کا کوئی شبہ نہیں تھا۔فلحال زوہیب کو ایسا ہی لگا تھا۔
"کیا مطلب ہے ابے تیرا“ پہلے آدمی نے اس کو ہلا کر ہوش کی دنیا میں لاتے ہوئے پوچھا۔ اُس کی باتیں اس کے سر کے اوپر سے گزر رہیں تھیں۔
"لگتا ہے سائیں کو محبت ہو گئی ہے۔۔۔ یہ تو میرا تجربہ کہتا ہے باقی اب یہ بدلہ ہے یا محبت یہ تو اس پر تو اس کے ملنے پر ہی مہر لگے گئی“ دوسرا آدمی نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔
"چل اتنا تیرا تجربہ۔۔۔ آیا تو کوئی بڈھا۔۔ اے وئے ای تجربہ“ پہلے آدمی نے اس کی پیٹھ دیکھتے ہوئے سر جھٹک کر کہا تھا جبکہ وہاں کھڑکی کے پاس کھڑا زوہیب اس کی باتوں میں گم تھا۔
"کیا واقعے ہی اسے محبت ہو گئی تھی۔۔۔ جو وہ پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔ نہیں۔۔ نہیں یہ تو میں نے اس تھپڑ کا بدلہ لینا ہے“ زوہیب نے سگریٹ کا کش بھرتے ہوئے خود سے سوال کر کے جلدی سے ہی خود سے ہی اپنے سوال کی نفی کی تھی۔
اچانک اس کے موبائل کی ٹیون بجی تو اس نے ہاتھ بڑھا ک موبائل اون کیا تو وہاں کوئی میسیج تھا۔
"اگر اس لڑکی کی لوکیشن جاننا چاہتے ہوں تو۔۔ اس اکاؤنٹ میں رقم ٹرانسفر کروں۔۔۔ پانچ منٹ کے بعد لوکیشن مل جائے گئی“ زوہیب نے میسج کھول کر پڑھا وہاں پر ایک خطیر رقم لکھی ہوئی تھی ساتھ ایک ویڈیو بھی تھی۔ ویڈیو دیکھ زوہیب کا گویا ایک بار سانس روکا تھا۔
''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''