اکرام صاحب کو اگلے دن ہی ہاسپٹل سے ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔ حیدر صاحب نے ارشیہ اور اکرام صاحب کی طبعیت کی وجہ سے منگنی کے فنکشن کی تاریخ آگے کر دی تھی۔
منگنی اب کی رسم میں اب ایک ہفتہ باقی تھا۔ ارشیہ کی طبیعت کافی بہتر تھی۔ وہ اس ٹراما سے نکل آئی تھی لیکن اب یوسف کے پیچھے تھی۔ شاید زندگی میں پہلی بار ارشیہ حیدر محبت کے معنوں سے واقف ہوئی تھی۔ اسی لیے اس کی ہر کڑوی بات۔۔۔ اس کا اسے نظر انداز کرنا۔۔ بے رخی برتنا اسے کچھ برا نہ لگتا تھا۔
اب بھی وہ اسے پانے کی چاہ میں تھی۔ حیدر صاحب کو اس نے کچھ نہ کہا لیکن جیا بیگم سے اس نے انکار کیا تھا لیکن جب انہوں نے اس کے انکار کا حیدر صاحب کو بتایا تو انہوں نے اسے ٹوکا۔
"شادی تمہاری زوہیب سے ہو گئی ارشیہ“ حیر صاحب نے قطعیت سے کہا تھا۔ لیکن وہ ارشیہ ہی کیا جو کسی کی بات خاطر میں لائے۔ اس سب کے باوجود بھی اس نے یوسف کو پرپوز کیا تھا۔
اکرام صاحب کی طبعیت اب بہتر تھی اسی لیے گھر میں ایک بار پھر سے منگنی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ نجمہ بیگم اور جیا بیگم تیاریوں میں مصروف تھیں جبکہ ارشیہ اور زوہیب اس سب میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے تھے۔
ارشیہ فی الوقت یوسف کے پیچھے تھی۔۔۔ وہ ہر حال میں اپنی محبت کو پانے کی متحمل تھی۔۔ یہ جانے بغیر ک یہ سب اس کی زندگی الٹ پلٹ کر دیے گا۔۔۔
جبکہ زوہیب ہر حال میں عبیرہ کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا کیونکہ کوئی چیز اس کی دسترس میں آئے بغیر اس سے چھین جائے یہ بات اسے چین س رہنے نہیں دیے رہی تھی۔
زوہیب نے اس دن ارشیہ کو یوسف کے ساتھ دیکھا تھا۔۔۔ وہ اس سے بات کرنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن ابھی وہ عبیرہ کو ڈھونڈ رہا تھا۔اسی لیے اس سے کچھ بھی نہ پوچھ سکا۔
سمیر کی موت کے بعد ابھی تک ارسل نے کچھ نہیں کیا تھا۔۔ ابھی تک راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔۔ بس یہ دیکھنا باقی کہ کب تک راوی چین لکھتا ہے۔۔۔۔
'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
واپسی کا راستہ خاموشی سے گزرا تھا۔ گھر پہنچ کر کسی سے بات کیے بنا وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی اور بیڈ پر ڈھیر ہونے سے انداز میں لیٹ گئی۔ تھوڑی دیر بعد موبائل اٹھا کر اس پر انگلیاں چلانے لگی۔
"ہیلو ولی۔۔ بات کرنی ہے تم سے فری ہو کر پلیز کال بیک کرنا“ ارشیہ نے وائس نوٹ سینڈ کیا اور موبائل کو ایک طرف رکھ کر آنکھیں بند کرلیں۔ وہ اپنی پچھلی گزری زندگی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
وہ اب کیا سے کیا ہو گئی تھی۔ ایک شخص کی محبت میں اس نے اپنی انا تک کو کچل دیا تھا لیکن وہ شخص پھر بھی نہ ملا۔ پہلے وہ ایک سفاک ظالم حسینہ کہلائی جاتی تھی اور اب۔۔
اسے اپنی حالت پر ہنسی آئی تھی۔ اب اسے محبت جیسا موذی مرض لگ چکا تھا۔ جو اس کے غرور، تکبر اور انا کو آہستہ آہستہ دمک کی طرح چاٹ رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد اس کے موبائل پر ولی کی کال آئی۔ اس نے نام دیکھا اور ہلکی سی درد بھری مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ آگے بڑھا کر کال پک کی۔
"کیا ہوا ارشیہ“ ولی کی فکر مند سی آواز موبائل کے سپیکر سے گونجی۔ جس پر اس کی آنکھوں میں نمی اترنے لگی۔
کاسۂ دستِ عشق.......خالی ھے
ھم بھی رَد ھو گئے، دُعا کی طرح
"کیا ہو سکتا ہے ولی“ ارشیہ نے انگلیوں کے پوروں سے آنکھوں کو صاف کرتے ہوئے کہا۔
"میں نے تمہیں سمجھایا تھا ارشیہ... تم نے میری بات نہیں مانی۔۔۔ وہ کھبی بھی ایسے تمہیں نہیں اپنائے گا۔۔ اس کی دنیا میں اور تمہاری دنیا میں فرق ہے“ ولی نے سمجھانے سے آنداز میں کہا تھا۔ وہ واقعے اس کے لیے پریشان تھا جو اپنی دنیا چھوڑ کسی اور دنیا کے باسی سے دل لگا بیٹھی تھی۔
"میں اس فرق کو مٹا دوں گئی ولی۔۔۔ بس ایک بار وہ تو کہے“ ارشیہ نے بکھرے بکھرے سے لہجے میں کہا تھا۔ جس پر دوسری جانب ولی نے اپنا ماتھا مسلا۔
"ارشیہ وہ کھبی نہیں کہے گا۔۔۔ اور وہ ایک نیک روح ہے، وہ تم اپنے آپ کو دیکھ لوں۔۔۔ میں تمہیں جج نہیں کر رہا لیکن پھر بھی۔۔۔“ ولی نے اسے آئینہ دیکھایا تھا۔ اس وقت ولی تھا جو یہ بات بڑے سکون سے کر گیا تھا۔ اس کی جگہ کوئی اور شخص ہوتا تو وہ ارشیہ سے بچ جائے ناممکنات میں سے تھا یہ۔
"تو کیا میں نیک روحوں میں شامل نہیں ہو سکتی۔۔ میں انسان ہو۔۔ جو کہ ہے ہی خطا کا پتلا۔۔ میں بھی اس کی طرح نیک بن سکتی ہوں ولی“ ارشیہ نے بھرائی ہوئی آواز میں ایک عزم سے کہا تھا۔
لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اگر اس ایک شخص کی خاطر اس نے اپنا یہ غرور، تکبر اور سٹیٹس چھوڑا تو دنیا والے تو دور کی بات۔۔ اس کے اپنے گھر والے اسے جائےِ پناہ نہ دیے گئے۔
دوسری طرف ولی نے کچھ نہ کہا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ کسی بات کی ٹھان لے تو وہ کر گزرتی ہے۔وہ اس کے لیے فکرمند تھا۔ خاموشی محسوس کرتے ہوئے ارشیہ نے کال کاٹ دی اور موبائل پاس پڑے بیڈ پر پھینک دیا اور اپنے آپ سے عہد کرتے ہوئے اٹھی۔
"میں اس کو ہر حال میں حاصل کروں گئی۔۔ اگر ایک بار کوئی چیز ارشیہ کو پسند آ جائے وہ اس کی ہو جاتی ہے“ اس نے اٹل لہجے ایک عزم سے کہا تھا۔ اس وقت اس کے لہجے میں غرور تھا تکبر تھا۔ جو کہ آنے والے وقت میں اس کے لیے بہت برا ثابت ہونے والا تھا یا شاید اچھا۔
''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
عبیرہ اپنے اور حائقہ کے کمرے میں بیٹھی تلاوت کر رہی تھی۔ قرآنِ مجید اس نے چھوٹی عمر میں ہی حفظ کر لیا تھا۔ اب بھی وہ حائقہ کو سنا دیتی یا خود اکیلے میں بیٹھی کھبی کھبی اللّٰہ تعالیٰ کس سناتی تھی۔
جو بندے اپنے خدا سے محبت کرتے ہیں وہ اپنی ہر بات سب سے پہلے مالکِ کل جہان سے شیئر کرتے ہیں۔۔ اسی سے رہنمائی طلب کرتے ہیں۔۔ اسے کے حک۔ کے تابع رہتے ہیں۔۔
حائقہ باہر زینب (حائقہ کی والدہ کی دوست) کے ساتھ بیٹھی بچوں کو پڑھا رہی تھی جب ہی اچانک اس کے سینے میں درد اٹھا۔ اس نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا کہ اچانک وہ کھانسنے لگی۔ زینب نے کن اکھیوں سے اسے دیکھا۔ اسے سینہ مسلتا اور کھانستا دیکھ وہ پوری اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
"کیا ہوا ہے حائقہ“نرم سی آواز صحن میں گونجی جس پر تلاوت کرتے بچوں نے بھی حائقہ کی طرف دیکھا۔
"کچھ نہیں بس سینے میں سر درد ہو رہی تھی اور شاید کھانسی ہو گئی ہے“ حائقہ نے کھانستے ہوئے درد کو برداشت کرتے ہوئے کہا۔ درد اب قدرے کم تھا۔ تھوڑی دیر بعد بچوں کا سبق سن کر وہ کچن کی طرف چلی گئی۔ زینب نے اسے جاتے دیکھا تھا۔ اس کی گوری رنگت اب پیلی پڑنے لگی تھی۔ ان دو ہفتوں میں رنگت میں کافی فرق آیا تھا۔
عبیرہ کچن میں اس کے پاس بیٹھی آرام آرام سے اس کے کام میں اس کا ہاتھ بٹا رہی تھی۔تھوڑا سا ہی کام کرنے کے بعد حائقہ کا تنفس تیز ہو گیا۔
"آپی کیا ہوا ہے۔۔ آپ کی طبیعت ٹھیک ہے“ عبیرہ نے اس کی تیز سانسوں کی آواز سن کر پوچھا۔
"ہاں میں ٹھیک ہوں۔۔ بس آج کل طبیعت تھوڑی ٹھیک نہیں ہے“ حائقہ نے تسلی دینے سے انداز میں کہا۔
"آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو آپ نے مجھے بتایا نہیں۔۔“ عبیرہ نے حیرانی سے اسے کہا۔
"چلو بیٹا ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں“ زینب اندر داخل ہوتے ہوئے حائقہ کی بات سن چکی تھی اسی لیے اندر داخل ہوتے ہوئے اسے کہا۔
"نہیں کوئی بات نہیں آنٹی۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔۔ کل چلے گئے“ حائقہ نے جلدی سے کہا۔ جس پر انہوں نے خفگی سے اسے گھورا تو حائقہ نے مسکرا کر کہا تھا۔
'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
"زیاد تم نے اپنے ماما باب سے بات کی“ نمرا نے زیاد کو کال کرتے حال احوال دریافت کرنے کے بعد پوچھا تھا۔ اب گھر میں اس کے رشتے کے برے میں باتیں ہونے لگی تھی۔ نعمان صاحب کے ایک دوست کے بیٹے کا نمرا کے لیے رشتہ آیا تھا جس پر ابھی غور وفکر جاری تھا۔ اسی لیے جب اسے پتہ چلا تو اس نے زیاد۔سے بات کرنے کے بارے میں سوچا۔
"ہمم میری جان میں نے ماما بابا سے بات کی ہے۔۔۔۔ لیکن بھی بابا آوٹ آف کنٹری ہیں۔۔۔ جیسے ہی آتے ہیں میں انہیں تمہارے گھر بھیجتا ہوں“ زیاد نے تسلی دی جس پر دوسری طرف نمرا کو اطمینان ہوا تھا۔
"نمرا ایک بات پوچھو“ زیاد نے تھوڑی دیر بعد پوچھا جس پر نمرا نے ہممم کہہ کر اجازت دی تھی۔
"کیا ارشیہ۔سے تمہاری بات ہوئی۔۔۔ اسے سمیر نے کیڈنیپ کیا ہوا تھا“ زیاد نے محتاط لفظوں کا چناؤ کرتے ہوئے پوچھا تھا۔
"ہمم ہوئی تھی۔۔۔ بتایا تھا اس نے“ نمرا نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔
"تو پھر تمہیں یہ بھی بتایا ہوں گا کہ کیوں سمیر نے اسے کیڈنیپ کیا تھا“ زیاد نے نمرا کو کریدتے ہوئے پوچھا تھا۔
"نہیں یہ نہیں بتایا“ نمرا نے نفی میں جواب دیا تھا جس پر دوسری جانب زیاد نے سکون کی سانس خارج کی تھی۔۔ اور پھر تھوڑی دیر بعد کال کاٹ دی۔
"اب تو ارشیہ پر بھی نظر رکھنی ہوں گئی۔۔ شاید اسے کچھ پتہ لگ گیا ہو۔۔۔ اگر اسے کچھ پتہ ہوا تو وہ تب ہی بول دیتی۔۔۔ لیکن اب اس پر نظر رکھنی ہوں گئی۔۔ کہی یہ میرے لیے خطرہ ثابت نہ ہوں“ زیاد نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا۔ اور پھر کچھ سوچتے ہوئے فون ہاتھوں میں گھمانے لگا۔۔
'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
ارشیہ نے ایک دفعہ پھر سے یوسف سے ملاقات کا سوچا۔ اپنے ارادے پر عمل کرتی وہ یوسف کے گھر پہنچی۔ آج سنڈے ہونے کی وجہ سے یوسف گھر میں ہی موجود تھا۔
گھر کے باہر کھڑے ہو کر ارشیہ نے دروازا کھٹکھٹایا۔ تھوڑی دیر بعد اسے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ اور کچھ ہی پلوں بعد دروازے کھولا تھا۔
یوسف ارشیہ کو دروازے پر دیکھ جی بھر کے بے زار ہوا تھا۔ جبکہ دوسری جانب ارشیہ کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔
تُو مُحب٘ ہویں تے قدر جانے نہ۔۔۔
تُو مُحبوب اے تیری بلا جانے۔۔۔
"اسلام و علیکم! کیوں آپ مجھے تنگ کر رہی ہیں۔۔۔ آپ کو کیا چاہیے۔۔۔ “ یوسف نے لہجے کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے ارشیہ سے پوچھا۔
"بتایا تو تھا کہ آپ زے شادی کرنا چاہتی ہوں۔۔۔ کیا میں اندر آ سکتی ہوں“ ارشیہ نے اس کی بات کا جواب دیے کر چند لمحوں بعد اندر آنے کا پوچھا کیونکہ وہ دونوں اس وقت دروازے پر کھڑے تھے۔
"نہیں۔۔ کیونکہ گھر میں کوئی نہیں ہے۔۔ آپ کو کوئئ اور کام ہے تو بتائے“ یوسف نے اسے سہولت سے انکار کرتے ہوئے جواب دینے کے ساتھ پوچھا۔
"میں آپ سے محبت کرتی ہوں۔۔ آپ کیوں نہیں سمجھ رہے میں آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں“ ارشیہ نے اس کے چہرے پر نظریں جمائے چند لمحوں کا وقف دیے کر کہا تھا۔
"کیونکہ آپ میری شریکِ حیات کے معیار پر نہیں اترتی“ یوسف نے سینے پر بازو لپیٹتے ہوئے کہا آرام سے کہا۔
"کیا معیار ہے آپ کی شریکِ حیات کا“ ارشیہ نے زخمی مسکراہٹ چہرے پر سجائے دھیمے لہجے میں پوچھا تھا۔ جس کے جواب میں یوسف نے سورۃ النور کی ایک آیت کا ترجمہ سنایا۔
Surat-ul-Noor
Ayat No. 26
اَلۡخَبِیۡثٰتُ لِلۡخَبِیۡثِیۡنَ وَ الۡخَبِیۡثُوۡنَ لِلۡخَبِیۡثٰتِ ۚ وَ الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیۡنَ وَ الطَّیِّبُوۡنَ لِلطَّیِّبٰتِ ۚ اُولٰٓئِکَ مُبَرَّءُوۡنَ مِمَّا یَقُوۡلُوۡنَ ؕ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ ﴿٪۲۶﴾
"خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ہیں یہ لوگ اُن باتوں سے بری کیے ہوئے ہیں جولوگ کہتے ہیں،ان ہی کے لیے مغفرت اور باعزت رزق ہے"
ترجمہ سن کر ارشیہ کی ایک پل کے لیے دنیا چکرائی تھی۔ اچانک ہی اس کے قدم پیچھے ہوئے تھے۔۔ ہاں وہ کیا تھی۔۔۔ ایک کے لیے اس کی زندگی کی ساری غلطیاں اس کی آنکھوں کے سامنے آئی تھی۔ یوسف نے اسے پیچھے ہٹتا دیکھ دروازا بند کیا اور اندر چلا گیا۔
جبکہ ارشیہ وہ۔۔ وہ تو کہی اور ہی گم تھی۔۔۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے یوسف کے کہے جانے والے الفاظ میں گم تھی۔۔ نہیں وہ الفاظ یوسف کے تو نہیں تھے۔۔ وہ الفاظ۔۔ وہ اس ہستی کے الفاظ تھے جو ہر بات جانتا ہے۔۔ ظاہر پوشیدہ۔۔۔۔ ہر بات۔۔۔
یہ اللّٰہ کا حکم تھا۔۔ آج اسے سمجھ آئی تھی کہ قرآن اگر کسی پہاڑ پر اتارا جاتا تو وہ کیوں پھٹ جاتا۔۔۔ انسان۔۔۔ انسان پر اتارا گیا تو وہ تھوڑا تھوڑا کر کے اتارا گیا تھا۔۔۔
ورنہ۔انسان بھی اسے ایک ساتھ نہیں اٹھا پاتا۔۔۔
آج وہی۔۔۔۔ وہی تھوڑا سا ارشیہ کو بہت بھاری لگا تھا۔۔ وہ قدم کسی اور طرف اٹھاتی۔۔ لیکن جاتی کہی اور۔۔۔۔۔ اور پھر وہ اچانک تیورا کر زمین بوس ہوئی تھی۔۔
آج ایک آیت۔۔ اسے وہ اٹھا نہیں سکی تھی۔۔۔ جبکہ یوسف نے تو اپنی شریکِ حیات کا میعار بتایا تھا جو اس سے وعدہ کیا گیا تھا۔۔۔ اس نے نیک عورت کی خواہش نہیں کی تھی۔۔ اس نے خود کو نیک بنایا تھا۔۔ کیونکہ یہ وعدہ قرآن مجید میں اللّٰہ اپنے بندوں سے بہت پہلے ہی کر چکا تھا کہ۔۔۔
نیک مردوں کے لیے نیک عورتیں۔۔۔ اور بد عورتوں کے لیے بد مرد۔۔۔۔
'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''