"خالدہ۔۔۔۔ خالدہ۔۔۔ میرا جوس کہا ہے“ سیڑھیوں سے اترتے ہوئے غصے سے گھر کی ملازمہ کو آواز دی تھی۔
لائٹ گرین کلر کی شارٹ شرٹ کے ساتھ آف وائٹ جینز پہنے ایک ہاتھ میں موبائل پکڑے دوسرے ہاتھ کی کہنی پر پرس لٹکائے، ہلکا پھلکا میک اوور کیے کہی جانے کے لیے تیار کھڑی تھی۔
"یہ لیں“ اس کی غصے بھری آواز سن کر خالدہ ٹرے میں گلاس رکھے بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوئی تھی۔ جوس کا ایک گھونٹ بھر کر واپس گلاس رکھا اور گلاسز نکال کر آنکھوں پر ٹکائے اور باہر کی طرف چلی گئی۔
اس کے جانے کے بعد ملازمہ نے سکون کا سانس لیا۔ اس کے گھر میں ہوتے ہوئے سب ملازموں کے سانس ایسے ہی رُکے ہوتے تھے۔
اس کے بارے میں گھر میں ملازمین میں مشہور تھا کہ ارشیہ حیدر ایک برف کی خوبصورت مورت تھی۔۔۔ ایک ظالم سفاک حسینہ۔ جس کا دل شاید تھا ہی نہیں۔ دل کی جگہ کوئی پتھر تھا کیونکہ اپنی انا، غرور اور تکبر کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتی تھی۔
پارٹیزز، کلب نیز کون سا ایسا کام تھا جو یہ لڑکی نہ کرتی تھی۔ گھر سے نکل کر سیدھا وہ اپنی دوستوں کے ساتھ گھومنے نکل پڑی۔ اسے کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ وہ اپنے بابا اور چچا دونوں کی لاڈلی تھی۔ اگر کوئی روکتا بھی تو اسے اس قابل نہ رہنے دیتی کہ اس کے آگے سے دوبارا بول سکے۔
ملک عطا کے دو بیٹے حیدر ملک اور اکرام ملک۔ دونوں ہی کی محنت تھی کہ ملک انڈسٹریز نے دن رات ترقی کی منزلیں طے کیں اور آسمان کی بلندیوں کو چھوا تھا۔ لیکن دونوں کے دل میں نہ خدا کا خوف تھا اور نہ ہی انسانیت کے لیے کوئی جذبہ۔
حیدر ملک اور اکرام ملک میں صرف دو سال کا فرق تھا۔ ملک عطا نے دونوں کی اکھٹی شادی کی تھی۔ حیدر صاحب کی شادی ان کی والدہ نے اپنے خاندان میں اپنی بھانجی جیا ملک سے کی جبکہ اکرام صاحب کی شادی ان کے والد کی مرضی سے نجمہ ملک سے ہوئی۔
حیدر ملک کی صرف ایک بیٹی ارشیہ حیدر ملک تھی۔ جو کہ ان کے پَر تُو تھی۔ حسن کی دولت سے مالا مال... انا، تکبر، غرور کے ساتھ زندگی جینے والی۔ اسے اپنی انا، غرور اور تکبر سے بڑھ کر کچھ نہ تھا۔ وہ اپنے دوستوں میں ظالم حسینہ کے نام سے جانی جاتی تھی۔ حیدر ملک کے بے جا لاڈ پیار نے ارشیہ کو مزید بگاڑ دیا تھا۔
اکرام صاحب کا ایک ہی بیٹا تھا۔ زوہیب اکرام ملک۔۔ اپنے نام کا واحد شخص۔ ایک بگڑے رئیس زادے سے زیادہ کچھ نہیں۔ انا، تکبر اسے وراثت میں ملا تھا۔ جو چیز اسے پسند آ جائے وہ اس کی دسترس میں آ کر ہی رہتی تھی۔۔ چاہیے وہ چیز کوئی چیز ہو یا کوئی شخص۔۔ جائز طریقے سے آئے یا ناجائز اس سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
''''''''''''''''''''''
"عبیرہ۔۔۔ جلدی آؤ مجھے دیر ہوں رہی ہے “ یوسف کی نرم سی آواز اس چھوٹے سے گھر میں گونجی تھی۔ سرخ و سفید رنگت پر گھنی داڑھی، خوبصورت نین نقوش کا مالک وہ لڑکا اپنی بہن کا آوازیں دیے رہا تھا۔
عبیرہ نے چہرہ پر نقاب کیا ہوا تھا جس میں سے صرف دو ہلکی بھورے رنگ کی آنکھیں ہی واضح تھی۔ عبیرہ دیوار کا سہارا لیے دروازے تک آئی۔ یوسف نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھاما اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا باہر نکلا۔
دروازے کو تالا لگا کر دونوں بہن بھائی ایک سمت چل پڑے۔ عبیرہ نے دونوں ہاتھوں سے یوسف کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ ان کے گھر سے تھوڑی دور ایک گھر کے سامنے کھڑے ہوئے تو عبیرہ نے آگے بڑھ کر دروازا کھٹکھٹایا۔
"کون“ دروازا کھولنے کی آواز پر یوسف نظریں جھکائے ایک طرف ہو گیا۔ دروازے کو تھوڑا سا کھولا تھا اور اندر سے ایک پانچ سالہ بچی کی آواز گونجی۔
"بنتِ احمد“ عبیرہ نے ہلکی سی آواز میں کہا جس پر بچی نے ایک طرف ہو کر دروازا کھولا اور آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھاما اور دروازا بند کیے ان کی طرف بڑھ گئی۔ دوپٹے کو خوبصورت سا حجاب کیے وہ بچی بہت پیاری لگ رہی تھی۔
عبیرہ کے اندر جاتے ہی ایک طرف کھڑا یوسف بھی اپنی منزل کی طرف چلا گیا۔ وہ گھر سے کچھ دور موجود ایک بوائز اکیڈمی میں پڑھاتا تھا۔
"کون آیا ہے۔۔ روشنی “ کمرے سے نکلتے حائقہ نے دھیمی آواز میں پانچ سالہ بچی سے پوچھا جس پر اس نے اونچی آواز میں "بنتِ احمد“ کہا۔
" کتنی بار کہا ہے۔۔ کہ لڑکیاں اونچی آواز میں بات نہیں کرتی روشنی... ماشاءاللہ آج تو عبیرہ آئی ہے۔۔ آؤ آ جاؤ عبیرہ“ حائقہ نے روشنی کو آہستہ لہجے میں ڈانٹا اور پھر عبیرہ کو پکڑ کر اپنے ساتھ وہاں صحن میں موجود چٹائی پر بیٹھایا۔
روشنی "اچھا باجی“ کہہ کر وہاں ایک طرف بیٹھے بچوں کے ساتھ اپنا پارہ لے کر لہک لہک کر اپنا سبق بیٹھ کر پڑھنے لگی۔
"کتنا اچھا ہوتا حائقہ آپی۔۔ اگر میری آنکھیں ہوتیں۔۔۔ میں آپ کو دیکھ سکتی“ کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد عبیرہ نے دکھ بھرے لہجے میں کہا تھا۔
"اللٌٰہ پاک کی چیز تھی اللٌٰہ پاک نے واپس لے لی۔۔۔ ویسے تم کب سے نا امیدی کی باتیں کرنے لگی۔۔۔ یاد رکھنا۔۔ جو لوگ قرآنِ مجید پر یقین رکھتے ہیں وہ کھبی ناامید نہیں ہوتے۔۔ وہ ہر حال میں اللہ کی رضا میں راضی رہتے ہیں “ حائقہ نے سمجھانے سے انداز میں عبیرہ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ نرمی سے رکھتے ہوئے کہا جس پر وہ مسکرا دی۔
"لیکن میں آپ کو دیکھنا چاہتی تھی۔۔ اپنے آپ کو دیکھنا چاہتی تھی“ عبیرہ نے اداسی سے کہا۔ کھبی کھبی وہ احساسِ محرومی کا شکار ہو جاتی تھی۔ اسے چاہ تھی کہ وہ اپنی اور حائقہ کی خوبصورتی دیکھے۔ اس کی دوستوں میں ان دونوں کی خوبصورتی کے ہمیشہ تذکرے رہتے تھے۔
"بس یہ سمجھ لوں اگر تم اپنے آپ کو دیکھ لوں گئی تو تمہیں تمہاری ہی نظر لگ جائے۔۔ اور اسی لیے اللّٰہ نے تمہاری خوبصورتی کو تم سے پوشیدہ رکھا۔۔۔ چلو اب اللّٰہ تعالیٰ سے معافی مانگو۔“ حائقہ نے مسکراتے ہوئے اسے جواب دیا۔ کئی بار کا سنا جواب آج پھر سن کے وہ مسکرائی تھی۔ اور پھر جلدی سے ہاتھ اٹھا کر اپنے شکوے کی معافی مانگی تھی۔
''''''''''''''''''''''''''''''''''
"یار نمی۔۔۔ کدھر لے کر آ گئی ہے تو صبح صبح۔۔۔۔ اس دھول مٹی میں۔۔۔ سارے کپڑے خراب ہو جائے گئے۔۔ واپس گاڑی موڑ“ ارشیہ نے اپنی دوست سے جھنجلائے لہجے میں کہا جس پر نمرا نے مدد طلب نظروں سے اپنے ساتھ بیٹھے ایاز کو دیکھا۔
"یار مجبوری ہے۔۔۔ سمجھو۔۔۔ سروے کرنا ہے۔۔ اور ہم نے ایریہ بانٹے تھے۔۔ اور مجھے اور نمرا کو یہی ایریہ ملا ہے“ نمرا کی بجائے ایاز نے وضاحت کی تھی۔ جس پر ارشیہ نے ایک نظر دونوں کو دیکھا۔
"اکیلے نہیں آ سکتے تھے۔۔ مجھے لانا لازمی تھا“ ارشیہ نے غصے سے کہا جس پر باقی دونوں نے بے بسی سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
"تم گاڑی میں ہی رہنا۔۔۔ میں اور ایاز جلدی آ جائے گئے۔۔۔ اور پھر سمیر کے گھر بھی تو جانا ہے۔۔۔ تم رکو۔۔ بس ابھی ہم یہ فارم فل کروا کر آئے“ اس دفعہ نمرا نے جلدی سے بات سنبھالی۔
"تمہیں کیا لگا تھا میں اس دھول مٹی میں جاؤں گئی۔۔۔ ایہہہہ۔۔۔ جلدی آنا ورنہ میں سمیر کے گھر اکیلی چلی جاؤں گئی“ ارشیہ نے سوالیہ آنداز میں ابرو اٹھا کر پوچھا اور آخر میں منہ کے برے برے سے زاویے بنائےکر انہیں دھمکی دی جس پر نمرا اور ایاز جلدی سے کچھ پیپرز اٹھائے گاڑی سے اتر گئے۔
ارشیہ بے زاری سے ادھر ادھر دیکھنے لگی کہ اچانک اس کی نظر وہاں سے گزرتے ایک لڑکے پر پڑی۔ نمرا اس کے پاس کھڑی اسے پیپر پڑا رہی تھی جو نمرا کہ طرف دیکھنے سے اجتناب کر رہا تھا۔
"پارسا ہونے کا ڈھونگ“ ارشیہ نے نحوست سے لڑکے کو دیکھ کر سر جھٹکا۔ اور بے زاری دور کرنے کے لیے ہینڈ فری نکال کر اپنے کانوں میں لگا لی اور کوئی سونگ پلے کرکے ساتھ ساتھ زیرِ لب دہرانے لگی۔
" ہم ایک سروے کر رہے ہیں۔۔۔ پلیز آپ یہ فارم فِل کریں۔۔۔ پلیز جلدی کر دیں۔۔ ہمیں آج ہی سبمٹ کروانا ہے“ نمرا نے پاس سے گزرتے یوسف کی جانب ایک پیپر بڑھایا اور اس کے چہرے پر نظریں جمائے کہنے لگی۔ جبکہ یوسف کی نظریں ہنوز پیپر پر تھیں۔
پیپر پر تقریباً دس سے بیس جملے لکھے ہوئے تھے جن کا جواب ہاں یا ناں میں دینا تھا۔ یوسف نے جلدی سے نشان لگا کر پیپر نمرا کی طرف بڑھایا اور وہاں سے چلا گیا۔
تھوڑی دیر بعد وہ لوگ سروے کر کے جب گاڑی میں بیٹھے تو ارشیہ نے گانا بند کر کے گاڑی بھگالی۔ گاڑی میں ہنوز خاموشی کا راج تھا۔ کچھ دیر بعد گاڑی ایک بہت بڑے فارم ہاوس کے سامنے رکی۔
ایاز نے پیپرز گاڑی میں رکھے اور نمرا کے ساتھ اندر کی طرف بڑھ گیا۔ ارشیہ گاڑی سے اتری کہ اچانک اس کے موبائل پر کسی کی کال آئی۔ ہاتھ بڑھا کر اس نے ڈیش بورڈ سے موبائل اٹھایا اور گاڑی کا دروازا بند کر کے ایک طرف بنے سبزے کی طرف چلی گئی۔
"ہیلو ولی۔۔ کیا حال ہے“ ارشیہ نے وہاں پڑی ایک کرسی پر بیٹھتے مسکرا کر کہا جس پر دوسری جانب ولی نے ٹیڑھی آنکھوں سے موبائل کو دیکھا۔
"وعلیکم السلام ارشیہ حیدر! میں ٹھیک ہوں تم سناؤ “ ولی کا جواب سن کر ارشیہ کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ ولی کے ساتھ اس کی دوستی کیسے ہوئی۔ ولی بہت اچھا لڑکا تھا۔ اور ارشیہ کی اس کے ساتھ الگ ہی اٹیچمنٹ تھی۔ اس کے سامنے ارشیہ کی ایک نہ چلتی۔ اگر کھبی وہ ارشیہ کو برا بھلا کہ بھی دیتا یا حقیقت کا آئینہ دیکھتا تو ارشیہ اسے کچھ نہ کہتی۔
"میں بھی ٹھیک بتاؤ۔۔ آج کیسے یاد کیا۔۔ امریکہ کی گوریوں نے چھوڑ دیا“ ارشیہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور اپنی بات پر ہی کھلکھلا دی۔
"استغفر اللّٰہ۔۔۔ ارشیہ میں ایسا ہوں۔۔ اچھا یہ بتاؤں تم اس وقت کہا ہوں“ ولی نے جھرجھری لیتے ہوئے کہا اور آخر میں تیزی سے پوچھا۔
"کیوں کیا ہوا۔۔۔ میں اس وقت سمیر کے فارم ہاؤس آئی ہوں“ ارشیہ نے ناسمجھی سے سوال کرتے ہوئے جواب دیا۔ اور سامنے سے آتے سمیر کو دیکھ کر مسکرا دی۔
"مل سکتے ہیں ہم“ ولی نے سوال کیا جس پر ارشیہ نے موبایل کان سے ہٹا کر دیکھا تھا۔
"ہاں کیوں نہیں۔۔۔ کچھ دیر روکو میں اپنے پرائیویٹ جیٹ سے ابھی آتی ہوں امریکہ۔۔ تم سے ملنے“ ارشیہ نے طنز کیا جس پر دوسری طرف موجود ولی کے چہرے پر مسکراہٹ در آئی۔ سمیر وہاں ارشیہ کے پاس ہی کرسی پر بیٹھ گیا۔
"میں اپنے گھر ہوں۔۔۔ جلدی آ جاؤ۔۔ مل کر بات کرتے ہیں۔۔ اللّٰہ حافظ “ ولی نے اس کے ار پر بم پھوڑتے ہوئے خدا حافظ کہہ کر فون کاٹ دیا۔ جبکہ ارشیہ ویسے ہی ہونک بنی بیٹھی رہی۔
کچھ دیر بعد اٹھ کر اپنی گاڑی کی طرف بھگای۔ سمیر پیچھے سے ارشیہ کو آوازیں دینے لگا۔ وہ اسے نظر انداز کرتی گاڑی میں بیٹھ کر جلدی سے ریورس کرنے لگی۔ گاڑی باہر روڈ پر ڈال کر اس نے فل سپیڈ میں گاڑی بھگالی۔
"ڈیم اٹ۔۔۔ اتنا اچھا موقع ملا تھا آج بدلہ لینے کا۔۔۔ پھر سے بچ گئی۔۔۔ آہہہہہہ۔۔کب تک۔۔ کب تک۔۔۔ آخر کتنی دیر تک بچوں گئی مجھ سے یو (گالی)“ سمیر اپنے پلیئنگ پر پانی پھیرتے دیکھ غصے سے پاگل ہونے کو تھا۔ وہ غصے میں کرسی کو ٹھکرایں مارتا ارشیہ کو گالیوں سے نواز رہا تھا۔
'''''''''''''''''''''''''''''''''