عصر کے بعد کا وقت تھا۔ شام ڈھل رہی تھی۔ ایسے میں مرتضٰی اور سارہ لاؤنج میں بیٹھے اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ مرتضٰی ٹانگیں پسارے لیب ٹاپ گود میں رکھے کوئی رپورٹ بنا رہا تھا۔ شہر میں کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہونے کے باعث اب ان کا آفس بھی بند رہتا تھا اور تمام کام وہ آن لائن ہی کرتے تھے۔
سارہ کے کالج کی بھی آج کل چھٹیاں چل رہی تھیں۔ قوی امید تھی کہ چند روز میں صورتحال معمول پر آ جائے گی۔ اور جیسے ہی حالات معمول پر آتے ان کے پیپرز شروع ہو جانے تھے تبھی آج کل وہ ہمیشہ کتابوں میں ہی سر دئیے پائی جاتی تھی۔
نمرہ صاحبہ ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی اپنے کمرے میں اکیلی بیٹھی ناول پڑھنے میں مگن تھی۔ جبکہ گھر کے بڑے قریبی عزیز کی ڈیتھ کے باعث ان کے ہاں گئے تھے۔
وہ نچلا لب دانتوں میں دبائے کھٹا کھٹ کی بورڈ پر ٹائپ کرتا جا رہا تھا جب نمرہ کے رونے کی آواز پر چونکا۔ سارہ بھی ہڑبڑاتے ہوئیے کتابوں سے سر نکال کر آواز کی سمت دیکھنے لگی۔
نمرہ اپنے کمرے سے باہر نکلتی اب نیچے لاؤنج میں ہی آ رہی تھی جبکہ ساتھ ساتھ بچوں کی طرح رونے کا شغل بھی جاری تھا۔
"لو جی! ہو گیا شروع ایک نیا ڈرامہ۔۔۔" مرتضٰی بیزار ہوا۔
"کیا ہوا نمرہ؟؟ رو کیوں رہی ہو؟؟" سارہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھی۔ جبکہ مرتضٰی پھر سے اپنے کام میں مگن ہو گیا۔ البتہ کان ان دونوں کی جانب ہی لگے تھے۔ ۔۔
نمرہ بغیر کوئی جواب دئیے وہیں لاؤنج میں آ کر بیٹھی۔ سوں سوں کرتے ہوئیے ٹیبل پر پڑا جوس کا گلاس اٹھا کر منہ سے لگایا اور غٹاغٹ سارا جوس ختم کر دیا جیسے نہ جانے کب کی پیاسی ہو۔ سارہ اس کی جانب دیکھ کر رہ گئ کہ ابھی کچھ دیر قبل ہی وہ اپنے لیے جوس بنا کر لائ تھی۔ لیکن کتابوں میں گم ہو کر پینا یاد ہی نہیں رہا۔ شاید وہ تھا ہی نمرہ کی قسمت کا۔
"کیا ہوا ہے کچھ بتاؤ گی اب؟؟" نمرہ نے جوس پی کر دوبارہ اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا تو سارہ بھی جھنجھلا سی گئ۔
"جہان سکندر بارڈر پر شہید ہو گیا۔۔۔" وہ ہچکیاں لیتے ہوئیے بمشکل بول پائ۔ جبکہ اس کی بات پر اپنا کام کرتا مرتضٰی چونکا۔
"جہان سکندر؟؟؟ کوئی فوجی تھا کیا؟؟" اس نے نمرہ کی جانب دیکھ کر سوال کیا تھا۔ آج کل پاکستان اور انڈیا کے تنازعات اور بارڈر پر ہونے والی جھڑپوں کی خبریں آتی رہتی تھیں۔ اسے لگا شاید وہیں شہید ہونے والے کسی فوجی کا نام جہان ہو گا۔
"نہیں۔ حیا سلیمان کا شوہر تھا وہ۔ دونوں کا نکاح ہوا تھا۔ رخصتی ابھی باقی تھی۔" وہ بھیگی آواز میں مرتضٰی کو بتانے لگی۔ سارہ واقف تھی حیا سلیمان اور جہان سکندر سے۔ تبھی نمرہ کا رونا نظرانداز کرتے پھر سے اپنی کتابوں کی طرف متوجہ ہو چکی تھی کہ نمرہ کا تو یہ روز کا کام تھا۔
"اور یہ حیا کون ہے۔۔۔؟؟" مرتضٰی نے پھر سے سوال کیا۔ اسے ویسے بھی فوجیوں سے خاص انسیت تھی۔ اب بات فوجیوں کی ہو رہی تھی تب ہی وہ دلچسپی ظاہر کر رہا تھا۔
"حیا جہان سکندر کی منکوحہ تھی بتایا تو ہے۔ جہان سکندر کے ماموں کی بیٹی بھی تھی وہ۔۔۔ ویسے نا اس ناول کی رائیٹر کا نام بھی نمرہ ہے۔ نمرہ احمد۔۔۔" نمرہ نے جھنجھلاتے ہوئیے اسے جواب دیا اور ساتھ گردن اکڑائ جیسے یہ ناول خود اسی نے لکھا ہو۔ جبکہ مرتضٰی نے اس تعارف پر اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا تھا۔
" تو حیا ہی منکوحہ تھی نا اس کی؟؟ رونا اسے چاہیے۔۔۔ تم کیوں رو رہی ہو پھر؟؟ ایسے رو رہی ہو جیسے تمہارا بڑا سگا تھا وہ جہان سکندر۔۔۔ ویسے بھی شہیدوں کی شہادت پر آنسو نہیں بہانے چاہئیں۔۔۔" مرتضٰی چڑ سا گیا تھا اس بار۔
"تمہیں پتا ہے جب وہ شہید ہوا تب حیا کو بھی ساتھ لے کر گیا تھا بارڈر پر۔" نمرہ بغیر اس کے چڑنے کی پرواہ کیے پھر سے اسے بتانے لگی۔
"ہاں! تمہارے جیسی ہی ہو گی وہ بھی۔ بے چارہ تنگ آیا ہو گا اپنی بیوی سے تبھی بم سے اڑانے لے گیا ہو گا اپنے ساتھ۔۔۔ اچھا ہے دونوں شہید ہو گئے۔ قصہ ہی ختم۔۔۔" مرتضٰی نے منہ بگاڑ کر جواب دیا تھا۔ لہجے میں طنز بھرا تھا۔
"خبردار جو حیا اور جہان کے بارے میں اس طرح بات کی۔ ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔۔۔" نمرہ تو اس کے اس طرح کہنے پر تلملا اٹھی تھی تبھی مرنے مارنے پر تل گئ۔
"تم سے برا پہلے بھی کوئی نہیں ہے بی بی! جاؤ جا کر اپنے کمرے میں سوگ مناؤ اپنے جہان سکندر کی موت کا۔ کتنی بار کہا ہے اپنے یہ ڈرامے اپنے کمرے تک ہی محدود رکھا کرو۔ مجھے مت بتایا کرو آ کر ان ناولز کی اسٹوریاں۔ سخت کوفت ہوتی ہے مجھے۔" یہ جان کر کہ جہان اصل فوجی نہیں بلکہ ناول کا کردار ہے، مرتضٰی کا موڈ خراب ہونے لگا تھا۔ تبھی اسے ڈانٹتے ہوئیے پھر لیب ٹاپ کی جانب متوجہ ہو گیا۔
"تو میں تمہارے پاس کب آئ تمہیں بتانے؟؟ میں تو سارہ کو بتا رہی تھی۔ تم ہی گھسے تھے ہماری باتوں میں۔ کھڑوس، سڑیل۔۔۔" نمرہ نے لب بھینچتے ہوئیے اسے مختلف لقب عطا کیے۔
"بھائ خدا کا واسطہ ہے اب آپ کچھ مت بولیے گا۔ یار اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑنے لگ جاتے ہیں آپ دونوں۔ مجھے کچھ پڑھ لینے دیں پلیز۔۔۔" سارہ کی برداشت کی حد ختم ہو گئ تھی تبھی مرتضٰی کو منہ کھولتا دیکھ کر فوراً اسے ٹوک گئ۔
"تو تم اپنے بھائ کو سمجھاؤ نا! میری باتوں کے درمیان مت آیا کرے گا۔ ہر وقت جلتا رہتا ہے مجھ سے اور میرے ناولز سے۔ جل جل کر کوئیلہ ہو جائے گا کسی دن۔" نمرہ کو چپ کروانا دنیا کا مشکل ترین کام تھا۔
"اور تم کسی دن یہی ناولز پڑھتے پڑھتے لاش بن جاؤ گی۔ پھر کوئی ازمیر شاہ یا جہان سکندر نہیں آئے گا تمہاری میت پر رونے کے لیے۔" مرتضٰی نے بھی حساب برابر کیا۔
"تم حد سے بڑھ رہے ہو اب۔" نمرہ کی آنکھیں شعلے اگلنے لگیں۔
"نمرہ چپ ہو جاؤ پلیز! نہیں شہید ہوا تمہارا جہان سکندر۔ زندہ ہے وہ اور واپس آ بھی جاتا ہے حیا کے پاس۔ ہیپی اینڈنگ ہے ناول کی۔ اب پلیز جا کر پڑھ لو اپنا ناول۔" سارہ نے اس کے سامنے باقاعدہ ہاتھ جوڑے تھے۔
"ہائے سچی؟؟ پہلے کیوں نہیں بتایا مجھے؟؟ ایویں اس کھڑوس سے بحث میں اتنا وقت ضائع ہو گیا۔" وہ ناک چڑھاتی مرتضٰی کو گھور کر بولی اور تیزی سے مڑتی وہاں سے بھاگ گئ۔ جبکہ مرتضٰی بہت کچھ کہنے کی چاہ دل میں دباتے ہوئیے لیب ٹاپ کی طرف متوجہ ہوا۔ اس لڑکی نے شاید طے کر رکھا تھا جب بھی اس کے سامنے آئے گی اس کا موڈ ضرور خراب کرے گی۔ وہ کلس کر رہ گیا۔
رات کے وقت اس کی طبیعت بے چین ہو رہی تھی۔ ہلکا ہلکا بخار بھی تھا تبھی وہ سو بھی نہیں پا رہا تھا۔ بس یونہی کچھ دیر کھلی ہوا میں ٹہلنے کے لیے وہ کمرے سے نکلا اور چھت کا رخ کیا۔ ارادہ یہی تھا کہ پانچ دس منٹ وہاں گزار کر آ جائے گا۔
تمام سیڑھیاں عبور کرتے ہوئیے وہ چھت پر آیا تو چھت پر اسے کوئی سایہ سا دکھائ دیا جس نے اسے چونکا کر رکھ دیا تھا۔
"کون ہے؟؟" وہ محتاط سا چلتا ہوا آگے بڑھا کیونکہ آج کل چویاں اور ڈکیتیاں بہت عام ہو چکی تھیں۔ رات کے اس وقت گھر میں سے کسی کا یہاں موجود ہونا ناممکن سی بات تھی۔ تو پھر یہ کون تھا بھلا؟؟
"لو جی!سلازار چاہے آئے نا آئے اس کا ہر جگہ میرے پیچھے آنا ضروری ہوتا ہے۔" نمرہ کی بڑبڑاہٹ سنائی دی تھی۔
"نمرہ! تم یہاں؟؟" مرتضٰی کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔ اسے نمرہ کے یہاں موجود ہونے کی قطعاً کوئی امید نہ تھی۔ اس دن تو وہ اپنے کمرے میں سارہ کی موجودگی کے باوجود خوف کھا رہی تھی اور آج یوں رات کے اس وقت یہاں چھت پر کھڑی تھی وہ بھی بالکل اکیلی۔
"نمرہ ہی ہوں میں۔ اب کیا آئ سائیڈ ویک ہو گئ ہے تمہاری جو ایسے آنکھیں پھاڑے دیکھ رہے ہو مجھے۔" نمرہ نے منہ بسورتے ہوئیے کہا۔ اسے شاید مرتضٰی کا یہاں آنا اچھا نہیں لگا تھا۔
"تم یہاں کیا کر رہی ہو اس وقت؟؟" مرتضٰی نے کڑی نگاہوں سے اسے گھورا۔
"سلازار کا انتظار کر رہی ہوں۔" نمرہ نے کلائ پر بندھی گھڑی پر وقت دیکھتے ہوئیے جواب دیا۔
"واٹ؟؟ سلازار کون ہے؟؟" مرتضٰی کا تو دماغ ہی گھوم گیا تھا اس کی بات پر۔
"ہائے! مت پوچھو وہ کون ہے۔ میری محبت،میرا عشق، میرا جنون ہے سلازار۔ عشق زاد ہے وہ۔۔۔ عشق زاد۔۔۔" نمرہ بے خودی سے کہتے ہوئیے دونوں بازو پھیلائے جھومنے لگی تھی۔ جبکہ مرتضٰی کسی غیر مرد کے لیے اس کے منہ سے یہ الفاظ سن کر غصے سے پاگل ہو اٹھا تھا۔
"تم ہوش میں تو ہو؟؟ کیا بکواس کر رہی ہو؟؟" اس کا دل چاہا تھا کہ زور سے ایک تھپڑ اس کے منہ پر رسید کر دے لیکن خود پر قابو پاتے ہوئیے اس نے سختی سے نمرہ کا بازو تھام کر اس کا رخ اپنی جانب کیا تھا۔
"تمہیں کیا ہوا؟؟" وہ اب حیران نگاہیں مرتضٰی پر جمائے پوچھ رہی تھی جس کا چہرہ مارے ضبط کے سرخ پڑ رہا تھا۔ وہ نمرہ کے منہ سے اس لڑکے کا نام سن کر ہی تڑپ اٹھا تھا۔ اوپر سے نمرہ کا اس سلازار سے اظہار محبت، اسے جلا کر خاک کر ڈالا تھا نمرہ نے۔
"کون ہے یہ سلازار؟؟ کیسے جانتی ہو تم اسے؟؟ کہاں رہتا ہے وہ؟؟ کیسے ملی تم اس سے؟؟ " وہ درشتگی سے سوال کر رہا تھا۔ نمرہ کا بازو ابھی تک اس کی گرفت میں تھا۔
"چھوڑو میرا بازو۔" وہ تکلیف کے مارے چلا اٹھی تھی۔ اس کی گرفت سخت ہونے کے باعث تکلیف سے آنکھوں میں آنسو آئے تھے۔ اتنے غصے میں آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اس نے مرتضٰی کو۔
"پہلے جو پوچھا ہے وہ بتاؤ مجھے۔ کہاں رہتا ہے وہ سلازار! اگر تمہارا کسی بھی لڑکے سے کوئی تعلق نکلا نا تو میں تمہیں جان سے مار دوں گا اور اس لڑکے کے ہاتھ پاؤں توڑ کر قبر تک پہنچا دوں گا اسے۔ سمجھی تم! " وہ لب بھینچے سختی سے انگلی اٹھا کر اسے وارن کر رہا تھا۔
"تم پاگل ہو گئے ہو کیا؟؟ چھوڑو مجھے۔ میرا کیوں کسی لڑکے سے تعلق ہو گا بھلا؟؟" وہ مزاحمت کرتی اس سے اپنا بازو چھڑوا رہی تھی۔ اس کی بات پر مرتضٰی کی گرفت ڈھیلی ہوئی۔ نمرہ نے فوراً اپنا بازو آزاد کروایا اور اس سے دور ہوئی۔
"تو پھر کون ہے یہ سلازار؟؟ اسے کیسے جانتی ہو تم؟؟" مرتضٰی کو اپنے لہجے کی سختی کا احساس ہوا تو خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی اس نے۔ لہجہ بھی تھوڑا نرم رکھا۔
"وہ تو قلعے میں رہتا ہے۔ مثنوی سے محبت کرتا ہے۔ جن زادہ ہے وہ۔ایک جن زاد کو ایک آدم زاد سے محبت یو گئ ہے۔ مثنوی جب جب اسے پکارتی ہے وہ اس کے پاس دوڑا چلا آتا ہے۔ اپنے پورے قبیلے کے خلاف جا کر وہ مثنوی کو اپنی دنیا میں بھی لے کر گیا ہے۔ اس کی مثنوی سے محبت کی شدت دیکھ کر میرا دل چاہا میری دنیا میں بھی کوئی سلازار آئے اسی لیے بارہ بجے کے بعد یہاں چھت پر چلی آئ۔ سلازار بھی مثنوی سے ملنے بارہ بجے کے بعد جاتا تھا اور وہ بھی اڑتے ہوئیے چھت کے راستے۔ مجھے بھی سلازار چاہیے۔ میں کب سے کھڑی انتظار کر رہی ہوں لیکن نہیں آیا وہ۔ مثنوی کو لے گیا ہے نا اپنی دنیا میں۔ اب شاید کبھی واپس نہیں آئے گا۔" نمرہ کے اپنے ہی رونے تھے جبکہ اس کی باتیں سن کر مرتضٰی اب ہکا بکا کھڑا تھا۔
"تم۔۔۔ اف خدایا۔۔۔ کیا سلازار اور مثنوی بھی تمہارے کسی ناول کے کردار ہیں؟؟" وہ آنکھوں میں بے یقینی لیے اس سے پوچھ رہا تھا۔
"ہاں! عشق زاد ناول ہے نازیہ کامران کاشف کا۔ اور پتا ہے اس میں جو جن ہے سلازار وہ بہت اچھا ہے۔ بہت محبت کرتا ہے مثنوی سے۔ کاش مجھے بھی ایسا ہی کوئی جن مل جائے تو زندگی کتنی آسان ہو جائے۔" نمرہ کے لہجے میں خوشی کا عنصر تھا۔ وہ مرتضٰی کی حالت اور اس کے جذبات سے بالکل بے خبر تھی۔
"تھینک گاڈ!" مرتضٰی نے سکون کا سانس لیتے ہوئیے پیشانی مسلی۔ ورنہ نمرہ کی باتیں سن کر اسے لگا تھا جیسے دماغ کی کوئی نس پھٹ جائے گی۔ اتنا ہی شدت پسند ہوتا جا رہا تھا وہ اس کے لیے۔
"کیا ہوا؟؟" نمرہ نے الجھن سے اس کے چہرے کی جانب دیکھا جہاں اب غصے کی جگہ سکون اور ٹھہراؤ نے لے لی تھی۔
"کچھ نہیں۔ رات کے وقت یوں اکیلے چھت پر نہیں آتے۔ جنات اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی۔ خدانخوستہ سلازار کی جگہ کوئی برا جن آ گیا تمہارے سامنے اور تمہیں اٹھا کر لے گیا تو پھر کیا کرو گی؟؟" بات کرتے کرتے مرتضٰی کے لہجے میں شگفتگی جھلکی تھی۔
"اوہ! یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔ ویسے برا جن آ تو گیا ہے۔ تم بھی تو جن ہو نا۔ برے جن!" نمرہ نے شرارت سے اسے دیکھا تھا جبکہ مرتضٰی کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
"اچھا چلو نیچے چلیں۔ کہیں سچ میں جن آ ہی نہ جائیں۔ چلو شاباش۔" مرتضٰی نے ہلکے پھلکے لہجے میں کہتے ہوئیے اسے نیچے جانے کا اشارہ کیا تو وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئیے سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئ۔
"پاگل لڑکی۔۔۔" مرتضٰی نے زیر لب بڑبڑاتے ہوئیے اس کی تقلید کی تھی۔ اب کی بار لبوں پر بڑی پیاری مسکراہٹ دکھائ دے رہی تھی۔
آج کئ دنوں بعد دھوپ نے اپنی شکل دکھائ تھی۔ سنہری دھوپ نے کائنات پر اپنے پر پھیلا کر ہر چیز کو سنہری رنگ میں رنگ دیا تھا۔ وہ تینوں بھی دھوپ سینکنے کی خاطر لان میں نیچے نرم نرم گھاس پر بیٹھے لڈو کھیل رہے تھے۔ نمرہ پہلے تو زیادہ تر اپنے کمرے میں ہی پائ جاتی تھی لیکن آج لائٹ نہیں تھی، اس کے فون کی بیٹری ختم ہو چکی تھی اور کتابی ناول سبھی وہ پہلے پڑھ چکی تھی تبھی وقت گزاری کے لیے ان کے پاس آ بیٹھی۔
"نمرہ تم زیادہ چالاکیاں دکھانے کی کوشش مت کرو۔ تمہاری سب حرکتوں کا پتا چل رہا ہے مجھے۔" ایک ہی گیم میں جب تیسری بار نمرہ نے بے ایمانی کرنے کی کوشش کی تو مرتضٰی نے اسے ٹوکا۔
"کیا کیا ہے میں نے ہاں؟؟ بتاؤ مجھے۔۔۔" نمرہ اور اپنی غلطی مان لے؟؟ یہ کہاں لکھا تھا۔ الٹا خود کو سچا ثابت کرنے کے لیے وہ مرتضٰی پر ہی چڑھ دوڑی تھی۔
"چیٹنگ کر رہی ہو تم۔۔۔ " مرتضٰی نے بھی اسے گھورا۔
"تمہیں تو نہ ہر بات میں کیڑے نظر آتے ہیں۔ پتا نہیں کیوں جلتے رہتے ہو مجھ سے ہر وقت۔ مجھے کسی چیز میں آگے بڑھتے دیکھ ہی نہیں سکتے تم۔ جاؤ میں نہیں کھیلتی۔" نمرہ نے ہاتھ مار کر ساری گیم بگاڑ دی۔ ویسے بھی اسے معلوم تھا کہ وہ ہار رہی ہے اور اب بے ایمانی کر کے بھی جیت نہیں سکتی۔
"چلو جی! ہو گیا سکون اب؟! بھائ آپ کو پتا بھی ہے وہ چھوٹی چھوٹی بات کا ایشو بنا لیتی ہے پھر بھی جان بوجھ کر چھیڑتے ہیں اسے۔ کر رہی تھی بے ایمانی تو کرنے دیتے۔ پھر بھی کونسا جیت جانا تھا اس نے۔" سارہ جی بھر کر بدمزہ ہوئی تھی تبھی ہمیشہ کی طرح مرتضٰی سے ہی الجھ پڑی۔
"تم سب لوگ ہمیشہ مجھے ہی قصوروار ٹھہراتے ہو۔ وہ کیا کرتی ہے یہ کسی کو نظر نہیں آتا؟؟ اسے تو کوئی کچھ نہیں کہتا۔" مرتضٰی سیخ پا ہوا۔
"کہا اسے جاتا ہے جسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے۔ جسے کہنے کے باوجود کوئی فرق نہیں پڑتا اسے کہنے کا فائدہ؟؟" سارہ کی بات پر نمرہ نے اسے گھورا۔
"میری کوئی غلطی ہو تو مانوں میں۔۔۔ ہمیشہ لڑائ تمہارا یہ بھائ شروع کرتا ہے۔ دیکھا نہیں تھا تم نے وہ حورعین کا بھائ ارحم کتنا اچھا تھا۔ رات کے دو بجے بھی اپنی بہن کے ساتھ لڈو کھیلتا تھا۔ اس کی اتنی کئئر کرتا تھا، اس کے ساتھ مل کر شرارتیں کرتا تھا۔ اور تو اور اگر کوئی حورعین کو ڈانٹنے کی کوشش کرتا تو ارحم اس کی ڈھال بن جاتا تھا اور ایک یہ ہے، سڑیل ہر وقت مجھ سے جھگڑتا ہی رہتا ہے۔ " نمرہ نے ترچھی نگاہوں سے مرتضٰی کو دیکھا۔
"سنو لڑکی! میں تمہارا کوئی بھائی وائی نہیں ہوں سمجھی؟؟ اور تم سے کتنی بار کہا ہے کہ میرے سامنے یوں غیر مردوں کی تعریفیں مت کیا کرو۔ سمجھ نہیں آتی تمہیں؟؟" مرتضٰی نئے سرے سے طیش میں مبتلا ہوا۔
"بھائی ارحم بھی 'نکھرنا تھا پر بکھر گئے' ناول کا ایک کردار ہی ہے، آپ کا کوئی رقیب نہیں ہے جس کی تعریفیں کرنے سے اور اس کا ذکر کرنے سے وہ سامنے آ جائے گا،حقیقت کا روپ دھار لے گا اس لیے ٹمپر لوز مت کریں۔ حوصلہ رکھیں۔" سارہ مرتضٰی کی نمرہ کے لیے پسندیدگی سے واقف ہو چکی تھی۔ تبھی اسے تسلی دینی چاہی۔ گھر والوں کی میٹنگز سے بھی کچھ سن گن ملی تھی اسے کہ سب مرتضٰی اور نمرہ کا رشتہ طے کرنا چاہ رہے ہیں۔ اور وہ دل سے چاہتی تھی کہ وہ دوں ایک دوسرے کے ساتھ سلوک سے، اچھے طریقے سے رہنے کی عادت ڈالیں تاکہ نعد میں ذندگی آسان ہو۔
"میرے رقیب تو اس کے یہ ناولز بن گئے ہیں۔ پتا نہیں کب سدھرے گی یہ۔ اپنا مستقبل خطرے میں پڑتا نظر آ رہا ہے مجھے تو۔" مرتضٰی بڑبڑایا۔۔۔
"کیا؟؟ کیا بن گئے ہیں میرے ناولز تمہارے؟؟" نمرہ نے آنکھیں سکوڑ کر اسے دیکھا۔ پڑھائ چھوڑ کر تو گھر بیٹھ گئ تھی تو رقیب کا مطلب بھی کیسے معلوم ہوتا اسے۔
"کچھ نہیں۔ تم صرف ناولز میں پی ایچ ڈی کر لو۔ یہی کافی ہے۔ کوئی چار جماعتیں پڑھ لی ہوتیں تو رقیب کا مطلب بھی پتا چل جاتا تمہیں۔" مرتضٰی طنز سے کہتا وہاں سے اٹھ کر چل دیا تھا۔
" ہاں تم پڑھ لکھ کر بڑے افسر لگ گئے ہو نا جیسے۔ " نمرہ اس کے اٹھ جانے کے باوجود جواب دینے سے باز نہیں آئی تھی جبکہ وہ سنی ان سنی کر کے وہاں سے جا چکا تھا۔