وہ آفس سے تھکا ہارا گھر میں داخل ہوا تو لاؤنج میں ہی اس سے ٹکراؤ ہو گیا جو کوئیی کتاب ہاتھ میں پکڑے اس میں بری طرح غرق تھی۔
"نمرہ! ایک گلاس پانی لا دو پلیز۔۔۔" مرتضٰی ڈھیلے قدموں سے چلتا ٹائی ڈھیلی کرتے ہوئیے ایک نشست پر گرنے کے انداز میں بیٹھا۔ ہاتھ میں پکڑا کوٹ اس نے ایک جانب رکھ دیا۔ آنکھیں مسل کر تھکان کو بھگانے کی کوشش کی۔ پھر سامنے دیکھا تو وہ ابھی بھی سابقہ حالت میں سر جھکائے بیٹھی تھی۔
"نمرہ! پانی مانگا ہے میں نے۔" مرتضٰی نے دوبارہ اسے مخاطب کیا۔ لیکن دوسری جانب کوئیی ردعمل ظاہر نہ ہوا۔ بس ایک سسکی سی سنائیی دی تھی۔ مرتضٰی چونکا۔
"نمی! کیا ہوا؟؟ تم رو کیوں رہی ہو؟؟" وہ ایک دم ساری تھکاوٹ بھولتا تیزی سے اس تک آیا۔ چہرے پر ازحد پریشانی تھی۔
" نمرہ! ادھر دیکھو میری طرف۔ کیا ہوا ہے؟؟ کسی نے کچھ کہا ہے کیا؟؟" وہ اس کی آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھ کر گویا پاگل سا ہو اٹھا تھا۔ اس کے قریب نیچے زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئیے اس نے نمرہ کو مخاطب کیا۔ لیکن اس بار بھی کوئی جواب نہیں ملا۔
" یار ادھر تو دیکھو۔ کیا ہوا ہے؟؟ چچی نے کچھ کہا ہے کیا؟؟" مرتضٰی نے بے چین ہوتے ہوئیے اس کی ٹھوڑی پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر کیا جہاں آنکھوں میں لال ڈورے تیرتے نظر آ رہے تھے۔ وہ پاگل لڑکی نہ جانے کب سے رو رہی تھی۔ نمرہ نے اس کی جانب دیکھتے ہوئیے نفی میں سر ہلایا۔
"تو پھر؟؟ رو کیوں رہی ہو؟؟" وہ سوالیہ چہرہ لیے اس کے جواب کا منتظر تھا۔
"عباد مر گیا۔۔۔" سوں سوں کرتے ہوئیے وہ بمشکل کہہ پائی۔
"انا للّہ وانا الیہ راجعون۔۔۔" مرتضٰی کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ جبکہ وہ میڈم پھر سے رونے کا شغل جاری کر چکی تھیں۔
" لیکن۔۔۔ یہ عباد ہے کون؟؟ تم کیسے جانتی ہو اسے؟؟ اور اس کی موت کیسے ہوئی؟؟" ایک نئے سوال نے اس کے اندر سر اٹھایا تو وہ تعجب سے نمرہ کو دیکھنے لگا۔
"ہنیہ کا شوہر ہے عباد عذیر۔۔۔ پاکستان واپس آ رہا تھا۔۔۔ ایکسیڈنٹ ہو گیا اس کا۔۔۔ اور۔۔۔ اور وہ۔۔۔ مر گیا۔۔۔ " وہ پھر ہچکیوں کے درمیان بولی تھی۔ عباد اس کے دکھ پر خود بھی دکھی ہو گیا۔
"ہنیہ تمہاری دوست ہے کیا؟؟ او مائ گاڈ۔۔۔ تمہاری فرینڈ کے شوہر کی ڈیتھ ہو گئی۔۔۔؟؟ تمہیں جانا چاہیے نا اس کے گھر۔ چلو اٹھو۔۔۔ میں لے چلتا ہوں تمہیں۔" وہ سمجھا تھا نمرہ اپنی کسی دوست کے غم میں رو رہی ہے تبھی فوراً اٹھا۔۔۔
"کس کے گھر جانا چاہیے مجھے؟؟" وہ اپنی پریشانی بھول کر ہکّا بکّا مرتضٰی کو دیکھنے لگی۔
"ہنیہ کے گھر اور کس کے گھر؟؟" وہ اس کی حیران نگاہوں سے الجھا۔
"لیکن وہ تو نیویارک میں رہتی ہے نا۔" نمرہ نے آنکھیں پٹپٹا کر اسے دیکھا۔
"واٹ؟؟ نیویارک میں؟؟ تو تمہاری اس سے دوستی کیسے ہوئی؟؟ اور اگر وہ نیویارک میں ہے تو اس کا شوہر عباد پاکستان کیوں آ رہا تھا جب ایکسیڈنٹ میں ڈیتھ ہوئی اس کی؟؟" مرتضٰی الجھی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔
"عباد تو اپنے پیرنٹس کو منانے آ رہا تھا نا پاکستان تاکہ وہ ہنیہ کو بہو کے روپ میں قبول کر لیں۔" نمرہ نے اسے عباد کے پاکستان آنے کی وجہ سمجھانی چاہی لیکن وہ اب بھی کنفیوز سا کھڑا تھا۔ نمرہ کی باتوں کی کچھ سمجھ نہ آ رہی تھی۔ یہ عباد اور ہنیہ کا آخر چکر کیا تھا؟؟
"اتنا پریشان مت ہوں بھائی! اصل میں کوئی نہیں مرا۔ ہنیہ اور عباد 'متاع جاں ہے تو' ناول کے ہیرو ہیروئین ہیں جو آج کل نمرہ پڑھ رہی ہے۔ اور اسی عباد کے مرنے کا سوگ منا رہی ہیں اب محترمہ۔۔۔" سارہ جو کب سے کچن میں کھڑی نمرہ کی بے وقوفی بھری باتوں اور مرتضٰی کی الجھنوں پر محظوظ ہو رہی تھی بالآخر کچن سے نکلی اور مرتضٰی کی الجھن کو دور کیا۔ جبکہ وہ حقیقت جان کر شاک کی سی کیفیت میں تھا۔۔۔
"سیریسلی؟؟ آئی مین۔۔۔ اف میرے خدایا! یہ لڑکی پاگل کر دے گی کسی دن ہم سب کو۔"مرتضٰی سر تھام کر رہ گیا۔ وہ سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا کہ کن الفاظ میں نمرہ کی کم عقلی پر ماتم کرے۔ بس افسوس بھری نگاہوں سے نمرہ کو دیکھنے لگا جو اب سوں سوں کرتی پھر سے گود میں رکھے ناول کی طرف متوجہ ہو چکی تھی۔
"حد کر دی ہے اس لڑکی نے بھی۔ اور تم کیا کھڑی دانت نکال رہی ہو۔ اتنا نہیں پتا بھائ باہر سے تھکا ہارا آیا ہے اسے پانی کا ایک گلاس ہی دے دیں۔" وہ نمرہ کو تو کچھ کہہ نہیں پایا تھا البتہ غصہ پاس کھڑی مسکراتی ہوئی سارہ پر نکال دیا جو اب منہ بسورتی اس کے لیے پانی لینے کچن کی جانب چل دی تھی۔ مرتضٰی نے ایک نظر نمرہ کے جھکے سر کو دیکھا جو ایک بار پھر اردگرد سے بیگانہ ہو کر ناول میں گھس چکی تھی اور بڑبڑاتا ہوا اپنا کوٹ اٹھا کر دھپ دھپ کرتا سیڑھیاں عبور کر کے اپنے کمرے میں آ گیا۔
"مرتضٰی! مرتضٰی کہاں ہو تم؟؟" آج اتوار تھا تبھی وہ ریلیکس سا لاؤنج میں بیٹھا فون پر اپنی ای میلز چیک کر رہا تھا جب اسے نمرہ کی آواز سنائی دی۔
"یہاں ہوں میں۔ " اس نے ہاتھ ہلا کر نمرہ کو اپنی جانب متوجہ کیا جو شاید اس کے کمرے کو خالی پا کر اسے آوازیں دیتی اب اسی طرف آ رہی تھی۔
"کیا کر رہے ہو؟؟" وہ بیگ کندھے پر لٹکائے تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگی۔
"کچھ خاص نہیں۔ خیریت؟؟تم کہاں جانے کی تیاری میں ہو؟؟" مرتضٰی نے اس کے سراپے پر نگاہ ڈالتے سوال کیا۔
"میرے ساتھ چلو۔۔۔ ابھی اسی وقت۔۔۔" وہ اس کے سر پر کھڑی حکم دے رہی تھی۔ چہرہ نہ جانے کس جذبے کے تحت سرخ پڑ رہا تھا۔
"کہاں؟؟" مرتضٰی کا موڈ بگڑنے لگا۔ ہفتے میں ایک چھٹی ہوتی تھی اور وہ بھی گھر والے ادھر ادھر ضائع کروا دیتے تھے۔ مجال ہے جو کبھی گھر میں آرام کرنے دیں۔
"پولیس اسٹیشن۔ مجھے ایک ایف آئ آر درج کروانی ہے۔" وہ چہرے پر سنجیدگی اوڑھے مرتضٰی سے مخاطب تھی۔
"ایف آئ آر؟؟ لیکن کس کے خلاف؟؟" مرتضٰی چونک اٹھا۔
"ازمیر شاہ کے خلاف۔۔۔" وہ یوں بولی تھی جیسے اس ازمیر شاہ کو دانتوں تلے پیس رہی ہو۔
"ازمیر شاہ؟؟ یہ کون ہے؟؟ ایک منٹ ایک منٹ۔۔۔ کیا کوئی تمہیں تنگ کر رہا ہے؟؟ کیا کہتا ہے یہ ازمیر شاہ؟؟ تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟؟ میں خود ہینڈل کر لوں گا اسے۔" مرتضٰی لڑکے کا نام اور نمرہ کے ایکسپریشن دیکھتے ہوئیے خود سے بہت کچھ اخذ کر چکا تھا۔ تبھی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"مجھے نہیں، مزنہ کو تنگ کر رہا ہے وہ۔۔۔" نمرہ نے اس کی تصحیح کی۔
"مزنہ؟؟ اب یہ کون ہے؟؟" وہ حیران ہوا۔
"بیوی ہے ازمیر شاہ کی۔ بہت ظلم کرتا ہے وہ اس پر۔۔۔" مزنہ کا ذکر آتے ہی نمرہ کے لہجے میں ہمدردی سمٹ آئ جبکہ آنکھوں میں نمی جھلکنے لگی تھی۔
"تو اسے خود رپورٹ درج کروانی چاہیے نا۔ تم کیوں جا رہی ہو پولیس اسٹیشن؟؟" وہ سوالیہ نگاہوں سے نمرہ کو دیکھ رہا تھا جیسے جاننا چاہ رہا ہو کہ اس کا کیا تعلق ہے مزنہ اور ازمیر شاہ سے۔
"وہ بے چاری کیسے جا سکتی ہے پولیس اسٹیشن؟؟ اسے تو اسٹورروم میں قید کر رکھا ہے ظالم ازمیر شاہ نے۔ روز آتا ہے، اسے مارتا ہے بیلٹ سے،کبھی چھڑی سے، کبھی چاقو سے زخم لگاتا ہے، بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتا ہے، سگریٹ سے جلاتا ہے۔۔۔ دیواروں سے سر ٹکراتا ہے۔ اس کے وجود کو زخمی زخمی کر دیتا ہے اور پھر وہیں اندھیرے اسٹورروم میں پھینک کر چلا جاتا ہے۔ کسی کو خبر ہی نہیں کہ وہ وہاں مر رہی ہے۔ فون تک نہیں کر سکتی وہ کسی کو۔" نمرہ نے رونے والا منہ بنایا۔
"اف میرے خدایا! اتنا تشدد وہ بھی ایک خاتون پر۔۔۔ یہ تو سراسر جرم ہے۔ بہت سخت سزا ہے اس کی۔ تم نے بالکل ٹھیک فیصلہ کیا ہے۔ اس کی مدد کرنی چاہیے تمہیں۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔" مرتضٰی کو خوشی ہوئی تھی کہ کم از کم نمرہ میں اتنی ہمت تو ہے کہ وہ ظلم کے خلاف آواز اٹھا سکتی ہے۔ جو لڑکی دوسروں پر ہونے والے ظلم پر اس طرح سے تڑپ جائے وہ ہر ظلم کا مقابلہ کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔
"ارے کہاں جا رہے ہیں آپ دونوں؟؟" وہ دروازے سے نکلنے ہی والے تھے جب لان سے آتی سارہ سے ٹکراؤ ہو گیا۔ وہ شاید پودوں کو پانی دے کر آ رہی تھی۔
"ایف آئ آر درج کروانے۔ ازمیر شاہ کے خلاف۔۔۔ " نمرہ نے یوں گردن اکڑا کر کہا جیسے بہت بڑا کارنامہ سر انجام دینے جا رہی ہو۔
"کیا؟؟ ایف آئ آر؟؟ ازمیر شاہ؟؟ ارے! یہ وہی ازمیر شاہ ہے نا 'رگ جاں سے ہے تو قریب تر' ناول کا ہیرو؟؟ جس میں مزنہ اس کی وائف ہے؟؟" سارہ نے نمرہ سے تصدیق چاہی تھی۔ جواب میں نمرہ نے زور زور سے اثبات میں سر ہلایا جبکہ اب کی بار مرتضٰی ہونق بنا کبھی نمرہ کو دیکھ رہا تھا اور کبھی سارہ کو۔
"تمہارا مطلب ہے کہ۔۔۔ تم ناول کے ہیرو کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے جا رہی تھیں میرے ساتھ؟؟ " مرتضٰی نے صدمے کی سی حالت میں نمرہ کو دیکھا۔
"ہاں لیکن وہ کمینہ ہیرو کہلانے کے لائق نہیں ہے۔ ولن ہے وہ ولن۔" نمرہ بغیر اس کے انداز پر غور کیے اپنی ہی ہانک رہی تھی۔
"نمرہ میں کہتا ہوں سدھر جاؤ تم۔۔۔ کسی دن ضائع ہو جاؤ گی میرے ہاتھوں۔" مرتضٰی تلملا اٹھا تھا اس کی ان بیوقوفانہ حرکتوں پر۔ خود پر بھی ہزار دفعہ لعنت بھیجی تھی جو بغیر کچھ کنفرم کیے یہ سوچ کر اس کے ساتھ چل دیا تھا کہ شاید وہ دونوں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے جا رہے ہیں تاکہ کسی کی جان بچا سکیں۔ یہ گمان تک نہ تھا کہ وہ پاگل لڑکی ناول کے کردار کے خلاف ایف آئ آر کی بات کر رہی تھی۔
"اسے کیا ہوا؟؟" نمرہ حیران ہوتی مرتضٰی کی پشت دیکھنے لگی جو مڑ کر اب اندر جا چکا تھا۔
"کچھ نہیں۔ تم جا کر اپنا ناول پڑھ لو۔ کہیں ایسا نہ ہو تمہاری دیر کی وجہ سے مزنہ کا اسٹورروم میں ہی دم گھٹ جائے اور وہ مر جائے " سارہ ہنسی تھی۔
"ارے ہاں! مزنہ کو مرنا نہیں چاہیے۔ وہ ناول کی ہیروئین ہے بھئ۔ وہ مر گئ تو ناول کیا خاک مزہ دے گا۔" نمرہ بڑبڑاتی ہوئی خود بھی اپنے کمرے کی جانب چل دی جبکہ سارہ اس کی باتوں پر اور مرتضٰی کے یوں کڑھنے پر ہنستے ہوئیے کچن میں گھس گئ تاکہ مرتضٰی کو فریش جوس بنا دے جس سے اس کا غصہ ٹھنڈا ہو۔
"السلام علیکم!" رات کے تقریباً آٹھ بج رہے تھے جب وہ گھر میں داخل ہوا۔ ڈائننگ روم سے گھر والوں کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں تبھی کوٹ لاؤنج میں پھینکتا وہ اسی جانب چلا آیا۔
"وعلیکم اسلام! آج اتنی لیٹ کیوں ہو گئے بیٹا؟؟" سب نے سلام کا جواب دیا تھا اور دادو نے ساتھ سوال بھی کر ڈالا۔
"کچھ کلائنٹس آئے ہوئیے تھے دادو! ان کے ساتھ ہی میٹنگ میں بزی رہا۔" اس کے لہجے میں تھکاوٹ کا عنصر تھا۔ آج کا دن انتہائ مصروف رہا تھا۔
"اچھا چلو فریش ہو کر آ جاؤ۔۔۔ پھر اکٹھے ڈنر کرتے ہیں۔" اگرچہ وہ سب کھانا شروع کرنے ہی والے تھے لیکن اب مرتضٰی کی خاطر چند منٹ کے لیے سب نے ہاتھ روک دئیے تھے۔ مرتضٰی اثبات میں سر ہلاتا مڑا اور اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔
پانچ منٹ بعد ہی وہ پھر سے نیچے ڈائیننگ روم میں موجود تھا۔
"نمرہ نہیں آئ ڈنر کے لیے؟؟" سب افراد کے درمیان اس جھلی کی کمی شدت سے محسوس ہوئی تھی تبھی وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکا۔
"مزنہ کو کھانا نہیں ملا اب تک۔ اور اس کی ضد ہے جب تک مزنہ کھانا نہیں کھائے گی وہ بھی اپنے حلق سے کوئی نوالہ نہیں اتارے گی۔" چچی جان نے بیزاری سے نمرہ کے نہ آنے کی وجہ بتائی۔ وہ تنگ آئی ہوں تھیں نمرہ سے آجکل۔۔۔
"مزنہ؟؟" کرسی پیچھے کرتے ہوئیے اس کے ہاتھ تھمے۔ سوالیہ نگاہوں سے اس نے چچی کی طرف دیکھا۔
"ارے وہی۔۔۔ اس کے ناول کے ہیرو ازمیر شاہ کی بیوی۔۔۔ جہاں اس نے دوسرے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رکھے تھے مزنہ پر اب اس کا کھانا پانی بھی بند کر دیا۔ مجھے تو حیرت ہوتی ہے وہ لڑکی اب تک مری کیوں نہیں۔ جبکہ چھ دن سے اس نے اپنے حلق سے پانی کا گھونٹ تک نہیں اتارا اور بھوکے پیٹ ہی مار بھی کھا رہی ہے اس ازمیر شاہ کی۔۔۔" دادو نے چاول اپنی پلیٹ میں ڈالتے ہوئیے مرتضٰی کو تفصیل سے آگاہ کیا۔ باقی سب نے دادو کی بات پر اپنی مسکراہٹ چھپائی۔
اس گھر میں ناول صرف نمرہ پڑھ رہی ہوتی تھی لیکن اس ناول کے ہیرو ہیروئین کے درمیان کیا چل رہا ہے، پورے ناول کی اسٹوری کیا ہے، اس ناول کا اختتام کیا ہوا یہ سب پورے گھر کو پتا ہوتا تھا۔۔۔ وجہ وہی تھی کبھی نمرہ کا رونا دھونا، کبھی کسی ہیپی سین پر خوشی سے چلانا، ناچنا گانا، اور آج یہ بھوک ہڑتال۔۔۔
" میں دیکھتا ہوں اسے۔ " سب کھانا کھا رہے تھے لیکن اس کے بنا مرتضٰی کو دسترخوان ویران لگ رہا تھا تبھی اس نے اٹھنا چاہا۔
"کوئی فائدہ نہیں ہے۔ سب گھر والے باری باری جا کر اس کی منتیں کر چکے ہیں کہ بی بی یہ صرف ناول کی کہانی ہے۔ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مگر نہیں۔۔۔ ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ مزنہ کو کھانا نہیں ملے گا تو وہ بھی نہیں کھائے گی کھانا۔۔۔" چچی جان کی طرف سے جواب ملا تھا۔
"اللّہ ہی حافظ ہے اس لڑکی کا۔" انور صاحب جو کہ نمرہ کے والد تھے انہوں نے افسوس سے سر ہلایا۔
"چچی! آپ اسے روکتی کیوں نہیں ہیں ناول پڑھنے سے۔ ایک تو ناول پڑھ پڑھ کر پتا نہیں کیا اوٹ پٹانگ سوچتی رہتی ہے، الٹی سیدھی حرکتیں کرتی رہتی ہے، دوسرا اس کی نظر بھی کمزور ہو جائے گی اس طرح۔ ہر وقت ناولز کی دنیا میں پائ جاتی ہیں محترمہ۔۔۔ اسے اپنی پڑھائ جاری کرنی چاہیے آگے۔" مرتضٰی نے ہمیشہ والا رونا رویا تھا اب بھی۔ سب سے زیادہ وہ تنگ تھا نمرہ کے ناولز سے۔
"پڑھائ کا تو نام ہی مت لو اس کے آگے۔ بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے۔ اور رہی بات ناولز کی، تو میں نے کئ بار سختی سے منع کیا ہے۔ اسے جیب خرچ کے لیے رقم دینا بھی بند کر دی کہ وہ ناول خرید نہ سکے۔ لیکن اس کے تایا ہیں نا جن کی وہ چہیتی ہے۔ بس ایک دو لاڈ دکھاتی ہے اور بھائ صاحب فوراً اس کی فرمائش پوری کرتے ہوئیے مطلوبہ ناول لا تھماتے ہیں اسے۔ " صفیہ بیگم نے شکایتی نگاہوں سے مصطفٰی صاحب کو دیکھا جو تھے تو مرتضٰی اور سارہ کے والد۔۔۔ لیکن سب سے زیادہ پیار انہیں اپنے بھائ کی اکلوتی بیٹی نمرہ سے تھا۔
"ارے کیوں میری لاڈلی بیٹی کے پیچھے پڑ گئے ہو سب۔۔۔ اتنے چھوٹے چھوٹے شوق ہیں اس کے۔۔۔۔ معصوم سی ہے وہ۔ بس ناول ہی تو پڑھتی ہے نا۔ واحد شوق ہے اس کا یہ۔ اس کا یہ شوق پورا کر کے مجھے جو خوشی ملتی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔۔۔ " مصطفٰی صاحب دھیمی مسکراہٹ چہرے پر لیے نمرہ کی طرف داری کر رہے تھے۔ انور صاحب کے چہرے پر بھی مسکراہٹ بکھری۔۔۔
"لیکن مصطفٰی! وہ زیادہ ہی بگڑتی جا رہی ہے۔ عمر دیکھو اس کی۔۔ اس عمر میں لڑکیاں پورا گھر سنبھالتی ہیں۔ اور اسے ناولوں سے ہی فرصت نہیں ہے۔ اتنا پیار بھی مت دو اسے۔ اس کا بچپنا ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ کل کو اسے بیاہنا بھی ہے۔ سسرال جا کر کیا کرے گی وہ؟؟ نہ کوئی ہنر نہ سلیقہ۔۔۔ ہماری ناک ہی کٹوائے گی بس۔۔۔" دادو نے اپنے بڑے بیٹے مصطفٰی کی خبر لی تھی۔ وہ خود بھی آج کل نمرہ کی ان بے تکی حرکتوں پر سوچ میں پڑ گئ تھیں۔
"کچھ نہیں ہوتا بی جان! بچی ہے وہ۔۔۔ خود ہی آہستہ آہستہ سنجیدہ ہو جائے گی۔ ابھی بے فکری کے دن ہیں اس کے۔ اور پھر بیاہ کر کونسا اسے کسی دوسرے گھر جانا ہے۔ ہمارے گھر کی بیٹی ہے وہ اور ہمارے گھر میں ہی رہے گی ہمیشہ۔۔۔" مصطفٰی صاحب کے لہجے میں نمرہ کے لیے محبت ہی محبت تھی۔ انہیں بیٹیاں بہت اچھی لگتی تھیں اور نمرہ اس گھر کی پہلی بیٹی ہونے کے باعث ہمیشہ زیادہ محبت کی حقدار ٹھہری تھی۔
"واٹ۔۔۔؟؟" مرتضٰی جو ان سب کی باتوں سے بے نیاز اب کھانا کھانے میں مصروف تھا مصطفٰی صاحب کی بات سن کر نوالہ اس کے حلق میں پھنسنے لگا۔
"کیا۔۔۔ کیا کہا بابا آپ نے؟؟" وہ چمچ پلیٹ میں رکھتا اپنے والد کی طرف متوجہ ہوا۔ جانے کیوں اسے لگا تھا شاید اسے سننے میں غلطی ہوئی ہے۔۔۔ باقی سب بھی حیران نگاہوں سے مصطفٰی صاحب کے چہرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔
"کچھ نہیں۔۔۔ اور تم بڑوں کی آپس کی گفتگو پر ذرا کم دھیان لگایا کرو۔۔۔ اپنے کیرئیر پر فوکس کرو۔۔۔ سمجھے؟؟" مصطفٰی صاحب جزبز سے ہوئیے تبھی مرتضٰی کو ہی ڈانٹ کر رکھ دیا۔۔۔ ابھی گھر کے بچوں کے سامنے یہ بات نہیں کھلنی چاہیے تھی۔ ابھی تو انہوں نے بس دل میں ہی یہ ارادہ بنایا تھا کہ نمرہ کو اپنی بہو بنائیں گے۔ نمرہ کے والدین سے اور بی جان سے بات کرنا ابھی باقی تھا۔ ایسے میں ابھی منہ سے یہ بات نکال کر انہوں نے غلطی کی تھی شاید۔۔۔ مرتضٰی دل ہی دل میں کھٹکتا بڑبڑاتے ہوئیے دوبارہ اپنی پلیٹ کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔ البتہ اب دماغ میں ایک نئ سوچ نے گھر کر لیا تھا۔ کیا بابا کی بات کا یہ مطلب تھا کہ نمرہ اور مرتضٰی۔۔۔؟؟ کیا وہ ان دونوں کے مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ کر چکے تھے۔۔۔؟؟ دل میں ایک خوشگوار سے احساس نے جنم لیا تھا لیکن ساتھ ہی کچھ خدشات بھی ابھرے تھے نمرہ کے حوالے سے۔۔۔ خیر۔۔۔ جب بات کھلے گی تب کی تب دیکھی جائے گی۔۔۔ اس نے سر جھٹک کر تمام سوچوں کو خود سے دور دھکیلا۔۔۔