اس نے فریش کریم سے کیک پہ خوبصورت سا ڈیزائن بنایا تھا۔ کریم سے گلاب کے پھول بناتے اس کے ہاتھ کسی ماہر بیکری شیف کی طرح حرکت میں تھے۔ چاکلیٹ ساس سے "پیارے ابا جی!" لکھا تھا۔ کیک تیار تھا۔ کیک کو کیک سجانے والی گھومتی میز پر رکھے دائیں بائیں گھماتے وہ کیک کا ناقدانہ جائزہ لے رہا تھا۔ مبادا کہیں کوئی کمی نہ رہ گئی ہو۔
"بھائی! زبردست۔!" اس کا چھوٹا بھائی شاہنواز کچن کے دروازے پر ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ آنکھوں میں ستائش تھی۔
"اف یہ خوشبو۔! دل کرتا ہے کہ سب کچھ ہڑپ کر جاؤں" وہ فضا میں پھیلی ونیلا ایسنس کی دلفریب خوشبو اندر اتارتے ہوئے مزے لے کر بولا تھا۔ وہ اسی خوشبو کو محسوس کرتا، ٹام اینڈ جیری کے ٹام کی طرح جیسے ہوا کے دوش پہ بھاگا چلا آیا، ساتھ ہی باؤل کے پیندے سے لگی کریم کو انگلی سے چاٹنے لگا تھا۔ وہ کیک فریج میں رکھ چکا تھا۔ کیک کو اچھے سے سیٹ ہونے کے لیے تین سے چار گھنٹے کا وقت درکار تھا۔ وہ شیلف کی صفائی میں مصروف ہوا جب فوزیہ اندر آئیں۔
"سبکتگین! رہنے دو بیٹا باقی میں خود کر لوں گی۔ تھک گئے ہو گے" اس نے مسکرا کو ماں کو دیکھا اور کام کرتا رہا۔
"نہیں اماں! جب میں اپنی بیکری بناؤں گا تو خود ہی سب کرنا ہو گا۔ اور اس کام میں مجھے کبھی بھی تھکاوٹ نہیں ہوتی نہ برا ہی لگتا ہے۔" ہر چیز اپنے مقام پہ رکھی جا چکی تھی۔ شاہنواز اس کا ہاتھ بٹانے لگا تھا۔
"بیکنگ میرا شوق ہے اماں! اور شوق کی تکمیل انسان کو تھکاتی نہیں ہے۔"
"لیکن تمھارے ابا کو کون سمجھائے؟" وہ فریج سے سبزی کی ٹوکری نکال کر رات کے کھانے کی تیاری کرنے لگی تھیں۔
"چھوڑیں اماں! آپ فکر مت کیا کریں، مان جائیں گے ابا جی بھی۔!" اپیرن اتار کر تولیے سے ہاتھ پونچھتے سبکتگین نے ماں کو تسلی دی تھی۔
"بہت سے والدین اولاد کو ڈاکٹر بنا کر خوش ہوتے ہیں تو ایسے ہی کچھ اولاد کو ڈاکٹر نہیں بھی بنانا چاہتے۔ اسی طرح ہمارے ابا جی بھی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔" فوزیہ نے سمجھ کر سر ہلایا تھا۔
سبکتگین، شاہد اور فوزیہ کا بڑا بیٹا اور ایک اچھی یونیورسٹی سے ہوٹل مینجمنٹ میں ایم بی اے کا ڈگری ہولڈر تھا۔ بچپن ہی سے میٹھے کا شوقین تھا اور گھر میں اکثر ماں کے سر پہ کھڑا اپنے لیے میٹھی چیزیں بنوایا کرتا تھا۔ تھوڑا ہوش سنبھالنے کے بعد کھانا بنانے کی کتب خرید کر یا پھر ماہانہ کوکنگ رسائل سے میٹھا بنانے کے تجربات کرتا رہتا تھا۔ ٹی وی پہ بی بی سی فوڈ، مصالحہ چینل اور ایسے کئی چینلز لگا کر دن رات مختلف چیزیں سمجھتا اور سیکھتا رہتا تھا۔ ذہین اور سمجھدار تھا یہی وجہ تھی کہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنے شوق کی تکمیل بھی جاری رکھتا تھا۔ شاہد صاحب اس کے بیکنگ کے شوق کو لے کر چڑتے ضرور تھے کہ عورتوں کی طرح کچن میں گھسا رہتا ہے، یا زنانہ شوق پال رکھے ہیں۔ لیکن انھیں لگتا تھا کہ وہ صرف شوقیہ یہ سب کرتا ہے۔ اسی لیے زیادہ کچھ کہتے بھی نہیں تھے۔ اور پھر اس کی بدولت نت نئی چیزیں بھی، کھانے اور دوستوں کو کھلانے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ بہرحال کھانے کے شوقین تو وہ بیٹے سے زیادہ ہی تھے۔
"کم بخت کے ہاتھ میں ذائقہ بھی تو اتنا ہے جیسے دلی کے شاہی خاندان کا شاہی باورچی رہا ہو۔" وہ بیوی کے سامنے اکثر و بیشتر اعتراف بھی کیا کرتے تھے۔ بات اگر گھر پہ کبھی کبھار کیک بنانے یا ایسے چھوٹے موٹے تجربات کرنے تک محدود رہتی تب تو ٹھیک تھا۔ اصل مسئلہ تب پیدا ہوا جب اس نے ایم بی اے کے آخری سمسٹر کے پیپر دینے کے بعد ان سے لاہور جا کر بیکنگ کلاسز لینے کی اجازت طلب کی تھی۔ سات آٹھ سال سے بیکنگ کرتے ہوئے وہ بیکنگ کی بنیادی چیزوں سے آگاہ تو ہو گیا تھا لیکن ماہر ہونے کے لیے وہ کچھ عرصہ کسی ماہر کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا۔ اس کے شہر میں اچھی بیکریاں تھیں لیکن ایسا کوئی پلیٹ فارم نہیں تھا جہاں وہ اچھے طریقے سے سیکھ سکتا اور کہنے کے قابل ہوتا کہ فلاں معروف و مشہور ادارے سے سند یافتہ ہے۔ لڑکیوں کے لیے گھروں میں یا دستکاری قسم کے سکولوں میں کوکنگ کلاسز کا انتظام تو پھر بھی موجود تھا لیکن اس کے چھوٹے سے شہر میں لڑکوں کے لیے ایسا کوئی سکول یا ادارہ کام نہیں کرتا تھا۔
"کیا۔۔!؟ بیکنگ سیکھنے کے لیے لاہور جانا چاہتے ہو؟" وہ تو اس کا مطالبہ سن کر ہی حق دق رہ گئے تھے۔
"جی ابا جی! مجھے لاہور جانا ہے۔ تین مہینے کا کورس ہے۔ میں نے عادل سے کہہ کر ساری معلومات لے لی ہیں۔" لاہور میں مقیم اپنے ماموں زاد کا ذکر کیا تھا۔
"تمھارا دماغ تو ٹھیک ہے نا سبکتگین!" غصے کو دباتے وہ کمرے میں ٹہلنے لگے تھے۔
"جتنی بیکنگ تمھیں آتی ہے وہ کافی ہے۔ اس سے زیادہ سیکھ کر کیا کرو گے؟ یوں بھی ہر کیک، ہر پیسٹری ایک ہی قسم کی ہوتی ہے۔ سیکھنے جیسا ہے بھی کیا اس میں؟" وہ جانتا تھا یہی ان کا جواب ہو گا۔ وہ کبھی نہیں مانیں گے، فوزیہ نے کہا تھا اسے کہ وہ بات کریں گی۔ اس نے منع کر دیا تھا۔
"مجھے اپنے لیے خود کوشش کرنی ہے اماں۔ اپنا آسمان میں خود چھوؤں گا" وہ پر عزم تھا پختہ ارادہ کیے ہوئے کہ اسے بیکری شیف ہی بننا تھا۔ ایم بی اے کے فائنل سے فراغت کے بعد وہ اپنی تمام تر توانائی اسی شوق کی تکمیل کے لیے خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اسے اپنی ایک بیکری بنانی تھی۔ وہ ذہین تھا تو ابا جی چاہتے تھے کہ وہ مقابلے کا امتحان دے۔ کسی بڑے عہدے پہ پہنچے لیکن اسے کسی عہدے کی چاہ نہیں تھی اسے مکھن و کریم کے دل لبھاتے ذائقے، ونیلا ایسنس اور چاکلیٹ کی مسحور کن خوشبو ہی اپنی طرف کھینچتی رہتی تھی۔ اسے کسی بڑے اعلیٰ عہدیدار افسر کی کرسی اتنی متاثر نہیں کرتی تھی جتنا کسی شیف کی بیکنگ پاگل کرتی تھی۔ گھنٹوں یوٹیوب پہ وڈیو دیکھتا رہتا کہ کیسے کسی ماہر شیف کے مشاق ہاتھ ایک عام سے کیک کو شاہکار میں بدل دیتے تھے۔ اگرچہ وہ خود بھی بہت اچھے کیک بیک کرتا تھا۔ ہر کھانے والے نے ہمیشہ سراہا تھا۔ مگر اس کے آگے ابھی امتحان اور بھی تھے۔ اور اسے ہر امتحان میں کامیاب ہونا تھا۔ لیکن ابا جی کی وہی روایتی سوچ کہ بیٹے کو شیف عرف عام میں باورچی کیسے بننے دیتے۔ اس کے بارہا کہنے، منتیں ترلے کرنے اور فوزیہ کے سمجھانے پہ اگرچہ مقابلے کا امتحان نہ دینے پہ راضی تو ہو گئے تھے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ اسے کسی بیکری کا شیف بننے دیتے۔ محلے، برادری اور ملنے جلنے والوں میں کیا عزت رہ جاتی ان کی؟ جب بتاتے کہ
"بڑا بیٹا کرتا کیا ہے؟ بیکری شیف ہے۔کیک بناتا ہے، ہونہہ! لوگوں کی اولاد ڈاکٹر بنتی ہے، سائنسدان بنتی ہے فوجی یا پولیس افسر بننا چاہتی ہے اور ایک ہماری ناہنجار اولاد ہے کہ شیف بننا چاہتی ہے۔ خستہ، کرارے، نرم اور مزےدار کیک پیسٹریاں بنانے میں نام پیدا کرنا چاہتی ہے۔" اب بھی یہی ہوا تھا۔ غصے سے کمرے میں دائیں بائیں ٹہلتے ہوئے انھوں نے کئی بار کی کہی بات پھر سے دہرائی تھی۔
"ابا جی مان جائیں نا۔! آپ کے کہنے کے مطابق ایم بی اے بھی کر چکا ہوں۔ اب فارغ ہوں تو۔۔۔" وہ انھیں ہر صورت منا لینا چاہتا تھا۔
"فارغ ہو گئے ہو تو انٹرن شپ شروع کرو کل کو خیر سے یہ گھر تمہیں ہی چلانا ہے۔ " انھوں نے جھٹ سے حکم بھی صادر کیا تھا۔
"ابا جی! مجھے بیکری بنانی ہے۔ گھر تو بیکری سے بھی چل جائے گا۔" انھوں نے اسے زبردست گھوری سے نوازا۔
"ہاں بالکل! اور تمھارے ہونے والے بچے کل کو کیا کہلائے جائیں گے؟ وہ دیکھو، وہ جا رہے ہیں نانبائی سبکتگین رضا کے بچے۔" وہ باقاعدہ نقل اتار کر بولے تھے اتنے سنجیدہ ماحول میں، نہ چاہ کر بھی سبکتگین کو ہنسی آ گئی تھی۔
"کتنا سوچ سمجھ کر، منتخب کرکے تمھارا نام غزنی کے بادشاہ کے نام پر سبکتگین رکھا تھا کہ انھیں جیسے اوصاف پیدا ہوں گے تم میں، لیکن تم۔۔!" ٹہلنا ترک کرکے کرسی پہ بیٹھتے ہوئے تاسف سے بولے تھے۔
"لیکن تمھیں نانبائی بننا ہے، شیف کہلوانا ہے خود کو۔ خاندان کی عزت کا خیال تو کیا رکھنا تھا اپنے نام کا پاس بھی نہیں تمھیں۔" انھیں بیٹے کے شیف بننے کی ضد نے حد درجہ مایوس کیا ہوا تھا۔
"نام کا کیا ہے ابا جی! میں سبکتگین ہوں تو ان کی طرح جنگ و جدل کرکے ملک تو فتح کرنے سے رہا، یا اب اگر آپ میرا نام شاہ رخ خان رکھ دیتے تو کیا میں فلم اداکار بن جاتا؟" اسے ایک بار ان کی غضب ناک نظروں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
"میں تمھاری کسی دلیل یا بحث و مباحثے سے قائل ہونے والا نہیں ہوں۔ اب نہ اس موضوع پر کوئی بات ہی ہوگی۔ تمھیں ایم بی اے کروایا تھا کہ کسی اچھی کمپنی میں نوکری کرو۔ ہوٹل مینجمنٹ میں ایم بی اے کا مطلب یہ نہیں کہ تمھیں ہوٹل میں باورچی کی نوکری کرنے دوں۔" وہ جی بھر کر بدمزہ ہوا تھا۔ اور اس ساری نشست کا حاصل وصول کچھ نہیں تھا۔ وہ منھ بنائے کمرے سے نکل آیا تھا۔ اپنے شوق کو دل میں دبائے، کورس کی خواہش کو مار کر اس نے انٹرن شپ شروع کی تھی۔ وہ ابھی اس حالت میں نہیں تھا کہ ابا جی کے خلاف جا سکتا وہ جانا بھی نہیں چاہتا تھا۔ اسے ان کی دعاؤں کے سائے میں ہر کام کرنا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**