علی مومنہ کو ڈنر کروانے کے بعد اسے میڈیسن دی تو وہ کچھ ہی دیر میں سوگی کیوں کے میڈیسن میں نیند کی بھی دوا شامل تھی علی اس پہ بلینکٹ ٹھیک کرتا اسے پہ قرانی آیات کا حصار بندھتا کمرے سے باہر آگیا
علی جب نیچے گارڈن میں پہنچا تو یوی کو پریشان کھڑا پایا اس کے ساتھ ایک پیاری سی لڑکی بھی تھی یوی نے جب علی کو آتا دیکھا تو علی سے بولا علی یہ ہے میری منگیتر صنم یوی نے صنم سے تعارف کرواتے ہوٸے کہا۔۔
کیسی ہیں بھابھی علی نے صنم سے حال احوال پوچھتے ہوٸے کہا۔
میں ٹھیک ہوں بھیا صنم نے مسکرا کر کہا۔۔
سناٶ یوی نہیں ملی ناگ منی علی نے یوی سے پوچھا؟
نہیں یار نہیں ملی یوی نے پریشانی سے کہا تب علی اندر سے قران پاک لے آیا اور پھر سے تلاوت قران کرنے لگا یوی اور صنم بھی علی کے ساتھ احترام سے بیٹھ گۓ۔۔
قران پاک پڑھنے کے بعد علی کو سامنے سے ایک چیز چمکتی ہوئی دیکھائی دی تب علی اٹھ کر وہاں تک گیا وہ ناگ منی ہی تھی جو علی نے اٹھا کر یوی کو دی۔۔
وہ دونوں ناگ منی پا لینے پہ بہت خوش تھے اور خوشی سے گلے ملنے لگے۔۔
وہ دونوں علی کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔۔
یوراج آپ دونوں کو منی مل گٸ تو میں چاہتا ہوں آپ دونوں میرا مذہب السلام قبول کر لیں اور ہمارے مذہب میں آ کر ہماری دوستی کو مان بخشو ہوئے دعوت السلام قبول کرو۔۔
علی کے کہنے پہ یوی اور صنم نے ایک دوسرے کی جانب دیکھنے کے بعد یوی سے کہا ہمیں آپ کی دعوت السلام قبول کرتے ہیں ہمیں کیا کرنا ہوگا یوی نے کہا تب ہی فجر کی ازانیں ہونے لگی۔۔۔
جمعہ کی با برکت صبح شروع ہوچکی تھی
ماشاءاللہ یوی تو سچے دل سے پڑھنا شروع کرو
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہ
یوی اور صنم دونوں نے کلمہ طیبہ پڑھا اور داٸرہ السلام میں داخل ہوگۓ اسی وقت بابا جی نمودار ہوٸے اور کہا ماشاءاللہ ماشاءاللہ
تم دونوں کو السلام قبول کرنے کی بہت بہت مبارک ہو بابا جی نے مسکرا کر کہا تو یوی اور صنم نے علی کے بتانے پہ خیر مبارک کہا۔۔
تو میرے پیارے بچو میں تم دونوں کا السلامی تجویز کرتا ہوں تمہارا نام ہے رجب اور تمہارا رانیہ بابا جی نے ان دونوں کے نام رکھے اور پھر جمعہ کے با برکت صبح رجب اور رانیہ کا نکاح کروایا حق مہر میں رانیہ کو قران پاک دیا جو علی نے رجب کو دیا اور پھر بابا جی کے ساتھ سب نے نماز فجر ادا کی اب تم دونوں قانونی اور شرعی طور پہ میاں بیوی بن چکے ہو۔۔
با با جی انہیں مکمل السلام کی تعليمات دینے کے بعد بولے اب میں چلتا ہوں صدا خوش رہو بابا جی کہنے کے بعد غالب ہوگۓ۔۔۔
اب ان دونوں کو علی بھی مبارک باد دیتا ہوا گھر آگیا۔۔
یوی(رجب) نے اپنی ناگ منی سے علی کے گھر کے سامنے اپنا ایک بنگلہ تیار کروا اور اندر داخل ہوگۓ
یہ ایک بہت خوبصورت کمرا تھا کمرے میں دیکھا جاتا تو سامنے ایک خوبصورت پیش قیمتی جہازی سائز بیڈ رکھا گیا تھا اور بیڈ کے بالکل سامنے ڈریسنگ ٹیبل اور دوسری ساٸڈ پہ بڑی سی واڈروب رکھی گٸ تھی جس کا سرا چھت کے ساتھ لگ رہا تھا۔۔
اب اگر کمرے کے فرش پہ دیکھا جاتا تو ماربل کے فرش پر پیش قیمت کارپٹ پڑا تھا جس میں پاٶں دھستے ہوٸے محسوس ہوتے تھے۔۔۔
کمرا بہت خوبصورت تھا اور بیڈ پہ گلاب اور چمیلی کے پھولوں سے سیج سجاٸی گٸ تھی اس میں بیٹھی صنم (رانیہ) اپنے شوہر رجب کا انتظار کررہی تھی۔۔
کچھ دیر بعد رجب کمرے میں داخل ہوا اور روم کو لاک کرتا رانیہ کے سامنے بیڈ پہ بیٹھ گیا۔۔
رجب نے پیار سے اپنی بیوی کا ہاتھ تھام لیا تو رانیہ بےخود ہوکر اپنے محرم کے سینے سے لگ گٸ رجب رانیہ کو باہوں میں لیتے ہوٸے اپنے برسوں کا پیار اس پہ نچھاور کرنے لگا۔۔۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
یہ ایک بہت تاریک گوشہ تھا اسے کچھ بھی دیکھاٸی نہیں دے رہا تھا اس نے اپنی شکتی سے دیکھنا چاہا لیکن بے مقصد شاہد اس کی شکتیاں اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھیں لیکن کیوں اس نے تو تمام شکتیاں حاصل کرنا کے لیے اک جن زاد بچے کی بَلی چڑھا دی تھی پھر بھی اس کے ساتھ یہ سب کیا ہورہا تھا اسے یاد آیا جب اسے اس بڈھے نے اپنی گرفت میں لیا تب ہی اس کی شکتیاں کمزور ہوگی تھیں۔۔
جب سے وہ اس بڈھے کی قید میں آیا ہے اسے تب سے ہی تاریکی ہی نظر آرہی ہے اسے اپنی حاملہ ناگن کا بھی رہ رہ کر خیال آ رہا تھا لیکن وہ بے بس تھا وہ کچھ بھی نہیں کر پا رہا تھا۔۔۔
ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کے وہ ہی بابا جی نمودار ہوٸے۔۔
انہوں نے گررجدار آواز میں کہا اے ناگ اب میں تجھے نہیں بخشو گا اور یہ کہتے ہی بابا جی نے اس پہ ان دیکھی بجلی ڈالی جس سے اس کی رہتی شکتیاں بھی جاتی رہی دیوراج درد سے بلبلا اٹھا کیوں کے اسے بہت زیادہ تکليف ہورہی تھی اور وہ تکليف برداشت کرتے کرتے دنیا جہاں سے بےخبر ہو گیا
نٕہ جانے اسے کتنے گھنٹوں بعد ہوش آیا تھا اس بات کا وہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کیوں کے وہ جب سے یہاں قید ہوا تھا اسے اندھیرے کی سواٸے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا اور اس کی تمام شکتیاں بھی ساتھ چھوڑ چکی تھیں اسے اندازہ ہوچکا تھا کے وہ کتنی بڑی مصیبت میں گر چکا تھا۔۔
اس کے دماغ میں ایک بات آٸی جس پہ اس نے فورا عمل کیا اس نے اس شیطان نگو کے چیلے کو پکارہ تو وہ نگو کا چیلے بڑا ناگ جلد ہی اس کے سامنے آگیا۔۔
دیو نے اسے دیکھتے ہی کہا اے مہان ناگ میری مدد کرٶ اس بڈھے نے مجھ سے میری ساری شکتیاں چھن لی ہیں اب میں یہاں گھٹ گھٹ کر زندہ رہنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا دیو نے تکلیف سے روتے ہوٸے کہا کیوں کے اس کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔۔۔
اے بالغ ناگ ہم تیری کوئی مدد. نہیں کرٸے گۓ یہ ہمارے شیطان نگو کا آدیش ہے کیوں کے تو شیطان نگو کو خوش کرنے میں ناکامیاب رہا ہے اب میں چلتا ہوں اور وہ دیوراج کو روتا چھوڑ کر غائب ہوگیا جو اس کے آنے سے کچھ روشنی آٸی تھی وہ بھی اب ختم ہوچکی تھی۔۔
دیو چلاتا رہا لیکن اب اس کی کوٸی سننے والا نہیں تھا
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
مومنہ کی ڈیلوری کو بس کچھ ہی دن باقی تھے علی کو بےچینی سے انتظار تھا جب ایک ننھا سا وجود ان کے درمیان آجاتا۔۔۔
مومنہ کو دوبارہ دیوراج کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا کیوں کے اس کی ساری شکتیاں بابا جی نے ضبط کرلی تھیں اور دوسرا اب مومنہ اپنے آپ کو قرانی آیات کے حصار میں رکھتی تھی۔۔
آج علی نے کتنے ہی دنوں بعد آفس کا چکر لگایا تھا وہ اپنے کام میں مصروف تھا تب ہی اس کی سامنے والی کرسی پر بابا جی نمودار ہوٸے جنہوں نے علی کو اشارہ سے کہا کے کسی کو بھی اندر آنے سے روک دو۔۔
علی بابا جی کے اشارے کو سمجھتے ہوٸے فون اٹھا کر کسی کو بھی اسے ڈسٹرب کرنے سے منع کر چکا تھا۔۔
اب بابا جی نے کہنا شروع کیا آپ کی بیوی بہت بڑے خطرہ میں ہے کس سے اور کیوں بابا جی علی نے حیرانی سے کہا؟۔
بیٹا ایک خبیث ناگ ہے اس خبیث کی نظر مومنہ بیٹی پر ہے۔۔
وہ مومنہ بیٹی کا جسم حاصل کرنا چاہتا ہے جس سے اسے اپنی بہت سی شکتیاں حاصل ہوں گٸ اور اس نے آپ کی شکل اختيار کر کے بہت بار مومنہ کے پاس جانا چاہا لیکن وہ اپنے ارادہ میں کبھی کامیاب نہیں میں نے فل وقت تو اس کی ساری شکتیاں ضبط کرلی ہیں لیکن میں اسے زیادہ دیر اسے نہیں روک سکتا۔۔
تو اب مجھے کیا کرنا چاٸے بابا جی علی نے پریشانی سے کہا۔۔
آپ کو ایک چلہ کرنا پڑے گا اور وہ ناگ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاٸے گا لیکن۔۔۔۔
لیکن کیا بابا جی بیٹا وہ چلہ بہت کھٹھن ہے علی نے کہا بابا جی میں ہر کھٹھن راہ پہ چلنے کے لیے تیار ہوں میں ہر قسم کے چلہ کے لیے تیار ہو میں اپنی بیوی کو خطرہ سے بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہوں۔۔
ہمم بس بیٹا پھر میں تمہیں چلہ بتاٶ کا پر آپ کو ہمت سے کام لینے پڑے گا چلے میں بہت سے رکاوٹيں آٸیں گٸ پریشانیں آٸیں گٸ لیکن آپ نے ہمت نہیں ہارنی چاہے جو بھی ہو جاٸے۔۔۔
ٹھیک ہے بابا جی۔۔
ٹھیک ہے بیٹا اب میں جلتا ہوں کل شام پانچ بجے مجھے اپنے گھر سے دور کھنڈرات میں ملنا مزید میں آپ کو وہاں سمجھاو گا جی اچھا بابا جی میں پہنچ جاٶ گا۔۔
آج علی کو چلہ شروع کرنا تھا اور بابا جی سے بھی ملنا تھا اس نے گھڑی میں وقت دیکھا تو ابھی ساڈھے چار بج رہے تھے اور اسے کھنڈات میں جانے کے لیے پندرہ منٹ چاٸے تھے۔۔
وہ کھڑکی سے ہٹ کر اپنے بیڈ پہ بیٹھ گیا جہاں اس کی بیوی سورہی تھی علی اب مومنہ کے بارے میں سوچنے لگا مومنہ کی ڈیلوری میں ابھی سات دن باقی تھے یعنی اس کے چلے میں بیٹھنے کے بعد دو تین دن بعد یا اس سے پہلے کبھی بھی مومنہ کی طبیعت خراب ہو سکتی تھی ایسے میں مومنہ کے پاس کسی عورت کا ہونا بہت ضروری تھا۔۔۔
لیکن وہ اس حالت میں کس کو مومنہ کے پاس چھوڑتا جب وہ خود ادھر ہوگا ہی نہیں اس کی تو کوٸی بہن بھی نہیں تھی جسے وہ مومنہ کے پاس چھوڑ کر مطمئن ہوجاتا۔۔
علی تو اکلوتا تھا اور علی کے باقی تمام رشتہدار بہرونے ممالک مقیم تھے علی کو اپنے وطن سے محبت تھی اسی لیے اس نے دوسرے مالک کے بجائے اپنے وطن عزیز میں رہنا پسند کیا۔۔
مومنہ کی تو ایک اسٹیپ سسٹر تھی لیکن وہ بھی لندن میں مقیم تھی علی اسی سوچ میں تھا کے اس کے ذہن میں ایک خیال آیا اس نے سوچا بابا جی سے ملنے کے بعد اپنا خیال پہ عمل کرٸے گا اسی لیے وہ بابا جی کی طرف جانٕے کٕے لیے تیار ہوگیا۔۔
کچھ دیر بعد علی کھنڈرات میں موجود تھا کچھ دیر بابا جی کا انتظار کرتے گزری تھی کے بابا جی اس کے سامنے آگۓ۔۔۔
بابا جی نے بتایا علی بیٹا آپ کو آج رات عشاء کے بعد چلہ میں بیٹھ جانا ہے۔۔
جی بابا جی میں تیار ہوں۔۔
چلے کے دوران آپ کو بہت کچھ ایسا دیکھایا جاٸے گا جس کا حقيقت سے کوٸی تعلق نہیں ہوگا بس آپ کا دھیان بھٹکانے کے لیے جنات طرح طرح کے ہتھکنڈے اپناٸے گۓ لیکن آپ نے ہمت حوصلہ سے کام لینا ہے اور حصار میں رہتے ہوٸے اپنے چلے پہ توجہ دیتی ہے یاد رکھا بیٹا اگر آپ کسی طرح سے حصار توڑ بیٹھے تو وہ شیطان جنات آپ کو زندہ نہیں چھوڑیں گۓ اور میں چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکو گا۔۔
بابا جی میں سب سمجھ گیا ہوں علی نے کہا ہمم ٹھیک ہے اپنی تیاری کرو آج جمرات ہے عشاء کے بعد سے آپ کا چلے شروع ہوگا اور ہفتہ کی فجر کو آپ کا چلہ مکمل ہوگا۔
اللہ حافظ بابا جی علی بابا جی کی بات سن کر چلا گیا۔۔
علی نہر کے قریب پہنچ تو اس نے رجب کو آواز لگاٸی چند ہی منٹ بعد رجب علی کے سامنے نمودار ہوا اور خوشدلی سے اسے السلام کرتے ہوٸے اس سے گلے ملا ہوا۔۔۔
کیسے ہو بھاٸی میں تو ٹھیک ہوں اپنے گھر نہیں لے جاٶ گۓ کیا علی نے کہا کیوں نہیں یار مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں چلو چلتے ہیں اندر۔۔
لیکن تیرا گھر ہے کدھر علی نے ادھر اودھر نظر دوراتے ہوٸے کہا۔۔۔
ارے بھاٸی یہ گھر ہے تیرے سامنے رجب نے کچھ پڑھ کر ایک جانب پھونک ماری تو ایک خوبصورت سا گھر ظاہر ہوا توعلی نے کہا تُو نے ابھی تک ہندو مذہب کے عمل نہیں چھوڑے علی اس سے کہنے لگا؟
ارے نہیں نہیں جب مذہب چھوڑ دیا تو عمل کیوں بھلا رکھو گا یہ سب تو بابا جی نے ہماری ناگ منی کو پاک کلام سے منور کر کے دیا تھا اور یہ سب اسی وجہ سے ہے رجب نے مسکراتے ہوٸے بتایا۔۔
او اچھا اچھا علی نے مسکرا کر کہا۔۔
اچھا اب چل نا اندر بھابھی سے نہیں ملے گا رجب نے کہا اور دونوں گھر میں داخل ہوٸے۔۔
ڈراٸنگ روم میں بیٹھنے کے بعد علی نے کہا مجھ بہت ضروری کام ہے تم سے رجب۔۔۔
حکم کر یار جان بھی حاضر ہے رجب نے دل پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔
وہ دراصل مجھ ایک ناگ کو ختم کرنا ہے اور پھر مومنہ سے لے کر بابا جی تک علی نے سب رجب کو بتا دیا۔۔۔
ہممم تو دیوراج نہیں سدھرا پھر رجب نے نفی کرتے ہوٸے کہا۔۔
کیا یہ وہ ہی دیوراج ہے علی نے رجب سے پوچھا تو رجب نے ہاں میں سر بلا دیا۔۔۔
علی نے بتانا شروع کیا میرا چلہ تین دن کا ہے اور مومنہ کو میں اس حالت میں اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا کیا تم اور بھابھی مومنہ کے پاس رک جاٶ گۓ میرے واپس آنے تک علی نے رجب کی جانب دیکھا؟
کیوں نہیں یار میں اور رانیہ ضرور رکیں گۓ تیرے گھر جب تک تُو نہیں آجاتا رجب نے اپناٸیت سے کہا اتنے میں رانیہ چاٸے لے کر آگٸ السلام علیکم بھیا کیسے ہیں آپ اور مومنہ بھابھی کیسی ہیں ؟؟ رانیہ نے علی سے پوچھا؟
میں تو ٹھیک ہوں بہنہ اور مومنہ سے آپ چل کر خود مل لیں کیوں کے مجھے إیک کام سے جانا ہے اور آپ مومنہ کے پاس رکنے کا کہنے آیا ہوں کیوں کے اس کی حالت ایسی نہیں کے وہ اکیلی رہے علی نے کہا تو رانیہ نے کیوں نہیں کیوں ہم ضرور بھابھی کے پاس رہیں گۓ
علی چاہے پینے کر فارغ ہوا تو رجب سے بولا رجب چلیں کیا۔۔
رجب نے رانیہ کو آواز دینے ہوٸے کہا چلو رانیہ علی کے گھر۔۔
اچھا رجب میں آتی ہوں چادر لے کر رانیہ نے بھی آواز لگاٸی رانیہ اب مکمل طور پر السلام پہ عمل کرتی تھی۔
علی رانیہ رجب کو لے کر اپنے محل میں آیا تو انہيں اوپر ہی اپنے کمرے میں لے آیا۔۔۔
مومنہ کدھر ہو یار دیکھو تو مہمان آٸیں ہیں مومنہ رجب اور رانیہ سے پہلے بھی ایک بار مل چکی تھی اسے یہ سبز اور نیلی آنکھوں والا کپل بہت پسند آیا تھا اور اس سے بڑھ کر وہ اس کے ہسبنڈ کا دوست اور اس کی ہیوی تھی۔۔
علی نے مومنہ کو بتایا تھا کے رجب اور اس کی دوستی یہاں آنے پہ ہی ہوٸی ہے
سب اوپر والے ڈراینگروم میں بیٹھے خوش گپوں میں مصروف تھے۔۔
مومنہ اٹھنے لگی تو علی نے کہا کدھر جاریی ہو؟ علی وہ پہلی بار ہمارے گھر آٸے ہیں کچھ چاٸے پانی کو لے آٶ نا۔۔
نہیں مومنہ تم بیٹھو میں لاتا ہوں کچن سے علی اسے بیٹھ کر خود جانے لگا تو رجب بولا ارے بھابھی آپ تو آرام سے بیٹھ جاٸیں اور علی تم بھی بیٹھ جاٶ میری بیگم بہت مزہ کی چاٸے بناتی ہے۔ رانیہ چاٸے بنا کر لے آتی ہے۔۔
بالکل رجب ٹھیک کہہ رہے ہیں میں ابھی چاٸے لے کر آتی ہوں۔۔۔
پھر تھوڑی دیر بعد ہی رانیہ چاٸے اور ساتھ لازمات لیے آئی جو کے اسے علی نے ہی دیٸے تھے چاٸے وغيرہ پینے کے بعد علی نے کہنا شروع کیا۔۔
مومنہ مجھے آفس کے کام سے تین دن کے لیے امریکہ جانا ہے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ورنہ تمہیں بھی ساتھ لے جاتا اس لیے رجب اور رانیہ بھابھی کو تمہارے پاس چھوڑ کر جارہا ہوں۔۔
علی ابھی جانا ضروری ہے کیا مومنہ پریشان ہوتے ہوٸے بولی ہاں یار بہت ضروری ہے۔۔ارے بھابھی ہم ہیں نا رانیہ آپ کا علی سے بھی زیادہ خیال رکھے گٸ آپ پریشان مت ہوں رجب نے کہا تو مومنہ مسکرتی ہوٸی بولی اچھا ٹھیک ہے میں علی آپ کی پیکنگ کر دیتی ہوں نہیں مومنہ میں سب پیک کر چکا ہو اور آفس سے ہی جانا ہے بس تم اپنا خیال رکھنا۔۔
پھر سب نے ایک ساتھ ڈنر کیا اور عشاء ہونے پہ علی سب کو االودع کہتا ہوا باہر نکلا گیا۔۔۔۔۔۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
علی کو چلہ میں بیٹھے آج پہلی رات تھی جو آرام سے بغیر کچھ ہوٸے گزر گئ دوسری رات بھی چھوٹے موٹے جھٹکوں سے گزر گئ۔۔۔
آج تیسری اور آخری رات تھی۔۔
ابھی علی کو چلہ کرتے ہوٸے گھنٹا بھر ہی مشکل سے گزرا تھا کے دو ناگ نمودار ہوٸے جو کے کوٸی اور نہیں رجب اور رانیہ ہی تھے ۔۔
علی نے دونوں کو پریشان نظر سے دیکھا کیوں کے دونوں رو رہے تھے۔۔۔
علی مومنہ بھابھی کی جان ڈیلوری میں چلی گٸ ہے اور تمہارا بچا بھی مر گیا ہے۔ یہ سنتے ہی علی بھاگ کر حصار توڑ کر اٹھنے ہی والا تھا۔کہ۔ بابا جی کی آواز علی کے کان میں سناٸی دی۔۔
بیٹا یہ سب فریب یے نظر کا دھکا ہے تم اپنے چلہ پہ دھیان دو یہ سنتے ہی علی پھر سے بیٹھ گیا اور اپنا چلہ شروع کردیا یہ دیکھ کر وہ دونوں ناگ دھوں بن کر غائب ہو گۓ۔۔۔
علی چلہ کرتا جا رہا تھا ابھی فجر ہونے میں بہت وقت باقی تھا کہ ایک پانچ منہواں ناگ نمودار ہوا بہت ہی خوفناک ناگ تھا اس کے پانچوں منہوں سے آگ کے شولے نکلا رہے تھے اور اس نے مومنہ کو نا مناسب طرح بالوں سے پکڑا رکھا تھا۔۔۔
اس نے چلا کر کہا اے بالغ اس جاپ کو یہاں ہی چھوڑ کر بھاگ جا نہیں تو تیری پتنی کو موت کے گھاٹ اتار دوگا۔۔
علی نے جب مومنہ کو اس حال میں دیکھا تو اس کا دل کٹ کر رہ گیا اور وہ حصار سے باہر نکلنے ہی لگا تھا کے پھر سے بابا جی کی آواز آئی بیٹا یہ سب نظر کا دھوکہ ہے اپ کی بیوی اللہ کی امان میں ہیں یہ سب فریب یے آپ کو اس چلہ سے روکنے کے اوچھے ہتھکنڈے ہیں آپ آنکھیں بند کر کے عمل پورا کرو۔۔۔
علی جب پھر سے بیٹھ گیا تو مومنہ کی جگہ اب اک خوفناک ناگن آچکی تھی اب وہ علی کو دھمکی دے رہی تھی لیکن علی اس کی پروا کیے بغیر ڈرے عمل میں مصروف تھا ۔۔۔
آگے کا عمل خیر عافیت سے گزر گیا اب فجر کی ازانیں ہو رہی تھی اور علی نماز پڑھنے کے بعد چلہ مکمل کرتا ہوا حصار سے باہر آیا ہی تھا کہ اس کے سامنے ایک کالا ناگ آیا جو بہت بری حالت میں تھا پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک ناگ سے انسان کی شکل میں آیا وہ دیوراج ہی تھا اس کے جسم پر جا بے جا زخموں کے نشانات تھے جیسے اس کو بہت مارا گیا ہو اور پھر بابا جی نمودار ہوٸے اور دیکھتے ہی دیکھتے دیوراج کو ان دیکھی آگ جلانے لگی اب وہاں ایک راکھ کا ڈھیر پڑا ہوا تھا۔۔
برائی ختم ہو چکی تھی برے کو ایک نہ اک دن مٹنا ہی ہوتا ہے اب نگر دیوراج جیسے ناگ کے شرح سے محفوط ہو چکا تھا۔۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
آج مومنہ اور علی کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوٸی تھی جس کا نام انہوں نے منان حیدر علی رکھا تھا۔۔
ابھی کچھ دیر پہلے رجب اور رانیہ آٸے تھے منان کی مبارک باد دیتے کے لیے اب ڈراٸنگ روم میں چاٸے میٹھاٸی سے لطفاندوز ہوا جارہا تھا سب بہت خوش تھے۔۔۔
ادھر جب سے مایا کو دیوراج کی موت کا پتا چلا تو وہ پاگل ہو چکی تھی۔۔۔
اس کی ڈیلوری میں بھی ایک دن رہتا تھا اس کو رانیہ ہی ہسپتال لے کر گئ تھی آخر کار مایا اس کی بچپن کی دوست تھی اور اب تو وہ ودوہ بھی ہو چکی تھی اور ویسے بھی دیوراج کے سب غلط کاموں میں اس کا کیا قصور تھا۔۔۔
مایا کی ڈیلوری کو وقت آیا تو مایا نے دو جڑواں بچوں کو جنم دیا ایک لڑکی اور ایک لڑکا پر مایا ان دونوں کو دنیا میں لاتے لاتے خود زندگی کی جنگ ہار چکی تھی جس پہ رانیہ اور رجب دل سے غم زدہ تھے۔۔۔
رجب اور رانیہ نے مایا کے بچوں کو اپنانے کا فیصلہ کیا مایا کی بیٹی بہت خوبصورت تھی اور وہ ناگن بھی نہیں تھی اس میں کچھ غیر معمولی باتیں تھی کیوں کے وہ ایک جن زاد بچے کے خون سے پیدا ہوئی تھی جب کے مایا کا بیٹا اک ناگ تھا بالکل اپنے باپ کی کاپی اور کون جانے دیوراج کا خون ایک نہ ایک دن ضرور اپنے باپ کے گندے خون کا رنگ دیکھانے والا تھا۔۔
رانیہ نے مایا اور دیوراج کے بچوں کے نام خود رکھے تھے۔۔
مایا کی بیٹی کا نام حورین رکھا وہ تھی بھی حور جیسی اور بیٹےکا نام سالار رکھا رانیہ اور رجب نے دونوں بچوں کو السلام کی تعلیمات دی اور وہ دونوں اب مسلمان تھے کیوں کے دونوں نے ایک مسلمان گھرانے میں انکھ کھولی تھی۔۔
دس سال بعد
اب مومنہ اور علی کی ایک اور بیٹی تھی در عدن جو سات سال کی تھی اور علی اپنے بیٹے منان جو کے دس سال کا تھا اسے لندن بھجوا رہا تھا پڑھنے کے لیے اپنی خالہ کے پاس۔۔
رجب اور رانیہ کے بھی دو بچے تھے ایک بیٹی رھبہ جو آٹھ سال کی تھی اور اس کا نام علی نے رکھا تھا اور ایک بیٹا تھا تہامی مصطفی جو نو سال کا تھا اور وہ بھی علی کے بیٹے منان کے ساتھ لندن جارہا تھا کیوں کے تہامی اور منان میں گہری دوستی تھی۔۔۔۔
رھبہ، در عدن اور حورین میں بھی گہری دوستی تھی۔۔ جب کے سالار بہت چُپ چُپ اور سنجیدہ لڑکا تھا۔۔۔
یہ بھی منان کا ہم عمر تھا علی نے سالار کو بھی لندن جانا کا کہا تھا لیکن سالار نے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ میں ماما رانیہ کے بغیر نہیں رہ سکتا اس لیے انہيں چھوڑ کر کہیں نہیں جاٶ گا۔۔۔
۔۔۔۔ختم شدہ۔۔۔۔