درختوں سے نیچھے اترتا ناگوں کا جوڑا سرخ اور
سفید رینگتا جا رہا تھا۔۔
ان دو ناگوں کو رینگتے ہوٸے کافی دیر ہو چکی تھی جب وہ دونوں کھنڈر کی حدود میں پہنچے اور انہیں یقین ہوگیا کہ وہ اب ہر طرح کے خطرے سے دور ہیں اب ان دونوں نے اپنا روپ بدلا ان میں سے ایک نہایت خوبصورت دوشیزہ میں بدل گٸ جس کی سبز آنکھیں تھی لمبے بال جو پشت پر پھیلے ہوٸے تھے اور اب دوسرے ناگ کی جگہ اب وہاں ایک خوبرو نوجوان تھا جس کی آنکھیں نیلے رنگ کی تھی وہ اس قدر حسین تھا کہ کسی سلطنت کا شہزادہ لگتا تھا۔۔۔
اور وہ سچ میں شہزادہ اور شہزادی ہی تھے راجکمار یوراج اور راجکماری صنم۔۔
کچھ لمحے خاموشی کے نظر کیے وہ ایک دوسرے کو دیکھنے میں مصروف تھے وہ دونوں اتنے سالوں بعد ایک دوسرے کے سامنے تھے زندہ سلامت کھڑے تھے۔۔
صنم آگۓ بڑھ کر یوی کے سینے سے لگ گٸ اور یوی بھی اسے سینے سے لگاٸے محسوس کررہا تھا ہم آزاد ہوگۓ صنم پورے دو سو سال بعد یوی نے اس کے بالوں پہ پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوٸے کہا۔۔
بگوان کی دیٸے سے ہم اتنے ورشوں بعد دوبارہ مل گۓ ہیں اب ہمیں شادی کر لینی چاٸے یوی صنم اس سے الگ ہوتے ہوٸے بولی۔۔
ہاں صنم ہم ضرور شادی کرٸیں گے پر پہلے ہمیں اپنا اکلوتا ناگ منی لانا ہوگا جو زیر زمین ہے اس کے لیے ہمیں اسی لڑکے کے گھر جانا پڑے گا میں اس لڑکے سے بات کرٶ گا وہ مجھے اچھا انسان لگا یوی نے ساری بات بتاتے ہوٸے کہا
ہممم
صنم ساری بات سننے کے بعد بولی یوی ہمارا ناگ نگر فنا ہوگیا ہم جب قید ہوٸے اس کے بعد نگر۔۔ صنم کہتے ہوٸے رونے لگی ہاں صنم مجھے میری ناگ شکتی سے سب معلوم ہوگیا ہے کہ ایسے بھکم آیا اور ہمارے اپنوں کو فنا کر کے چلا گیا یوی کی آنکھیں بھی نم ہوچکی تھیں۔۔
اچھا صنم مجھے اب جانا ہوگا یوی صنم کو باہوں میں بھرتا ہوا بولا مت جاٶ یوی صنم نے اس کے سینے میں منہ چھپاتے ہوٸے کہا صنم میری جان جانا ضروری ہے نا تاکہ ناگ منی کا پتہ چلا سکوں اور پھر ہی تو ہماری شادی ہوسکے گٸ نا یوی اسے پیار سے سمجھاتے ہوٸے وہاں سے چلا گیا۔۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
علی اور مومنہ بہت خوش تھے جب سے انہیں اولاد کی خوش خبری ملی تھی علی مومنہ کی بہت کیئر کر رہا تھا مومنہ کو زمین پر پاٶں تک نہیں رکھنے دیتا تھا گھر میں سب کام وہ خود کرتا تھا کیوں کے اس کو اپنے اور مومنہ کے علاوہ گھر میں کوئی دوسرا ملازم بھی نہیں چاٸے تو وہ ان دنوں آفس سے چھٹیاں کر رہا تھا یا جاتا تو کچھ ہی گھنٹوں بعد واپس آجاتا تھا۔۔۔
یہ رات کا وقت تھا علی سو چکا تھا مومنہ کو واشروم جانا تھا وہ نیچھے والے واشروم میں جارہی تھی کیوں کے ان کے واشروم میں کسی وجہ سے پانی نہیں آرہا تھا۔۔
مومنہ اپنے کمرے میں جب واپس آنے لگی تو اس کا دل چاہا وہ کچھ دیر باہر گارڈن میں جاٸے وہ گارڈن میں گٸ وہ ابھی مزید آگۓ بڑھتی کہ ایک ساتھ دو ناگوں کو دیکھ کر ڈر کے مارے زور کی چیخ ماری اور بے ہوش ہو کر زمین پہ گر پڑی۔۔
علی کو سوتے میں ایسے لگا کے کوئی چیخا اسی لیے علی نے جب اپنی لفٹ ساٸڈ دیکھا تو اسے شدید قسم کا جھٹکا لگا کیوں کے اس کے برابر میں اس کی جان نہیں تھی تو اس کا مطلب و۔۔وہ چیخ مومنہ کی ہی تھی یہ سوچتے ہوٸے علی نے فورا نیچھے کی دوڑ لگاٸی گارڈن میں پہنچنے پہ اسے مومنہ بے ہوش پڑی ملی علی اسے جلدی سے اٹھا کر کمرے میں لے گیا وہ تو شکر ہے گھاس ہونے کی وجہ سے مومنہ کو کوٸی چوٹ نہیں آٸی تھی علی نے اسے اچھی طرح چیک کیا وہ بالکل ٹھیک تھی علی نے شکر ادا کیا اور مومنہ پہ بلینکٹ ڈال کر خود بھی سو گیا۔۔
صبح جب دونوں ناشتہ کر رہے تھے تب علی نے مومنہ سے پوچھا مومنہ کل رات تمہیں کیا ہوا تھا تمہاری چیخ پہ میں گارڈن میں گیا تو مجھے تم وہاں بےہوش ملی؟
علی و۔۔وہ ادھر دو ناگ دیکھے تھے میں نے ان کو دیکھ کر ڈر گٸ اور بے ہوش ہوگٸ مومنہ نے علی کے پوچھنے پہ رات والا منظر یاد کرتٕے ہوٸے بتایا ارے یار تم نے کوئی خواب دیکھا ہوگا۔۔۔
ہممم شاہد خواب ہی ہوگا مومنہ نٕے علی کی بات پہ یقین کرتے ہوٸے کہا ورنہ ابھی تو ان کا گھر تیار ہوا تھا ایسے میں ناگ کہاں سے آتے۔۔
علی نے مومنہ کے طبیعت کے خاطر ایسے کہہ تو دیا تھا پر اندر سے وہ پھر سے ناگوں کی آمد سے گھبرا گیا تھا کے آخر ان ناگوں کا مقصد کیا ہے اور یہ چاہتے کیا ہیں ایسے بہت سے سوال اس کے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
دیوراج جب پچاس کوس کی دوری پہ بنی غار تک پہنچا اور وہ پھر اندر داخل ہوگیا۔۔
اندر جانے پہ وہ کیا دیکھتا ہے کہ ایک چار پانچ منتھ کا صحت مند بچا جو کے گلابی کمبل میں لپٹا ہوا پڑا ہے۔۔
دیوراج نے بغیر وقت ضائع کیے ہاتھ بڑھا کر وہ بچا اٹھا لیا اور فورا وہاں سے نکل گیا۔۔
ابھی کچھ دیر پہلے ہی دیوراج اور مایا نے بچے کے خون سے اسنان کیا اور اب وہ دونوں شادی بھی کر چکے تھے اب ان کا طلسم بھی ٹوٹ چکا تھا۔۔
مایا خاموشی سے بیٹھی اپنے پتی کا انتظار کر رہی تھی جب اسے دیوراج آتا دیکھاٸی دیا۔۔
ارے میری جانہ ایسے کیوں چُپ چُپ بیٹھی ہو آج تو ہماری سواگ رات ہے نا دیوراج اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوٸے بولا تھا جس پہ مایا نے بھی اسے کے گلے میں باہیں ڈال دی تھیں۔۔۔
کچھ وقت بعد
مایا اور دیوراج اپنے بیڈ روم میں ایک دوسرے سے پیار میں مصروف تھے ان کی شادی کو ایک ماہ ہونا والا تھا۔۔
وہ دونوں مزہ سے پیار بھری باتیں کررہے تھے کہ کمرے میں ایک زور دار دھماکہ ہوا جس سے مایا ڈر کر دیوراج کے سینے سے لگ گٸ اور اسے دھماکے میں ایک پانچ منہواں ناگ نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ناگ اب ایک بہت بڑے اثدھے کی شکل اختیار کرچکا تھا۔۔
اس بڑے ناگ نے گرجدار آواز میں دیوراج کو مخاطب کیا دیوراج تم نے اپنا طلسم ٹورنے کے لیے اس بچے کی بِلی چڑھا دی جس وجہ سے اب شیطان نگو تم سے بہت خوش ہوا وہ چاہتا ہے کے تم اب کسی عورت کا جسم حاصل کرکے اپنی مزید شکتیاں بڑھاو اور اب تمہیں جلد از جلد اپنی شکتیاں زیادہ کرنی ہے کیوں کے شیطان نے تمہیں شیطان ناگوں کا سردار بنانے کا نڑنے لیا ہے اور یہ کہتے ہی وہ ناگ غائب ہوگیا۔۔۔
ناگ کے جاتے ہی دیوراج کے چہرے پہ شیطانی مسکان پھیل گٸ مایا اس کے چہرے پہ مسکراہٹ دیکھ کر پریشانی سے بولی دیوراج تم مجھے اس حالت میں چھوڑ کر کہاں جانا چاہ رہے ہو وہ نگو شیطان تمہیں کہاں جانے کا کہہ رہا تھا؟ تم تو جانتے ہو نا میں ہمارے بچے کی ماں بننے والی ہوں ایسے میں اگر تمہارے پیچھے میرے ساتھ کچھ ہوگیا تو اور اس پنڈت کی بات کے مطابق میں صرف ایک بار ماں بن سکو گی مایا نے اب باقاعدہ رونا شروع کردیا تھا کیوں کے وہ اپنے بچے کو کھونے نہیں چاہتی تھی۔۔۔ ۔۔
میں کہیں نہیں جا رہا پگلی دیو نے اسے گلے لگاتے ہوٸے کہا میں بس اس محل تک جاٶ گا اس نے کھڑکی سے باہر علی کے محل کی طرف اشارہ کرتے ہوٸے کہا اور پھر وہ مایا کو سمجھتا ہوا اسے آرام کرنے تلقين کرتا محل کی جانب بڑھ گیا۔۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
علی آج کتنے دنوں بعد تھوڑی دیر کے لیے آفس جارہا تھا کے اسے سامنے سے آتے انسان جو اس کو اشارہ سے گاڑی روکنے کا کہہ رہا تھا دیکھ کر گاڑی روکنا پڑی اس نوجوان کو آتے دیکھنے لگا جو نیلی آنکھیں میں کوٸی غیر معمولی سحر لیے سفید کرتا شلوار پہنے بڑی ٹھاٹ سے علی کی طرف چلا آرہا تھا اسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا اس کا تعلق بہت اچھے اور بڑے گھرانے سے ہے علی سوچ رہا تھا اسے انسان کو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا اس کو بھلا مجھ سے کیا کام ہوسکتا ہے علی ابھی یہ ہی سوچ رہا تھا کے وہ نوجوان علی کی گاڈی کے پاس آکر رک گیا۔۔
علی جب گاڑی سے باہر آیا تو وہ اسے نمشکار کہتے ہوٸے بولا مسٹر علی مجھے آپ سے ایک بہت ضروری کام ہے آپ پلیز انکار مت کرنا۔۔
علی کو وہ لڑکا دیکھتے ہی اچھا لگا اور وہ اس کا نام تک جانتا تھا لیکن جب علی کو معلوم ہوا کے وہ ہندو ہے تو علی کو اس سے بات کرنے اچھا نہیں لگ رہا تھا پر پھر بھی علی پتہ نہیں کیوں اس کی بات سننے کو تیار ہو گیا۔۔
اب اس نے کہنا شروغ کیا میں ایک ناگ ہو ناگوں کا راجکمار ہوں میرا نام یوراج ہے اس کے ایسے کہنے پہ علی حیرت زدہ اسے دیکھنے لگا لیکن وہ بولتا رہا میرا ناگ منی آپ کے گھر کے گارڈن میں دفن ہے آپ آجازت دیں تو ہم وہاں سے نکال لیں علی کو اس کی کوئی بات بھی سمجھ نہیں آئی تھی اور نہ ہی وہ ان سب باتوں پہ یقین رکھتا تھا یہ ناگ ناگن سب قصہ کہانيوں میں ہوتے ہیں بس۔۔۔
شاید یوراج نے علی کی پریشانی سمجھ لی تھی اسی لیے اس سے بولا علی دوست تمہیں یقین نہیں آرہا نا لیکن میری آخری بات سن لو علی بغیر کچھ کہے جانے لگا تو یوراج اس کے راستہ میں آتے ہوٸے بولا جب میں ناگ بنو گا تو تم ڈرنا بالکل بھی نہیں بلکہ میری آنکھوں میں دیکھنا تمہیں میری ساری کہانی سب کچھ نظر آ جاٸے گا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک سفید رنگ کا ناگ بن گیا علی بےیقینی سی کفیت میں آنکھیں مسل کر دیکھنے لگا جیسے وہ کوٸی خواب دیکھ رہا ہے لیکن جب یوراج کی آواز اسے سناٸی دی جو اب ایک ناگ میں سے آرہی تھی تو اس نے ایسا ہی کیا علی یوراج کی نیلی آنکھوں میں دیکھنا لگا پھر اسے دیوراج اور مایا کی حوس سے لے کر اب تک سب منظر علی کو نظر آگیا پھر یوراج نے اپنے انسانی روپ میں آتے ہوٸے علی کی جانب جواب طلب نظروں سے دیکھا
نہ جانے کیوں علی جب سب دیکھ چکا تو اسے یوراج اور صنم پر بہت ترس آیا کے ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا گیا۔۔۔
علی نے فیصلہ کیا کے ان دو بے قصوروں کی مدد وہ ضرور کرٸے گا اور انہيں ان کی ناگ منی لانے میں مدد کرٸے گا۔۔۔
یوراج میں ان سب باتوں پہ یقین نہیں رکھتا تھا لیکن اب جب کے میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے تو میں تمہاری مدد ضرور کرو گا۔۔
اب میں بالکل شانت ہوگیا ہوں اور مجھے بالکل بھی چنتا نہیں کیوں کہ میں جانتا ہوں جب کوٸی مسلمان مدد کرنے کا وچن دیتا تو پھر وہ اسے ضرور پورا کرتے یے اور اسی لیے میں مسلمان درہم کی بہت عزت کرتا ہوں یوراج نے علی کی بات سن کر خوشی سے کہا۔۔
ہمم ٹھیک ہے یوراج جب تمہیں میری ضرورت پڑے مجھے یاد کر لینا میں تمہاری ہر ممکن مدد کرو گا اور جب میرے گھر سے منی نکالنا ہو تو مجھے پہلے بتا دینا میں اپنی بیوی کو کہیں باہر لے جاٶ گا کیوں کے وہ پہلے ہی تم لوگوں کو رات میں دیکھ کر ڈر گٸ ہے۔۔
شما چاہتا ہوں میں کہ بھابھی جی ہماری وجہ سے بےہوش ہوگٸ تھیں کل رات لیکن ہم نے انہیں کچھ کہا تو نہیں تھا۔۔
ہممم وہ بہت جلدی ڈر جاتی ہے علی نے مسکرا کر کہا۔ ابھی تھوڑے دنوں بعد ہماری ناگ اشتمی ہے اس میں ہم سب ناگوں کو ان کی شکتیاں ملتی ہیں اس رات آپ بھابھی کو باہر لے جانا پھر ہم اپنا ناگ منی نکال لیں گۓ۔۔
ہمم ٹھیک ہے یوراج علی نے اس کا کندھا تھپتپایا۔۔
میں آپ سے سب کے سامنے اسی روپ میں ملو گا کیوں کے یہ میرا انسانی اصل روپ ہے یوراج نے علی کو بتایا
ٹھیک یے یوراج اب میں چلتا۔۔۔۔
جیشیکرشن یوراج نے کہا تو علی نٕے مسکراتے ہوٸے کہا نہیں یوراج ہمارے مذہب میں اللہ حافظ کہتے ہیں۔۔
ہمم اللہ حافظ علی یوراج نے بلا جھجک کہا تو علی مسکراتا ہوا گاڑی میں بیٹھ کر آفس کے لیے نکل گیا۔۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
آج علی کو بہت دیر چکی ہے اور وہ ابھی تک واپس نہیں آٸے اور ان کا موبائل بھی تو بند جا رہا ہے کیا کرو مومنہ یہ ہی سب سوچ رہی تھی کہ گاڑی کا ہارن کی آواز آٸی۔۔
ہمم آگۓ جناب یہ کہتے ہوٸے مومنہ نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے نیچھے دیکھا تو علی اندر آرہا تھا مومنہ اپنے کمرے سے نکل کر نیچھے آگٸ کیوں کے علی آ چکے تھے وہ انہیں لیے جاتی اور پھر وہ اب ڈنر کرنے کے بعد ہٕی انہیں کمرے میں آنا تھا۔۔
جان فورا بیڈ روم میں چلو علی آتے ہی مومنہ کو بازو سے پکڑ کر بیڈ روم کی جانب لے جانے لگا علی پہلے ڈنر تو کر لیتے لیکن علی اس کی بات ان سنی کرتا ہوا کمرے میں لا چکا تھا۔۔
کمرے میں آتے ہی وہ مومنہ کو بیڈ پہ لیٹا کر اس پہ جھکا ہی تھا کے علی کے جسم کو زور دار قسم کا جھٹکا لگا اور وہ مومنہ سے بدک کر پیچھے ہوا علی کو ایسے جھٹکا لگتے دیکھ کر مومنہ بھی ڈر گٸ یہ کیا ہوا علی آپ کو آپ ٹھیک تو ہیں نا مومنہ بیڈ سے اتر کے علی کے قریب آٸی اور اس کی بازو پہ ہاتھ رکھ کر پوچھنے لگی لیکن مومنہ کا ہاتھ جیسے ہی علی کی بازو سے ٹچ ہوا ہی تھا کے علی کو دوبارہ وہ ہی جھٹکا لگا اب کی بار علی کا جھٹکا اس قدر سخت تھا کے علی کی ناک سے خون بہنے لگا۔۔۔
یہ۔۔۔ یہ تم نے گلے میں کیا پہن رکھا ہے علی نے دھاڑ کر مومنہ کے گلے میں پڑے تعویز کی طرف اشارہ کیا۔۔
مومنہ علی کے اس طرح کے بی ہیو پر رونے والی شکل بنا کر کہا یہ تو آیتلکرسی کا تعویز ہے علی۔۔ اتارو اسے علی نے چلا کر کہا اور اپنے ناک سے بہتا خون صاف کرنے لگا۔۔
پر کیوں علی؟ یہ تو آیتلکرسی ہے آپ نے ہی تو دیا تھا پہنے کے لیے مومنہ نے وجہ پوچھی۔؟
میں نے کہا اتارو اسے تمہیں سمجھ نہیں آرہی کیا علی نے مومنہ سے بہت سخت لہجے میں کہا مومنہ علی کا یہ روپ دیکھ کر حیرانی سے اسے دیکھنے لگی کیوں کے علی نے اس کے ساتھ کبھی اس لہجے میں بات نہیں کی تھی اتنے میں مومنہ کو دوبارہ سے گاڑی کا ہارن سناٸی دیا تو وہ سوچنے لگ یہ کون آگیا ہے۔۔
مومنہ اپنا تعویز اتار کر ساٸڈ ٹیبل پہ رکھ چکی تھی لیکن اب علی اسے غصے سے دیکھتا ہوا تن فن کرتا باہر نکل گیا مومنہ اسے آوازیں دیتی رہی لیکن وہ نہیں رکا کچھ ہی دیر بعد علی دوبارہ کمرے میں آیا تو مومنہ کو بیڈ پہ بیٹھے روتا پایا۔۔
مومنہ میری جان کیا ہوا ایسے کیوں رو رہی ہو؟ اور تم مجھے نیچھے رسیو کرنے بھی نہیں آٸی مومنہ کو جب گاڑی کا ہارن سناٸی دیتا تو وہ نیچھے علی کو رسیو کرنے ضرور جایا کرتی تھی آج مومنہ علی کو لینے نہیں آٸی تھی تب ہی علی پوچھنے لگا۔۔؟
یہ سب مومنہ کو بہت عجیب سا لگ رہا تھا ابھی تھوڑی دیر پہلے علی کتنے غصے میں تھے اور ابھی کیسے ریلیکس ہیں مومنہ نے اس کے چہرے پہ نظر ڈال کر کہا جہاں اس وقت مومنہ کے لیے فکر اور پریشانی صاف دیکھاٸی دے رہی تھی مومنہ کو علی کے اس دھوپ چھاٶں سے رویے کی سمجھ نہیں آٸی تھی۔۔
کچھ نہیں ہوا آپ چینج کرلیں پھر ڈنر کرتے ہیں مومنہ تمام باتوں کو ذہن سے جھٹک کر بولی۔۔
ہمم ٹھیک ہے میری جان علی چینج کرنے جانے لگا تو اسے مومنہ کا تعویز ساٸڈ ٹیبل پر پڑا دیکھاٸی دیا تو علی اسے اٹھاتا ہوا مومنہ کا بازو پکڑتے ہوٸے بولا میری جان اس کو مت نکالا کرٶ یہ تمہیں بُری نظر سے بچاٸے گا علی نے وہ تعویز مومنہ کے گلے میں ڈالنے کے بعد واشروم کی جانب چلا گیا مومنہ پھر سے اس سب کے بارے میں سوچتی ہوٸی کچن میں چلی گٸ۔۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
آج ناگ اشتمی تھی یوراج کے بتانے پہ علی مومنہ کو گھومنے پھرانے لے گیا اور رات ہوٹل میں روم بک کروا لیا تاکہ یوراج اپنا کا سکون سے کر سکے
آج ناگ اشتمی رات تھی اور آج کی رات یوراج اور صنم کے لیے بہت اہم رات ہونے والی تھی کیوں کے آج ان کی شکتی ان کی ناگ منی اور مزید شکتیاں ملنی تھی ان کو ملنی تھی صنم یوی دونوں سر توڑ کوشش کر رہے تھے زیر زمین ناگ منی تلاش کرنے کی لیکن وہ ناگ منی بغیر شکتیوں سے تلاش کرنے میں ناکام ہو رہے تھے۔۔
تھوڑی دیر ہی گزری تھی ایک نہایت نورانی چہرے والے بابا جی نمودار ہوٸے جو سفید چغلے میں ملبوس تھے ان کا تعلق قوم جنات سے تھا۔۔ انہوں نے یوراج کو مخاطب کر کے کہا۔۔
اے ناگ ناگن جس سے صنم اور یوراج ان بابا جی کے سامنے احترامن گردن جھکا کر کھڑے ہوگۓ
بے شک تم دونوں مسلمان نہیں ہو پر میں مسلمان ہونے کے ناطے تم دونوں کو ضرور آگاہ کرٶگا۔۔ تمہاری ناگ منی اسی گھر میں ہے لیکن وہ تم دونوں کو نہیں مل سکتی کیوں کے اس جگہ بلکہ اس پورے گھر میں روز قران پاک کی تلاوت ہوتی ہے اس لیے وہ منی پاک کلام کے اثر سے پاک ہو گٸ ہے جیسے کوٸی ہندو ہاتھ تو دور کی بات کبھی ڈھونڈ نہیں سکتا۔۔
مہاراج مجھے پتہ ہے مسلمان بہت اچھے ہوتے ہیں آپ کوٸی اوپاٸے کیجٸے نا ہمیں ہماری ناگ منی کی بہت ضرورت ہے یوراج نے منت بھرے لہجے میں بابا جی کو کہا۔۔
اچھا پھر ایسا کرو اس بچی سے کہوں قران پاک کی تلاوت یہاں کرٸے تو اس کے شوہر کو وہ منی مل جاٸے گٸ ورنہ جب تک وہ بچی ادھر قران پاک کی تلاوت نہیں کرٸے گٸ منی تمہیں کبھی بھی نہیں مل سکتی تم چاہے قیامت تک ڈھونڈتے رہو۔۔۔
یہ سنتے ہی یوراج نے کہا ہمیں شما کردیں مہاراج لیکن بتا دیں آپ کس بچی کی بات کر رہے ہیں وہ ہمیں کہاں ملے گٸ؟
وہ بچی اسی گھر میں ہے بزرگ بتاتے ہی وہاں سے غالب ہوگۓ
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
علی مومنہ کو گھومنے پھرانے کے بعد ہوٹل کے روم میں لے آیا جو اس نے بک کروایا تھا۔۔
وہ دونوں ڈنر کرنے کے دوران باتیں بھی کررہے تھے۔۔
علی نے کہا مومنہ اگر بےبی گرل ہوئی تو اس کا نام میں رھبہ رکھو گا کیوں کے مجھے یہ نام بہت پسند ہے اور اگر بےبی بواٸے ہوا تو میں اس کا نام منان رکھوں گی مومنہ بھی جلدی سے بولی جیسے وہ اگر جلدی سے نہ بولی تو کہیی بےبی بواٸے کا نام بھی علی ہی نہ سوچ لے۔۔
ہاہاہاہاہاہاہا میری جان تم ہی رکھنا علی نے مومنہ کے بیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوٸے قہقہہ لگا کر کہا۔۔
اب وہ دونوں ڈنر سے فارغ ہوچکے تھے
مومنہ یار یہ کب تک آٸے گا آٸے گی اس دنیا میں مجھے اب اور انتظار کرنے بہت مشکل لگ رہا ہے علی نے مومنہ کے پھولے ہوٸے پیٹ پہ ہاتھ پھرتے ہوٸے پوچھا؟
بس دو منتھ اور ہیں مزید اس کے بعد ان شاء اللہ ہمارا بےبی ہماری گود میں ہوگا مومنہ نے علی کے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھرتے ہوٸے کہا۔۔
ہممم ان شاء اللہ علی نے مسکراتے ہوئے مومنہ کا ہاتھ چوم کر کہا
علی مومنہ کو میڈیسن کھلا رہا تھا جب اسے کمرے میں کسی اور کی موجودگی کا احساس ہوا تو وہ فورا باہر نکلا۔۔
وہ یہ سوچ کر باہر آیا تھا کے یوراج نہ آیا ہو لیکن وہاں یوراج نہیں تھا بلکے وہ ایک چھوٹے سے سفید ناگ کو دیکھ کر ڈر گیا کے اس جگہ ناگ کا ہونا خطرناک ہوسکتا ہے کیوں کے اس کے پاس اپنے بچاٶ کے لیے کچھ نہیں ہے ابھی علی مزید کچھ سوچتا کے وہ سفید ناگ یوراج کا روپ دھرن کرچکا تھا۔۔
تم نے تو کہا تھا میں تمہیں انسانی روپ میں ملو گا اس طرح آ کر ڈرا دیا تم نے علی نے کہا۔
میں نے سب کے سامنے کہا تھا ادھر تو کوٸی دوسرا نہیں نا ہمارے علاوہ یوراج نے مسکرا کر کہا۔۔
اچھا چھوڑو یہ بتاٶ کام ہوگیا تمہارا علی نے پوچھا؟
نہیں یار ایک سمسیا ہو گٸ ہے کیا ہوا یوراج؟
یار ایک بزارگ جنات آٸے تھے جب ہم اپنا منی تلاش کر رہے تھے۔۔
انہوں نے کہا جب تک مومنہ بھابھی آپکی پاوتر کتاب کا جاپ وہاں نہیں کرٸے گٸ تب تک ہمیں ہماری ناگ منی نہیں ملے گٸ۔۔
علی پلیز بھابھی سے کہو نا وہ ادھر اپنی کتاب پڑھ دیں یوراج کے کہنے پہ علی سوچ میں پڑ گیا پھر اس نے سوچا کسی کی مدد سے انکار کرنا بھی گناہ کے زمیلے میں آتا ہے یہ سوچ آتے ہی اس نے کہا میں مومنہ کو لے کر آتا ہوں جس پہ یوراج اس کا شکریہ ادا کرتا ہوا چلا گیا
علی مومنہ کو گھر لے گیا اور اسے نہ جانے کیا کہہ کہہ کر گارڈن میں قران پاک پڑھنے کا کہا
مومنہ اپنے شوہر کو کسی بات کا انکار نہیں کرتی تھی اسی لیے علی کے کہنے پہ وہ دونوں گارڈن میں بیٹھ کر قران پاک کی تلاوت کرنے لگے اب تک دونوں نے دس پارے پڑھ لیے تھے تب ہی مومنہ بولی علی میرے پیٹ درد ہونے لگ گیا علی نے مومنہ سے کہا میری جان آپ جاٶ روم میں اور ریسٹ کرو میں بھی آتا ہوں۔۔
مومنہ کے جانے کے بعد علی قران پاک پڑھنے میں مصروف تھا کے تب ہی ایک سفید چغلے میں ملبوس نہایت نورانی چہرہ والے بزارگ نمودار ہوٸے جن کا نورانی چہرہ دیکھ کر علی ان کا نور ہی دیکھتا رہ گیا۔۔
السلام علیکم علی۔۔
و علیکم السلام بابا جی علی نے ادب سے کہا انہوں نے علی سے کہا بیٹا تم نے ایک غیر مذہب کی مدد کرکے بہت اچھا کام کیا ہے بلکے وہ تو انسان بھی نہیں وہ ایک ناگ ہے۔۔
لیکن مومنہ بیٹی نے جو تلاوت کی اس سے اب ان ناگوں کو ان کا موتی مل جاٸے گا اللہ کی کلام کا بہت اثر ہے بیٹا اور آپ کو شاید پتہ نہیں اللہ پاک نے آپ دونوں میاں بیوی کی نیک سعادت سے نوازنے کا فیصلہ کیا ہے کسی کو داٸرہ السلام میں لانا بہت بڑی بات ہوتی ہے علی بیٹا بابا جی نے مسکرا کر کہا۔۔
کیا مطلب بابا جی میں سمجھا نہیں ؟؟
بیٹا وہ دونوں ناگ ناگن جب اپنا موتی حاصل کر گۓ تو ان کو دعوت السلام دینا بلاشبہ وہ دونوں ناگ ناگن غلط ہرگز نہیں ہیں وہ ہندو ہیں تو اس میں ان کا قصور نہیں وہ دین السلام کا بہت احترام کرتے ہیں وہ دونوں السلام قبول کرنے میں دیر نہ کرٸیں گۓ اور اللہ نے آپ کے ہاتھوں ان کو دعوت السلام تک لانا تھا
علی نے ان شاء اللہ کہا تو وہ بابا دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہوگۓ اور علی پھر سے قران پاک پڑھنے لگا کچھ دیر بعد علی کمرے میں گیا مومنہ جاگ رہی تھی وہ اسے آرام کرنے کی تلقين کرتا کسی کام کا کہہ کر گھر سے چلا گیا۔۔
تھوڑی دیر ہی گزری تھی کے مومنہ کو کمرے میں کسی اور کی موجودگی کا احساس ہوا تو اس نے مڑ کر دیکھا سامنے ہی علی کو کرسی پر بیٹھا پایا۔۔
علی آپ گۓ نہیں آپ تو کہہ رہے تھا کام سے جانا ہے؟ مومنہ نے علی سے پوچھا؟
میری جان مجھے تم سے پیار کرنا کو بہت دل کرر تھا اس لیے واپس آگیا کام تو پھر ہوتے رہتے ہیں پر تم تو میرے قریب نہیں آتی مومنہ کو حیرت ہو رہی تھی کیوں کے کل رات تو ان دونوں کی پیار میں گزری تھی اور دوسری بات جب علی کو اس کے قربت کی ضرورت ہوتی تو علی نے کبھی ایسے اسے کہا نہیں تھا بلکہ وہ خود اس کے قریب آجاتا تھا
لیکن پھر بھی مومنہ علی کی بات سن کر گلابی ہوگٸ تھی۔۔
وہ اپنے شوہر کو ناراض نہیں کرتی تھی تب ہی بیڈ پہ لیٹ گٸ جس دیکھ کر علی اس کے قریب آرہا تھا۔۔۔
علی نے جیسے ہی مومنہ کو ہاتھ لگایا تو علی کو شدید جھٹکا لگا وہ دور جا گرا اس کے ناک سے خون بہنے لگا۔۔
پھر وہاں نورانی چہرے والے بزارگ نمودار ہوٸے انہوں نے دیوراج کو غصے سے دیکھا جو علی کے روپ میں زمین پر گرا ہوا تھا۔۔
بزارگ نے کہا اے ناگ تجھے اب سبق سکھانے ہی پڑے گا یہ کہتے ہوٸے انہوں نے اسے دور سے ہی گلے سے پکڑ کر ہوا میں کھڑا کر دیا اب وہ اپنے اصلی روپ میں آچکا تھا۔۔
دیو درد سے ٹڑپ رہا تھا اور اپنے گلے سے کسی کے ہاتھ ہٹا رہا تھا جو نظر نہیں آرہے تھے۔۔
تُو اس پاک بی بی کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا یہ اس کے گلے میں پڑا تعویز اس کی حفاظت کر رہا تھا سمھجا تُو بزرگ نے شولے برساتی آنکھوں سے دیو کو دیکھا۔۔
بیٹی مومنہ آپ ہمیشہ اپنے آپ کو قرانی آیات کے حصار میں رکھا کریں یہ کہتے ہوٸے بابا اور وہ دیو دونوں غائب ہوگۓ۔ مومنہ یہ سب دیکھ کر ڈر کے مارے بے ہوش ہو کر بیڈ پہ گر گٸ
علی جب گھر واپس آیا تو مومنہ کو بیڈ پہ سویا ہوا پایا تو وہ اس کے پاس بیڈ پہ بیٹھ کر اس کے بالوں میں ہاتھ چلانے لگا۔۔
اٹھ جاو میری جان کتنا سونا ہے فجر نہیں ادا کرنی مومنہ پیار بھرے لمس کو محسوس کرتی اٹھ کر بیٹھ گٸ۔۔۔
اسے رات والا منظر فورا یاد آ گیا تو وہ گھبراتی ہوٸی علی کو تمام تر واقعات بتانے لگی ساری بات بتانے کے بعد اس نے ان نورانی چہرے والے بزارگ کا بھی بتایا کے انہوں نے اسے آیات کے حصار میں رہنے کا کہا ہے۔۔
علی یہ سب کیا ہورہا ہے علی بھی پریشان ہوچکا تھا وہ جب سے اس گھر میں شفٹ ہوٸے تھے تب سے ہی کچھ نہ کچھ ہورہا تھا پر وہ مومنہ پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا کہ وہ مزید پریشان ہو گی۔۔۔
اچھا میری جان تو آیات کے خسارے میں رہا کرو کوٸی بُری چیز تمہارے قریب بھی نہیں آسکے گٸ علی اسے پیار سے سمجھتا ہوا اپنا ساتھ لگا چکا ان سب باتوں کو ذہن سے نکال دو اور چلو نماز ادا کر لیں وہ دونوں نماز کے لیے اٹھ گۓ۔۔۔۔