ایک دو دن ہوٹل میں مومنہ کے ساتھ گزار کر اب وہ اسے گھر ڈراپ کر کے آفس جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔
وہ خاموشی سے گاڑی ڈراٸو کررہا تھا تو مومنہ بولی علی آپ نے مجھے برتھ ڈے گفٹ نہیں دیا اس بار مومنہ کو یاد آیا تو وہ علی سے پوچھے بن نے رہ سکی کیوں کے علی اسے ہر برتھ ڈے پہ گفٹ ضرور دیا کرتا تھا۔۔۔۔
ہاں یار کچھ حالات نہیں ہیں ٹھیک جو رقم تھی میرے پاس وہ پارٹی پہ لگ گٸ اب تمہارے گفٹ کے لیے بچی نہیں دراصل میرے ایک دو کونٹریکٹ پھسے ہوٸے ہیں وہ ہوجاٸیں تو پھر تمہیں گفٹ دو گا۔۔
کوٸی بات نہیں علی آپ ہمیشہ تو دیتے ہیں اس بار نہ ہوا تو کچھ نہیں ہوگا اگر آپ کے حالات نہیں تھے تو پارٹی بھی مت دیتے نا مومنہ نے احساس سے کہا۔۔
نہیں یار اس کا کوٸی مسلہ نہیں تھا علی نے مسکراتے ہوٸے اس کی پیشانی پہ کس کرتے ہوٸے کہا تو مومنہ مسکرا کر گاڑی سے اتر گٸ کیوں کے گھر آچکا تھا۔۔۔
وہ پورا دن آفس میں بہت مصروف رہا تھا اب اسے جب کچھ فرصت ملی تو کچھ یاد آنے پہ اس نے موبائل اٹھا کر ایک کال ملاٸی۔۔
کال رسیو ہونے پہ دعا السلام کا دور چلا اسے کے بعد علی نے کہا جی تو کرامت بابا میرے محل کا کام کہاں تک پہنچا ہے۔۔
صاحب جی کام تو زبردست چل رہا ہے پر ایک چھوٹا سا مسلہ ہے۔۔
کیا مسلہ ہے علی نے اپنے پرانے ملازم سے کرامت بابا سے پوچھا ؟؟
وہ اک مستری کام کا بہت ہرج کرتا ہے صاحب کرامت نے کہا
کیوں کیا مسلہ ہوا کرامت بابا جو وہ ہرج کرتا ہے کام کا پوری بات بتائيں نا؟
صاحب جی مستری اللہ دین نماز کے بعد ایک گھنٹے تک قران پاک کی تلاوت کرتا ہے جس وجہ سے کام کا کافی ہرج ہوتا ہے۔ آپ کہیں تو میں اس کو نکال دو اور اس کی جگہ کسی دوسرے کو رکھ لو۔۔
قرامت بابا خدا کا خوف کریں کل ہم نے اللہ پاک کو بھی منہ دیکھنا ہے اسے مستری کو کوئی تنگ نہ کرٸے وہ جب اللہ کی عبادت سے فارغ ہوگا تب ہی کام کرٸے گا اور ویسے بھی کوٸی وہ ایک مستری تو ہے نہیں جو کام رک جاٸے گا آپ سمجھ رہیں ہیں نا میری بات علی نے حکم دیا
ٹھیک ہے صاحب جی جیسا آپ کہیں۔۔۔
اچھا ایسا کریں کہ شہر سے مزید مزدور منگوا لیں تاکہ کام جلدی ہوسکے پہلے ہی ایک ماہ گزر چکا ہے۔۔ آپ مزدور منگوا لیں میں ٹھیکدار سے بات کرتا ہوں مزید بیس دنوں تک مجھے کام مکمل چاٸے ہے علی اسے سمجھاتا ہوا کال رکھ چکا تھا۔۔۔
اس علاقے سے کچھ ٹاٸم پہلے علی اپنے دوستوں کے ساتھ گزر رہا تھا تو علی کو وہ جگہ بہت پسند آٸی۔۔
جنوبی ساٸڈ پہ سفید پانی کی بہتی ندی تھی جو مشکل سے بہہ رہی تھی کیوں کے اس کے سامنے ریت اور پتھر ہونے سے اس کے پانی کے چھوٹے چھوٹے بند ٹوٹ رہے تھے۔
علی نے سوچ لیا تھا وہ یہ جگہ خرید کر ادھر گھر بناٸے گا اس کے دوستوں کو بھی جگہ پسند آٸی تو وہ سارا علاقہ ان سات دوستوں نے خرید لیا اب علی ندی کے پاس والی جگہ علی لے چکا تھا۔۔۔
اب ان سب نے اس علاقے کی صفائی کرواٸی تمام مٹی ریت ہٹاٸی گٸ تو رکی ہوٸی ندی اُبل کر بہنے لگی مزید کچھ مہینوں بعد وہاں درخت اور مختلف کام ہونے سے علاقہ نکھر گیا۔۔
اس کے بعد علی نے اپنأ محل تعمير کروانا شروع کیا آج محل بنتے ہوٸے ایک ماہ اور دس دن ہو چکے تھے علی نے رات دن مزدور لگوا کر محل جلد از جلد بنوایا تھا کیوں کے وہ اپنی اینورسری پر یہ محل اپنی بیگم کو گفٹ دینا چاہتا تھا وہ پہلے ہی اسے اس کی برتھ ڈے پہ ان سب اخراجات کی وجہ سے کچھ نہیں دے سکا تھا۔۔۔
دس دنوں تک محل نے بالکل تیار ہوجانا تھا اور پھر علی کا ارادہ مستقل ادھر ہی رہنے کا تھا۔۔۔
آج دس فروری تھی اور آج اس کے محل کا آخری کام باقی تھا اور پھر کل گھر کی صفائی سجاوٹ اور فرنیچر سیٹ کروانا تھا۔
علی کل کے لیے ہی منصوبہ بنا رہا تھا کے اس کا موبائل رنگ کرنے لگا علی نے کال پک کی تو کرامت بابا کی تھی۔۔
جی کرامت بابا کیا بات ہے؟
صاحب جی غضب ہو گیا ہے علی نے جب دوسری طرف سے بات سنی تو کہا واٹ میں ابھی آتا ہوں کسی مزدور کو جانے مت دینا وہ موبائل پہ ہی ہدایت دیتا اپنا موبائل پاکٹ میں ڈال کر فورا باہر نکل گیا۔۔
علی رش ڈراٸونگ کر کے جلدی سے محل پہنچا تو اس نے دیکھا سب مزدور ایک طرف ڈرے سہمے بیٹھے ہیں۔۔
کرامت بابا آگۓ بڑھ کر علی کو بتانے لگے۔۔
صاحب جی آج بھی حسب مامول کام ہو رہا تھا کے اللہ دین نے آج محل کے گاڈرن میں نماز پڑھی نماز کے بعد قران پاک کی تلاوت کرنا لگا سورہ بقرہ ختم ہوئی ہی تھی کے ساتھ ہی زور کا دھماکا ہوا اور گاڈرن سے دو ناگ نکلے۔۔
ایک کالے رنگ کا ناگ تھا اور دوسرا برٶن رنگ کا ناگ مزدور ان کو مارنے کے لیے کوئی چیز لانے گۓ جب واپس آٸے تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔۔
تب سے تمام مزدور ڈر گۓ ہیں۔۔۔
ہممم علی نے ساری بات سن کر کہا وہ دھماکے کی آواز کیسی تھی آپ نے پتا لگوا کے کدھر سے آواز آٸی تھی؟
صاحب جی آواز گاڈرن میں سے ہی آئی تھی جہاں سے وہ ناگ نکلے تھے وہاں پر بڑا سا گڑا بن چکا ہے۔۔۔
کرامت بابا جب علی کو گڑے کے پاس لے کر گۓ تو علی نے بھی گڑا دیکھا۔۔۔
ہممم یہاں شاید ناگوں کی بل تھی اب وہ جاچکے ہیں اور ویسے بھی ناگوں کا کوٸی ایک ٹھکانہ تو ہوتا نہیں ہے آپ لوگ یہ گڑا بھر دیں ناگ اب جا چکے ہیں آپ لوگ اطمينان سے کام کرٸیں ویسے بھی آج کام کا آخری دن ہے علی کے کہنے پہ مزدور دوبارہ کام شروع کرچکے تھے۔۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
ندی کے کنارے اچانک دو ناگ نمودار ہوٸے دونوں ناگ ہی ہل جل نہیں رہے تھے وہ وہاں کتنی ہی دیر بےحس و حرکت پڑے رہے
رات کے قریب دو بجے کا وقت تھا جب ان ناگوں میں حرکت ہوئی اور دونوں رینگتے ہوٸے ایک دوسرے کے قریب آ رہے تھے۔۔
جب دونوں ناگ قریب پہنچ کر ایک دوسرے کے ساتھ ٹچ ہوٸے ہی تھے کہ دونوں ناگوں کو زور دار جھٹکا لگا اور وہ دونوں پھر سے ساکت ہوٸے
آآآآآآآ جاجاجا آآآآآآآ جاجاجا
زندگی میں تجھی پہ لٹاٶگٸ میں تو مر کے بھی تجھ کو چاہوں گٸ۔۔
آآآآآآآجاجاجا آآآآآآآ جاجاجا
یہ تو ہے دلبر محبوب کا وعدہ توڑے سے نہ ٹوٹے۔۔
یہ تو ہے جانم دلدار کا دامن چھوڑے سے نہ چھوٹے۔۔۔
چاہتیں کہہ رہی ہر گھڑی پیار کی ہر قسم سے بڑی ہے قسم پیار کی۔۔
پیار کا یہ وعدہ میں نبإہوں گٸ۔۔
آآآآآآآ جاجاجا آآآآآآآ جاجاجا
زندگی میں تجھی پہ لٹاٶگٸ میں تو مر کے بھی تجھ کو چاہوں گٸ
نہ زمین ہوگٸ نہ تُو گھگن ہوگا بدلے گا ہر موسم۔۔
ان ہواٸیوں میں مہکی فضاٸیوں میں شامل رہیں گۓ ہم۔۔
اس جہاں سے کبھی عشق ڈرتا نہیں جانتے ہیں سب ہی عشق مرتا نہیں ہر جنم میں میں تجھ کو چاہو گا
آآآآآآآ جاجاجا آآآآآآآ جاجاجا
زندگی میں تجھی پہ لٹاٶگٸ میں تو مر کے بھی تجھ کو چاہوں گٸ۔۔۔
ندی کے کنارے رات کے اس پہر ایک خوبصورت لڑکی اپنی ساڑھی کا پلو لہرا لہرا کر اپنے محبوب کو پکار رہی تھی نہ جانے اس کا محبوب اس کے اس خوبصورت گیٹ کو سن بھی پا رہا تھا کے نہیں۔
تھوڑی دیر بعد پھر سے دونوں ناگوں میں جنش ہوئی لیکن اب وہاں ان دو ناگوں کی جگہ ایک لڑکا لڑکی نمودار ہوٸے جو کے اور کوٸی نہیں مایا اور دیوراج ہی تھے۔۔
دیوراج اور مایا دونوں صددیوں کے بیمار لگ رہے تھے کیوں کے دو سو سال تک وہ زمین کی تہ میں ناگ روپ میں رہے تھے وہ اتنے عرصے بعد ایک دوسرے کو دیکھ کر بہت خوش ہو رہے تھے۔۔
مایا دیوراج نے جب ایک دوسرے کو دیکھا تو انہيں یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ دونوں پھر سے ایک دوسرے کو مل گۓ ہیں وہ یقين نہیں کر پا رہے تھے کے انہيں پھر سے نیٸ زندگی مل گٸ ہے۔۔
مایا بھاگ کر دیوراج کی طرف بڑھنے لگی تو دیوراج نے اسے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوٸے کہا وہاں ہی رک جاٶ مایا ہم ایک دوسرے کو چھو نہیں سکتے تمہیں یاد نہیں ہمیں قید کرنے سے پہلے سردار نے ہم پہ طلسم پھونکا تھا۔۔
وہ سب تو ٹھیک ہے دیو مجھے سب یاد بھی آ گیا لیکن ایک بات کی سمجھ نہیں آئی مجھے ہمیں تو سردار نے زندگی بھر کے لیے زمین کے نیچے قید کیا تھا پھر ہم اب آزاد کیسے ہوگۓ۔۔
مایا ابھی میرے پاس وقت نہیں ہے تم رات دو بجے ندی کے کنارے ملنا تب تک میں یہ سب کا پتہ لگواتا ہوں دیو اسے کہتا ہوا وہاں سے ناگ بن کر چلا گیا۔۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
آج محل میں پینٹ کے بعد صفائی ہو چکی تھی اب علی نے اپنی نگرانی میں فرنيچر سیٹ کروا اور پھر سارے محل کو ڈیکوریٹ کیا گیا سب کام ہو جانے پہ علی گھر کے لیے نکل گیا
کل تیرہ فروری تھی علی کا ارادہ تھا کے کل محل میں قران خانی کروانے کے بعد مستقل طور پہ ادھر شفٹ ہوجاٸے۔۔
آج محل میں قران خانی تھی علی نے پچاس بار قران ختم کرنے کا کہا تھا کچھ لڑکے کھلی فضا میں بیٹھنا چاہتے تھے اس لیے علی نے کرامت بابا سے کہہ کر گارڈن میں کارپٹ بچھواٸی اور ان کے بیٹھنے کا انتظام کیا۔۔
محل میں قران خانی ہو رہی تھی جب پچاس تک قران پاک مکمل ہونے میں ایک پارہ رہ گیا تو گاڈرن میں پھر سے دھماکا ہوا۔۔
دیکھتے ہی دیکھتے دو ناگ اس گڑے میں سے نمودار ہوٸے جو کے نہایت ہی خوبصورت ناگ تھے ایک ناگ جو مکمل سفید تھا سفید رنگ پہ اس ناگ کی نیلی آنکھیں ناگ کو بہت خوبصورت بنارہی تھی اور دوسرا ناگ مکمل سرخ رنگ کا تھا جس کی آنکھیں سبز رنگ کی تھی وہ ناگ بھی بہت خوبصورت تھا ان دونوں کے سروں پر ایسے نشان تھے جیسے وہ ناگوں کے سردار ہوں۔۔۔
دھماکہ ہونے اور ناگوں کے نکلنے سے وہاں کھلبلی سی مچ گٸ تھی کچھ لوگ بھاگ کر ڈنڈے وغیرہ لینے چلے گۓ کے ان ناگوں کو مارا جاٸے لیکن ناگ کچھ ہی دیر میں وہاں سے غائب ہوچکے تھے۔۔
لوگ ان دونوں صورتحال کو دیکھ کر وہاں سے ڈر کر جاچکے تھے کچھ پراثرار گھر تو کوٸی بھوت پریت کا سوچ کر جاچکا تھا۔۔
اب علی کے گھر میں کچھ ہی لوگ رہ گۓ تھے وہ بھی صرف علی کی کمپنی کے لوگ تھے علی نے رہتا قران پاک مکمل کروایا اور کھانا غریبوں میں تقسیم کر دیا کیوں کے مہمان تو ڈر کے بھاگ چکے تھے۔۔۔۔
آج چودہ فروری تھی علی نے مومنہ کو رات کو ہی پیکنگ کرنے کا کہہ دیا تھا جو مومنہ نے کر بھی لی تھی۔۔
دن کے کوئی تین چار بجے کا ٹائم تھا علی نے مومنہ سے کہا مومنہ پیکنگ ہوگی۔۔
جی علی پیکنگ ہوگی ہے۔۔
ہمم تو ایسا کرو گھر کی ضروری چیزوں کو لاک کردو کیوں کے اب سے گھر نوکرروں کے سُپرد کر کے جانا ہے پھر اس کو رینٹ پر لگا دیں گۓ اب سے ہم نٸے گھر میں رہیں گۓ مستقل طور پہ ہممم ٹھیک ہے میں دیکھ لیتی ہوں آپ بیگز وغيرہ گاڑی میں رکھوٸیں میں آتی ہوں
تھوڑی دیر بعد
علی نے گاڑی کو اسٹارٹ کیی اور دونوں اپنی منزل کی جانب نکل گۓ۔۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
رات کے اس پہر جب سب لوگ اپنے بستروں میں دھبکے بیٹھے تھے تب ندی کے کنارے ایک لڑکی آ کر رکی لڑکی نے سرخ رنگ کی ساڑھی زیب تن کر رکھی تھی اور اس اندھیری رات میں وہ سرخ رنگ کی ساڑھی پہنے رات کی رانی ہی معلوم ہوتی تھی۔۔۔
تھوڑی دیر ہی گزری تھی اس نے گانا شروع کر دیا۔۔
آآآآآآآ جاجاجا آآآآآآآ جاجاجا
زندگی میں تجھی پہ لٹاٶگٸ میں تو مر کے بھی تجھ کو چاہوں گٸ۔۔
آآآآآآآجاجاجا آآآآآآآ جاجاجا
یہ تو ہے دلبر محبوب کا وعدہ توڑے سے نہ ٹوٹے۔۔
یہ تو ہے جانم دلدار کا دامن چھوڑے سے نہ چھوٹے۔۔۔
چاہتیں کہہ رہی ہر گھڑی پیار کی ہر قسم سے بڑی ہے قسم پیار کی۔۔
پیار کا یہ وعدہ میں نبإہوں گٸ۔۔
آآآآآآآ جاجاجا آآآآآآآ جاجاجا
زندگی میں تجھی پہ لٹاٶگٸ میں تو مر کے بھی تجھ کو چاہوں گٸ
نہ زمین ہوگٸ نہ تُو گھگن ہوگا بدلے گا ہر موسم۔۔
ان ہواٸیوں میں مہکی فضاٸیوں میں شامل رہیں گۓ ہم۔۔
اس جہاں سے کبھی عشق ڈرتا نہیں جانتے ہیں سب ہی عشق مرتا نہیں ہر جنم میں میں تجھ کو چاہو گا
آآآآآآآ جاجاجا آآآآآآآ جاجاجا
زندگی میں تجھی پہ لٹاٶگٸ میں تو مر کے بھی تجھ کو چاہوں گٸ۔۔۔
یہ ناگوں کا کوٸی خاص گیت تھا جو وہ اپنے محبوب کو بلانے کے لیے گاتی تھیں
کچھ ہی دیر میں شاید اس کے محبوب نے اس کی پکار سن لی تھی تب ہی اب وہ فروری کی اس ٹھنڈی رات میں ندی کے ٹھنڈے پانی میں پاوں ڈالے اپنے محبوب کا انتظار کرنے لگی۔۔
کچھ ہی دیر گزری تھی کے ایک کالے رنگ کا ناگ رینگتا ہوا آیا اور اس لڑکی کے کچھ فاصلے پر رک گیا دیکھتے ہی دیکھتے وہ نوجوان کا روپ دھرن کر چکا تھا۔۔
دیوراج۔۔ دیو تم آگے مجھے یقین تھا تم میری پکار پر ضرور آٶ گۓ مایا نے مسکرا کر اسے کہا
ہاں مایا تم اپنے دیو کو پکارو تو ایسا کیسا ہو سکتا ہے کے میں نہیں آٶ دیو نے بھی مسکرا کر کہا
دیو کچھ پتہ چلا سردار اور قبیلے والے کدھر گۓ میں نگر گئ تھی لیکن ادھر کوئی بھی نہیں ملا نہ ہمارے گھر ہیں نہ ہی کچھ اور وہ سب کدھر گۓ؟؟ دیو مایا نے پریشانی سے کہا
ہاں مایا جب ہم کو قید کیا گیا اس کے کچھ عرصے بعد نگر میں شدید بھکم آیا اور اس میں سب غرق ہوگۓ سب کے سب مر گۓ۔۔
ہمارے گھر گر گۓ ہمارے ماتا پتا بہن بھائی سب چلے گۓ ہمیں چھوڑ کر مایا اور دیوراج کی آنکھیں اشک بار ہورہی تھی۔ دونوں اپنے لوگوں کے لیے رو رہے تھے۔۔
تب ہی مایا نے کہا یوراج اور صنم کدھر ہیں دیو وہ بھی ہماری وجہ سے قید ہو گۓ تھے وہ کدھر گے ہیں۔۔
دیو اگر ہمارے سب لوگ مرگے تو ہم دو سو سال بعد کیوں آزاد ہوٸے ہمیں بھی مر جانا چاٸے نا۔۔۔۔؟؟
دیوراج نے کہا مایا اس وقت ہم زمین میں تھے اور تب ہمارا طلسم نہیں ٹوٹا تھا۔۔
اب کیسے ٹوٹا ہے مایا نے آنسو صرف کرتے ہوٸے کہا۔۔
وہ ایسے کے جس جگہ ہم قید تھے ادھر ایک شخص اپنا محل بنوا رہا ہے اور وہ مسلمان ہے اس کے گھر میں چالیس دن لگا تار ان کا قران پاک پڑھا جاتا رہا اس وجہ سے ٢١ دن ہمارا طلسم ٹوٹ گیا اور ہم آزاد ہوگۓ دیو نے تمام حقيقت مایا کو سناٸی
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
علی اور مومنہ جب گھر کے قریب اترے تو مومنہ نے دیکھتے ہی کہا علی کتنا پیارا گھر ہے یہ علی یہ گھر کس کا ہے ؟؟
میری جان کا۔۔
علی پلیز مزاق نہیں کرٸے سچ بتائيں نا
نہیں میری جان قسم لے لو یہ تمہارا گھر اسے میں نے پیچھلے ڈیر ماہ میں میری اینورسری گفٹ کے لیے بنوایا ہے۔۔۔
اووو علی تھنکس یو مومنہ نے پیار سے کہا
ارںے میری جان تھنکس کیسا۔۔۔
اوکے نو تھنکس علی میں اپنا تھنکس واپس لیتی ہوں۔۔
ہممم اچھا چلو نا اندر تو مومنہ نے سارا محل گھوم کر دیکھا محل کے اسے جنوبی طرف ندی والا منظر بہت پسند آیا تھا
علی نے مومنہ سے کام کے دوران ہونے والے واقعات اور قران خانی والے دن کی کوئی بات شیٸر نہیں کی اس نے سوچا مومنہ ایسے ہی پریشان ہوجاٸے گی۔۔
آج چودہ فروری کی رات تھی اور آج علی کے محل میں بہت بڑی پارٹی کا اہتمام کیا گیا تھا ویسے بھی علی ہر وہ دن جو اس کی اور مومنہ کی زندگی کا سپیشل دن ہوتا علی اس کو بہت اچھے سے سیلیبریٹ کرتا
پارٹی اپنے اہتتام کو تھی سب نے کھانا کھایا اور رخصت لی مومنہ اور علی بھی اپنے روم میں چلے گۓ۔۔
مومنہ نے کہا اف آج تو بہت تھک گئ ہوں وہ کہتے ہوٸے بیڈ پہ سونے کے لیے لیٹ گئ۔۔
صبح مومنہ نماز کے ٹائم اٹھی نماز ادا کرنے کے بعد اس نے قران پاک کی تلاوت کی اور دوبارہ نیند آنے پھر سے سو گٸ کیوں کے آج سنڈے تھا اور علی نے لیٹ اٹھنا تھا۔۔۔
علی کی آنکھ صبح کے ساڈھے دس بجے کھلی تو اس نے مومنہ کو سوتے ہوٸے پایا علی واشروم میں فرش ہونے چلا گیا جب واپس آیا تب بھی مومنہ سو رہی تھی علی نے اسے جگانا مناسب نہیں سمجھا اور اٹھ کر ناشتہ بنانے کچن میں چلا گیا۔۔
ناشتہ بنا کر وہ بیڈ روم میں آیا وہ مومنہ کے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوٸے بولا اٹھ جاٶ میری جان آج کتنا سونا ہے۔۔
مومنہ علی کو تیار دیکھ کر اٹھ کر بیٹھ گٸ علی پہلے کیوں نہیں جگایا اتنا سوتی رہی مومنہ نے گھڑی میں وقت دیکھ کر کہا۔۔
میری شہزادی کو کیوں ڈسٹرب کرتا اب اٹھ تو گٸ ہو ہممم اچھا آپ چلایں میں آپ کے لیے ناشتہ بنا دیتی ہوں مومنہ نے اپنے بال سمیٹتے ہوٸے کہا۔۔
نہیں ناشتہ بنا چکا ہے میری شہزادی تم صرف فریش ہو کر جلدی نیچھے آٶ علی باہر نکل گیا۔۔
ناشتہ کرتے وقت مومنہ کو وامٹنگ آنے لگی تو مومنہ بھاگ کر واش بیسن کی طرف گٸ اور چکر آنے پہ زمین پہ گرنے لگی لیکن علی نے بھاگ کر مومنہ کو بچا لیا مومنہ بے ہوش ہو چکی تھی علی اسے یوں اچانک بے ہوش دیکھ گھبرا گیا اور فورا اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا
لیڈی ڈاکٹر نے مومنہ کا چیک آپ کیا اور علی کو مبارک دی ہو مسٹر علی شی از ایکسپیکٹنگ
جسے سن کر علی اور مومنہ بہت خوش ہوٸے ضروری ہدایات اور دواٸیں لی
لیڈی ڈاکٹر علینہ نے جب ان کو اولاد کی خوشخبری سناٸی تو علی نے اپنی جیب سے دس ہزار نکالے اور مومنہ کے سر سے وارتے ہوٸے ڈاکٹر کو دینے چاہے لیکن ڈاکٹر علینہ نے ان کو منع کرتے ہوٸے کہا یہ آپ کسی مستحق کو دیں ان کو اس کی زیادہ ضرورت ہوگی پھر علی نے ہوسپیٹل میٹھاٸی تقسيم کی اور مومنہ کو لے کر گھر آگیا۔۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
مایا ہم اب یہ طلسم کیسے ختم کرٸے جو ہمارے جسموں پر ہوا ہے اس کے رہتے ہم کبھی ایک دوسرے کو چھو نہیں پاٸے گۓ۔
دیو تم کسی پنڈت یا کسی شنکا سے اس کا اوپاٸے پوچھو نا مایا نے تجویز پیش کی۔۔
ہاں تم ٹھیک کہتی ہو میں صبح ہی جاٶ گا ان کی تلاش میں پر اس سے پہلے مجھ کسی عورت کا جسم حاصل کرنا ہوگا تب مجھے میری ناگ شکتی واپس ملے گٸ اب تو میرے پاس صرف نگ روپ اور اپنا انسان روپ ہے جسم حاصل کرنا کے بعد مجھ میں انگنت شکتیاں آجاٸیں گی پر تمہیں یہ عورت ملے گٸ کہاں مایا نے پوچھا؟
اس کا انتظام ہو چکا ہے جس نے محل بنوایا اس کی بیوی ہے اسی سے میں اپنا مطلب پورا کرٶ گا ہممم
اچھا ٹھیک ہے مایا میں اب چلتا ہوں۔۔۔
ہلدی رنگ کی دھوتی پہنے ادنگا وجود لیے وہ الٹی بلٹی مارے ماتا رانی کے سامنے مندر میں بیٹھا ہوا تھا ماتھے پہ تلک لاٸے وہ مسلسل اونچی آواز میں پڑھتے ہوٸے تھالی پھیر کر پوجا کر رہا تھا۔۔
ادھر کالے رنگ کا ناگ رینگتا ہوا مندر کی طرف ہی جارہا تھا۔۔
ناگ مندر کی سیڑیوں سٕے ہوتا ہوا مندر میں جاتا اس سے پہلے پنڈت نے اپنی پوجا ختم کی اور آتے ہوٸے ناگ کو دیکھ کر روعب دار آواز میں بولا اے شیش ناگ کس کارن آیا یے تو یہ سنتے ہی ناگ نے روپ بدلے اور ایک نوجوان کے روپ میں آتے ہوٸے پنڈت کے سامنے جھک کر کہا نمشکار مہارج میں ایک کارن سے آیا ہوں۔۔۔
ارے مورکھ مجھے مت بتا میں نے تیرا من پڑھ لیا ہے تو بتا میں تیری کیا مدد کر سکتا ہوں؟ مہارج آپ کیول اتنا بتا دیں کے میں اور میری پریمکا اس طلسم کو اپنے شریر سے کیسے نشت کرٸے؟ دیوراج نے اپنی سمسیا بتاٸی
تھوڑی دیر بعد پنڈت آنکھیں کھولتا ہوا بولا۔۔
ایک اوپاٸے ہے جس سے تیرا شریر سے یہ سحر ٹوٹ جاٸے گا پر انتو ایک سمسیا یے پنڈت نے انگلی اٹھا کر اسے کہا۔۔
کیا سمسیا ہے مہارج؟
تجھے اک جن زادی کا بچا لانا ہوگا جس کے خون سے تو اور تیری پریمکا اسنان(نہانا) کرنا ہوگا اور پھر طلسم ٹوٹ جاٸے گا پر پہلے تو اور تیری پریمکا شادی رچاٶ پھر اسنان کرنا پر مہارج اس میں سمسیا کیا ہے دیو نے حیرانی سے پوچھا۔؟
مورکھ ہے تُو سمسیا یہ ہے کے اس خون سے اسنان کرنے کے بعد تجھے صرف ایک ہی بچا ہو گا اس کے بعد تجھے اور تیری پریمکا کو کوئی اولاد نہیں ہوگی۔۔
مجھے منظور ہے مہارج دیو نے فورا کہا۔۔
ہاں سن اب جا یہاں سے 50کوس کی دور پہ ایک غار ہوگی اور اس میں تجھے وہ جن زاد بچا مل جاٸے گا جا چلا جا اب پنڈت کے کہنے پہ دیو فورا وہاں سے چلا گیا