’’میں بکواس نہیں کر رہی۔ میں تمہیں پسند نہیں کرتی۔ میں تمہارے ساتھ شادی نہیں کرنا چاہتی۔ مجھے واقعی طلاق چاہئے۔ اگر میرے بات نہیں مانو گے تو میں اس حویلی سے بھاگ جائوں گی۔‘‘ وہ نفع و نقصان کی تمیز کئے بغیر صرف اور صرف اسے سنا رہی تھی۔ بغیر ڈگمگائے یا لڑکھڑائے۔ وہ اس کی اس جرأت پر اسے دیکھتا رہ گیا۔
’’جس لڑکے کے ساتھ مجھے ہوٹل میں بیٹھے دیکھا تھا نا .......وہ میرا کلاس فیلو ہے عالی! ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ میں اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
سالک کو لگا اس کے کانوں میں کسی نے سیسہ انڈیل دیا ہو۔ بے غیرتی کی انتہا تھی یا برداشت کی کہ سب سن کر بھی وہ اپنے اٹھے ہاتھ کو پہلو میں گرا گیا تھا۔
’’دفع ہو جائو میرے کمرے سے۔ پلیزگیٹ لاسٹ ۔‘‘ وہ حلق کے بل چیخا تھا وہ پر سکون کھڑی رہی۔ وہ ضبط کرتے کرتے نڈھال ہونے لگا۔
’’پلیز اسوہ جائو یہاں سے۔ پلیز جائو۔ میں تمہاری کوئی بات نہیں مان سکتا۔ اگر میں نے ایسا کیا تو وہ ہو گا کہ میں اپنے آپ کو ختم کر لوں۔‘‘
’’تمہارے مر جانے سے مجھے کیا فائدہ ہو گا۔‘‘ وہ ظالم تھی یا احساس سے عاری وجود۔ سالک دیکھے گیا۔
’’اسے دھمکی نہ سمجھنا ۔ تم نے اگر مجھے طلاق نہ دی تو میں چلی جائوں گی۔ کہیں بھی۔ مگر تمہاری خلوت گاہ کی زینت بن کے تمہاری کسی انتقامی حس کی تسکین کا باعث نہیںبنوں گی۔ تم مجھے زبردستی اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے۔‘‘ نفرت و حقارت سے کہہ کر اسے دیکھتے وہ کمرے سے نکل گئی تھی۔ سالک بیڈ پر گر گیا۔
’’سالک یہ سب کیا ہو رہا ہے؟‘‘ بی بی جان بہت پریشان سی تھیں۔ وہ مسکرایا۔ صرف خالی خولی ہنسی تھی بھرم کھوتی ہوئی۔ اب شاید ساری عمر یہی ہنسی رہنی تھی۔
’’اسوہ مر جائے گی۔ تم اگر اس کی حالت دیکھو تو پریشان ہو جائو۔ پانچ دن سے وہ کمرے میں بند ہے۔ نہ کسی سے بولتی ہے، اور نہ کسی سے بات کرتی ہے۔ اب تو روتی بھی نہیں ۔‘‘ بی بی جان رونے لگی تھیں۔
’’بی بی ! وہ کہتی ہے اسے طلاق چاہئے ۔ وہ شادی کرنا چاہتی ہے اسی لڑکے سے، جس سے وہ محبت کرتی ہے۔‘‘ وہ سر جھکائے بتا گیا۔ بی بی جان نے سینے پر ہاتھ رکھ لیا۔
’’آپ نے کہا تھا نا بی بی جان ، وہ سدھر جائے گی مگر وہ نہیں سدھری میری زندگی کو اپنے نام کا روگ لگا گئی ہے۔ میں کسی سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میں تو بس اسے کھونا نہیں چاہتا تھا۔ چچا جان سے فوراً رخصتی کی بات کی تھی کیا علم تھا کہ وہ مجھ سے حقیقت اگلوا لیں گے۔ بی بی جان! اب سب روکنا نا ممکن ہے۔ یہ چچا جان کی ضد بن گئی ہے۔‘‘
’’اُس کا کوئی حل بھی ہے؟‘‘ کتنے خاموش پل سرک گئے تھے۔ تب بی بی جان نے لب کشائی کی تھی۔
’’ہاں ہے، اگر اسوہ تھوڑی دیر انتظار کرلے۔ میں اسے طلاق دے دوں گا اگر وہ مان جائے ورنہ چچا جان اسے مار دیں گے مگر شادی ملتوی نہیں کریں گے بعد میں وہ صرف میرے ذمے داری ہو گی۔ میں معاملہ ہینڈل کر لوں گا۔‘‘ وہ سوچ سوچ کر کہہ رہا تھا۔ بی بی جان پھُوٹ پھُوٹ کر رونے لگیں۔ وہ خاموشی سے کمرے سے نکل گیا۔ پھر سب کچھ بہت آناً فاناً ہوا تھا۔ بی بی جان نے بڑی مشکلوں سے اسوہ کو راضی کیا تھا۔ منتوں سے ، خوشامد سے، مان سے ، دھمکی سے، محبت سے ، آخر کار وہ ہار ہی گئی تھی۔ رخصتی پر آمادہ ہو ہی گئی تھی۔ صرف اس وعدے پر کہ پھر وہ جو چاہے گی وہی کرے گی۔کسی کی کوئی بات نہیں مانے گی۔ اور بی بی جان نے اس کی بات مان لی تھی۔ سالک کو بھی سمجھائی رہی تھیں ور اب اسے بھلا کیا چاہ رہی تھی زندگی سے اسوہ سے۔
وہ حجلہ عروسی میں پہنچا تو وہ سر تک چادر تانے سو چکی تھی یا سونے کا مظاہرہ کر رہی تھی وہ جان نہیں سکا۔ وہ اس لڑکی کو کبھی بھی نہیں سمجھ سکا تھا۔ دل تو اپنا بھی خالی ہو چکا تھا۔ وہ دل جہاں اس کی محبت سے ہر سو روشن روشن تھا اب وہاں ویرانے ڈیرہ جما کر بیٹھے تھے۔ کوئی حسرت ، کوئی خواب ، کوئی خواہش نہیں تھی ۔ اس کی غیرت ، مردانہ انا بری طرح پامال کی گئی تھی۔ اگر بی بی کا احساس نہ ہوتا تو وہ واقعی اسے اب تک اپنی زندگی سے علیحدہ کر چکا ہوتا۔ وہ سب کچھ یوں کرنا چاہتا تھا کہ اس لڑکی کو معاشرہ رد نہ کرے۔ ایک نظر اسوہ کے سوئے ہوئے وجود پر ڈال کر وہ باتھ روم میں گھس گیا تھا۔
X X X
میں سالک انیس الزمان ہوں۔ اسوہ قمرالزمان کا شوہر۔‘‘ وہ اس خوبرو ڈیسنٹ سے خوبرو نوجوان کے ساتھ کھڑا تھا۔
’’اوہ......آپ اسوہ کے شوہر ہیں۔ رئیلی بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔ بیٹھیں......میں عالی ہوں ، وہ آ کیوں نہیں رہی......میرے پاس اس کا کوئی کنٹیکٹ نمبر نہیں تھا ورنہ اب تک ضرور آ چکا ہوتا آپ کے گائوں ۔‘‘
وہ باتونی تھا۔ سالک کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ یونیورسٹی آیا تھا لوگوں سے پوچھتے وہ بمشکل اس تک پہنچا تھا۔
’’اس کی شادی ہو گئی تھی اس لئے نہ آ سکی۔‘‘ اس نے بتایا مگر عالی کے روّیے پر الجھ گیا۔
’’اوہ ، رئیلی بہت مبارک ہو۔ ویسے بڑی بے مروت ہے آپ کی مسز ، ڈونٹ مائنڈ کیونکہ اس نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ کسی کو بلائے نہ بلائے اپنی شادی میں مجھے اور کہکشان کو ضرور بلائے گی۔ بڑا بھائی بھائی کہتی تھی جا کر بھول ہی گئی کہ یہاں کوئی بھائی بھی ہے جو اس کی فکر میں دبلا پتلا ہو رہا ہے۔‘‘ اس کے الفاظ سالک کو حیران کئے دے رہے تھے۔ اس کے اپنے شکوک علیحدہ اس کا منہ چڑا رہے تھے۔ اور اسوہ، نے جو کہا تھا ، وہ ساکت سا دیکھے گیا۔ (کیا وہ سب جھوٹ تھا)
’’ویسے آپ کو اس نے سفارش کے لئے بھیجا ہو گیا۔ مگر جا کر بتا دیجئے گا ، مادام کو کہ میں اور کہکشاں اسے اس بے ایمانی پر بلکہ بے وفائی پر کبھی معاف نہیں کریں گے۔‘‘ وہ کہہ رہا تھا سالک اپنی ہی نظروں میں گرتا جا رہا تھا۔
’’بڑی انسیت ہے آپ دونوں میں۔ اسوہ بہت ذکر کرتی ہے آپ کا ۔‘‘ کچھ تو کہنا تھا اسے۔ اب کیسے بتاتا اسے کن حوالوں سے یاد کرتی ہے......لہجے میں کتنی نفرت ہوتی ہے۔
’’جی ہاں.......اعلیٰ قسم کی محبت ہے ہم میں۔ ساری یونیورسٹی والے جلتے تھے ہم دونوں سے۔ دراصل اسوہ کا کوئی بھائی نہیں اور میرے کوئی بہن نہیں۔ ایک تھی اس کا نام بھی اسوہ تھا مگر بچپن میںہی انتقال کر گئی ، مجھے بڑی حسرت تھی کسی بہن کی۔ اسوہ کو دیکھا تو یوں لگا مجھے اسوہ میری بہن مل گئی ہے۔ میں نے ہی دوستی کے لئے ہاتھ بڑھایا تھا ورنہ اس نے کبھی یونیورسٹی میں کسی لڑکے سے بات تک نہیں کی۔ سب لڑکے جلتے تھے میری اور اس کی دوستی سے۔ بلکہ بعض لوگ تو اسے غلط نظروں سے بھی دیکھتے تھے مگر ہمارے دلوں میں کوئی کھوٹ نہیں یہ ہم جانتے ہیں یا ہمارا اللہ ۔‘‘ وہ اور بھی نجانے کیا کیا کہہ رہا تھا۔
’’اسوہ تو مجھے بالکل سگی بہن کی طرح عزیز ہے۔ اس کی شادی میں نہ آ سکا اور اس بے وفا نے بھی نہیں بلایا، ساری عمر ناراض رہوں گا میں اس سے ۔‘‘
سالک چونکا۔ احساس زیاں تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔
’’یہ کیا کر دیا میں نے......‘‘ کچھ وقت اس کے ساتھ گزارنے کے بعد وہ جب لوٹا تو ایک پچھتاوہ اس کے ساتھ تھا۔ وہ تو آج اسوہ کی خاطر اس عالی سے ملنے آیا تھا اس لئے کہ وہ دونوں کے درمیان سے نکلنا چاہتا تھا ۔ بڑی خاموشی کے ساتھ مگر اس سے پہلے وہ دونوں طرف کے راستے صاف کرنا چاہتا تھا۔ لیکن قسمت......اس کی چھٹیاں ختم ہونے والی تھیں وہ واپس جا رہا تھا ۔ پچھلے دنوں گھر میں جو خرابی پڑی رہی تھی اس کی بدولت اب اس کا یوں جانا سب کو ہی غمزدہ کر رہا تھا۔ اسوہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا نہ ہی اس کے یہاں رہنے سے اور نہ ہی کہیں چلے جانے سے۔ وہ بس اپنا نام اس کے نام سے علیحدہ کرنا چاہتی تھی۔ اس کی صرف ایک ہی خواہش تھی کہ وہ اسے طلاق دے دے۔ اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے طنز پر طنز کرتے استہزاء اڑاتے اس نے نہ صرف خود کو اذیت میں مبتلا کر رکھا تھا بلکہ ساری حویلی والے سخت پریشان تھے۔ اسکی طلاق والی ضد بی بی جان اور سالک کے درمیان سے نکل کر باقی سب کے درمیان بھی موضوع گفتگو بن گئی تھی۔ اسوہ کو پروا نہیں تھی کہ کوئی اس کے متعلق کیا کہتا ہے۔ بس اسے صرف ایک ہی دکھ مارے جا رہا تھا کہ سب نے اس کے کردارپر شک کیا تھا بغیر اسے کوئی صفائی کا موقع دئیے اسے قربان گاہ کی طرف دھکیل دیا گیا تھا۔
وہ ڈھلتی سہ پہر کے قریب حویلی کے وسیع لان میں بائیں طرف صوفہ نما پتھرسے بنے بنچ پر ٹانگیں اوپر کئے کتنی دیر سے بیٹھی تھی ۔ سرد یوں کی یہ دھوپ جسم کو بہت بھلی لگ رہی تھی۔ دنیا و ما فیہا سے بے خبر اپنے اندر اٹھنے والوں طوفان سے نبرد آزما تھی جو ہر وقت اسے یہی اکساتا رہتا تھا کہ وہ یہاں سے کہیں بھاگ جائے کسی ایسے کونے میں جا چھپے جہاں کوئی انسان نہ ہو، کوئی غلط نظر نہ ہو، سالک نہ ہو۔
سالک اپنے کمرے کی کھڑکی سے نیچے اسے صحن میں بینچ پر بیٹھے کتنی دیر سے دیکھ رہا تھا ۔لمبے بال اردگرد بکھرے ہوئے تھے۔ فیروزی سادہ سے کاٹن کے سوٹ میں چہرے پر حزن و ملال کی کیفیت لئے وہ عجب سوگوار سی کیفیت میں بیٹھی ہوئی تھی ۔ وہ چپل اڑس کر کمرے سے نکل آیا۔ لان میں آیا تو وہ ابھی وہیں تھی۔ آنکھیں بند کئے اردگرد سے بیگانہ ۔ جب سے عالی سے ملاقات ہوئی تھی اپنا آپ عجیب مجرم سا لگنے لگا تھا۔ کتنی دفعہ اس سے بات کرنا چاہی تھی مگر وہ کوئی موقع ہی نہیں دیتی تھی۔
’’اسوہ......‘‘ وہ اس کے پاس آ کھڑا ہوا تھا۔ اسوہ نے اس پکار پر آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔ بینچ کی پشت سے کمر ٹکا کر وہ سیدھی ہو گئی۔ بغیر ہونٹوں کو حرکت دیئے وہ اسے دیکھنے لگی۔
’’ایم سوری ......‘‘ وہ حیران ہوئی ، وہ کس لئے معافی چاہ رہا تھا ۔ مگر خاموشی ہنوز برقرار تھی۔
’’میں کچھ دن پہلے عالی سے ملا تھا۔ ‘‘ وہ سر جھکائے کہہ رہا تھا ۔ وہ ساری بات سمجھ گئی، ایک تلخ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آ ٹھہری۔ تو اب کیا صفائی پیش کرنے آیا ہے۔
’’تو پھر......‘‘ سالک نے اسے دیکھا۔ اس کے تاثرات ناقابل سمجھ تھے۔
’’میں نے تمہیں اور اسے غلط سمجھا ۔ عالی سے مجھے علم ہوا کہ وہ تمہیں صرف ایک بہن سمجھتا تھا۔‘‘
’’تو عالی کو بھی سارا قصہ سنا دیا ہو گیا۔‘‘ وہ اندر ہی اندر تلخ ہو گئی۔
’’نہیں ۔ جھوٹ......‘‘
’’کیا بکواس ہے یہ عالی نے کہا اور آپ سالک صاحب آپ نے یقین کر لیا۔ حیرت ہے۔‘‘
غلطی کے احساس سے اگرچہ وہ شرمندہ سا تھا مگر وہ کس قدر مطمئن تھا وہ ایک نظر میں ہی سمجھ گئی تھی ۔ اس کی ساری زندگی کی نیک نامی ، اس کی تعلیم دائو پر لگ گئی تھی ، جب وہ آگ کے دہکتے انگاروں پر جھلس رہی تھی تو پھر وہ اسے کیوں مطمئن ہونے دیتی۔ اس کے چہرے کے یہ اطمینان اور معافی کے الفاظ اس کے اندر کی تلملاہٹ کو مزید دو آتشہ کر گئے تھے۔
’’عالی نے جھوٹ بولا، آپ نے سچ مان لیا۔ کیوں ......مجھ سے زیادہ لوگوں پر اعتبار ہے۔ حیرت ہے ، اور یہ عالی بھی کتنا جھوٹا ہے، جینے مرنے کے وعدے ایک ساتھ کر کے اب وعدہ خلافی کر رہا ہے۔ حیرت ہے۔ شاید دنیا کے سارے مرد ایک جیسے ہوتے ہیں۔‘‘ وہ پاگلوں کی طرح ہنستے ایک دفعہ پھر سالک انیس الزمان کو اذیت میں مبتلا کر گئی تھی۔ وہ ایک دفعہ پھر بے یقینی و بے اعتمادی کی لپیٹ میں آنے لگا تھا۔
’’اسوہ، وہ تم سے اس انداز سے محبت نہیں کرتا......تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔‘‘
اس نے ایک اور کوشش کی ۔ شاید خود کو بہلانا چاہ رہا تھا۔
’’ہرگز نہیں مجھے غلط فہمی نہیں ہوئی ، آپ کون ہوتے ہیںمیرے معاملے میں ، اتنی تفتیش کرنے والے اچھا......عالی سے کنفرم کرنے گئے ہوں گے۔ اب میں سمجھی ۔ اور عالی کتنا بزدل نکلا ہے، کتنا جھوٹا اور مکار، محبت کو تماشا بنا دیا ہے اس نے ۔ جب میں نہیں ڈری تو کیوں ڈر رہا ہے۔ پاگل .......آپ کو دیکھ کر جھوٹ بول گیا ہو گا۔ ہیں نا۔‘‘ وہ یوں ظاہر کرہی تھی جیسے اس خبر نے اسے بہت شاک زدہ کر دیا ہے۔ وہ پاگلوں کی طرح الٹا سیدھا کہتی جا رہی تھی۔ اس وقت اس کی آنکھوں سے آنسو بھی بہہ رہے تھے۔ سالک عجب شش و پنج میں پڑ گیا۔
’’عالی ......میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔ کم از کم میرا بھرم تو رہنے دیتے ۔‘‘ وہ ہاتھوں میں چہرہ چھپائے پہلے سے زیادہ شدت سے رو رہی تھی۔ سالک کے لئے اس صورتحال کو سمجھنا مشکل ہی نہیں نا ممکن تھا۔ اس کے الفاظ ، عالی کے لئے اس کا یوں تڑپ تڑپ کر رونا.....وہ سب دیکھ رہا تھا۔ دل ایک دفعہ پھر بے یقینیوں کی زد میں آتا جا رہا تھا۔
’’ہو سکتا ہے، مجھے دیکھ کر عالی نے واقعی جھوٹ بولا ہو۔ ورنہ اسوہ یوں پاگل نہ بنتی ۔‘‘ اس کا یوں رونا اسے پھر سوچوں کے بھنور میں دھکیل گیا تھا۔
’’کیوں گئے تھے آپ اس کے پاس ......کیوں گئے تھے؟ میری طرف سے آپ لوگوں کی عزت و ناموس کو خطرہ تھا اب میں آپ لوگو ں کی قید میں ہوں تو کیا تماشہ بنوانے لگے تھے مجھے.......میرا رہا سہا بھرم بھی توڑ دیا ہے۔‘‘ اب وہ الفاظ سوچ سمجھ کر ادا نہیں کر رہی تھی۔ وہ واقعی اس وقت جنونیت میں مبتلا ہو رہی تھی۔ جو جی میں آ رہا تھا ،کہہ رہی تھی ۔ اذیت تھی کہ کوئی حدنہیں تھی۔
’’میں کرتی ہوں محبت اس سے ......ساری عمر کروں گی.......اس نے مجھے دھتکار دیا ہے پھر بھی ....... میرا بھرم کھو دیا ہے پھر بھی .......جو کرنا ہے آپ لوگوں کو کر لیں ۔ مجھے پروا نہیں ۔ مگر مجھے نہ آپ سے غرض ہے نہ ہی کسی اور سے۔ نفرت کرتی ہوں میں آپ سے ، سنا آپ نے ۔‘‘ وہ چیخ چیخ کر کہتی اندر بھاگ گئی تھی ۔ وہ وہیں کھڑا رہا ۔ سالک کو اپنی ٹانگیں بے جان سی محسوس ہو رہی تھیں۔ ایک دفعہ پھر اسوہ اسے بے موت مار گئی تھی۔
وہ جا رہا تھا مگر جانے سے پہلے کوئی فیصلہ کرنا چاہتا تھا۔ اسوہ اب کچھ نہیں کہتی تھی ۔ جب سے اس نے اسے عالی سے ملاقات کے متعلق با خبر کیا تھا، وہ بالکل چپ ہو گئی تھی۔اب اس کی طرف سے نہ ہی کوئی طنز سننا پڑتا تھا اور نہ ہی کوئی استہزائیہ جملہ ۔ وہ خاموش ہو گئی ، یوں بالکل چپ چاپ ، ویران سی۔ بہت چاہنے کے باوجود وہ اپنے دل سے اسے نکال نہیں پا رہا تھا ۔ وہ کسی اور کی بے وفائی کا سوگ منا رہی تھی مگر سالک کو ہر لمحہ کوئلوں پر گھسیٹ لاتی تھی۔ ایک طرف وہ اس سے نفرت محسوس کرتا تھا مگر دوسری طرف اس کی محبت شدت اختیار کرتی جا رہی تھی۔ اس نے جانے سے پہلے ایک فیصلہ کیا تھا۔ کسی کو اعتراض نہیں تھا، مگر اپنے اندر اسوہ سے بات کرنے کی ہمت نہیں پاتا تھا۔ اس نے چاہا تھا کہ اس کی عدم موجودگی میں اسوہ پھر سے اپنا تعلیمی سلسلہ شروع کر دے۔
اگلے دن اس کی فلائٹ تھی جانے سے پہلے وہ اس سے بات ضرور کرنا چاہتا تھا۔ وہ کمرے میں آیا تو وہ بیڈ کی کرائون سے ٹیک لگائے دیوار پر موجود پینٹنگ پر نظریں جمائے کسی غیر مرئی نقطے کو گھور رہی تھی۔ اس کو دیکھ لینے کے باوجود اپنا شغل جاری رکھا تھا۔
’’اسوہ .......‘‘ وہ بستر پر اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھا تو اس نے اپنے اعتبار کے قاتل کو دیکھا۔
’’صبح میری فلائٹ ہے۔ میں نے تمہاری یونیورسٹی بات کر لی ہے۔ ایک ماہ کی چھٹیاں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتیں ۔ تم یونیورسٹی چلی جانا۔ اپنی تعلیم کا سلسلہ شروع کرو۔‘‘
’’نہیں ......مجھے نہیں پڑھنا.......‘ ‘ ایک دم انکار کر دیا تھا اس نے۔ سالک چپ سا ہو گیا۔ کتنے لمحے خاموش سرک گئے وہ اس سے مزید بات کرنے کے لئے ہمت مجتمع کرنے لگا۔
’’آپ مجھے کب طلاق دیں گے۔ اگر آپ یہ سوچ کر خوش ہو رہے ہیں کہ عالی سے دھوکہ کھا کر میں یونہی آپ کے ساتھ ساری زندگی گزار دوں گی تو یہ آپ کی بھول ہے۔ اگر مجھے میرا گوہر مقصود نہیں ملا تو میں یہ سمجھوتہ بھی نہیں کروں گی۔ مجھے ہر حال میں طلاق چاہئے۔‘‘ کتنی نفرت تھی اس کی آنکھوں میں۔ سالک اس کے لہجے میں الجھ گیا ۔ جو کسی بھی لچک سے پاک تھا ۔ سخت واٹل ۔ وہ مزید کچھ کہے بستر سے اٹھ گیا۔
اسوہ کے لئے اس کا یہ انداز نا قابل برداشت تھا۔ وہ جا رہا تھا اور جانے کب آتا ۔ جانے سے پہلے وہ بھی ایک فیصلہ چاہتی تھی ، ساری عمر اذیت میں نہیں گزار سکتی تھی۔ اس نے عالی کے نام کا جو داغ خود پر لگوا لیا تھا اب وہ کبھی نہیں اترنا تھا۔ ساری عمر کی سزا تھی ، مگر سالک مطمئن رہے یہ اسے گوارا نہیں تھا اس کی ذات پر کیچڑ اچھالنے کا سبب بھی یہی شخص بنا تھا وہ کیسے فراموش کر دیتی۔ کیسے معاف کر دیتی کیسے پر سکون رہنے دیتی؟
’’ٹھیک ہے۔ میں وہاں جا کر تمہیں کاغذات بھیج دوں گا ۔ بس یا کچھ اور ......‘‘ وارڈ روب کا دروازہ کھول کر اپنا سامان نکالتے اس نے سنجیدہ سے لہجے میں کہا تو اسوہ چونک گئی۔ اتنی جلدی وہ مان گیا تھا۔ اتنی جلدی ......اسے یقین نہیں آ رہا تھا ۔ شاید نفرت بہت گہری تھی۔
’’نہیں......‘‘ پھنسی پھنسی آواز سے وہ صرف یہی کہہ سکی۔ سالک نے اسے صرف ایک نظر دیکھا، ’’پہلے میں نے سوچا تھا کہ کچھ عرصہ اس معاملے کو رہنے دوں گا، حالات سازگار نہیں ، چچا جان اور چچی جان کبھی نہیں مانیں گے ۔ مگر خیر ......تمہیں بہت جلدی ہے تو میں جاتے ہی سب سے پہلے یہی کام کر دوں گا۔‘‘
’’نہیں .......مجھے کوئی جلدی نہیں ، آپ جب چاہیں فیصلہ کر دیں۔‘‘ نہ جانے کیسے اسوہ کے لبوں سے پھسلا تھا ۔ سالک نے حیران نظروں سے اسے دیکھا تو وہ خود نظریں چرا گئی ۔ کہاں وہ جلد ہی فیصلہ ہونے کے لئے بے تاب تھی اب وہ مانا تھا تو وہ رعایت دے رہی تھی ۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔
’’پہلے میرے سامنے عالی تھا۔ اب کوئی بھی نہیں۔ مگر یہ طے ہے، مجھے آپ کے ساتھ زندگی نہیں گزارنی۔ آپ مان گئے ہیں ، جب بھی امی جان اور بابا جانی مانے میں اطلاع کر دوں گی۔ آپ کو اپنے وعدے کی پاسداری کرنا ہو گی۔‘‘ کتنا دو ٹوک انداز تھا۔ سالک کی مکمل نفی کرتا ہوا۔ اس نے مزید کچھ نہیں کہا تھا صرف سر ہلا تھا۔
اس کے بعد ایک خاموشی تھی اور یہ خاموشی آٹھ سالوں پر محیط ہو گئی تھی۔ وہ پہلے نیو یارک پہنچا تو دل پڑھائی میں نہ لگا ، آخری سال تھا مگر وہ بمشکل وہاں دو ماہ ہی گزار پایا تھا۔ کامران کو کسی فلیٹ کی تلاش تھی۔ اسے اپنا فلیٹ دے کر وہ وہاں سے واشنگٹن نکل گیا تھا۔ پاکستان سے اپنے ساتھ اچھی خاصی رقم لایا تھا۔ نجانے کہاں کہاں گھومتا رہا، رقم ختم ہوئی تو غم روزگار نے آ لیا۔ مختلف چھوٹی موٹی جابز کرتا رہا پھر اس دوران اس کی ملاقات ایک لزا نامی لڑکی سے ہوئی ۔ وہ تو پہلے ہی چوٹ کھایا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ وقت گزارنے لگا۔ وہ کسی میوزیکل گروپ میں ڈانسر تھی ۔ اس کو اپنے گروپ کے ساتھ انگلینڈ شو کرنے جاتا تھا اسے بھی اپنے ساتھ لے گئی۔ وہ اس سے بہت شدت سے محبت کرتی تھی مگر باوجود کوشش کے سالک اپنے دل سے اسوہ کو نہیں نکال پایا تھا۔ محض دوستی کا رشتہ نبھاتا رہا ، کئی بار اس نے شادی کا کہا مگر وہ ہر بار ٹال گیا ۔ لزا اپنے گروپ کے ساتھ ملکوں ملکوں گھومتی تھی ۔ اسے بھی اپنے ساتھ گھسیٹنا چاہتی تھی مگر وہ کسی گمنام گوشے میں چپ چاپ زندگی گزار دینا چاہتا تھا۔ آخر کار اس کی طرف سے ہار کر وہ ہمیشہ کے لئے اس کی طرف سے قطع تعلق کر گئی ۔ کچھ سال انگلینڈ میں رہا۔ اس دوران مختلف کورسز کرتا رہا۔ ادھوری تعلیم مکمل کی اور پھر اسے جرمنی کی ایک کمپنی میں بہت اچھی پوسٹ پر جاب کی آفر ہوئی تو وہ جرمنی چلا گیا ۔ اپنی زندگی میں وہ آہستہ آہستہ مطمئن ہونے لگا تھا کہ ایک دن کامران کا فون آ گیا کہ کئی سالوں بعد ایک دفعہ پھر اس کی حویلی سے اس کے نام ایک خط آیا ہے، خط لکھنے والی اسوہ ہے، وہ سخت حیران ہوا۔ ایک عرصے سے اس کی تلاش کی کوششیں سرد پڑ چکی تھیں۔ شروع شروع میں جب اس نے نیو یارک چھوڑا تھا تو کامران اس کی وجہ سے سخت پریشان ہوا تھا۔ چچا جانی جیسے اسے زمین کی تہہ سے نکالنے کے درپے تھے۔ دو دفعہ خود آئے تھے امریکہ مگر ہر دفعہ ناکام لوٹ گئے اور اب اسوہ کا خط......پھر وہ نیو یارک پہنچ گیا تھا۔ خط پڑھتے ہی وہ سخت اذیت میں مبتلا ہو گیا مگر یہ طے تھا کہ اسے واپس لوٹنا ہے اور اب اگر وہ لوٹا تھا تو اسوہ کا یہ انکشاف کہ نہ وہ عالی سے محبت کرتی تھی اور نہ ہی اسے کسی اور کی تلاش تھی ۔ ایک دفعہ پھر اس کو پچھتاوے کی گہری دلدل میں دھکیل گیا تھا۔ وہ ہمیشہ اسوہ کو غلط سمجھتا رہا تھا ۔ وہ بہت گہری لڑکی واقع ہوئی تھی ۔ کہتی کچھ تھی کرتی کچھ تھی۔ اب اس کا روّیہ روپ ......وہ ایک دفعہ پھر الجھ گیا تھا۔