اسے نہیں علم کہ اسوہ کبھی بیمار بھی ہوئی ہو، پہلی دفعہ اسے بخار نے آ لیا تھا سب ہی پریشان متفکر تھے۔ اور بی بی جان نے جو وجہ بتائی تھی وہ بھی نظر انداز کی جانے والی نہ تھی۔
’’سو رہی ہے اسوہ۔‘‘ اس کی پلکیں لرز رہی تھیں مگر آنکھیں وا کرنے کی کوشش نہیں کی تھی اسی لئے اس نے چچی جان سے پوچھا تھا۔
’’شاید .....تھوڑی دیر پہلے تو جاگ رہی تھی۔‘‘چچی خوا مخواہ شرمندہ ہوئیں۔
’’کوئی بات نہیں ، مجھے دیر ہو رہی ہے۔ میں چلتا ہوں، میری طرف سے ضرور پوچھئے گا۔‘‘ وہ اپنی رواداری اور شائستگی کی بدولت سارے خاندان میں سراہا جاتا تھا اب بھلا کیوں نہ کرتا۔ چچی جان نے سر ہلایا تھا۔
وہ باہر نکلا تو چچی جان بھی اسے گاڑی تک چھوڑنے باہر تک آئیں۔ باقی لوگوں سے وہ مل چکا تھا۔ اس کے کمرے سے نکلنے کے بعد اسوہ نے آنکھیں کھول لی تھیں۔ آنسو قطار در قطار رخساروں پر بہتے چلے گئے تھے۔ دل کی عجیب سی حالت ہو رہی تھی۔ ہر بات اپنے اختیار سے باہر محسوس ہو رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ چند دن پہلے تک زندگی بہت حسین تھی۔ اب اچانک ہی ساری رونق ، ساری خوشیاں کہیں کھو گئی ہیں۔ زندگی سے ایک دم جی اچاٹ سا ہونے لگا تھا۔
وہ ہوسٹل میں تھا جب بی بی جان کا فون آیا تھا۔ ’’تمہارے با با جانی کی طبیعت سخت خراب ہے، جلدی آنے کی کوشش کرو۔‘‘ چاچا جان کی اطلاع نے اس کے اعصاب پر بم پھوڑا تھا۔ اب بار بار چھٹیاں لینا بھی مشکل تھا مگر وہ مجبور تھا۔ جیسے تیسے کر کے چھٹیاں لے کر وہ حویلی پہنچا تو وہاں ایک کہرام برپا تھا۔ اس کے آنے سے پہلے ہی بابا جانی اسے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
بی بی جان پر ایک سکتہ سا طاری ہو گیا تھا۔ ساری حویلی جیسے طوفان کی زد میں آ گئی تھی۔ اپنے ہاتھوں سے اس نے بابا جانی کو لحد میں اتارا تھا۔ پھر کتنے دن اسی خاموشی میں گزر گئے۔ چچی جان کی بڑی بیٹی منتہیٰ جو پھوپو کے گھر بیاہی گئی تھی۔ وہ بھی یہیں تھی۔ اسوہ چچا جانی ، چچی جان سب ہی غمزدہ تھے اور وہ تھا کہ خود تنہا سے تنہا ہوتا جا رہا تھا۔ ہر لمحہ یونہی لگتا تھا کہ جیسے اس کا سب سے قیمتی سرمایہ کہیں کھو گیاہو۔
اسے چائے کی طلب تھی سراج بابا کو کہہ کر وہ صوفے پر آ بیٹھا تھا۔ ابھی اسے بیٹھے چند پل ہی گزرے ہوں گے جب اسوہ بھی ادھر آ گئی تھی۔ نہ جانے کیا بات تھی چہرہ آنسوئوں سے تر تھا۔ وہ ادھر اُدھر دیکھے بغیر کونے میں کشن پر جا بیٹھی تھی۔ گھٹنوں میں سر دیئے وہ نجانے کس کا غم منا رہی تھی۔ نکاح کے بعد تو وہ اسے دوسری دفعہ دیکھ رہا تھا۔بہت کم وہ اس کے سامنے آئی تھی۔ پہلے والی کوئی بات ہی نہیں رہی تھی اس میں۔ اوپر سے بابا جانی کا دکھ، اسے علم تھا وہ بابا جانی سے بہت پیار کرتی تھی۔ چچا جانی سے بھی بڑھ کر۔ اور بابا بھی تو اس پر جان دیتے تھے۔ وہ اٹھ کر اس کے قریب آگیا۔ نہ جانے کیوں اس کا رونا دل کو مضطرب کئے دے رہا تھا۔
’’اسوہ ......‘‘ اس کی پکار پر اس نے ایک دم سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر اپنے دوپٹے سے چہرہ خشک کر لیا۔ ’’کیا بات ہے؟ کیوں رو رہی ہو؟ ‘‘ اس کا لہجہ بہت نرم اور محبت لئے ہوئے تھا۔
’’نہیں کوئی بات نہیں۔‘‘ وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ پیچھے کی طرف قدم بڑھاتے وہ کچھ فاصلے پر ہو گئی تھی۔ ’’ایم سوری ....... میں نے آپ کو ڈسٹرب کیا۔ مجھے نہیں علم تھا کہ آپ یہاں ہیں۔‘‘ نجانے اس کے لہجے میں کیا تھا، طنز ، تحقیر ، بے بسی ، یا غم کی کیفیت وہ ٹھٹکے بغیر نہ رہا تھا۔ وہ رخ بدل گئی تھی پھر تیز تیز قدم اٹھاتی کمرے سے نکل گئی تھی۔
’’تم کیا جانو .....ڈسٹرب تو میں واقعی ہو گیا ہوں۔ تم بابا جانی کی بہت چہیتی تھیں اور اب ......‘‘ وہ لب بھینچ گیا تھا۔ نظریں دروازے پر ہی جمائے رکھیں حتیٰ کہ سراج بابا چائے لے کر آ گئے تھے۔
زندگی گزرنے لگی تھی۔ اسوہ کے لئے اس کی محبت دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی مگر وہ بہت حدود کا خیال رکھتا تھا، کبھی آگے بڑھ کر اسوہ کی خیریت دریافت نہیں کی تھی۔ کبھی اس کی زندگی میں مداخلت کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ دستور والا بندہ تھا۔ اس کی تربیت ان ہی خطوط پر ہوئی تھی۔ وہ ہر رشتے کو عزت و احترام دیتا تھا پھر محبت کرتا تھا۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ اسوہ کے دل میں اس کے لئے کیا احساسات ہیں۔ بس وہ اس سے محبت کرنے لگا تھا۔ نکاح کے بول دلوں میں انسیت پیدا کر دیتے ہیں۔سو اس کا دل بھی اسوہ کے نام پر دھڑکنے لگا تھا۔ وہ اس کی تھی ، اس کے نکاح میں تھی۔ جانتا تھا وہ جب چاہے گا رخصتی کروا لے گا۔ اس سے پہلے وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا۔ شروع میں اسوہ اس سے کتراتی رہی تھی مگر پھر رفتہ رفتہ جیسے اس نے بھی اس تعلق کو قبول کر لیا تھا۔ وہ پہلے کی ہی طرح ہو گئی تھی۔
شوخ و چنچل ، اکھڑی ضدی ، بلکہ اب تو اس کے اندر کچھ اور بھی وصف پیدا ہو گئے تھے۔ طنز و استہزاء ، اس کا سامنا ہوتا تو ہر بات طنز سے شروع ہو کر طنز پر ختم ہوتی تھی۔ کبھی وہ حیران ہوتا اور کبھی چڑ جاتا تھا مگر کبھی منفی انداز میں نہیں سوچا تھا۔ ہاں اسے اس کے مزاج کی لاپروائی اور ضدی وا کھڑی طبیعت سخت ناپسند تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ رخصتی سے پہلے وہ اپنے آپ کو چینج کر لے۔ اسی لئے دبے دبے لفظوں میں وہ اکثر بی بی جان ، چچی جان اور منتہیٰ سے بھی کہہ چکا تھا۔ وہ سب اسے سمجھاتی تھیں مگر وہ بھی نجانے کس مٹی سے بنی ہوئی تھی کہ پہلے سے زیادہ خود سر بنتی جا رہی تھی۔ خود سے وہ کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھتا تھا اور اسوہ کو جیسے اس کی پرواہی نہیں تھی۔ وہ ایسا کیوں کر رہی ہے وہ سمجھنے سے قاصر تھا اور پھر وقت کچھ اور گزرا تھا۔
ایف اے کے بعد اسوہ نے ساری حویلی والوں کو زچ کر رکھا تھا۔ ایف اے میں اس کی فرسٹ پوزیشن آئی تھی ۔ اس نے پھر ٹاپ کیا تھا ۔ اسی لئے وہ بضد تھی کہ لاہور جا کر ہوسٹل میں رہ کر مزید تعلیم حاصل کرے گی۔ قریبی کالج صرف ایف اے تک تھا۔ جبکہ ان کے خاندان میں پرائیویٹ اعلیٰ سطح پر تعلیم حاصل کرنے پر کوئی پابندی نہیں تھی مگر عورت ذات کا ہوسٹل میں جا کر پڑھنا سخت معیوب سمجھا جاتا تھا۔
ان دنوں وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے باہر جانے کی تگ و دو میں تھا۔ کاغذات بنا رہا تھا۔ حویلی کی خواتین نے اسے اسوہ کی اس ضد سے قطعی بے خبر رکھا ہوا تھا۔
وہ نہا کر باہر نکلا تو اپنے کمرے میں اسوہ کو دیکھ کر چونکا۔ اپنے حلئے کا احساس ہوتے ہی اس نے فوراً بیڈ سے کپڑے اٹھائے ۔ ایک ناپسندیدگی کی نظر اسوہ پر ڈالی جو شاید آئی ہی اس مقصد کے لئے تھی کہ اسے زچ کرے۔
’’کسی کے کمرے میں آ کر بیٹھنے کا یہ کونسا طریقہ ہے؟‘‘ مانا کہ ان دونوں کے درمیان ایک گہرا رشتہ تھا مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ یوں کمرے میں آتی۔ اس کا دل اس کی طرف سے بد گمان ہوا۔
’’کسی کے کیوں، میں اپنے شوہر کے کمرے میں اس کے بیڈ پر بیٹھی ہوں۔ ایسی کونسی معیوب حرکت ہے یہ۔‘‘ ترکی بہ ترکی جواب ملا تھا۔ لہجہ طنزیہ تھا آنکھوں میں شرم و حیا نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ اسے افسوس ہوا۔
’’اسوہ ......‘‘ وہ ٹوک گیا ۔ وہ اس وقت باتھ گائون میں ملبوس تھا۔ بغیر اس کو کچھ کہے دوبارہ باتھ روم میں گھس گیا۔ شلوار قمیص پہن کر آیا تو وہ اسی طرح ریلیکس موڈ میں بیڈ کے کرائون سے ٹیک لگائے اس کی منتظر تھی۔
’’مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔‘‘ حاکمانہ انداز تھا۔ سالک چپ رہا۔ ٹاول سے بال خشک کرتے اسے صرف دیکھا۔ یہ لڑکی سدھر نے کے بجائے دن بہ دن بگڑتی جا رہی تھی۔ یہ سالک کی ذاتی رائے تھی۔
’’میں مزید پڑھنا چاہتی ہوں۔ لاہور جا کر ہاسٹل میں رہ کر۔‘‘ وہ حیران ہو کر دیکھنے لگا۔ پڑھنے پر نہیں لاہور جا کر ہاسٹل میں رہ کر پڑھنے پر ہوا تھا۔ وہ جانتا تھا اس وقت اگر کمرے میںآئی ہے تو کوئی چھوٹی بات نہیں ہو گی۔ ایک گہری سانس لی۔
’’تم مجھے اطلاع دے رہی ہو کہ اجازت مانگ رہی ہو۔‘‘ ٹاول ایک طرف پھینک کر وہ اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ گہرے آتشی لباس میں وہ خود بھی آگ کی طرح دہک رہی تھی۔ سالک کی آنکھوں میں رنگ سے اترنے لگے ۔ مگر اس کے اگلے الفاظ سن کر اس کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔
’’دونوں ہی نہیں......صرف یہ پوچھنے آئی ہوں کہ اس حویلی کے مرد جب ہر عیاشی افورڈ کر سکتے ہیں، خود باہر جا کر پڑھتے ہیں تو پھر اس حویلی کی عورتوں پر پابندی کیوں؟‘‘ وہ سوالیہ نشان بنی جواب کی منتظر تھی۔ سالک بڑی مشکل سے اپنے اندر اٹھتے اشتعال کے لاوے پر قابو پا سکا تھا۔ خاص طور پر ’’عیاشی‘‘ کے لفظ پر دماغ گھوم گیا تھا۔ در پردہ وہ کیا کہنا چاہ رہی تھی، کسے کہہ رہی تھی وہ بخوبی سمجھ گیا تھا۔
’’اسوہ! حد ہوتی ہے۔ کچھ کہتے ہوئے لفظوں کے چنائو کا خیال کیا کرو۔‘‘ وہ صرف یہی کہہ سکا تھا ایک دم مشتعل ہو جانا اس کی نیچر نہیں تھی۔ اب بھی برداشت کر گیا تھا۔
’’میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ میں کیا کہہ رہی ہوں اور کیا لفظ استعمال کر رہی ہوں ۔ جب آپ باہر جا کر پڑھ سکتے ہیںا ور میں تو صرف اسی ملک میں رہ کر پڑھنا چاہتی ہوں پھر بابا جانی اور امی جان دونوں مجھ پر پابندی کیوں لگا رہے ہیں۔ جبکہ سب جانتے ہیں میں جو ایک دفعہ سوچ لیتی ہوں وہ کرتی بھی ہوں۔ سب میری فطرت سے واقف ہیں۔ اگر مجھے خود اجازت نہیں دیں گے تو میںدرمیانی رستہ نکال لوں گی مگر یوں چھپ کر نہیں پڑھوں گی۔‘‘ اور وہ درمیانی رستہ کیا ہو سکتا تھا وہ بخوبی سمجھ رہا تھا وہ ایسی ہی ضدی تھی کچھ بھی کرسکتی تھی۔
’’تو تم مجھ سے کیا چاہتی ہو؟‘‘ اس نے آرام سے پوچھا تھا۔