’’چلیں اچھی بات ہے۔ ایک دو دن رہیں گے ہی ناں۔ آج کل میرے ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ تھوڑی سی ہیلپ کروا دیجئے گا۔‘‘ سالک نے جان چھڑانے والے انداز میں فوراً سر ہلا دیا تھا۔ جانتا تھا وہ کتنی ذہین ہے پڑھتی خاک نہیں تھی۔ کیا ہے؟ کیوں ہے؟ کے سوالات کے کر اسے زچ کر دیتی تھی۔ بس اس کی ہیلپ لینا تو ایک بہانہ ہوتا تھا اصل مقصد تو اسے چڑانا ہوتا تھا مگر مجال ہے جو کبھی اس نے اندر کا غبار باہر آنے دیا ہو۔ اوپر سے اسے حویلی کے طور طریقے اور اصولوں کی پاسداری کا ہمیشہ خیال رہتا تھا۔ ہر بات میں شائستگی ، رواداری ، تحمل مزاجی کے وصف کا خیال رکھتا تھا۔ شور شرابے سے سخت نفرت تھی اور وہ تھی کہ بالکل متضاد تھی۔ شعلہ و جوالہ ، ہر وقت ایک ہنگامہ برپا رکھنے والی ، ضدی ، اکھڑ ، تند خو لڑکی تھی۔ اگر یہ کہا جاتا کہ ایک مشرق اور دوسرا مغرب ہے تو یہ بے جانہ ہوتا ۔ وہ واقعی ایسی ہی تھی۔
وہ اسے چھوڑ کر بی بی جان کے پاس آ گیا وہ کچن میںملازموں سے اس وقت صبح کا ناشتہ تیار کروا رہی تھیں۔
’’بی بی جان مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔‘‘
’’ہاں کہو نا......میں سن رہی ہوں۔‘‘ انہوں نے اسی مصروف سے انداز میں جواب دیا۔
’’یہاں نہیں میرے کمرے میں چلیں۔‘‘ بی بی حیران ہوئیں پھر اس کے ساتھ اس کے کمرے میں آ گئیں۔
’’بی بی جان میں اسوہ سے نکاح نہیں کروں گا۔‘‘ اس نے چھوٹتے ہی کہا تھا۔ اس وقت کمرے میں داخل ہوتی اسوہ دروازے پر ہی ٹھٹک گئی تھی۔
’’ہیں.......کیا کہہ رہے ہو تم ........‘‘ بی بی حیران تھیں۔ اتنا مؤدب بیٹا انکار کیسے کر سکتا ہے۔
’’بی بی جان! ہم بالکل مختلف ہیں۔ ہمارے عادات و اطوار ، مزاج ، سوچ ، ہر لحاظ سے مختلف ہیں۔ آپ بابا جانی کو سمجھائیں۔ وہ مجھ سے میچ نہیں کرتی .......ایک کزن کی حیثیت سے میںاسے قبول تو کر سکتا ہوں مگر بیوی کی حیثیت سے قطعی نہیں۔‘‘ الجھا ہوا دوٹوک انداز تھا۔ بی بی جان حیران ہوئیں انہیں اس انکار کی امید نہیں تھی۔
’مگر ہم سب کچھ طے کر چکے ہیں۔ پرسوں تمہارا نکاح ہے ۔ ابھی اسوہ کو اس معاملے کی خبر نہیں کی مگر تمہارے بابا جانی زبان دے چکے ہیں۔ اور تم جانتے ہوا نہیں اپنی زبان کا کتنا پاس ہوتا ہے۔‘‘ بی بی جان نے کچھ غصے سے کہا تھا وہ بے چارگی سے دیکھنے لگا۔
’’زبردستی تو نہیں بی بی جان! بس مجھے اسوہ پسند نہیں ۔‘‘ اسوہ دھک سی کھڑی رہ گئی تھی۔
’’تو پھر کون پسند ہے۔ وہی لڑکی جس کی تصویر تم لائے تھے۔ وہ جو تمہارے دوست کی بہن ہے۔‘‘ بی بی جان پوچھ رہی تھیں اور اسوہ الٹے قدموں واپس مڑ گئی تھی۔ اب مزید سننا اس کی برداشت سے باہر تھا۔
’’نہیں بی بی جان ! آپ غلط سمجھ رہی ہیں، مجھے اس انداز میں کوئی بھی پسند نہیں بس میں ابھی یکسوئی سے پڑھنا چاہتا ہوں۔ پلیز بی بی جان! وہ تو میری کلاس فیلو ہے۔ میرے دوست کی بہن ہے۔ وہ جو تصویر تھی وہ گروپ فوٹو تھی آپ نہ جانے کیا سمجھ رہی ہیں۔ اپنے سالک پر ذرا بھی اعتبار نہیں۔‘‘ وہ نروٹھے پن سے گویا ہوا تھا۔ بی بی جان کو اس پر ایک دم پیار آ گیا۔
’’مجھے پتا ہے تم ایسے نہیں ہو۔ ہم پر بھروسہ کرو......مزاج کا کیا ہے ابھی کونسا ہم شادی کر رہے ہیں، صرف نکاح ہو گا ۔ جب تم دونوں تعلیم سے فارغ ہو جائو گے تو شادی بھی ہو جائے گی۔ درمیان میں اچھا خاصا وقت ہے۔ اسوہ کے مزاج میں لاپروائی کا عنصر غالب ہے مگر پھوہڑ اور بد تمیز نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ جائے گی۔‘‘ بی بی جان اسے سمجھا رہی تھیں۔
’’مگر بی بی جان !‘‘ اس نے کچھ کہنا چاہا۔
’’ہم پر اعتبار ہے نا......تو بھروسہ رکھو.......ہم والدین ہیں تمہارے دشمن نہیں۔ تمہارے بابا جانی کی یہ خواہش ہے، زندگی کے اس تکلیف دہ دور میں کیا تم ان کو نا مراد کرو گے۔‘‘ بی بی جان نے جیسے فرار کی ساری راہیں ہی مسد ود کر دی تھیں۔
’’مجھے دنیا میں سب سے بڑھ کر آپ دونوں پر اعتبار ہے۔‘‘ وہ ایک دم جذباتی ہو گیا تھا۔
’’تو پھر یقین رکھو بیٹے! ہم انشاء اللہ اس اعتبار کو ختم نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
وہ چپ رہا تھا مزید بحث کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ نکاح کی تقریب بہت دھوم دھام سے ہوئی تھی۔ بابا جانی تو جیسے ہر شوق پورا کرنا چاہتے تھے۔ ان کا بس چلتا تو رخصتی بھی کروا دیتے مگر پھر دونوں کی تعلیم کا خیال تھا ۔ دونوں ہی کم عمر تھے۔ ابھی بہت وقت تھا ایک دم مطمئن ہو گئے تھے۔ نکاح کے اگلے دن ہی سالک کو واپس جانے کی پڑ گئی۔
’’ابھی کچھ دن ٹھہر جاتے۔‘‘ بی بی جان اس کے بیگ میں کپڑے رکھ رہی تھیں۔ وہ کوئی جواب دیئے بغیر آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے بال بنانے لگا۔ بی بی جان کو دو تین دنوں سے اس کی خاموشی بری طرح گھل رہی تھی۔
’’سالک ! ناراض ہو ......‘‘ کپڑے چھوڑ کر پوچھا تو اس نے نفی میں سر ہلا یا۔
’’ تو پھر اتنے چپ کیوں ہو۔ تمہیں تو خوش ہونا چاہئے ۔ اتنی پیاری ، بھولی بھالی ہنس مکھ سی لڑکی تمہارا نصیب بنی ہے۔‘‘ وہ اب اسے سمجھا رہی تھیں۔
’’کچھ وقت دیں بی بی جان ! پلیز جب یوں اچانک زندگی میں ایک ایسا واقعہ رونما ہو جائے جو وہم و گمان میں بھی نہ ہو تو انسان کا شاک زدہ ہو جانا یقینی ہے۔‘‘ وہ کافی ڈسٹرب تھا۔ بی بی جان نے اس کی پیشانی چوم لی۔ ایک دم ہی بہت پیار آیا اس پر۔
میری دعا ہے اللہ تمہیں ڈھیروں خوشیاں اور سکھ دے۔ اسوہ اچھی لڑکی ہے تمہاری ہم عمر ہی ہے۔ تم بہت جلد مطمئن ہو جائو گے دیکھ لینا۔‘‘ اس کا چہرہ ہاتھوں میںبھر کر اتنے یقین سے کہا کہ وہ مسکرا دیا۔
’’اور وہاں......جانے سے پہلے تم ذرا اسوہ سے بھی مل لینا۔‘‘ وہ دوبارہ کپڑوں کی طرف متوجہ ہوئیں و ہ اس تلقین پر حیران ہوا۔‘‘ کیوں؟‘‘
’’وہ بھی تمہاری طرح بڑی جذباتی ہو رہی تھی۔ پہلے تو مان ہی نہیں رہی تھی، کہتی تھی کہ تم اسے بالکل کزنوں کی طرح ہو......راضیہ نے سمجھایا پھر تمہارے بابا جانی نے بھی بات کی تو نہ جانے کیسے راضی ہوئی تھی۔ تین دن کمرے سے نہیں نکلی۔
نکاح کے وقت بھی بخار تھا اب تو کچھ دیر پہلے تپ رہی تھی۔ ایک سو چار بخار ہے۔ بی پی بھی بے حد لو ہو رہا ہے ۔ تم اسے عقل سے پیدل ، احساس سے عاری سمجھتے ہو۔ دیکھ لو وہ تم سے زیادہ حساس ہے۔‘‘ بی بی جان بتا رہی تھیںوہ چپ چاپ سنتا رہا۔ بہر حال وہ بیوی سے پہلے کزن تھی۔ جیسی بھی تھی سب گھر والوں کی اگر چہیتی تھی تو بری اسے بھی نہیں لگتی تھی۔ اس کی بیماری کا سن کر اس کی سوچ مثبت سمت گھومنے لگی تھی۔
وقت رخصت سب سے ملنے کے بعد وہ اس کے کمرے میں بھی آیا تھا۔ وہ بستر پر بے سدھ لیٹی ہوئی تھی۔ چچی جان قریب ہی براجمان تھیں اسے دیکھ کر خوش ہوئیں۔ وہ حدود کا خاص خیال رکھنے والا بندہ تھا۔ خاص طور پر اسوہ کے کمرے میں بہت کم آتا تھا۔ اب بھی جھجک رہا تھا۔
’’رک کیوں گئے سالک! آئو اندر آئو۔‘‘ بے سدھ لیٹی اسوہ نے بھی آنکھیں نیم وا کر کے اسے دیکھا تھا۔ وہ کرسی پر بیٹھ رہا تھا۔ اس نے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں۔
’’ بی بی جان ذکر کر رہی تھیںکہ اسوہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ۔ میں واپس جا رہا تھا سوچا طبیعت پوچھ لوں ۔‘‘ وہ وضاحت پیش کر رہا تھا۔ چچی جان مسکرا دیں۔
’’بس شاید موسم کا اثر ہو گیا ہے۔ ایک سو چار بخار ہے۔ بلڈ پریشر کا تو پوچھو ہی نہیں۔ میں حیران ہوں، اس عمر میں لوہے۔‘‘ اسوہ کی پلکیں لرز رہی تھیں وہ بمشکل نظریں ہٹا سکا ۔ زرد زرد سایہ مضمحل چہرہ نجانے کیوں دل کے بہت قریب لگ رہا تھا۔ شاید رشتہ بدلا تھا اسی لئے۔
’’اسوہ......‘‘ اس نے تنبیہی پکارا تھا مگرپہلے والی برودت شامل نہیں تھی۔
’’میں جو ہوں......جیسی ہوں ، اچھی یا بری ، ڈنکے کی چوٹ پر ہوں۔ جن اختیارات کا آپ آج مجھے حوالہ دے رہے ہیںوہ گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے درمیان ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں آپ مجھے کسی کمزور لمحے یا ذاتی تسکین کا سبب بنا لیں گے۔ اگر آپ کو اپنی ذات کی توہین گوارا نہیں تو مجھے بھی نہیں۔ مگر اتنی جرأت ہے کہ سب کے سامنے کھل کر انکار کر سکتی ہوں۔ جب مجھے پہلے زبردستی گوارا نہیں تھی اب تو بالکل بھی نہیں۔‘‘ وہ نہ جانے کیا کہہ رہی تھی اس کی سمجھ سے بالا تھا سب کچھ۔
’’کیا بکواس ہے یہ؟‘‘ سالک کی سمجھ میں واقعی کچھ نہیں آیا تھا۔ کمزور لمحوں کا فسوں چھٹنے لگا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ اس کے وجود کے گرد سے ہٹا لئے تھے۔ وہ ہنس دی تھی۔ صاف مذاق اڑاتی ہوئی ہنسی تھی۔ وہ بمشکل خود پر کنٹرول کر سکا۔
’’سالک صاحب! پہلے اپنے اختیارات کی ابجد سے واقف ہو لیں پھر قدم بڑھائیں۔ یہ بکواس نہیں ہے حقیقت ہے۔‘‘ دوپٹہ کھینچ کر وہ بستر سے اتر گئی تھی۔ سالک اسے دیکھ کر رہ گیا تھا۔ اسوہ نے آگے بڑھ کر ٹیبل سے دوبارہ ٹرے اٹھا لی۔
’’اپنے حقوق کی دھمکی اچھی لگی۔ مگر ہر انسان میرے جیسی نیچر کا حامل نہیں ہوتا۔ جب میں نے آپ سے گزشتہ آٹھ سالوں کا حساب نہیں مانگا تو میں بھی مجبور نہیں ہوںکہ آپ کو اپنی ایک ایک جنبش کا جواب دوں۔ جبکہ ہمارے درمیان طے پایا تھا کہ ہم کبھی بھی ایک دوسرے کی زندگی میں مداخلت نہیں کریں گے۔ اپنے اپنے دائرے میں رہیں گے۔ آپ نے مجھے اپنے ہر حقوق سے آزاد قرار دیا تھا تو پھر اب یہ تماشا کیا ہے؟ آپ کو بلانے کا مقصد صرف یہی تھا کہ بی بی جان آٹھ سالوں سے انتظار کرتے کرتے تھک گئی ہیں۔ وہ دل کی مریضہ بن چکی ہیں۔ سب مجھے الزام دیتے ہیں۔ جب میرا قصور تھا تب ہر الزام میں آسانی سے سہ گئی تھی مگر اب برداشت کرنا نا ممکن ہے۔ چھ ماہ پہلے انہیں شدید ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ ان کے دل کا صرف ایک ہی روگ ہے اور وہ آپ ہیں۔ سب نے منع کیا تھاکہ آپ کو یہ بات نہ بتائی جائے مگر آپ بضد تھے سو شوق پورا ہو گیا ہو گا۔ جبکہ نہ مجھے آپ سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی آپ کے کسی وعدے سے۔ اب میرے لئے کوئی وعدہ .....کوئی بات ، کوئی زبردستی .......کچھ اہمیت نہیں رکھتی ۔ مجھے زندگی گزارنی ہے اور اسی حویلی میں گزارنی ہے۔ میں نے نہ پہلے آپ کی زندگی میں شامل ہونے کی کوشش کی ہے اور نہ اب کروں گی۔ آپ کو خط لکھنا صرف ایک بہانہ تھا۔ سب سمجھتے تھے کہ مجھے علم ہو گا کہ آپ کہاں ہیں؟ جبکہ میرے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا ۔‘‘ وہ بغیر رکے کتنا کچھ سنا گئی تھی۔ خاص طور پر بی بی جان کے بارے میں انکشاف نے اسے دہلا دیا تھا۔ اپنی ذات کا ماتم کرتے ہوئے وہ باقی ہر حقیقت ، ہر رشتے کو فراموش کر بیٹھا تھا۔ کچھ دیر پہلے حاوی ہونے والا سارا جوش ، سارا اشتعال ، ساری فرسٹریشن منٹوں میں ہوا ہوئی تھی۔ وہ اب آہستہ آہستہ نارمل ہونے لگا تھا۔
’’اور ہاں ایک بات اور سالک صاحب! جس عالی کا طعنہ آپ مجھے دیتے رہتے ہیں اور ساری حویلی والے دیتے رہتے ہیںاگر وہ مجھے سگی بہن کی طرح سمجھتا تھا تو میں نے اسے سگے بھائی والا مقام دیا تھا۔ میں نے یہ اتنے جھوٹ کیوں بولے؟ اپنی ذات پر کیچڑ کیوں برداشت کیا؟ کاش اس کے متعلق سوچتے، نہ مجھے کل کوئی گوہر مقصود ملا تھا اور نہ ہی اب ملا ہے۔ اور جو ملا تھا.......‘‘ وہ باہر نکلنے سے پہلے دروازے پر ہی رکتے سب کہہ رہی تھی۔ وہ ایک انکشاف کے بعد دوسرا کر رہی تھی اور سالک کیفیت عجیب سے عجیب تر ہوتی جا رہی تھی۔
’’خیر......میں آپ کو یہ سب کیوں بتا رہی ہوں شاید اس لئے کہ آپ نے کچھ دیر پہلے پوچھا تھا کہ میں کیا چاہتی ہوں.......کاش سالک صاحب! یہ سوال آپ آٹھ سال پہلے کرتے ........نہ مجھے آپ کی کسی وعدہ ایفائی سے غرض ہے اور نہ ہی کسی اور بات سے۔‘‘ سرد سے لہجے میں اتنا کچھ کہہ کر وہ باہر نکل گئی تھی۔ پیچھے سالک کو حیران و ششدر چھوڑ کر۔
’’یہ سب کیا تھا......؟‘‘ اس کے سامنے ایک بڑا سا سوالیہ نشان تھا۔ اس کی ذات گہرے بھنوروں میں گم ہونے لگی تھی۔ ہر طرف ماضی کی فلم چلنے لگی تھی۔ گزشتہ واقعات ایک ایک کر کے اس کے ذہن کے پردے پر چھانے لگے تھے۔
X X X
’’مگر بابا جانی یہ کیسے ممکن ہے۔ ابھی تو صرف میں جونئیر کیمبرج میں ہوں۔ نو با با جانی......وہ مجھے پسند نہیں۔ وہ ابھی بہت چھوٹی ہے۔ مغرور بھی ہے۔‘‘ کل ہی لوٹا تھا جب آج صبح ہی بابا نے اسے اپنے رو برو طلب کر کے ایک خواہش ظاہر کی تھی۔ وہ ایک دم ہتھے سے ہی اکھڑ گیا تھا۔
’’مگر ہم زبان دے چکے ہیں۔ شروع سے ہی ہماری یہی خواہش تھی۔ اسوہ بہت اچھی بچی ہے۔ بس عمر ہی ایسی ہے، کچھ شرارتی سی ہے، پھر وہ سارے گھر کی لاڈلی بھی تو ہے۔ سو کچھ ضدی اور اکھڑ مزاج ہے مگر بد تمیز ہر گز نہیں ۔ میں نے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے۔ اگر تمہیں اس کے چھوٹے اور مغرور ہونے پر اعتراض ہے تو وقت کے ساتھ ساتھ وہ سمجھ جائے گی ابھی تو بچی ہے۔ کونسا ابھی ہم تم دونوں کی شادی کر رہے ہیں۔ بس ایک خواہش ہے، زندگی کا کچھ بھروسہ نہیں۔ میں مرنے سے پہلے تمہاری دلہن دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ بابا آخر میں جذباتی ہو گئے تھے۔ اعتراض تو اس کے پاس بہت سے تھے مگر بابا کے سامنے وہ چپ ہو گیا تھا۔ اس کی زندگی کا ہر فیصلہ بابا جانی نے ہی تو کیا تھا۔ پہلے بھی اب بھی۔ بچپن سے لے کر اس عمر تک، اسے بابا جانی سے خاص انسیت تھی ۔ اس کے لئے ان کا ہر کہا لفظ حرفِ آخر ہوتا تھا۔ اس کے مزاج ، عادات ، اخلاق و کردار ، پر ان کی شخصیت کی گہری چھاپ رقم تھی۔ کبھی بھی اس نے ان کا دل دکھانے اور ان کا حکم ٹالنے کی کوشش نہیں کی تھی مگر اب ان کا حکم .....وہ عجیب دوراہے پر آ کھڑا ہوا تھا۔ پھر وہ جس دور میں تھا، من پسند جیون ساتھی کے خواب وغیرہ کوئی ان ہونی بات تو نہیں تھی۔ وہ خود بھی کم گو ، سنجیدہ مزاج متین سی فطرت کا مالک تھا۔ بس اس کا آئیڈیل بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ اب اسوہ کا نام سن کر اس کی سوچیں منتشر ہونے لگی تھیں۔ وہ قطعی سالک کے لئے موزوں نہ تھی لیکن بابا جانی آج کل بیمار رہنے لگے تھے۔ گزشتہ ماہ ان کا روڈ ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ ان کی بیک بون متاثر ہوئی تھی۔ بیماری نے انہیں بہت حساس بنا ڈالا تھا۔ اب ہر وقت انہیں یہی گمان رہنے لگا تھا کہ کہیں کوئی لمحہ زندگی کی ڈور سے انہیں جدانہ کر دے۔ سالک ان کی زندگی کی پہلی اور آخری خواہش تھا۔ اکلوتی اولاد تھا۔ اسوہ انہیں شروع سے ہی پسند تھی۔ اب انہوں نے دونوں کے نکاح کے لیے اصرار کیا تھا تو وہ پہلو تہی کی کوئی راہ تلاش نہیں کر پا رہا تھا۔ بہرحال اس حالت میں وہ بابا کو ٹیز نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ خاموشی سے کمرے سے نکل آیا تھا۔
بابا کے کمرے سے نکل کر ابھی وہ کاریڈور کراس بھی نہیں کر پایا تھا کہ سامنے ہی وہ آ کھڑی ہوئی۔ جس کے نام کی کڑواہٹ اس کی زندگی میں گھلنے والی تھی۔
’’ہیلو کزن…‘‘ مسکراتی آنکھیں اور کھلکھلاتا لہجہ تھا۔ وہ چپ چاپ کھڑا رہا۔ اسے اسوہ کی یہ بدتمیزی بہت زہر لگتی تھی کہ وہ کوئی حوالہ استعمال کئی بغیر اسے صرف کزن یا سالک کہتی تھی۔
’’امی جان بتا رہی تھیں کہ آپ رات کو ہی لوٹی ہیں۔ کیسی طبیعت ہے؟‘‘
’’ٹھیک ہوں۔ تم کیسی ہو؟ اور اسٹڈی کیسی چل رہی ہے۔‘‘ اس نے تحمل سے پوچھا تھا۔
’’بالکل اے ون۔ اور اسٹڈی کا پوچھئے ہی مت وہ چل نہیں رہی دوڑ رہی ہے۔ ہمیشہ کی طرح ٹاپ آف دی لسٹ میں رہوں گی۔‘‘ پُراعتماد لہجہ، بے پروا و بے فکر انداز تھا۔ اپنی جسامت کی وجہ سے اپنی باتوں کے برعکس وہ بہت کم عمر بلکہ کم سن سی بچی ہی لگتی تھی۔ جبکہ دونوں میں صرف سال ڈیڑھ سال کا فرق تھا۔ مگر اس کی نظر میں وہ بچی ہی تھی۔
’’آپ کو تو آنا ہی نہیں تھا اگلے ماہ آپ کے امتحان ہونے والے ہیں۔ پھر اب کیسے آئے؟‘‘ وہ آگے بڑھا تو وہ پوچھنے لگی۔ بلا کی باتونی تھی۔ مجال ہے کسی کو چپ رہنے دے۔
’’بابا نے فون کر کے بلوایا تھا۔ ‘‘ وہ بھی ساتھ ہی چل رہی تھی۔ ایک دو دفعہ اس کا کندھا سالک کے کندھے سے مس ہوا تھا وہ شعوری طور پر دو قدم مزید آگے بڑھ گیا تھا۔
’’کیوں؟‘‘سادہ سا انداز تھا وہ چڑ گیا مگر ظاہر نہ ہونے دیا۔
’’بس ملنا چاہتے تھے۔ ‘‘ مختصراً بتایا۔
’’اتنی جلدی......ابھی پندرہ دن پہلے ہی تو مل کر گئے تھے۔‘‘ وہ حیرت سے کہہ رہی تھی۔ وہ بات کی کھال نکالنے میں ماہر تھی۔ وہ چپ ہی رہا۔