’’میں کچھ بھی نہیں بھولا بی بی جان۔ سب یاد ہے۔‘‘ اس کا لہجہ نہ چاہتے ہوئے بھی تلخ ہو گیا تھا۔ بی بی جان کو ایک دم ملال نے آ لیا۔ انہوں نے اس کے ساتھ کم زبردستی کی تھی کیا۔ اس نے تو پھر بھی اعتراض تک نہیں کیا تھا صرف بغیر بتائے آٹھ سالوں تک بغیر کوئی نام و نشان چھوڑے قطع تعلق کر گیا تھا اور اب تو وہ اعتراض کا بھی حق نہیں رکھتی تھیں ۔ نہ جانے کون کون سے دکھ تھے جو آنکھوں سے بہہ نکلے تھے۔
’’ہاں ہم گنہگار تھے۔ اگر وہ زبردستی نہ کرتے تو نہ جانے کیا دن دیکھنے پڑتے۔‘‘ چچی جان اپنی دختر نیک اختر پر ایک کٹیلی شکوہ بھری نگاہ ڈال کر ملول سی کہہ رہی تھیں۔ اب اسوہ کے لئے مزید کھڑے رہنا محال تھا۔ وہ بغیر چادر اٹھائے بھاگتے ہوئے زینہ طے کرتے اوپر چلی گئی تھی۔ سب نے اسے جاتے دیکھا تھا۔ سالک سر جھکا گیا تھا۔ اس کا مقصد چچی جان کو شرمندہ کرنا نہیں تھا۔ اس سارے قصے میں بھلا ان کا کیا قصور؟
رات کے کھانے تک وہ دونوں خواتین کے د رمیان ہی گھرا رہا تھا۔ چچا جانی بھی شام کے بعد آ گئے تھے۔ مختلف سوالات کرتے رہے تھے ۔ وہ مختصر بتاتا گیا۔ پھر ملازمہ نے کھانا لگ جانے کی اطلاع دی تو وہ سب کی سربراہی میں کھانے کی ٹیبل پر آ گیا ۔
’’جائو اسوہ کو بلا لائو۔‘‘ زبیدہ چچی جان نے حکم دیا تھا۔ وہ ’’جی اچھا‘‘ کہہ کر چلی گئی تھی۔ بی بی جان اور چچی جان اس کے لئے کھانا نکالنے لگی تھیں۔ سراج بابا نے کھانے پر خصوصی اہتمام کروایا ہوا تھا۔کئی قسم کی ڈشز تھیں جو کبھی وہ بہت رغبت سے کھاتا تھا مگر اب جیسے کھانے پینے سے بھی دل اچاٹ ہو گیا تھا جو مل جاتا تھا کھا لیتا تھا۔
’’چھوٹی بی بی کہہ رہی ہیں وہ کھانا نہیں کھائیں گی، انہیں بھوک نہیں ہے۔‘‘ زبیدہ نے آ کر اسوہ کا انکار سنایا تھا۔ چاچا جانی ، بی بی جان اور چی جان سب کے ہاتھ رک گئے تھے۔ وہ صرف دیکھ کر رہ گیا تھا۔ اسے دیکھنے کے بعد اس نے سوچا تھا کہ وہ بدل گئی ہے مگر اب اس کا کھانے کے لئے انکار سن کر اسے اپنی رائے بدلنا پڑی تھی وہ اب بھی ویسی ہی تھی۔ کسی کا بھی خیال نہ کرنے والی۔ وہ تلخی سے ہنسا تھا۔ یہ تلخی اس کے مزاج کا حصہ نہیں تھی مگر اب جب سے وہ اس گھر میں آیا تھا مسلسل اک کھنچائو کی کیفیت محسوس کر رہا تھا۔
’’اسے جا کر کہو کہ فوراً! کھانے کی میز پر آئے، بھوک نہیں ہے تب بھی۔‘‘ چاچا جانی کے چہرے پر خشمگیں سی کیفیت رقم ہو گئی تھی۔ چچی جان نے ہی درشتی سے کہا تھا۔
’’رہنے دو رافیہ! شادی میں پیٹ بھر کر کھا لیا ہو گا۔ بھوک نہیں ہو گی۔‘‘ بی بی جان نے فوراً کہا تھا۔
’’پھر بھی بھابی بیگم اسے خیال تو کرنا چاہیے.....یہ بالکل ناشائستگی والی بات ہے۔ سب یہاں موجود ہیں اور وہ غائب ہے۔‘‘ چچی جان نے دبی دبی آواز میں کہا تھا۔
’’کوئی بات نہیں.....تم یہ بریانی چکھو سالک، تمہیں بہت پسند ہے نا۔‘‘ بی بی جان یوں لے رہی تھیں ،جیسے کوئی بات ہی نہ ہو ۔ ورنہ سالک جانتا تھا کہ اس گھر کی روائتیں کیا ہیں؟ اور ان روائتوں سے انحراف کی سزا کیا ہے۔ اسوہ اس سزا کو بھگت چکی تھی اس کے باوجود وہی ہٹ دھرمی اور ضدی طبیعت برقرار تھی۔
کھانے کے بعد باتوں اور چائے کا دور چلا تھا۔ بی بی جان تھکی ہوئی تھیں خود چچی جان بھی مگر سالک کی خوشی میں رات گئے تک باتیں ہوتی رہی تھیں۔ گزرے دنوں کی ، رشتہ داروں کی ، گزشتہ حالات و واقعات کی ، بہت سے تذکرے تھے، بہت سے قصے تھے کہانیاں تھیں ، وہ دلچسپی سے سنتا رہا پھر چاچا جانی تھکاوٹ کا کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے تو چچی جان بھی ساتھ ہو لیں۔ بی بی جان اور سالک دونوں وہیں بیٹھے رہے تھے۔ اسوہ اوپر جانے کے بعد نیچے نہیں آئی تھی۔ چچی جان خود جا کر بلانے گئی تھیں مگر اس کا انکار ہاں میں نہیں بدل سکا تھا۔
’’سن سالک ، جو بھی ہوا ، سب بھول کر اک نئی زندگی شروع کر .....اسوہ اگر بہت نہیں بدلی تو پہلے جیسی بھی نہیں رہی۔ تو کیوں دل کو روگ لگا رہا ہے ۔ کب تک یوں سودائیوں کی طرح پھرے گا۔ اپنا گھر آخر اپنا ہی ہوتا ہے۔ جو سکون ، محبت گھر اور بیوی سے حاصل ہوتی ہے وہ اور کہیں سے بھی نہیں مل سکتی ۔ میں جانتی ہوں تمہارے ساتھ بہت زیادتی ہوئی ہے۔ پہلے تمہارے بابا جانی گزر گئے اور پھر اسوہ ، دل لگانے سے ، یا قطع تعلقی کر لینے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اور الجھ جاتے ہیں ۔ اس حویلی کو نئے مضبوط سہاروں کی ضرورت ہے۔ تم اپنے بابا کے وارث ہو ، اکلوتے ، اور تمہارا کوئی وارث نہیں۔ جب سے تمہاری شادی ہوئی ہے، اب تک تو تین چار بچے ہو جانے تھے مگر تم خوا مخواہ کی ناراضگی لئے ، بغیر کسی سے کچھ کہے چلے گئے۔ اسوہ کا بھی نہ سوچا۔ وہ جیسی بھی تھی تمہاری بیوی تھی۔ اسے بھی کچھ نہ بتایا اور جوتڑپے وہ علیحدہ .....اب تو ہم یہ سمجھے بیٹھے تھے کہیں خدا نخواستہ تم .....میرے منہ میں خاک مگر دل ہولتا تھا۔ ہر جگہ جہاں تم مل سکتے تھے پتا کروایا تھا۔ کچھ علم ہی نہیں ہوتا تھا۔خاندان والے اور دیگر رشتہ دار سوچے بیٹھے تھے کہ اب تم اس دنیا میں نہیں رہے کسی حادثے کا شکار ہو گئے ہو گے، اگر زندہ ہوتے تو کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی رابطہ تو ضرور کرتے۔ اور تم نے بھی حد کر دی......دل اتنا پتھر کر لیا تھا کہ ماں بھی یاد نہ رہی۔‘‘ اس کا سر اپنی گود میں رکھے بالوں میں انگلیاں پھیرتے وہ سب کہہ رہی تھیں جواباً وہ خاموش ہی رہا ۔ جواب بہت سے تھے مگر کوئی فائدہ نہیں تھا۔
’’اسوہ اب بدل گئی ہے۔ شاید وہ پچھتا بھی رہی ہے ۔ تم کھلے دل سے کام لو، اسے معاف کر دو۔ ساری زندگی کا معاملہ ہے۔ وہ عزت ہے اس خاندان کی۔ بہت کچھ سہا ہے اس نے۔ بہت انتظار کیا ہے.... اب اسے انتظار کی اذیت سے نکال لو۔ سب رنجشوں کو بھلا کر دل سے اک نئی زندگی کا آغاز کرو۔‘‘
اس کی کشادہ پیشانی پر بوسہ دیتے، انہوں نے نصیحت کی تھی۔ وہ دل مسوس کے رہ گیا۔
------------------
کیسی زندگی ، کیسی خوشی ، وہ تو یہاں صرف اپنا وعدہ نبھانے آیا تھا جو اس نے شاید اسوہ سے نہیں اپنی محبت سے کیا تھا۔ اسوہ کو شاید گوہر مقصود مل گیا تھا۔ تبھی اتنے برسوں بعد اس نے رابطہ کیا تھا۔ اسی پرانے ایڈریس پر اور اسوہ کی قسمت تھی کہ اسے وہ خط مل بھی گیا تھا اور اب یہاں آ بھی گیا تھا۔
’’رات گہری ہو گئی ہے نیند آ رہی ہے، جائو آرام کرو۔ تھک گئے ہو گے۔‘‘ اسے ڈھیر سارا پیار کر کے وہ چلی گئی تھیں۔ اس نے گھڑی دیکھی ایک بج رہا تھا۔ ورنہ گائوں میں اتنی دیر تک بھلا لوگ کب جاگتے تھے۔ آج صرف اس کی وجہ سے سب نے اپنی روٹین خراب کی تھی۔ تھکے تھکے اعصاب لیے وہ اپنے کمرے میں جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اپنے کمرے میں داخل ہونے کے بعد اس کی نظر سیدھی بیڈ کے بالکل وسط میں لیٹے وجود پر پڑی تھی۔ قدم جہاں تھے وہیں تھم گئے۔
’’اسوہ ......‘‘ وہ شاید بھول گیا تھا کہ وہ کمرے میں بھی ہو سکتی ہے۔ وہ جب آٹھ سال پہلے یہاں سے گیا تھا تو تب بھی اسی کمرے میں تھی اور اب بھی......عجیب لڑکی تھی تب بھی وہ اسے نہیں سمجھ سکا تھا اور اب بھی نہیں.....جب دلوں میں گنجائش نہیں تھی تو کمرے میں ایک ساتھ رہنے کی بھی بھلا کیا تُک تھی۔ اس نے شادی کے اوّلین دنوں میں اسوہ سے کہہ دیا تھا کہ وہ چاہے تو علیحدہ کمرہ لے سکتی ہے خاص طور پر ڈریسنگ روم جن کے ڈور اسی کمرے میں کھلتے تھے تب بھی وہ ڈھیٹ تھی اور ا ب بھی۔ تب اس نے سمجھا تھا کہ وہ اسے صرف اذیت دینے اوراپنی بات منوانے کے لئے اسے زچ کر رہی ہے مگر اب تو وہ آزاد تھی اس کے باوجود اس کمرے میں تھی، وہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ وہ کیا چاہتی ہے؟
مدھم خوابناک نیلگوں روشنی پورے کمرے کو اپنے سحر میں جکڑے ہوئے تھی۔ وہ سر جھٹکتا آگے بڑھا تھا۔ سراج بابا اس کا بیگ کمرے میں رکھ گئے تھے۔ لائٹس جلا کر دیکھا تو وہ کہیں بھی نہیں تھا۔ اسے ڈریس چینج کرنا تھا ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ ہر چیز اپنی جگہ پر بہت نفاست سے سجی ہوئی تھی۔ کہیں کوئی گرد اور بے ترتیبی نہیں تھی۔
’’کہاں رکھا ہے بیگ بابا نے .....‘‘ ادھر اُدھر دیکھنے کے بعد اس نے کچھ جھک کر بیڈ کے نیچے بھی دیکھ ڈالا وہاں بھی نہیں تھا۔ اسے کوفت سی ہونے لگی۔ یونہی الماری کی طرف بڑھ گیا۔ پہلا دروازہ کھولا ساری کیبن زنا نہ سوٹوں سے بھری پڑی تھی اس نے دوسرا پٹ کھولا تو سکون ملا اس کے کپڑے سلیقے سے ہینگرز پر لٹکائے رکھے تھے۔ دیگر اشیاء بھی نچلے درازوں میں موجود تھیں جو وہ ساتھ لایا تھا جن میں کچھ تحفے تھے، کتابیں تھیں۔ اس کے روزمرہ استعمال کی کئی دیگر اشیاء تھیں ۔ ایک ترتیب سے سیٹ تھیں۔ وہ جب تک یہاں تھا شلوار قمیص ہی پہنتا تھا مگر جب سے یہاں سے گیا تھا شلوار قمیص کو جیسے ہاتھ لگانا ہی بھول گیا تھا۔ اس نے رات کی مناسبت سے ایک شرٹ اور ٹرائوزر نکال لیا تھا۔ بیگ سے یہ سب سامان الماری تک کیسے پہنچا یہ سوال غور طلب تھا مگر پھر سراج بابا کا سوچ کر مطمئن ہو گیا ۔ کم از کم اسوہ کی جانب سے اسے یہ خوش فہمی کبھی بھی نہیں ہو سکتی تھی۔
کپڑے لے کر باتھ روم میں گھس گیا ۔ کپڑے چینج کر کے آیا تو نظر سیدھی بیڈ پر آ ٹھہری ۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوا تھا تو اسوہ چادر گردن تک اوڑھے سوئی ہوئی تھی۔ اب شاید کروٹ بدلی تھی۔ چادر اب آدھے وجود پر تھی۔ دوپٹہ ندارد تھا۔ جس لباس میں وہ شادی سے لوٹی تھی ابھی بھی اسی میں ملبوس تھی۔ میک اپ کی موجودگی بھی برقرار تھی۔ اس کے کالے سیاہ گھنے لمبے بال سرہانے بیڈ پر بکھرے ایک عجیب سا منظر پیش کر رہے تھے۔ محو خواب چہرہ ہر سو چاندنیاں سی بکھیر رہا تھا۔ چہرے پر سے نظر ہوتی ہوئی اس کے وجود کا طواف کرنے لگی تھی۔ بلو نگینوں سے مرصع سوٹ کی فٹنگ بہت نمایا ں تھی۔ وہ لیٹی بھی کچھ اس طرح سے تھی کہ گلے کی گہرائی اور واضح ہوتے بہت سے چھپے راز کھول رہی تھی۔ وہ نظر ہٹا گیا تھا۔ اسے ہمیشہ سے خود پر بہت کنٹرول تھا۔ اتنا عرصہ ہو گیا تھا ، وہ پہلے اس کے نکاح پھر کمرے میں تھی اس کے باوجود اس کے ہاتھ اس کے وجود تک کے لمس سے محروم تھے۔ جب نکاح میں تھی تب بھی اسے چھونے کی کبھی خواہش ہی نہیں کی تھی اور پھر جب رخصتی ہو گئی تھی وہ مکمل طور پر اس کے اختیار میں تھی تو تب بھی سالک نے اپنے اوپر بہت سی پابندیاں عائد کر لی تھیں۔ رخصتی کے بعد وہ کئی دفعہ اس کے یوں ایزی ہو کر سونے پر جھنجلایا تھا مگر شاید وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی۔ کچھ چچی جان نے نام بھی اپنی صاحبزادی کا چن کر رکھا تھا اسوہ۔ نمونہ مگر نام کے بر عکس بالکل الٹ واقع ہوئی تھی۔ یہاں سے جانے سے پہلے دونوں نے بمشکل ایک ماہ ہی ایک ساتھ گزارا تھا اور وہ اسے چڑانے کو ہر وہ کام کرتی تھی جو سالک کو نا پسند ہو تا تھا۔ تھکن سے برا حال تھا مگر وہ بیڈ کے بالکل درمیان میں تھی۔ کچھ اس کا حلیہ بھی ڈسٹرب کر دینے کو کافی تھا۔ جھنجلاتے ہوئے وہ ڈریسنگ روم کی طرف بڑھا تھا۔ ہینڈل گھمایا مگر دروازہ لاک تھا۔ دوسرا بھی چیک کیا وہ بھی لاک تھا۔ اسے حقیقتاًغصہ آنے لگا ۔ نجانے کس کس پر۔
’’عجیب مصیبت ہے۔‘‘ ایک کاٹ بھری ناپسندیدہ ناگوار سی نظر اسوہ پر ڈالی تھی، جو بے خبر گہری نیند میں غرق تھی۔ کمرے سے باہر بھی نہیں جا سکتا تھا اوپر کمرے تو کافی تھے۔ اب یہ علم نہیں تھا کہ وہ بھی لاک ہیں یا کھلے ہوئے ہیں۔ دوسرے اگر کسی کے علم میں یہ بات آجائے تو نہ جانے کیا ہو۔ وہ وہیں ......صوفے پر گر گیا۔ اور سر ہاتھوں میں تھام لیا۔
’’کیا کیا جائے اب؟‘ پر سوچ نظروں سے بیڈ کو دیکھتے وہ رات گزارنے کا طریقہ سوچنے لگا۔
اسوہ کو اکثر سوتے میں پیاس لگ جاتی تھی۔ حلق خشک سا ہونے لگتا تھا۔ اکثر رات کو وہ اٹھ کر پانی پیتی تھی۔ اس کے لئے وہ ہمیشہ جگ اور گلاس سائیڈ ٹیبل پر ضرور رکھتی تھی۔ رات کا نجانے کونسا پہر تھا اسے حلق میں کانٹے چبھتے محسوس ہوئے ۔ لیٹے لیٹے ہی سائیڈ ٹیبل پر ہاتھ مار کر لیمپ روشن کیا۔ ہلکی مدھم سی روشنی ہر سو پھیل گئی تھی۔ جگ خالی تھا ، رات غصے میں وہ پانی بھرنا بھول گئی تھی۔ شادی میں بھی اس نے کچھ نہیں کھایا تھا گھر آ کر بھی کمرے میں بند ہو گئی تھی۔ سر شام ہی بغیر کپڑے بدلے ایسے لیٹی تھی کہ اب آنکھ کھلی تھی۔ ہلکی مدھم سی روشنی میں رسٹ واچ پر نگاہ کی تو غور کرنے سے اندازہ ہوا ساڑھے تین کا وقت ہو چکا ہے۔ بیڈ سے اترتے ہوئے اس نے بیڈ کی دوسری سائیڈ خالی دیکھی تھی۔ اس کی سوچ کے مطابق اسے کمرے میں ہی ہونا چاہئے تھا مگر ٹو سیٹڈ صوفہ بھی خالی تھا۔ گلاس لے کر وہ آگے بڑھی مدھم روشنی میں زمین پر پڑی کسی چیز سے ٹکرا کر منہ کے بل گری تھی۔ خوف سے ہلکی سی چیخ بھی نکل گئی۔ گلاس ہاتھ سے چھوٹ کر قالین پر گر کر چھنا کے کی آواز سے نہ صرف اس کا دل سہما گیا تھا بلکہ قالین پر لیٹا سالک بھی ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا تھا۔
اسوہ اس کے اوپر بے توازن انداز میں گری تھی۔ تو سالک نے بازوئوں کا سہارا دیا تھا۔
’’کون؟‘‘ اسوہ سرعت سے پیچھے ہٹی تھی مگر اپنا توازن برقرار رکھنے میں ناکام رہی تھی۔
--------------
’’اسوہ.....‘‘ہلکی مدھم روشنی میں سالک اسے پہچان گیا تھا کچھ نا سمجھ و نا سمجھی کی کیفیت لئے دیکھنے لگا۔ پھر ہاتھ بڑھا کر اسوہ کو پیچھے ہٹایا جو اچھی خاصی بے توازن سی تھی۔
’’ یہ کیا تماشا ہے۔‘‘ وہ جھنجلاسا گیا تھا ابھی تو مارے بندھے آنکھ لگی تھی اور اور ابھی ڈسٹرب ہو گیا تھا۔
’’وہ ......میں......پانی .......گلاس........‘‘ وہ بوکھلائی سی ٹھیک سے وضاحت بھی نہ کر سکی۔ سر پیچھے کرنے کی صورت میں ہلکی سی سی بھی لبوں سے آزاد ہو گئی ۔ پیچھے ہٹتے ہوئے اس کا پائوں کسی کانچ پر پڑ گیا تھا۔ وہ سسکاری بھر کر وہیں بیٹھ گئی۔
’’اب کیا ہوا ہے؟‘‘ اپنی نیند کے خراب ہونے اور اسوہ کے یوں ڈسٹرب کرنے نے اسے اچھا خاصا جھنجلا دیا تھا اٹھ کر لائٹس آن کی تھیں مگر جب نظر اس کے خون آلود پائوں پر پڑی تو ٹھٹک گیا۔ اردگرد کانچ بکھرے ہوئے تھے وہ ننگے پائوں تھی۔ کانچ شاید گہرا جا لگا تھا خون بہہ رہا تھا۔
’’یہ کیسے ہوا؟‘‘ وہ اتنا پتھر بھی نہیں تھا ، یہ لڑکی تو اس کے دل میں دھڑکتی تھی۔ سانسوں میں رہتی تھی۔ مثام جاں کو لہکاتی تھی بے اختیارانہ اس کی طرف بڑھا تھا۔
’’اٹھو یہاں سے.......مزید زخمی ہونے کا ارادہ ہے کیا؟‘‘ وہ جو اسے دعویٰ تھا کہ اس کے ہاتھوں نے کبھی اس کے وجود کو نہیں چھوا تھا بے اختیار انداز میں اس کا بازو پکڑے جھنجلائے ہوئے لب و لہجے سے کہتے اسے کھڑا کر رہا تھا۔
’’جو لوگ روح تک زخمی ہوں، انہیں یہ چھوٹے موٹے زخم تکلیف نہیں دیتے۔ آپ رہنے دیں، شکریہ۔‘‘ تلخی سے اپنا بازو سالک کی گرفت سے آزاد کروایا تھا۔ جبکہ چہرہ آنسوئوں سے تر تھا۔ ہونٹوں سے سسکیاں نکل رہی تھیں۔ کھڑا ہونا محال تھا۔
’’تم ......‘‘ سالک نے کچھ کہنا چاہا تھا پھر لب بھینچ لئے ۔ خون تیزی سے بہہ رہا تھا اس وقت اسے فوری ٹریٹمنٹ کی ضرورت تھی۔ مگر وہ کہاں ان باتوں کو سمجھنے والی تھی۔ ضدی و باغی تو شروع سے ہی تھی۔
’’مجھے بھی کوئی ضرورت نہیں ہے ہمدردیاں کرنے کی ، مگر اس وقت خون بہت بہہ رہا ہے۔ ادھر بیٹھو بستر پر ادھرتو ہر طرف کانچ ہی کانچ ہیں۔‘‘ اس کی پروا کئے بغیر اس کی کمر میں بازو ڈال کر اسے اٹھا کر بستر پر لے آیا تھا۔ اسے امید نہیں تھی وہ اتنی جلدی یہ کرے گا۔ چہرہ پھیر گئی تھی ۔ نظریں ملانے کا یارا نہیں تھا۔ کہاں صدیوں کی دوری تھی اور کہاں یہ قربت تھی۔
’’کمرے میں فرسٹ ایڈ باکس تو ہو گا؟‘‘ اسے بستر پر بٹھا کر اس کا پائوں دیکھتے سر اٹھا کر اس کے رخ پھیرے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا تو وہ اسی پوزیشن میں نفی میں سر ہلا گئی۔
’’نیچے کچن میں رائٹ سائیڈز کی کیبن نمبر ۴ میں رکھا ہوا ہے۔‘‘ وہ بمشکل کہہ سکی تھی۔ درد سے برا حال تھا۔ سالک نے کس قدر تشویش سے اسے دیکھا۔ پھر فوراً اٹھا اور باہر نکل گیا ۔ جب واپس لوٹا تو ہاتھ میں فرسٹ ایڈ باکس تھا۔ وہ قالین پر ہی گھٹنوں کے بل بیٹھ کر خاموشی سے روئی اور ڈیٹول سے اس کا پائوں صاف کرنے لگا تھا۔
’’لگتا ہے کانچ گہرا ہے۔‘‘ خون کسی بھی طور پر نہیں رک رہا تھا۔ خود کلامی سا انداز تھا۔ تکلیف سے بے حال ہوتی وہ منہ پر ہاتھ رکھے چیخوں کو دبانے لگی۔ وہ کانچ نکالنے لگا۔
’’نہیں ......پلیز .......‘‘ کانچ نکالتے ہوئے ایکدم اسوہ نے تکلیف سے تڑپ کر اس کا ہاتھ پیچھے ہٹایا۔
’’ڈونٹ وری .......ہلکا سا زخم ہے۔ تھوڑی دیر میں درد ختم ہو جائے گا۔ ‘‘ اس کی سسکیاں اس کے لئے برداشت کرنا مشکل تھا۔ اس کے آنسوئوں سے وہ ہمیشہ ہار جاتا تھا یا شاید یہ اس کی کمزوری تھی وہ کسی کو بھی تکلیف میں یاروتے نہیں دیکھ سکتا تھا پھر یہاں تو معاملہ ہی دل کا تھا۔ وہ کیسے خود پر جب کرتا۔ بہت نرمی سے کہا تھا جبکہ اسوہ بار بار سر نفی میں ہلا رہی تھی۔ کانچ نکلا تو اس کی چیخ نکل گئی۔
’’امی !سی۔‘‘
’’ٹیک اٹ ایزی اسوہ! ابھی مرہم لگے تو ٹھیک ہو جائے گا۔ درد نہیں ہو گا ۔ بلیو می۔‘‘ نجانے وہ کس رو میں کہہ رہا تھا۔ انداز و لہجہ انتہائی نرم و محبت لئے ہوئے تھا مگر درد سے بے حال ہوتی اسوہ کیا خاک غور کرتی۔
ماہر مرہم ساز کی طرح اس نے منٹوں میں اس کے پائوں کی بینڈج کر دی تھی۔ مرہم لگانے سے درد کی شدت میں کچھ کمی آئی تو اسوہ کے آنسو بھی کم ہوئے اور سسکیاں میں بھی کمی آئی۔ وہ ایک نظر بینڈیج کرنے کے بعد اسوہ پر ڈال کر سامان سمیٹتے فرسٹ ایڈ باکس سائیڈ کی دراز میں رکھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔
قالین پر جا بجا چھوٹے بڑے کانچ بکھرے ہوئے تھے۔ وہ ایک ایک کر کے چننے لگا۔ کچھ وقت لگا تھا، پھر کانچ ڈسٹ بن میں ڈال کے وہ کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔ تکئے سے ٹیک لگائے بیٹھی اسوہ نے آنکھیں نیم وا کر کے اسے باہر نکلتے دیکھا تھا پھر ہونٹوں پر زبان پھیرتی ارد گرد دیکھنے لگی ۔ وہ قالین پر ہی لیٹا ہوا تھا۔ یہاں سے جانے سے پہلے بھی وہ اکثر قالین پر سوتا تھا۔ وہ کیوں سوتا ہے وہ بہت کوشش کے کبھی پوچھ نہیں سکی تھی۔ نہ ہی کبھی دل میں ملال جاگا تھا مگر آج اس حادثے نے اس کی سوچ کا رخ بدلا تھا۔
سالک کمرے میں لوٹا تو چھوٹی سی ٹرے میں دودھ کا گلاس تھا اور ساتھ ہی گولیاں تھیں۔