اس نے آٹھ برس بعد اپنی سر زمین پر قدم رکھا تھا۔ پورے آٹھ سال بعد جہاں سے نکلتے ہوئے اس نے سوچا تھا کہ وہ یہاں کبھی بھی پلٹ کر نہیں آئے گا مگر ایک عرصے بعد وہ پھر پلٹ آیا تھا اسی شہر بداماں میں۔ جہاں اس کا وجود زخمی زخمی ہوا تھا۔ روح میں کئی گہرے زخم لگے تھے۔ گھائو ایسے تھے کہ آٹھ سال کا طویل دورانیہ اور تنہائی بھی انہیں مندمل نہ کر سکی تھی۔
اسی زمین میں جہاں وہ نا مہربان وجود رہتا تھا۔ جس نے اس کے وجود سے جان کھینچ لینے کی کبھی کوشش کی تھی۔ اس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی مانگ لی تھی۔ اور وہ تھا کہ صرف اور صرف اس کی خواہش کا احترام کرتے ، اس کی خوشیوں کی خاطر اپنے دل کی پروا کئے بغیر اس کی عمر بھر کی تنہائی اور ہجر سے لپٹی عمر بھر کی قید اپنے حصے میں لکھ دی تھی۔ صرف اور صرف اس کے جذبوں کا احترام کرتے اور اب اگر وہ پلٹا بھی تھا تو صرف اور صرف اس کی خاطر ، ایک دفعہ پھر اپنی روح و جسم کو اذیت کے گہرے سمندر میں دھکیلنے کی خاطر، اپنے وعدے کی پاسداری کی خاطر جو اس نے اس سے کیا تھا۔ اب نہیں جانتا تھا کہ آگے کن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اپنے وعدے کو نبھانے چلا آیا تھا۔ جب محبت کی ہے تو پھر سود وزیاں کا حساب بے کار رہتا ہے۔ یہ حقیقت بہت پہلے اس نے جان لی تھی۔
ٹیکسی سے اتر کر کرایہ ادا کر کے اس نے اپنے اطراف دیکھا۔ یہ وہی گائوں تھا جہاں وہ بڑے فخر ، غرور و شان کے ساتھ کبھی چلتا تھا۔ اور اب یہ وہی علاقہ تھا جو اس نے گزشتہ آٹھ سال سے اپنے لیے شجر ممنوعہ کی طرح بنا رکھا تھا۔ بہت کچھ بدلا تھا۔ مگر سامنے نظر آنے والی حویلی اسی شان و شوکت کے ساتھ اپنی جگہ پر کھڑی تھی جیسا کہ وہ آٹھ سال پہلے چھوڑ کر گیا تھا ۔
گیٹ پر دستک دیتے ہوئے اسے چاچا جانی اور بی بی جان کا خیال آ رہا تھا۔ اسے یوں اپنے سامنے دیکھ کر نہ جانے ان کی کیا کیفیت ہو۔ وہ کچھ بھی اندازہ نہیں کر پا رہا تھا۔
’’جی صاحب.....کس سے ملنا ہے؟‘‘ ایک نوجوان سا لڑکا پوچھ رہا تھا ۔ بلکہ سر سے پائوں تک جائزہ بھی لے ڈالا تھا۔ سالک نے اپنا بیگ زمین پر رکھا۔
’’مجھے قمرالزمان صاحب سے ملنا ہے۔ بہت دور سے آیا ہوں۔‘‘
’’جی مگر وہ اس وقت کسی سے نہیں ملتے۔ اگر آپ نام بتا دیں تو سہولت رہے گی۔ ورنہ آپ کو انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘ ملازم نے ادب سے بتایا تھا شاید وہ اس کے حلیے سے متاثر ہوا تھا۔
’’میں ان کا بھتیجا سالک ہوں۔ انیس الزمان کا بیٹا۔‘‘ اس نے اپنا حوالہ دیا تھا۔ ملازم کی آنکھوں میں ایک دم حیرت سمٹ آئی تھی۔ بغور دیکھا تھا پھر بوکھلا گیا۔
’’سلام سرکار ......معاف کیجئے ، مجھے علم نہیں ، نیا آیا ہوں نا......مگر بڑے سرکار سے اکثر آپ کا نام سنا ہے۔ آپ چھوٹی بی بی کے شوہر ہیں نا......‘‘ وہ فوراً احترام بجا لایا تھا۔ زمین پر پڑا اس کا بیگ اٹھا لیا تھا۔ پہلے ہی موڑ پر اسے چھوٹی بی بی کا حوالہ بہت ناگوار گزرا تھا۔
’’آئیں......سرکار......آئیں......‘‘ وہ اندر بڑھ گیا تھا۔ ملازم پیچھے پیچھے چلنے لگا تھا۔ یہ وسیع و عریض آسائشات کی حامل کوٹھی اندر سے بھی ویسی ہی تھی جیسی وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ اندر آنے کے بعد سب سے پہلے اس کا سامنا سراج بابا سے ہوا تھا۔
’’سالک بیٹا.....!‘‘ بابا اپنی جگہ ساکن ہو گئے تھے۔
’’السلام علیکم۔‘‘
’’وعلیکم السلام......تم سالک ہو نا......واقعی میری آنکھیں سچ دیکھ رہی ہیں نا.......یہ تم ہی ہونا ......‘‘ بابا اسے یوں برسوں بعد سامنے دیکھ کر بد حواس سے ہو گئے تھے۔ وہ مسکرا دیا۔
’’یہ میں ہی ہوں بابا......سالک ! بد نصیب......‘‘ آخری لفظ اس نے اس قدر آہستگی سے کہا تھا کہ بابا کو سنائی نہیں دیا تھا۔ وہ بس خوش تھے اسے اپنے سامنے دیکھ کر۔
’’میں بڑے سرکار کو بتاتا ہوں۔‘‘ بابا سراج فوراً اندر بڑھ گئے تھے۔ وہ بھی ان کے پیچھے ہی قدم بڑھانے لگا تھا۔
’’کیا کہہ رہے ہو تم......سالک آ گیا ......سالک.......‘‘ سراج بابا کی طرح چاچا جانی بھی شاکڈ تھے۔ وہ دروازے پر ہی رک گیا۔
’’چاچا جانی.......‘‘ اس کے ہونٹ نیم وا ہوئے تھے۔ وہ دروازے پر ہی رک گیا۔
پھر آگے بڑھ آئے تھے۔ دونوں بازوئوں میں سمیٹ لیاتھا۔
’’سالک ......بیٹا......میری جان ، تو کہاں تھا؟ اتنے برسوں تڑپایا ہمیں ، ہم ترس گئے تھے تمہاری صورت کو......تمہارے وجود کو ،کوئی یوں بھی کرتا ہے۔ مانا ہم نے جبر کیا تھا مگر تم نے بھی تو حد کر دی۔
سالوں کی دوری حائل کر دی اپنے اور ہمارے درمیان کچھ نہ سوچا......ہم کیسے جئیں گے، کیسے رہیں گے۔‘‘ وہ رو رہے تھے کہے جا رہے تھے۔ وہ بس ان کے سینے سے لگا اپنی اور ان کی برسوں کی پیاس بجھا رہا تھا۔ وہ بھی مرا تھا، ان کے بغیرایک ایک پل جان کنی کے عمل سے گزرا تھا۔ کیسے بتا دیتا یہ سزا تو مقدر میں تھی اور نجانے کب تک رہے جو خود اس کی اپنی منتخب کردہ تھی۔
’’کہاں تھا تو.......؟ نیو یارک میں تو نہیں تھا ، پھر کہاں چلا گیا تھا.......‘‘ وہ پوچھ رہے تھے۔ سراج بابا اپنی آنکھیں صاف کرتے باہر نکل گئے تھے۔ وہ چاچا کو دیکھنے لگا ۔ کتنے نڈھال اور ضعیف ہو گئے تھے وہ۔ پہلے والا دم خم نہیں رہا تھا ۔ اس نے انہیں بستر پر بٹھایا۔
’’میں یہاں سے جانے کے صرف ایک دو ماہ بعد ہی نیو یارک سے واشنگٹن شفٹ ہو گیا تھا اور پھر وہاں سے انگلینڈ اور انگلینڈ سے جرمنی چلا گیا تھا۔‘‘ سہولت سے بیٹھ کر بتانے لگاتھا۔
’’اور اتنے برسوں میں ایک دفعہ بھی خیال نہ آیا کہ یہاں ہم پر کیا گزری ؟ تمہارا یوں لا پتا ہو جانا ہمیں کس درد سے دو چار کر گیا تھا۔ تمہاری ماں کیسے کیسے نہیں روئی......تمہاری چچی ، اور اسوہ نے تمہیں کتنا یاد کیا ہے۔‘‘ وہ ابھی بھی غمزدہ تھے۔ وہ سر جھکائے بیٹھا رہا۔ اس دوران سراج بابا ٹرالی سجائے اندر داخل ہوئے تو وہ حیران ہوا۔ اس کے خیال میں اس کی آمد کی خبر سراج بابا نے تقریباً سب کو دے دی ہو گی مگر کوئی بھی نہیں آیا تھا خاص طور پر بی بی جان اور چاچی۔
’’بی بی جان ور چاچی جان کہاں ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا تھا۔ اسوہ کا نام لینے میں احتیاط ہی برتی۔
’’برادری میں ایک شادی ہے ، اسوہ اور وہ دونوں وہیں گئی ہیں۔ میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی گھر پر ہی رہ گیا تھا۔‘‘ اس نے سر ہلایا۔
’’سالک بیٹے فریش ہو لو......پھر کچھ کھا پی لو۔‘‘ سراج بابا نے کہا تو وہ سر ہلا کر اٹھ گیا۔
چاچا کے روم میں ہی اس نے منہ ہاتھ دھو لیا تھا۔ ملازم اس کا بیگ بھی یہیں رکھ گیا تھا۔ کپڑے نکال کر بدلے اور پھر چاچا جانی کے ساتھ ہی کھانے لگا۔ کھانے کے دوران وہ اس سے گزرے ماہ و سال کے متعلق ہی پوچھتے رہے تھے۔ وہ اپنی طرف سے ان کو تسلی بخش جواب دیتا رہا تھا۔
’’تم آرام کر لو .....نیو یارک سے پاکستان کی فلائٹ بہت تھکن زدہ کر دیتی ہے۔ اوپر سے یہاں گائوں میں آنا۔‘‘ وہ کافی تھک چکا تھا اور چاچا نے اس کے چہرے سے اندازہ بھی لگا لیا۔ سو اسے نصیحت کرتے کمرے سے نکل گئے تھے۔ وہ ان کے بیڈ پر ہی لیٹ گیا۔ جرمنی سے وہ تین دن پہلے ہی نیویارک پہنچا تھا۔ کامران کے فون کی وجہ سے کہ اتنے سالوں بعد اس کے گائوں سے اس کے نام کوئی خط آیا ہے۔ شروع کے دو سالوں تک تو خوب رابطہ ہوا تھا اسے ہر جگہ تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تھی، خاص طور پر کامران بیچارہ اس سلسلے میں کافی پریشان بھی رہا تھا مگر پھر رفتہ رفتہ اس کی تلاش کی کوششیں سرد پڑ گئی تھیں۔ برسوں بعد اس کے نام کوئی خط آیا تھا۔ وہ خود بھی حیران تھا۔ اس کا پتا یا موبائل نمبر کا صرف کامران کو علم تھا سو وہ پہلے نیو یارک پہنچا تھا۔ خط اسوہ کی جانب سے ہی لگا گیا تھا۔ آٹھ سال پہلے کئے گئے وعدے کی یاد دہانی کرائی گئی تھی مگر وہ بھی اس شرط پر کہ وہ روبرو آ کر کوئی فیصلہ کرے۔ چاہتا تو کبھی وعدہ نہ نبھاتا اس کی خواہش کے احترام میں وہیں بیٹھے بیٹھے آدھا وعدہ پورا کر دیتا اور اس کی خواہش پوری کر دیتا مگر اس کی شرط بھی وہ ٹال نہیں سکا تھا۔ جب بچھڑنا طے ہے تو پھر ایک دفعہ رو برو ہونے میں کیا حرج ہے یا شاید وہ اپنے ضبط و محبت کی انتہا دیکھنا چاہتا تھا۔ اور اس کا لکھا خط بھی کیا تھا صرف چند الفاظ تھے۔
’’سالک!
میں آپ کے فیصلے کی منتظر ہوں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ آپ اپنا وعدہ نبھائیے مگر ایک شرط ہے سب کچھ رو برو طے ہو۔
اسوہ۔‘‘
اور یہ چند الفاظ اس کی ذات کو کس طرح ادھیڑ گئے تھے یہ صرف وہی جانتا تھا۔ اور اب وہ یہاں تھا اس گھر میں جہاں اس نے اپنی عمر کے کئی حسین دور گزارے تھے۔ وہ انہی باتوں میں الجھا ہوا تھا جب نیند کی دیوی نے اسے آ لیا تھا۔
سراج بابا نے اسے اٹھایا تو وہ باہر نکل آیا۔ ساری حویلی دیکھ ڈالی تھی۔ چاچا جانی باہر جاگیر کے معاملات دیکھنے چلے گئے تھے۔ سراج بابا کو چائے کا کہہ کر وہ لائبریری میں چلا آیا تھا۔ اس لائبریری میں اس کے ذوق وشوق کی سب کتابیں موجود تھیں۔ وہ پڑھ رہا تھا جب باہر جیپ رکنے کی آواز پر ٹھٹک گیا تھا۔ شام کے سائے گہرے ہو گئے تھے۔ چاچا جانی کے علاوہ اس کی ابھی کسی اور سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ اٹھ کر کھڑکی کے پاس آ گیا۔ ڈرائیور گاڑی کے دروازے کھول رہاتھا۔ سالک کا دل اس کی کنپٹیوں میں دھڑکنے لگا تھا۔ بی بی جان ، چاچی جان اور اسوہ گاڑی سے اتری تھیں۔ دل چاہ رہا تھا کہ اڑ کر جائے اور بی بی جان کے قدموں میں جھک جائے۔دیار غیر میں کس قدر یاد آئی تھیں وہ ہر پل ، ہر لمحہ، ان کی شفیق و مہربان مامتا بھری گود کی گرمی اسے اذیت کی بھٹی میں جھلسانے لگتی تھی مگر وہ مجبور تھا۔ اپنے دل کے ہاتھوں ، اور اب .....وہ دروازے کے قریب آ کھڑا ہوا ۔ اوپری منزل پر واقع یہ لائبریری نیچے کا سارا منظر واضح کر دیتی تھی۔ بی بی جان ، چچی جان اور اسوہ تینوں صوفوں پرآ کر گر گئی تھیں۔ وہ برسوں بعد انہیں دیکھ رہا تھا عجیب لگ رہا تھا۔
’’سراج بابا......بابا جانی کہاں ہیں؟‘‘ چادر اتارنے کے بعد اسوہ نے پوچھا تھا۔
’’چھوٹی بی بی ! وہ زمینوں پر گئے ہیں۔ کہہ گئے تھے کہ وہ تھوڑی دیر میں لوٹ آئیں گے۔ ‘‘ بابا نے بتایا تھا۔ وہ کمرے سے نکل آیا۔ اب سالک کا رخ نیچے کی جانب تھا۔
’’کیا بات ہے بابا ، بہت خوش ہیں؟‘‘ اسوہ بابا کو مسلسل مسکراتے دیکھ کر پوچھ رہی تھی۔ بی بی جان اور چچی جان بھی متوجہ تھیں۔
’’ جی چھوٹی بی بی ، بات ہی کچھ ایسی ہے۔ آپ بھی سنیں تو حیران ہو ں گی۔ آج برسوں بعد اس حویلی کی خوشیاں لوٹ آئی ہیں۔‘‘ سالک سیڑھیاں اترنے لگا تھا۔
’’ایسی بھی کیا خوشی آ گئی؟ کچھ بتائو تو سہی.......‘‘ بی بی جان نے بھی پوچھا تھا۔
اسوہ چادر اتار کر صوفے کی پشت پر ڈال کر اپنے گھنے آبشار ایسے کھلے بالوں کو آگے کر کے انگلیاں پھیر رہی تھی جبکہ بلا ارادہ ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے اس کی نظر سیڑھیاں اترتے سالک پر ٹھہری تو ایکدم اٹھ کھڑی ہوئی ۔ لمحوں میں بد حواس ہوئی تھی جبکہ باقی لوگ اس طرف متوجہ نہیں تھے سوائے سراج بابا کے ۔
’’سالک بیٹا آئے ہیں، وہ دیکھیں بڑی سرکار۔‘‘ وہ ان تک پہنچ گیا تھا۔
جب بابانے اس کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے انکشاف کیا تھا۔ بی بی جان اور چچی جان بھی ایک دم پلٹی تھیں اور اسوہ کا تو کاٹو تو بدن میں خون نہیں والا حال تھا۔
’’السلام علیکم بی بی جان.......‘‘ وہ والہانہ انداز سے ان کی طرف بڑھا تھا۔ اسوہ اپنی جگہ حیران و ساکت تھی۔ ابھی اسے دن ہی کتنے ہوئے تھے خط لکھے ہوئے اور اتنی جلدی وہ روبرو تھا۔ اس کی حیرانگی کے بر عکس چچی جان اور بی بی جان حیران تھیں۔
’’تم سالک ، تم آ گئے بچے! کہاں چلے گئے تھے۔ اتنے سال گزار دیئے ۔ کتنے ظالم تھے تم .....ماں کے ضبط کو آزماتے رہے، کہاں تھے؟ بولو سالک ......میرے بچے۔‘‘ بی بی جان اسے بازوئوں میں لئے گرمجوشی سے روتی بے قرار ہو رہی تھیں۔ وہ بمشکل مسکرا سکا تھا۔ ایک نگاہ غلط اسوہ پر اٹھ گئی تھی جو اس سچوایشن اور اس کی آمد پر حیران ہوتی اپنے ہاتھ مسل رہی تھی اور ہونٹ کاٹ رہی تھی۔
’’السلام علیکم چچی جان کیسی ہیںآپ؟‘‘ بی بی جان سے جدا ہو کر وہ چچی جان کی طرف بڑھ گیا تھا۔
’’ہمارا ضبط آزما کے پوچھتے ہو کہ کیسے ہیں.....جی رہے ہیں۔‘‘ وہ آبدیدہ ہو گئی تھیں۔ اس کا چہرہ ہاتھوں میں چھپائے پیشانی چومتے کہہ رہی تھیں۔ وہ شرمندہ سا ہو گیا۔ جانتا تھا یہ شکوے ، یہ شکایتیں بر حق تھیں۔
’’کب آئے.....؟‘‘ صوفے پر بیٹھتے ہوئے وہ پوچھ رہی تھیں۔ وہ بھی بی بی جان کو سہارا دیئے ان کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا جبکہ اسوہ ابھی بھی کھڑی تھی۔ اسی طرح ساکت و صامت۔
’’آج دوپہر کو.....‘‘ مختصر بتایا پھر ایک نظر اسوہ پر پڑ گئی۔ وہ یہاں سے جانے کو پر تول رہی تھی۔
’’یہ اسوہ ہے، جانتے ہو نا یا اسے بھی بھول گئے ہو۔ ماں چچا اور چچی کی طرح۔‘‘ بی بی جان نے اسے ایک دم کٹہرے میں لا کھڑا کیا تھا۔ گویا دونوں کی جان مشکل میں ڈال گئی تھیں۔ وہ ہنس دیا تھا۔ ایک عجیب سی نظر اس وجود پر ڈالی جو سر جھکائے کھڑی تھی۔ کتنی بدل گئی تھی وہ۔ جب وہ یایہاں سے گیا تھا تو بالکل مختلف تھی۔ اب سنجیدہ سی ، خوبصورتی کے سب پیمانوں پر پورا اترتی ، چند لمحوں کو اس کی توجہ سمیٹ گئی تھی۔ اس نے ایک گہری نظر اس کے سراپے پر ڈالی تھی۔