الطاف حسین حالیؔ ۱۸۳۷ء میں پانی پت (ہریانہ) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پانی پت میں ہی حاصل کی۔ کم عمری میں ہی اُن کی شادی ہو گئی، لیکن اُن میں علم حاصل کرنے کا جوش اور جذبہ تھا۔ اس لیے وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چپ چاپ دہلی آ گئے ، اور یہاں اپنی تعلیم کی کمی کو پورا کرنے لگے۔ اپنی ذاتی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے انھوں نے اردو کے مشہور شاعر اور جہاں گیر آباد (بلند شہر) کے رئیس نواب مصطفی خاں شیفتہؔ کے یہاں نوکری کر لی۔ شیفتہؔ بہت با ذوق آدمی تھے۔ شاعر کے ساتھ ساتھ تذکرہ نگار بھی تھے۔ اُن کے تذکرے کا نام ’’گلشن بے خار‘‘ ہے ، اور اردو شاعروں کے تذکروں میں بہت اہم مقام رکھتا ہے۔ ان کی صحبت نے حالیؔ کے شعری ذوق کو نکھارنے میں بہت اہم رول ادا کیا۔ شاعری میں انھوں نے غالبؔ سے اصلاح لینی شروع کی۔ یہ زمانہ 1854-55 تک اور دوسری مرتبہ 1862 سے 1869 تک کا تھا۔ اس کے بعد پنجاب گورنمنٹ بک ڈپو، لاہور میں مترجم کی جگہ پر اُن کا تقرر ہو گیا۔ یہاں وہ لگ بھگ چارسال رہے۔ یہاں کا ماحول اور فضا حالیؔ کو بالکل راس نہیں آئے۔ اُن کی صحت خراب رہنے لگی۔ اسی دوران انھیں اینگلو عربک اسکول دہلی میں عربی میں پڑھانے کا موقع ملا اور وہ عربی کے استاد کی حیثیت سے دہلی واپس آ گئے (1875)۔ جنوری 1887 میں حالیؔ کو ایچی سن کالج لاہور کے سربراہ کی طرف سے سپرنٹنڈنٹ کی جگہ کی پیش کش ہوئی۔ یہ پیش کش انھوں نے قبول کر لی، لیکن ایک بار پھر لاہور میں اُن کی صحت بگڑنے لگی اور چھ مہینے کے اندر ہی انھوں نے اس ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ جون 1887 میں وہ اینگلو عربک اسکول دہلی میں اپنی پرانی ملازمت پر واپس آ گئے۔ 1888 میں ریاست حیدرآباد سے انھیں پچھتّر روپے ماہانہ وظیفہ ملنے لگا۔ اس لیے انھوں نے یہ ملازمت بھی ترک کر دی اور پانی پت واپس چلے گئے۔ تین سال بعد 1891 میں یہ وظیفہ سو روپے کر دیا گیا جو انھیں تا حیات ملتا رہا اور وہ انتہائی سکون و اطمینان سے اپنے وطن پانی پت میں علمی و ادبی خدمات انجام دیتے رہے۔