سادگی کا ذکر کرتے ہوئے حالیؔ لکھتے ہیں :
’’ہمارے نزدیک ایسی سادگی پر جو سخافت و رکاکت کے درجے کو پہنچ جائے سادگی کا اطلاق کرنا گویا سادگی کا نام بدنام کرنا ہے۔ ایسے کلام کو سادہ نہیں بلکہ عامیانہ کلام کہا جائے گا، لیکن ایسا کلام جو اعلیٰ و اوسط درجے کے آدمیوں کے نزدیک سادہ اور سمپل ہو اور ادنیٰ درجے کے لوگ اس کی اصل خوبی سمجھنے سے قاصر ہوں ایسے کلام کو سادگی کی حد میں داخل رکھنا چاہیے۔ ‘‘
آگے چل کر وہ اس کی مزید وضاحت کرتے ہیں :
’’ہمارے نزدیک کلام کی سادگی کا معیار یہ ہونا چاہیے کہ خیال کیسا ہی بلند اور دقیق ہو مگر پیچیدہ اور ناہموار نہ ہو اور الفاظ جہاں تک ممکن ہو تحاور اور روزمرہ کی بول چال کے قریب قریب ہوں۔ جس قدر شعر کی ترکیب معمولی بول چال سے بعید ہو گی اُسی قدر سادگی کے زیور سے معطل سمجھی جائے گی۔ ‘‘