رومانہ وقت کے ساتھ ساتھ کافی سمجھدار ہوگئی تھی مگر اسکو اک بات کھٹکتی تھی کہ اسکے بابا کا نام تو اصغر ہے پھر اسکی کتابوں اور کاپیوں پہ رومانہ شاہ میر کیوں لکھا ہوتا ہے۔۔۔؟ اک روز اس نے اصغر سے یہ سوال کر ہی لیا۔۔۔۔
بابا آپ سے اک بات پوچھوں۔۔؟؟؟
ہاں پوچھو گڑیا۔۔۔۔اصغر نے کہا
بابا آپکا نام تو اصغر ہے پھر یہ میرے نام کے آگے ہر جگہ شاہ میر کیوں لکھا ہوتا ہے۔۔؟؟؟؟
اصغر کو معلوم تھا کہ رومانہ کو کبھی نہ کبھی تو بتانا ہی ہے مگر وہ اس وقت چوتھی کلاس میں تھی اور چھوٹی بھی تھی اسکے ذہن میں کہیں کوئی ایسی بات نہ بیٹھ جائے ان دونوں کے لیے تو اس نے اس وقت کچھ بتانا مناسب نا سمجھا اور اسکو یہ کہہ کر ٹال دیا۔۔۔۔ "میری گڑیا ابھی تم صرف اپنی پڑھائی پہ دھیان دو اتنا مت سوچو۔۔۔۔" رومانہ کےاندر ضد نہیں تھی سو وہ اس وقت چپ ہوگئی مگر اسکو اس سوال کا جواب جاننا تھا۔۔۔۔ وہ خود ہی یہ سوچتی کیا میں انکی سگھی اولاد نہیں ہوں۔۔۔؟؟؟ لیکن اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگ مجھے اتنا پڑھاتے لکھاتے کیوں۔۔؟ میرا اتنا خیال کیوں کرتے؟؟ مجھ سے اتنی محبت کیوں کرتے۔۔؟؟؟اس طرح کے کئی سوال اسکے ذہن میں آتے مگر کوئی جواب اسکو نا ملتا۔۔۔۔۔ مگر اک روز اسکو اپنے ان سارے سوالوں کا جواب مل گیا۔۔۔۔
اک دن وہ اسکول سے گھر واپس آئی تو اسکی ماں کے کمرے سے اصغر کی آواز آرہی تھی وہ خوش بھی ہوئی اور حیران بھی کہ آج بابا گھر میں ہیں
وہ جلدی سے اپنا بیگ اسٹور میں رکھ کر آئی کہ بابا سے باتیں کرے گی مگر اندر سے آتی آواز نے اس کے قدم باہر ہی روک دیے۔۔۔۔۔
سکھی۔۔۔ کئی سال ہوگئے میں کب سے اک بات کہنا چاہتا تھا مگر فرصت ہی نا ملی۔۔۔۔اصغر نے اپنی بیوی سکینہ سے کہا وہ اسکو سکھی کہتا تھا۔۔۔۔
وہ کیا۔۔۔؟؟؟ سکھی نے پوچھا۔۔۔
شاہ میر صاحب کتنے ہی برے کیوں نا سہی مگر انہوں نے رومانہ کو ہمیں دے کر کتنا بڑا احسان کیا ہم پہ دیکھو کتنی مکمل سی ہوگئی ہے نا زندگی ہماری۔۔۔۔اصغر نے کہا۔۔۔۔
ہاں یہ تو ٹھیک کہا تو نے اصغر۔۔۔ مگر میں نا اک بات سوچتی ہوں کہ شاہ میر صاحب کی بیگم روشانے بی بی ان کا کیا حال ہوا ہوگا وہ بےچاری کیسے رہی ہونگی اپنی بچی کے بغیر اور اب پتہ نہیں کہاں ہونگی۔۔۔؟؟؟ سکھی نے افسوس سے کہا
ہاں۔۔۔ مگر پتہ نہیں وہ کیوں ایسے اپنی بچی ہمارے حوالے کر کے گئے تھے ہم تو نوکر ذات پوچھ بھی نہیں سکتے تھے کہ کیا بات ہے کیوں کررہے ہیں ایسا۔۔۔۔ روشانے بی بی نے تو نہیں کہا ہوگا انکی تو پہلی ہی اولاد تھی اور کوئی بھی ماں اپنی اولاد تو کسی کے بھی حوالے نہیں کرتی۔۔۔۔ پتہ نہیں کیا بات تھی ایسی۔۔۔؟؟؟ اصغر نے بھی کچھ افسوس سے سوچتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
اور باہر کھڑی رومانہ دم بخود ساری باتیں سن رہی تھی اسکو سب معلوم ہوگیا تھا کہ وہ انکی اپنی اولاد نہیں ہے اور اسکے ماں باپ کون ہیں اور ماں کے ساتھ اسکے باپ نے ظلم کیا تھا۔۔۔۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔۔۔۔
اصغر کسی کام سے باہر آنے کے لیے اٹھا اور دروازہ کھولا باہر کھڑی رومانہ کو دیکھ کر وہ اک دم گھبرا گیا رومانہ رورہی تھی اسنے اک نظر اصغر کو دیکھا اور دوسرے کمرے میں بھاگ گئی، اصغر پریشان سا واپس اسی کمرے میں آیا اور اپنی بیوی سے کہا
سکھی رومانہ نے سب سن لیا اب کیا ہوگا۔۔۔؟؟؟
سکھی بھی پریشان ہوگئی پھر کہنے لگی تم جاؤ اسکے پاس دیکھو کیا کہتی ہے اصغر نے سر ہاں میں ہلادیا اور رومانہ کے پاس چلا آیا اس کمرے میں آکر دیکھا تو رومانہ گھٹنوں میں سر دئیے رورہی تھی اصغر نے اسکے پاس بیٹھتے ہوئے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا اور کہا مجھے معاف کردینا میری بچی میں تمہیں سچ بتادیتا مگر بس اس بات سے ڈرتا تھا کہ سچ جاننے کے بعد تم ہمارے بارے میں اور اپنے سگھے ماں باپ کے بارے میں کیا سوچو گی مگر آج تم نے خود ہی سب سن لیا۔۔۔۔۔
رومانہ نے روتے ہوئے سر اٹھایا اور کہا۔۔۔ "بابا میں اتنا تو جانتی ہی تھی کہ آپ دونوں میرے سگھے ماں باپ نہیں ہیں مگر مجھے آپ دونوں کی محبت اور خلوص پہ کبھی شک بھی نہیں تھا آپ دونوں نے مجھے میرے سگھے ماں باپ سے بڑھ کے پیار دیا ہے بابا مجھے اس بات پہ رونا نہیں آرہا کہ آپ نے مجھے سچ کیوں نہیں بتایا مجھے افسوس اس بات پہ ہے کہ میرے باپ نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا۔۔۔؟؟؟ اصغر کی بھی آنکھیں نم ہوگئیں اور اس نے اپنی بیٹی کو گلے سے لگالیا۔۔۔۔سکھی بھی اٹھ کر آگئی تھی وہ بھی اسکے پاس ہی بیٹھ گئی اور اسکو پیار کرنے لگی۔۔۔۔ رومانہ اصغر سے الگ ہوتے ہوئے پوچھنے لگی بابا اک بات بتائیں میرا باپ شاہ میر کیسا آدمی تھا؟؟؟ اور میری ماں کہاں ہے؟؟؟
اصغر اور سکھی دونوں اک دوسرے کو دیکھنے لگے کہ شاہ میر کے بارے میں کیا کیا بتائیں کہ وہ کیسا انسان تھا۔۔۔۔؟؟؟؟
رومانہ کے بہت اصرار پہ اصغر نے اسکو شاہ میر کے بارے میں بتادیا۔۔۔۔
بابا کیا آپ کے پاس میرے ماں باپ کی کوئی تصویر ہے ؟؟؟ رومانہ نے اصغر سے پوچھا۔۔۔۔
بیٹا شاہ میر صاحب کی تو ہے مگر روشانے بی بی کی نہیں ہے روکو میں صاحب کی لاتا ہوں۔۔۔ اصغر نے کہا اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد اک تصویر اٹھا کر لے آیا وہ پاس پورٹ سائز تصویر تھی۔۔۔۔ رومانہ نے اسکو دیکھا تو اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے اور شکر ادا کرنے لگی اصغر نے اس سے پوچھا کیا ہوا بیٹا۔۔۔؟؟؟
بابا میں شکر ادا کرتی ہوں اللّٰہ کا کہ میں اپنے سگے باپ کے ہاتھوں نہیں پلی بڑھی ورنہ پتہ نہیں وہ میرے ساتھ اور کیا سلوک کرتے۔۔۔!! سکھی اور اصغر دونوں اک دوسرے کو دیکھنے لگے اور اسکو اپنے ساتھ لگالیا اس نے دونوں کو باری باری پیار کیا اور کہا امی بابا آئی لو یو میں سچ میں آپ دونوں سے بہت پیار کرتی ہوں آپ دونوں جیسا کوئی نہیں ہے۔۔۔۔۔ ان دونوں کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں اور وہ بھی اسکو پیار کرنے لگے۔۔۔
وقت گزرتا رہا رومانہ نے میٹرک کرلیا وہ آگے پڑھنا چاہتی تھی اور اس پہ اصغر اور سکھی کو کوئی اعتراض بھی نہیں تھا وہ دونوں کماتے ہی اسکے لیے تھے رومانہ بہت خوش تھی کہ وہ اب کالج جائے گی مگر اس دوران قسمت کی ستم ظریفی یہ ہوئی کہ اصغر کی نوکری ختم ہوگئی وہ جہاں نوکری کرتا تھا وہ لوگ شہر چھوڑ کر جارہے تھے اور اصغر کو کہہ دیا کہ کہیں اور نوکری ڈھونڈ لو اب اتنی جلدی نوکری ڈھونڈنا بھی آسان نہیں تھا خیر وہ پریشان سا گھر لوٹ آیا سکھی اور رومانہ کو پتہ چلا تو انکو بھی بہت افسوس ہوا۔۔۔۔ سکھی تو دو گھروں کا ہی کام کرتی تھی اور اسکی تنخواہ بھی اتنی نا تھی کہ رومانہ آگے پڑھ سکے اسکو بہت افسوس تھا کہ رومانہ کی پڑھائی چھوٹ جائے گی مگر رومانہ بہت صبر والی لڑکی تھی اسنے ان دونوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا کوئی بات نہیں امی بابا اگر میں ابھی نہیں پڑھ سکوں گی تو پھر پڑھ لوں گی میں اب امی کے ساتھ کام پہ جایا کروں گی اس طرح ڈبل تنخواہ مل جایا کرے گی اور آگے کام کے لیے گھر بھی مل جائیں گے۔۔۔
اصغر اور سکھی اس بات پہ راضی نہیں تھے کہ انکی بیٹی گھروں میں کام کرے مگر اسنے ان دونوں کو منا ہی لیا اور وہ دونوں اسکی بات مان گئے۔۔۔۔ اگلے دن سے رومانہ بھی اپنی ماں کے ساتھ کام پہ چلی گئی سکھی نے اپنی دونوں مالکن سے کہہ دیا تھا کہ باجی کوئی گھر ہو تو بتادینا میری بچی کام کرے گی، اس کی مالکن نے جب رومانہ کو دیکھا تو کہنے لگی کہ سکھی اتنی خوبصورت ہے تمہاری بیٹی تم اسکو گھروں میں کام کیوں کروارہی ہو؟؟
وہ اس گھر میں نئی کام پہ لگی تھی اسلیے اسکی مالکن نہیں جانتی تھی ورنہ پرانے گھر کی مالکن کو سب پتہ تھا کہ رومانہ اسکی بیٹی نہیں ہے تو اسنے نئی مالکن کو بھی سب بتادیا تھا۔۔۔۔۔ اس مالکن نے کہا اچھا چلو سہی ہے کوئی کام کے لیے گھر ہوا تو بتادوں گی
کچھ روز بعد اسکی نئی مالکن نے کہا
سکھی تمہاری بیٹی کے لیے اک گھر ملا ہے کام کے لیے کام بھی زیادہ نہیں ہے اور تنخواہ بھی اچھی ہے بس دو میاں بیوی اور اک بیٹا ہے گھر بھی چھوٹا ہے سکھی نے رومانہ کو کہا تو وہ راضی ہوگئی، سکھی اپنے کام سے فارغ ہوکر اپنی مالکن کے ساتھ ادھر گئی، تین کمروں پہ مشتمل وہ چھوٹا سا گھر تھا،انکے گھر اک کام والی آتی تھی وہ دونوں میاں بیوی بوڑھے تھے تو انکو اپنے خیال رکھنے کے لیے اک ملازمہ کی ضرورت تھی جو انکے پاس شام سے رات تک رہے مگر سکھی کو رات تک رکنے پہ اعتراض تھا اور رومانہ بھی نہیں مان رہی تھی وہ بس دن ہی دن میں کام ختم کرنا چاہتی تھی، انہوں نے انکار کردیا اور واپس آگئے
اس نئی مالکن کے دوبچے تھے اور شوہر صبح کام پہ جاتا اور شام کو گھر واپس آجاتا تھا، اور گھنٹہ دو گھنٹہ گھر گزارنے کے بعد وہ باہر چلا جاتا اور رات کو دیر سے آتا۔۔۔۔۔۔ رومانہ کو ابھی تک کوئی گھر نہیں ملا تھا اس نئی مالکن نے اسکی تنخواہ تھوڑی بڑھادی تھی۔۔۔۔ اک روز اسکے شوہر کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی وہ گھر پہ تھا مالکن کسی کام سے مارکیٹ گئی ہوئی تھی سکھی اور رومانہ کچن میں برتن دھو رہی تھیں کہ مالکن کا شوہر کچن میں چلا آیا کھانے کا پوچھنے کے لیے۔۔۔ کچن میں اسکی نظر رومانہ پہ پڑی۔۔۔۔ وہ سکھی کو تو جانتا تھا مگر رومانہ کو پہلی دفعہ دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں میں اک عجیب سی چمک تھی
وہ کچن سے کچھ سوچتا ہوا واپس کمرے میں چلا آیا پھر جب اسکی بیوی مارکیٹ سے واپس آگئی تو اس نے باتوں باتوں میں رومانہ کے بارے میں پوچھا
یہ سکھی کے ساتھ لڑکی کون ہے میں نے پہلی دفعہ دیکھا ہے اسکو یہاں؟؟؟؟
وہ سکھی کی بیٹی ہے کام کی تلاش ہے دن ہی دن کا کام چاہتی ہے میں نے اک گھر کا بتایا تھا مگر وہاں رات تک رکنا تھا تو ان دونوں نے منع کردیا اب تک تو بیچاری کو کوئی کام نہیں ملا آگے۔۔۔ اسکی بیوی نے جواب دیا۔۔۔
اسکے شوہر نے جب یہ سنا تو اسکے دماغ میں اک خیال آیا اس نے اپنی بیوی سے کہا
"اسکو کام کی تلاش ہے تو اک گھر ہے اگر یہ کہے تو میں لے جاؤں گا وہاں۔۔۔۔
اچھا۔۔۔۔ کون ہے اور کہاں ہے گھر۔۔؟؟؟؟ اسکی بیوی نے پوچھا
میرا اک دوست ہے اسکی ماں کو چاہیے اک ملازمہ جو صبح سے دوپہر تک رہے۔۔۔۔۔ اسکے شوہر نے کہا۔۔۔۔
اچھا چلو سہی ہے میں اس سے پوچھ کر بتادوں گی۔۔۔۔۔۔
اگلے دن مالکن نے سکھی سے اپنے شوہر کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں بتایا سکھی اور رومانہ خوش ہوگئیں کہ دن ہی دن کا کام ہے ٹھیک ہے وہ چلیں گی صاحب کے ساتھ۔۔۔۔۔
مالکن کا شوہر گھر میں ہی تھا اسکی بیوی نے اس سے کہا کہ وہ دونوں تیار ہیں جانے کے لیے تو اس نے کہا کہ ٹھیک ہے میں فون کرکے پوچھ لوں پھر بتاتا ہوں یہ کہہ کر اس نے کسی نمبر پہ کال ملائی اور باہر چلا گیا۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ واپس آیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ ان دونوں سے کہو کہ چلیں میں وہاں لیکر چلتا ہوں مگر وہاں بس اسکی بیٹی ہی کام کرے گی سکھی نہیں اسکی بیوی نے یہ بات سکھی سے کہہ دی اس نے کہا ٹھیک ہے میں رومانہ کو خود لینے چلی جایا کروں گی جب اسکا کام ختم ہوجایا کرے گا تو۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ وہاں سے اپنا کام مکمل کرکے اور مالکن کے شوہر کے ساتھ چلی گئی۔۔۔۔۔
وہ اک بنگلہ تھا باہر چوکیدار تھا اس نے چوکیدار سے کہا بی بی سے کہو شمروز آیا ہے چوکیدار اندر چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد آنے کا عندیہ دے دیا وہ لوگ اندر چلے گئے
اندر سے اک عورت آئی اسنے رومانہ کو اوپر سے نیچے تک دیکھا رومانہ اک بڑی سی چادر اوڑھے رکھتی تھی کام کے وقت اتار کے دوپٹہ دھیان سے اوڑھ لیا کرتی تھی اس عورت کی نظروں سے رومانہ کو کچھ عجیب سا محسوس ہورہا تھا اتنے میں وہ عورت بولی کیا کیا کام کرلیتی ہو لڑکی۔۔۔؟؟؟؟
جی بیگم صاحبہ صفائی سے لیکر کھانا بنانے تک سب کرلیتی ہوں رومانہ نے کہا۔۔۔۔
ہمممم۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے تو تم کل سے آجاؤ پھر اور ہاں سنو وہ سکھی سے بولی۔۔۔۔ تم اسکو کل یہاں صبح چھوڑ جانا سکھی نے گردن ہاں میں ہلادی اور پھر تنخواہ کا پوچھنے لگی تو اس عورت نے کہا کہ تنخواہ کی فکر نا کرو وہ تمہاری سوچ سے بھی بڑھ کے ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔ سکھی نے کہا اچھا بیگم صاحبہ بہت شکریہ ۔۔۔۔ یہ سن کر رومانہ بھی خوش ہوگئی اور پھر اگلے دن آنے کا کہہ دیا۔۔ ساری بات مکمل کرنے کے بعد وہ شمروز کے ساتھ نکل آئے سکھی نے شمروز کا بہت شکریہ ادا کیا۔۔۔۔۔کام ختم ہوچکا تھا تو سکھی اور رومانہ گھر چلے گئے گھر جاکر اصغر کو بتایا تو وہ بھی خوش ہوا اور دعائیں دیں۔۔۔۔۔
اگلے دن سکھی رومانہ کو اس بنگلے پہ چھوڑنے جانے لگی تو شمروز نے کہا میں چھوڑ دیتا ہوں وہ تین دن سے گھر میں ہی تھا ناجانے طبیعت خراب تھی یا بہانہ تھا بہرحال سکھی اور رومانہ اسکے ساتھ اس بنگلے پہ پہنچ گئیں سکھی نے رومانہ کو وہاں چھوڑا اور کہا کہ بیٹا جب کام ختم ہوجائے تو تم انتظار کرلینا میں تمہیں لینے آجاؤں گی۔۔ پھر وہ شمروز کے ساتھ ہی واپس اپنے کام پہ آگئی۔۔۔۔
وہ عورت اندر سے آئی اور اس نے رومانہ کو کہا کہ چلو لڑکی کام سمجھ لو اس نے رومانہ کو کام بتادیا بنگلہ چونکہ صاف ستھرا تھا اسلیے رومانہ کو زیادہ محنت نہ کرنی پڑی اور جلدی صفائی ہوگئی اس عورت نے کہا کہ کپڑے بھی ہیں استری کے وہ بھی کردو اس نے چار پانچ سوٹ نکال کے دے دئیے اور کہا کہ انکو اس الماری میں ہینگ کردینا رومانہ نے ہاں میں سر ہلادیا اور کپڑے استری کرنے لگی، پندرہ منٹ میں اس نے تمام کپڑے استری کردیے وہ اٹھی اور کپڑے ٹھکانے لگی اتنے میں وہ عورت آئی اور کہا کہ میرے سر میں درد ہورہا ہے زرا میرا سر دبادو رومانہ نے اچھا کہا اور اپنا کام مکمل کرنے کے بعد اسکا سر دبانے کے لیے دوسرے کمرے میں چلی گئی جو شاید اسکا بیڈ روم تھا وہ عورت بیڈ پہ لیٹ گئی اور رومانہ اسکے نزدیک بیٹھ کر اسکا سر دبانے لگی۔۔۔۔۔ چند منٹ بعد اس عورت نے کہا ایسا کرو اس دراز میں اک بام رکھی ہے وہ لگادوایسے نہیں جائے گا یہ سر درد۔۔۔ رومانہ نے ایسا ہی کیا وہ اٹھی اور دراز سے اک ڈبیہ نکالی اور پوچھا یہ ہے؟؟؟ اس عورت نے کہا ہاں یہی ہے رومانہ نے دراز سے نکال کر دراز بندکردی اور ڈبیہ کھولنے لگی اس عورت نے کہا کہ اسکی خوشبو بہت پیاری ہے میرا سر درد اسکو لگاتے ہی ٹھیک ہوجاتا ہے تم بھی سونگھ کر دیکھو۔۔۔۔ رومانہ نے اسکی بات مانتے ہوئے وہ سونگھ لی اور کہا جی واقعی بہت پیاری خوشبو ہے مگر جیسے ہی اس نے اپنی انگلی میں اس بام کو لگانا چاہا اسکو اک دم چکر سا آنے لگا اور وہ بےہوش ہوگئی۔۔۔۔۔ اس عورت نے رومانہ کو بےہوش ہوتے دیکھا تو اسکے چہرے پہ اک مسکراہٹ آگئی اور اس نے اپنا موبائل اٹھایا اور شمروز کو کال کرنے لگی کچھ دیر بعد شمروز وہاں آگیا رومانہ کو بے ہوش دیکھ کے اسکے چہرے پہ بھی اک شیطانی مسکراہٹ تھی وہ اس عورت کے ساتھ اسکو اپنی گاڑی میں ڈال کے کوٹھے تک لے آیا اس عورت نے اندر بلا کر اسکو معاوضہ دیا اور کہا لڑکی تو،واقعی ہیرا ہے
*****