ناہید نے لڑکی پسند کرنے کے بعد اپنی ماں اور بہنوں سے بھی ملوادیا انکو بھی رومانہ بہت پسند آئی مجتبی بھی لڑکی کے باپ سے مل لیے تھے ناہید نے ارمان کو بہت سمجھا کر آخر کار شادی کے لیے منا ہی لیا، اس نے خود کو اللّہ کی رضا میں راضی کرلیا تھا اور یوں ناہید ارمان کے نام کی انگوٹھی رومانہ کو پہنا آئیں تھیں کیونکہ ارمان نے کہہ دیا تھا کہ وہ کوئی فضول رسم نہیں کرے گا۔۔۔۔ ناہید کو یہ ڈر تھا کہ کہیں ارمان شادی سے انکار نہ کردے اسلیے انہوں نے چٹ منگنی اور پٹ بیاہ کے تحط جلد از جلد ارمان کی شادی کرنے کا ارادہ کرلیا تھا اور لڑکی والوں سے کہہ دیا تھا کہ انکو کسی قسم کا کوئی جہیز نہیں چاہیے۔۔۔۔ سو منگنی کے تین مہینے بعد شادی کی تاریخ طے ہوگئی۔۔۔۔ ناہید نے اپنی ہونے والی بہو کے لیے ڈھیروں ڈھیر شاپنگ کی۔۔۔۔ اپنے دو بڑے بیٹوں کی دفعہ تو وہ یہ خواہش پوری نا کرسکیں تھیں اور تیسرا بیٹا عمار اس نے بھی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہیں لندن میں ہی اک مسلمان لڑکی سے شادی کرلی تھی اب صرف ارمان ہی تھا جس کی شادی پہ وہ یہ سب کرسکتی تھیں۔۔۔۔۔ انہوں نے ارمان کو رومانہ کی تصویر بھی دی تھی کہ دیکھ لے مگر اس نے منع کردیا اور تصویر واپس کردی۔۔۔۔
شادی کا دن قریب آگیا ناہید کی تیاری مکمل تھی انہوں نے رومانہ کے لیےہر چیز بہت پیاری اور قیمتی لی تھی۔۔۔۔ رومانہ دلہن بنی اسٹیج پہ بیٹھی ہوئی تھی مگر گھونگھٹ تھا تو کوئی بھی اسکا چہرہ نہیں دیکھ سکتا تھا رخصتی کے بعد سب گھر آگئے اور رومانہ کو ارمان کے کمرے میں پہنچا دیا، ارمان نے ماں کی خواہش کے آگے سر تو جھکادیا مگر ناجانے کیوں اسکا دل رومانہ کو قبول کرنے پہ تیار نہ تھا وہ اللّٰہ سے دعا کررہا تھا کہ اسکے دل کو قرار اور ہمت دے کہ وہ دل سے اپنی بیوی کو قبول کرے، وہ تھکے قدموں سے کمرے میں گیا جیسے ہی اسنے کمرے کا دروازہ کھولا بیڈ پہ بیٹھی ہوئی رومانہ تھوڑا اور سمٹ کے بیٹھ گئی۔۔۔۔ ارمان نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور بیڈ کے قریب آکر کھڑے ہوئے ہی رومانہ سے کہا
"میں ابھی آپکو وقت نہیں دے سکتا مجھے اس وقت کےلیے کچھ وقت چاہیے میں نے خود کو اس شادی کے لیے بہت تیار کیا مگر میرا دل قبول نہیں کررہا۔۔۔۔ مجھے معاف کردیجیے۔۔۔۔۔ تھک گئی ہونگی آپ بھی چینج کرکے آرام کرلیں۔۔۔" یہ کہہ کر اسنے الماری سے اپنا نائیٹ سوٹ نکالا اور واش روم چلا گیا۔۔۔
رومانہ بیڈ پہ بیٹھی عجیب کیفیت کا شکار تھی۔۔۔۔ جس کی شادی کو کچھ ہی وقت ہوا ہو اور اسکا شوہر اس سے یہ بات کہہ گیا کہ وہ اس شادی کو قبول نہیں کرپارہا۔۔۔۔ کیا یہ کسی اور سے۔۔۔۔۔؟؟؟ کئی خیالات اسکے دماغ میں آتے رہے اسکی آنکھوں سے آنسو جاری ہونے لگے مگر وہ بہت ہمت والی تھی اس نے خود کو یقین دلایا کہ وہ جلد ہی اپنے شوہر کے دل میں اپنا مقام بنالے گی۔۔۔ ارمان واش روم سے آیا تو دیکھا کہ وہ ویسے ہی بیٹھی ہوئی ہے اس نے دوبارہ اس سے کچھ نہیں کہا اور بیڈ پہ سے تکیہ اٹھایا اور صوفے پہ لیٹ گیا اور چند ہی لمحوں بعد وہ نیند کی وادی میں چلا گیا۔۔۔۔
صبح فجر کی نماز کے وقت اسکی آنکھ کھلی تو اس نے اک نظر بیڈ پہ سوئے ہوئے نفس پہ ڈالی کمرے کی لائٹ آف تھی تو وہ اسکا چہرہ نہ دیکھ سکا وہ اٹھا اور وضو کرکے نماز کے لیے چلا گیا۔۔۔۔ کچھ دیر بعد جب وہ نماز پڑھ کے واپس آیا تو رومانہ بھی اٹھ چکی تھی اور نماز پڑھ رہی تھی اسکا سر سجدہ میں تھا۔۔۔۔ ارمان کمرے میں آکر اسی صوفے پہ بیٹھ گیا اور اس نے دل میں سوچا کہ چلو شکر ہے اسکی بیوی نماز کی پابند ہے وہ رومانہ سے رات کے روّیے کی معافی مانگنا چاہتا تھا وہ سر جھکائے اور اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں ملائے الفاظوں کو کھوجنے میں گم تھا۔۔۔۔ رومانہ نے سلام پھیرا۔۔۔ جائے نماز تہہ کی اور پلٹ کے ارمان کو دیکھا اس نے لائٹ آن کردی اور کہا "اسلام علیکم صبح بخیر" ارمان سر جھکائے بیٹھا تھا اسکے سلام کرنے پہ چونک پڑا اور سلام کا جواب دینے کے لیے سر اٹھایا مگر اسکے منہ سے اک لفظ بھی نہیں نکل سکا۔۔۔۔ اسکی ماں نے سچ کہا تھا کہ رومانہ بہت خوبصورت ہے میک اپ میں تو وہ اسکو دیکھ نہیں سکا تھا مگر میک اپ کے بغیر اس نے اسکا سادہ اور شفاف چہرہ دیکھا جس کے چہرے پہ پاکیزگی اور حیا کی خوبصورتی تھی جو نماز کے دوپٹہ کے ہالے میں اور بھی حسین لگ رہا تھا۔۔۔۔۔
*****
روشانے نے جب یہ دیکھا کہ اب شاہ میر کا روّیہ اسکے ساتھ بہتر ہوگیا ہے تو اس نے شاہ میر سے اسکے کاروبار کا پوچھا۔۔۔
"شاہ میر اک بات پوچھوں۔۔؟؟
ہاں پوچھو۔۔۔!!!
آپ کام کیا کرتے ہیں؟ کبھی بتایا نہیں آپ نے"؟
اسکے سوال پہ شاہ میر نے کہا جلدی جان جاؤ گی میں کیا کام کرتا ہوں بہت محنت ہے میرے کام میں خیر تم اتنا دھیان مت دو اور اپنا خیال رکھو۔۔۔۔ روشانے سر ہلا کر رہ گئی۔۔
****
شاہ میر کی پیدائش کے بعد اسکی ماں کا انتقال ہوگیا تھا اسکے باپ نے اسکی دیکھ بھال کے لیے اک آیا کا بندوبست کردیا اور کچھ ہی عرصے بعد ملک سے باہر چلا گیا۔۔۔۔۔ شاہ میر اسی آیا کے ہاتھوں پلا بڑھا جب وہ دس سال کا تھا تو اسکا باپ واپس آگیا اور اس نے واپس آنے کے بعد دوسری شادی کرلی سوتیلی ماں کو شاہ میر کا وجود برداشت نہیں تھا اور باپ تو دوسری بیوی کے رنگ میں ہی رنگ گیا تھا بیٹے کی پرواہ نہیں تھی نتیجہ سوتیلی ماں نے شاہ میر کو اپنے باپ کے حوالے کردیا۔۔۔۔
اس عورت کا باپ بہت بڑا سیٹھ آدمی تھا اور سدا کا ماہر جواری اور شرابی۔۔۔۔۔ شاہ میر کو اس نے خوشی خوشی اپنےپاس رکھ لیا وہ دس سال کی عمر سے ہی وہ سیٹھ کو جس کا نام نادر شاہ تھا جوا کھیلتے دیکھتا اور شراب تو جیسے بس پانی کی طرح تھی۔۔۔۔ وہ بھی اسکو زندگی کا حصہ ہی سمجھنے لگا تھا۔۔۔۔ہر رات رقص کی محفلیں سجتی تھیں عیاشیاں پورے جوبن پہ ہوتی تھیں دھیرے دھیرے شاہ میر بھی ان سب کا عادی ہوگیا اور اسکے دل سے عورت کی عزت بلکل ختم ہوگئی اسکے نزدیک بس عورت دل بہلانے کا زریعہ تھی
نادر شاہ نے شاہ میر کے نام اک سپر اسٹور کردیا تھا وہاں پہ لڑکیاں بھی سیلز گرل کے طور پہ کام کرتی تھیں اور یہ نادر شاہ کا آرڈر تھا کہ غریب اور بےبس لڑکی کو جاب پہ رکھا جائے اخبار میں اشتہار دیا ہوا تھا اس جاب کا جس کو دیکھ کر بہت سی لڑکیاں آئیں مگر نادر شاہ کے آرڈر کے مطابق اس نے کسی کو بھی ادھر جاب پہ نہیں رکھا۔۔۔۔ کچھ دن بعد اک لڑکی آئی کافی ضرورت مند تھی اسکو جاب کی بہت ضرورت تھی۔۔۔۔ شاہ میر کے چہرے پہ اک مکار سی مسکراہٹ آگئی اس نے اس لڑکی کو جاب پہ رکھ لیا اور سیٹھ کو فون کردیا کہ آپکا مطلوبہ گوہر مل گیا ہے نادر شاہ بہت خوش ہوا اور فوری سپر اسٹور جا پہنچا شاہ میر سے ملکے اسنے کہا کہ مجھے اس لڑکی سے ملواؤ۔۔۔ شاہ میر سیٹھ کو لیکر اس لڑکی کے پاس آیا اور کہا" یہ سیٹھ نادر شاہ ہیں اس سپر اسٹور کے مالک" وہ لڑکی مسکرائی سیٹھ نے اس سے چند باتیں پوچھیں وہ لڑکی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا اس نے شاہ میر سے الگ جاکر کہا" اس لڑکی کو کل پارٹی کے لیے تیار کرو" شاہ میر نے بھی شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ اوکے کہا پھر اس لڑکی کے پاس آیا اور کہا کہ سیٹھ صاحب کے ہاں کل اک پارٹی ہے کافی مہمان ہونگے تو ہمیں کل وہاں جانا ہے، سلون چلی جانا کل تم سب سے زیادہ اچھی لگنی چاہیے ہو۔۔۔۔۔ وہ لڑکی کہنے لگی۔۔"سر میرا جانا ضروری ہے کیا"؟
شاہ میر نے کہا ہاں سیٹھ صاحب نے کہا ہے اور سیٹھ صاحب ہر کسی کو نہیں کہتے جس کو وہ اپنے مہمانوں سے ملواسکیں اسی کو کہتے ہیں وہ لڑکی سر ہلا کر رہ گئی۔۔۔۔۔ اگلے روز شاہ میر اسکو سلون چھوڑ کر آیا سیٹھ کی طرف سے اک بہت خوبصورت جوڑا بھی تھا وہ جب تیار ہوکر باہر نکلی تو بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔ شاہ میر اسکو لیکر پارٹی میں پہنچ گیا۔۔۔۔۔ وہ لڑکی غریب گھر کی تھی ایسی جگہوں پہ اور اس طرح اتنا تیار ہوکر وہ کبھی نہیں گئی تھی اور ایسی مخلوط پارٹی اسکو بے حد عجیب لگ رہا تھا مگر وہ جاب کی وجہ سے مجبور تھی۔۔۔ شاہ میر نے سیٹھ کو کہلوادیا تھا سیٹھ شاہ میر کے پاس آیا اور اس لڑکی سے بھی ملا اس نے اک جگہ صوفے پہ بیٹھنے کا اشارہ دیا۔۔۔۔ شاہ میر نے اس لڑکی سے کہا تم یہاں بیٹھو میں آتا ہوں وہ سیٹھ کے ساتھ صوفے پہ سمٹنے والے انداز میں بیٹھ گئی شاہ میر کے جانے کے بعد سیٹھ اسکے قریب ہوکر بیٹھنے لگا تو وہ تھوڑا پیچھے کھسک گئی، سیٹھ اپنی شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگا۔۔"ادھر آؤ میرے پاس اتنا دور دور کیوں ہو مجھ سے"؟ وہ بہت گھبرا رہی تھی اتنے میں شاہ میر کو آتے دیکھا تو فورا کھڑی ہوگئی اور کہا کہ سر چلیں یہاں سے مجھے یہاں نہیں رکنا" شاہ میر نے کہا کہ جیسا یہ کہہ رہے ہیں تمہیں ویسا ہی کرنا ہوگا یہاں سے تم جب تک نہیں جاسکتیں جب تک سیٹھ نہ کہہ دیں۔۔۔۔" اس لڑکی نے بھاگنا چاہا مگر راستے سب بند تھے۔۔۔۔ اس وقت پھر اک مجبور کی مجبوری اور بےبسی سے فائدہ اٹھایا گیا سیٹھ کا مقصد پورا ہوگیا تھا اس نے لڑکی کو اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کرلیا اور شاہ میر کو لاکھوں سے نوازا۔۔۔۔۔ نادر شاہ کے بھی کئی بڑے لوگوں سے تعلقات تھے ان میں سے اک نے اس لڑکی کو دیکھا اور بھاری رقم دے کر خرید لیا وہ لڑکی نہیں بکاؤ مال تھی جس کی انکے نزدیک کوئی عزت نہیں تھی۔۔۔۔۔
شاہ میر بھی اس کھیل کا پکا کھلاڑی بن چکا تھا، نادر شاہ کچھ عرصے کے لیے ملک سے باہر گیا تو اس نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا مگر اسکا انداز دوسرا تھا اس نے جاب پہ رکھی جانے والی لڑکی کو شروع شروع میں قیمتی تحائف دئیے وہ لڑکی انکار کردیتی تھی مگر شاہ میر اس کو زبردستی وہ تحفے دے دیا کرتا تھا، اس نے اپنی محبت کا ڈھونگ رچایا اور اس سے شادی کا ارادہ ظاہر کیا باقاعدہ اسکے گھر والوں سے رشتہ کی بات کی جب اسکے گھر والے راضی ہوگئے تو انکی رضامندی سے وہ لڑکی کو اس فلیٹ پہ لے آیا یہ کہہ کر کہ وہ اپنا ہونے والا خوبصورت فلیٹ دیکھ لے وہ لڑکی اسکی باتوں پہ یقین کرکے اسکے ساتھ چلی آئی اور پھر شاہ میر نے وہاں شیطان بن کر موقع سے فائدہ اٹھایا۔۔۔ اور وہاں سے چلا گیا وہ لڑکی روتی رہ گئی مگر وہ سفاک انسان اپنا مقصد پورا کرکے جاچکا تھا۔۔۔۔ اس لڑکی کو معلوم ہوگیا تھا کہ اب وہ اس سے شادی نہیں کرے گا ماں باپ کو کیا منہ دکھاتی گھر واپس آئی جیسے تیسے اور خود کو ختم کرلیا۔۔۔۔ اسکے ماں باپ بھی جیتے جی مرگئے۔۔۔۔
جس روڈ سے وہ اسٹور جاتا تھا اک روز وہ راستہ بند تھا تو وہ دوسرے راستے سے جانے لگا اس راستے میں اک گرلز کالج تھا دوپہر کا وقت تھا تو کالج کی چھٹی ہوچکی تھی جس کی وجہ سے کافی بھیڑ تھی اور اسی بھیڑ میں اسکی نظر روشانے پہ پڑی اور اسکے اندر وہی شیطانی خیال نے سر اٹھالیا اس نے چند ہی روز میں روشانے کے متعلق سب معلومات نکلوائیں اور اسکا نمبر بھی معلوم کرلیا جس کے بعد اسکا ارادہ ایسے ہی اسکو جھانسا دینے کا تھا مگر اس دفعہ اسکی بےعزتی ہوئی تھی اور یہ پہلی دفعہ تھا تو اس سے برداشت نہیں ہوسکا اور اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ روشانے کو اس طرح نہیں بلکہ تڑپا تڑپا کے مارے گا۔۔
نادر شاہ کو معلوم ہوگیا تھا کہ شاہ میر نے شادی کرلی ہے مگر اس نے کچھ نہیں کہا نا پوچھا۔۔۔۔
اک روز نادر شاہ نے شاہ میر سے کہا کہ اپنی بیوی سے تو ملواؤ کسی دن اس نے کہا کل ہی ملیں اور پھر گھر آکر روشانے کو کہا کل تیار رہنا ہم نے جانا ہے وہ اسکے لیے اک ساڑھی لایا تھا پہلی دفعہ تھا تو اس نے ہاف سلیویس کی شیفون کی ساڑھی لی تھی، روشانے کو سلون چھوڑ کر آیا اور کہا اچھا سا تیار ہونا۔۔۔۔ وہ جب تیار ہوکر آئی تو شاہ میر اسکو لیکر نادر شاہ کے پاس پہنچا۔۔۔ نادر شاہ اسکو انہی نظروں سے دیکھ رہا تھا جن نظروں سے وہ ہر عورت اور لڑکی کو دیکھتا تھا۔۔۔ روشانے پہلی دفعہ شاہ میر کے ساتھ آئی تھی اسکو بہت عجیب لگ رہا تھا۔۔۔۔ وہ جلد از جلد واپس جانا چاہتی تھی شاہ میر اسکو نادر شاہ کے پاس چھوڑ کر آگے چلا گیا نادر شاہ نے وہی حرکت کی تو روشانے نے اک تھپڑ اسکے منہ پہ مار دیا وہ تو ہکا بکا اپنے گال پہ ہاتھ رکھے روشانے کو دیکھ رہا تھا اتنے میں شاہ میر بھی آگیا اس نے جب یہ دیکھا تو اسکو بہت غصہ آیا اس نے اس سے معافی مانگنے کا کہا مگر روشانے نے صاف انکار کردیا اور باہر چلی گئی نادر شاہ بہت غصہ میں تھا شاہ میر اس سے معافی مانگی مگر اس نے کہا نہیں معافی جب تک نہیں ملے گی جب تک یہ خود مجھ سے معافی نہیں مانگے گی۔۔۔۔ شاہ میر نے وعدہ کیا کہ وہ اس سے معافی منگوائے گا وہ وہاں سے چلا گیا باہر آکر دیکھا تو روشانے گاڑی میں بیٹھی ہوئی تھی شاہ میر گاڑی میں بیٹھتے ہی اس پہ اس پہ برس پڑا پھر اس سے کہا کہ اگر اس نے معافی نہیں مانگی تو اس کا خمیازہ اسکو بھگتنا پڑے گا
روشانے کسی صورت نہیں مان رہی تھی۔۔۔۔ شاہ میر بہت تیز ڈرائیو کر کے لایا تھا اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وپ روشانے کا قتل کردے مگر بدلہ ابھی پورا نہیں ہوا تھا۔۔۔گھر پہنچ کر روشانے طبیعت خراب ہوگئی شاہ میر نے توجہ نہیں دی اس کو بہت چکر آرہے تھے وہ گر کر بے ہوش ہوگئی۔۔۔۔ شاہ میر نے جب اسکو بے ہوش دیکھا تو اسی وقت ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا ڈاکٹر نے خوشخبری سنائی اور اسکا بہت خیال رکھنے کا کہا۔۔۔۔۔ شاہ میر نے دل میں سوچا اک نئی مصیبت۔۔۔ خیر دیکھتے ہیں
شاہ میر اسکو گھر لے آیا اور اسکو منانے لگا معافی مانگنے کے لیے مگر روشانے کسی صورت نا مانی۔۔۔ نادر شاہ نے اس سے پوچھا تو اس نے ساری صوتحال بتائی اور کہا آپ بے فکر رہیں معافی تو یہ آپ سے مانگے گی۔۔۔۔ ابھی نہیں تو پھر کبھی۔۔۔۔ وقت گزرتا رہا روشانے نے اک بیٹی کو جنم دیا۔۔۔۔ شاہ میر نا تو خوش تھا اور نا غمگین اس کو نادر شاہ سے اپنا وعدہ پورا کرنا تھا سو وہ اپنے وعدے کی تکمیل کرنا چاہتا تھا اس نے اک اور جال بنا جس میں روشانے آرام سے پھنس سکتی تھی۔۔۔۔