روشانے کے جانے کے بعد نفیسہ بیگم صدمے سے نڈھال ہوگئیں۔۔۔۔ سرمد آغا بھی سر پکڑے بیٹھے تھے انکی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنی بہن سے کیا کہیں گے؟ حسن کا سامنا کس طرح کریں گے۔۔۔۔؟؟ بےشک انکی بیٹی کا کردار سب کے سامنے تھا مگر کسی کو انگلی اٹھاتے کب دیر لگتی ہے یہی سوچ سوچ کے وہ ہلکان ہورہے تھے۔۔۔۔۔ نفیسہ بیگم روشانے کے غم کو لیکر بستر سے جالگیں تھیں سرمد آغا انکو ہمت دیتے رہتے مگر چند ہی عرصے بعد انکا انتقال ہوگیا۔۔۔۔ سرمد آغا تو بلکل ٹوٹ گئے تھے،وہ اتنے بےبس تھے کہ اپنی بیٹی کو بھی اسکے ماں کے انتقال کی خبر نہیں دے سکتے تھے، نفیسہ کے بہن بھائی اور سرمد کی بہن آسیہ بھی آگئیں تھیں، روشانے کی غیر موجودگی سب کے لیے حیرانگی کا باعث تھی سرمد آغا کس کس کو جواب دیتے۔۔۔۔ وہ چپ بیٹھے تھے آسیہ نے ان سے پوچھا اور وہ سر جھکا کر رہ گئے۔۔۔۔ وہ سمجھ گئیں کہ ضرور کوئی بات ہے۔۔۔۔ نفیسہ کے بھائی سعد کو اپنے ساتھ لے گئے اور آسیہ سرمد کو اپنے ساتھ لے گئیں گھر بند کردیا گیا تھا۔۔۔۔۔ سرمد آغا نے اپنی بہن کو روشانے کے ساتھ ہونے والے واقعہ کے بارے میں بتادیا تھا وہ روشانے کو جانتی تھیں اسکے کردار سے واقف تھیں سو انہوں نے اسکے کردار پہ انگلی نہیں اٹھائی مگر چپ رہ گئیں۔۔۔۔۔
******
شاہ میر روشانے کو اپنے ساتھ اس گھر میں لے کر جانے کے بجائے کسی چھوٹے سے فلیٹ میں لے آیا تھا وہ چپ چاپ اسکے ساتھ چلی جارہی تھی جہاں وہ لے کر جارہا تھا وہ اس سے کوئی سوال نہیں کررہی تھی۔۔۔۔ وہ اسکو اس فلیٹ میں چھوڑ کر اور دروازہ باہر سے لاک کرکے چلا گیا روشانے بیڈ پہ بیٹھ گئی اسکو یوں لگ رہا تھا جیسے اسکی سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیت مفلوج ہوگئی۔۔۔۔۔ اسکو اپنے ماں باپ یاد آرہے تھے انکی یاد آنے پہ وہ رونے لگی تھی۔۔۔۔۔ رات کے وقت شاہ میر گھر آیا وہ ویسے ہی بیٹھی ہوئی تھی اس نے آکر اسکو دیکھا اور کہا
"بی بی کب تک غم منانے کا ارادہ ہے؟؟؟ اب اٹھ جاؤ اور کھانا بناؤ میرے لیے۔۔۔۔" وہ اسکو دیکھ کر رہ گئی،وہ اس سے کہہ کر باتھ روم چلا گیا۔۔۔۔۔ نفیسہ نے کبھی اس سے کھانا نہیں بنوایا تھا وہ پڑھائی میں مصروف رہتی تھی سو وہ اسکو ان کاموں کے لیے نہیں کہتی تھیں۔۔۔۔ وہ سوچنے لگی کہ کیا کرے اسکو تو کچھ نہیں آتا بنانا۔۔۔۔
شاہ میر باتھ روم سے آیا اور اسکو وہیں بیٹھا دیکھا تو اسکو غصہ آیا وہ غصہ میں اسکے قریب آیا وہ اسکو دیکھ کر کھڑی ہوگئی شاہ میر نے اسکو اک زور دار تھپڑ لگایا وہ اس کے لیے تیار نہیں تھی اک دم دور جاگری شاہ میر نے اسکو بالوں سے پکڑ کے اٹھایا وہ تکلیف کے مارے چلا اٹھی اک تو تھپڑ کی تکلیف تھی اور دوسرا بال اسنے اتنی زور سے پکڑے تھے کہ اسکو لگ رہا تھا وہ جڑ سے اکھڑ جائیں گے۔۔۔۔۔
ابھی تک یہیں بیٹھی ہے تو۔۔۔۔۔ کھانا کیوں نہیں بنایا میرے لیے مجھے بھوک لگ رہی ہے" شاہ میر غصے سے دھاڑا۔۔۔۔۔
مج۔۔مجھے کھانا نہیں آتا بنانا۔۔۔۔ وہ تکلیف سے روتے ہوئے بولی۔۔۔۔
اچھااا۔۔۔!! تو میں کیا ہوٹل سے لاؤں پھر۔۔۔۔۔ شاہ میر نے اک تھپڑ اور مارتے ہوئے کہا اور اسکو دھکا دیا وہ دیوار سے ٹکرا گئی اور نیچے گرگئی وہ اسکو اک زور دار لات مارتا ہوا وہاں سے باہر چلا گیا اور ہوٹل سے کھانا لے آیا۔۔۔۔ اس نے کھانا کھایا اور کمرے میں چلا آیا۔۔۔۔ روشانے کے سر سے خون بہہ رہا تھا اور وہ شاید بےہوش ہوگئی تھی مگر شاہ میر تو جیسے سفاکی کی ساری حدوں کو پار کرنے کی ٹھان رکھا تھا وہ کھانا کھاکے آیا اور لیٹ کر سو گیا
رات کے کسی پہر روشانے کو ہوش آیا وہ اٹھنے کی کوشش کرنے لگی تو اسکو اپنا جسم دکھتا ہوا محسوس ہوا وہ پھر لیٹ گئی اس نے ماتھے پہ ہاتھ لگایا تو اسکو کچھ نمی سی محسوس ہوئی اس نے اپنی انگلیوں کی پوروں پہ دیکھا تو خون تھا جو جمنے لگا تھا مگر ہلکی نمی کے باعث اسکی انگلیوں پہ لگ گیا تھا وہ رونے لگی روتے روتے اسکی ہچکیاں بندھ گئیں تھیں اسکے ماں باپ نے کبھی اسکو پھولوں کی چھڑی سے بھی نہیں مارا تھا اور شاہ میر نے اسکو اتنا مارا تھا صرف ہاتھ سے نہیں لاتوں سے اور اسکا کیا قصور تھا۔۔۔۔؟؟؟ جس کی اتنی بڑی سزا ملی تھی اسکو۔۔۔۔۔ ابھی اور کتنی آزمائش باقی ہے؟؟ وہ نہیں جانتی تھی وہ اپنے آپکو گھٹنوں میں سر دئیے رونے لگی۔۔۔۔۔ صبح شاہ میر کی آنکھ کھلی تو وہ اس طرح بیٹھی ہوئی تھی شاید سوگئی تھی ایسے ہی بیٹھے بیٹھے وہ اٹھا اور اسکے پاس گیا اور اسکو بالوں سے پکڑ کے اٹھایا وہ تکلیف سے کراہ اٹھی شاہ میر نے کہا" چل اٹھ اور ناشتہ بنا میرے لیے" اور اک جھٹکے سے اسکے بال چھوڑ دئیے وہ روتے روتے اٹھی اور کچن میں چلی گئی اسکی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا بنائے اس نے ڈھونڈ کے اک چھوٹی سی پتیلی نکالی اور چائے کا پانی رکھ دیا پھر اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو مڑوڑنے لگی شاہ میر آیا اور ناشتے کا پوچھا وہ چپ کھڑی تھی کہ کیا کہے اسکو ڈر تھا کہ وہ کچھ کہے گی اور شاہ میر پھر مارے گا۔۔۔ اور شاہ میر کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا تھا وہ اپنی بےعزتی کابدلہ جتنا ہوسکتا تھا لے رہا تھا۔۔۔۔ اس نے روشانے کو خاموش دیکھا تو وہ سمجھ گیا کہ اس نے کچھ نہیں بنایا اس نے پیچھے سے جاکر پھر اسکے بال پکڑ لیے تکلیف سے پھر اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔۔۔
شش۔۔شاہ۔ میر مم میرے بال چھوڑ دو۔۔۔۔ مج مجھے تک تکلیف ہورہی ہے۔۔۔۔ روشانے روتے ہوئے بولی۔۔۔۔
تکلیف ہورہی ہے تجھے۔۔۔۔ تکلیف۔۔۔۔ ہاہاہا مجھے بھی تکلیف ہوئی تھی جب تیرے باپ نے میری بےعزتی کی تھی میں تجھ سے بدلہ لوں گا۔۔۔۔۔ روشانے اسکے آگے ہاتھ جوڑنے لگی وہ اسکے بالوں سے پکڑ کے اسکو کمرے میں لے آیا اور بیڈ پہ پھینکنے والے انداز میں ڈال دیا۔۔۔۔۔ روشانے اس سے معافی مانگتی رہی رحم کی اپیل کرتی رہی مگر اس وقت شاہ میر پہ جنون سوار تھا وہ اسکی کسی معافی پہ دھیان نہیں دے رہا تھا اور نہ ہی اسکی کسی رحم کی اپیل کو مان رہا تھا۔۔۔۔ وہ اپنے جنون میں آیا ہوا تھا بس۔۔۔۔۔
روشانے مجبور تھی بس رو سکتی تھی اور رو رہی تھی۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد شاہ میر اٹھا اور گھر سے باہر چلا گیا۔۔۔ روشانے روتی رہ گئی وہ کل سے بھوکی تھی جس وجہ سے وہ نڈھال ہوکر بےہوش ہوگئی۔۔۔۔ شاہ میر صبح کا گیا رات کو آیا وہ شراب پی کر آیا تھا روشانے کو دیکھا تو بے ہوش پڑی تھی اس نے بیڈ پہ لیٹی روشانے کو کھسکا کر نیچے گرادیا اور خود بیڈ پہ لیٹ کر سوگیا۔۔۔۔ صبح جب اسکی آنکھ کھلی اس نے روشانے کو ویسی ہی حالت میں دیکھا تو اسکو خیال آیا کہ کہیں اسکو کچھ ہوگیا تو میں اپنا بدلہ کیسے لوں گا اسکو مارنا نہیں ہے مجھے۔۔۔۔۔ وہ اٹھا اور اسکو اٹھا کر ہسپتال لے گیا ڈاکٹر نے اسکا معائنہ کیا تو کہا کہ انکا بی پی بہت لو ہے اور انکو اتنی چوٹیں کیسے لگیں تو اس نے کہا کہ یہ سیڑھیوں سے گر گئی تھی اور بے ہوش ہوگئی ڈاکٹر نے اسکے بیان پہ یقین کرتے ہوئے اسکو ڈرپ لگائی اور کہا کہ انکاکھانے پینے کا خیال رکھیں یہ بہت ویک ہیں اس نے ہاں میں سر ہلادیا تھوڑی دیر بعد روشانے کو ہوش آنے لگا اس وقت ڈاکٹر بھی وہیں تھا اس نے سب سے پہلے شاہ میر کو دیکھا وہ خوف زدہ ہوگئی کہ وہ پھر اسکو مارے گا مگر جب ڈاکٹر پہ نظر پڑی تو اسکو سمجھ نہیں آیا کہ وہ کہاں ہے۔۔۔؟ پھر اسکو سب یاد آیا اور اسکی آنکھیں پھر نم ہوگئیں ڈاکٹر نے جب اسکو ہوش میں دیکھا تو اسکے پاس چلا آیا اور اس سے اسکا حال پوچھنے لگا شاہ میر نے ڈاکٹر سے کہا میں اسکو گھر لے کر جانا چاہتا ہوں۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا ابھی انکو آرام کی ضرورت ہے ابھی آپ گھر نہیں لے جاسکتے۔۔۔۔۔ شاہ میر نے بہت اصرار کیا کہ وہ اسکا گھر پہ بہت خیال رکھے گا۔۔۔۔ روشانے بہت خوف زدہ ہورہی تھی کہ گھر جانے کے بعد پتہ نہیں وہ کیا سلوک کرے گا اسکے ساتھ۔۔۔۔۔
ڈاکٹر نے اسکے بہت اصرار پہ روشانے کو چھٹی دے دی اور کچھ ضروری ہدایات اور میڈیسن بھی لکھ دیں جس کو شاہ میر نے بہت فرمانبرداری سے سنا اور روشانے کو لیکر گھر آگیا۔۔۔۔۔
گھر آنے کے بعد بھی روشانے بہت ڈری ہوئی تھی۔۔۔۔۔ مگر شاہ میر کا روّیہ اس وقت اسکے برعکس تھا۔۔۔۔ وہ اسکا خیال رکھ رہا تھا وہ بازار سے اسکے لیے دودھ فروٹ وغیرہ لایا پھر اسکے لیے خود دلیہ بنایا اور اسکو کھلانے لگا روشانے اسکے بدلتے روّیے کو دیکھ کر بہت حیران تھی۔۔۔۔
آپکو پتہ ہے وہ لڑکی یہاں سے چلی گئی ارمان نے خود بتایا ہے" ناہید نے بہت پرجوش لہجے میں مجتبی کو بتایا۔۔۔۔۔
ارے واہ یہ تو اچھا ہوگیا۔۔۔ مگر پھر بھی ہمیں شہر بدلنے کے بارے میں سوچ لینا چاہیے وہ یہاں سے کہیں نہیں گئی ہوگی اسی شہر میں ہی ہوگی اور ارمان یہاں رہے گا تو اسکو یاد کرتا رہے گا پڑھائی بھی باقی ہے اسکی وہ بھی مکمل نہیں کرسکے گا مجتبی نے اٹل لہجے میں کہا۔۔۔۔ناہید بیگم نے کہا ہمم ٹھیک ہے۔۔۔۔
ناہید اب اپنے بوتیک پہ کم ہی وقت دیتی تھیں وہ زیادہ وقت اب ارمان کے ساتھ گزارتی تھیں وہ اسکی پسند کا کھانا بنواتیں اسکا خیال رکھتیں ارمان کو انکی عادت نہیں تھی تو اسکو عجیب لگتا تھا،اس نے شعیب سے بھی ملنا کم کردیا تھا مگر روبی کو وہ بہت یاد کرتا تھا اور اسکو یاد کرتے کرتے رونے لگتا۔۔۔۔۔ ناہید اسکو بہت پیار سے سمجھاتیں وہ اسکو دلاسے دیتیں۔۔۔۔ وہ سمجھتی تھیں ان دلاسوں اور انکی اس محبت سے وہ روبی کو بھول جائے گا وہ نہیں جانتی تھیں کہ وہ روبی سے بہت محبت کرتا ہے اور محبت تو روح کی مانند ہوتی ہے جس کے بغیر جسم بےکار ہوتا ہے۔۔۔۔ انکی محبت اسکی محبت کے آگے ماند پڑجاتی تھی وہ اس خلا کو پر نہیں کر پارہی تھیں جو سالوں سے اسکی زندگی میں تھا۔۔۔ مگر انکے دلاسے اور پیار سے سمجھانے کا اتنا تو اثر اس پہ ہوا تھا کہ اس نے اپنی پڑھائی دوبارہ شروع کردی تھی۔۔۔۔
مجتبی اپنے کاموں میں اتنے مصروف ہوئے کہ انہیں شفٹنگ کا خیال ہی نہیں رہا پھر ناہید نے بھی ان سے دوبارہ کچھ نہیں کہا تھا ارمان کی طرف سے انکو تھوڑا سکون ملا تھا کہ وہ قدرے بہتر ہوگیا تھا۔۔۔
دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلتے رہے ارمان کی تعلیم بھی مکمل ہوگئی تھی اس نے ایم کام کیا تھا، ناہید کا پورا میکہ کراچی میں تھا وہ سال میں دو بار جاتی تھیں مگر اس دفعہ وہ پورا سال گزرجانے پہ بھی نہیں جاسکیں تھیں انکو اپنے میکے والے یاد آرہے تھے، کراچی میں انکی اک بچپن کی دوست حمیرہ بھی تھی جس سے رابطہ رہتا تھا مگر مصروفیت کی وجہ سے وہ اس سے بھی رابطہ نہیں رکھ پائیں تھیں مگر اس نے ناہید سے رابطہ کرکے انکو اپنے بیٹے کی شادی میں آنے کی دعوت دی جس کے بعد انکا کراچی جانا لازمی تھا۔۔۔ انہوں نے اس سلسلے میں مجتبی سے بات کی۔۔۔
سنیں۔۔!!! میں کراچی جانا چاہتی ہوں اک سال ہوگیا مجھے اپنے میکے والوں سے ملے ہوئے وہ سب بھی مجھے بلا رہے ہیں اور میری دوست کے بیٹے کی شادی بھی ہے اسنے آپکا بھی کہا ہے۔۔۔ ۔۔۔!!!
مجتبی کا کراچی میں بھی گارمینٹس کا بزنس تھا مگر وہ وہاں ٹائم نہیں دے پاتے تھے تو انہوں نے ناہید کی بات سن کر کہا
اچھا چلو سہی ہے ویسے بھی میں کراچی شفٹ ہونے کا سوچ رہا ہوں وہاں گارمینٹس فیکٹری کو بھی دیکھے بہت عرصہ ہوگیا اسلیے میں نے سوچا ہے اب کہ ہم وہیں ہی شفٹ ہوجاتے ہیں۔۔۔میں یہاں پہ آتا رہوں گا اور تم اپنا بوتیک بھی وہیں پہ کھول لینا چاہو تو۔۔۔۔ کچھ ضروری سامان پیک کرلو ہم جلد ہی نکلیں گے اور ارمان کو بھی بتادو۔۔۔۔
ناہید تو یہ سن کر بہت ہی خوش ہوگئیں انہوں نے اپنے میکے والوں سے بھی کہہ دیا اور اپنی دوست کو بھی یہ خوش خبری سنائی وہ بھی بہت خوش ہوئی۔۔۔ اس نے ناہید سے پوچھا کہ تم نے ادھر کہیں ارمان کے لیے کوئی لڑکی وغیرہ تو نہیں دیکھی؟؟؟
نہیں۔۔ میں نے یہاں تو نہیں دیکھی ہاں اب سوچ رہی ہوں کہ کراچی شفٹ ہونا ہے تو وہیں ہی دیکھ لوں گی کوئی۔۔۔۔ ناہید نے اسکے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔
اچھا میں نے تو تم سے ویسے ہی پوچھ لیا تھا مگر میں نے یہاں اک لڑکی دیکھی ہے بہت پیاری اور سلجھی ہوئی ہے مجھے ارمان کے لیے پسند آئی تھی مگر میں نے کوئی بات نہیں کی کہ پہلے تم سے پوچھ لوں پھر کوئی بات کروں گی ورنہ ایسا نہ ہو بات خراب ہوجائے۔ حمیرہ نے کہا۔۔۔!!
اچھا یہ تو اچھا کیا تم نے میں آؤں گی تو پھر ساتھ چلیں گے۔۔۔۔ ویسے کون ہے؟؟؟اور تم نے کہاں دیکھا؟ ناہید نے پوچھا
وہ بی بی جان(ساس) کی اک جاننے والی ہیں انکی رشتہ دار ہے گاؤں سے آئی تھی شہر پڑھنے پھر یہیں رک گئی گاؤں میں اسکا کوئی نہیں ہے تو اب انکے ساتھ ہی رہتی ہے بہت خوبصورت ہے اور پڑھی لکھی ہے لگتی ہی نہیں گاؤں کی ہے مجھے تو بہت پسند آئی تھی میں جب اپنے بیٹے کی شادی کا کارڈ دینے گئی تھی جب دیکھا تھا تو لگے ہاتھوں اسکا پوچھ لیا کہ اسکی کہیں بات وغیرہ تو طے نہیں ہوئی۔۔۔۔ اسلیے تم سے پوچھ رہی تھی۔۔۔ حمیرہ نے تفصیل سے بتایا۔۔۔۔ پھر کچھ دیر اور باتوں کے بعد فون بند کردیا
مجتبی نے اک ہفتہ بعد کی ٹکٹ کروادی تھی اور ناہید سامان کی پیکنگ کرنے میں لگ گئیں تھیں،ارمان سے بھی انہوں نے کہہ دیا تھا وہ اس شہر کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتا تھا جو اسکی محبت کا شہر تھا،مگر وہ یہاں اکیلا بھی نہیں رہ سکتا تھا اس نے باقاعدگی سے نماز پڑھنی شروع کردی تھی وہ ہر نماز کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا اور روبی کے لیے اسکی سلامتی، اور حفاظت کی دعا مانگتا۔۔۔۔ اسکو اپنی دعاؤں میں اپنے لیے مانگتا۔۔۔۔اسکو معلوم تھا کہ دعاؤں سے تقدیریں بدل جاتی ہیں اس نے کہیں پڑھا تھا کہ اللّٰہ کسی کو بن مانگے دے دیتا ہے اور کسی کا مانگنا اسکو پسند ہوتا ہے بس وہ رو رو کر اللّٰہ سے التجاء کرتا کہ وہ اسکو روبی دے دے اور اگر وہ اسکا نصیب نہیں وہ کسی اور کو بن مانگے مل گئی تو اس بے قرار دل کو قرار دے پھر وہ اللّٰہ کی رضا میں راضی ہے۔۔۔۔۔
اتنا رونے اور دعا کرنے کے بعد اسکو تھوڑا سکون مل جاتا
کراچی میں بھی مجتبی کا اک لگثری اپارٹمنٹ تھا وہاں ضرورت کی ہر چیز تھی سو انکو زیادہ سامان لیکر جانے کی ضرورت نہیں تھی۔۔۔۔۔ اک ہفتے بعد وہ لوگ کراچی شفٹ ہوچکے تھے اور ناہید اپنے میکے والوں سے اتنے عرصے بعد ملی تھیں تو سب بھی بہت خوش تھے وہ دو تین دن اپنے میکے میں رہیں پھر انکی دوست کا فون آگیا اور وہ اسکے پاس چلی گئیں اسکے بیٹے کی شادی میں اک ہفتہ تھا وہ ناہید کو لیکر بی بی جان(ساس) کے ساتھ انکی جاننے والی کے ہاں چلی گئیں جہاں انہوں نے لڑکی دیکھی تھی۔۔۔ ناہید کو بھی وہ لڑکی بہت پسند آئی رومانہ نام تھا لڑکی کا بہت خوبصورت تھی بی ایس سی کیا ہوا تھا اور سگھڑ بھی بہت تھی۔۔۔۔ انہوں نے ارمان سے کوئی بات نہیں کی اور رشتہ دے دیا۔۔۔۔۔گھر آکر ارمان کو بتایا تو وہ ناراض ہوا کہ مجھ سے کیوں نہیں پوچھا میں نہیں کرنا چاہتا شادی۔۔۔۔۔ ناہید نے بہت سمجھایا اسکو پھر اسکو اپنی دعاؤں میں کہنے والے اپنے الفاظ یاد آئے اس نے اللّٰہ سے پھر کہا۔۔۔۔ مگر قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے۔۔۔
**-***
روشانے کی طبیعت اب تھوڑی بہتر ہوگئی تھی وہ شاہ میر کے روّیے کو سمجھ نہیں پارہی تھی وہ اسکا بہت خیال رکھ رہا تھا وہ تھوڑی مطمئن ہوئی اور سوچا کہ شاید اسکو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور یہ بدل گیا ہے مگر یہ صرف روشانے کی سوچ تھی۔۔۔۔ شاہ میر صبح بازار سے کھانے کا سامان لاکر رکھ دیا کرتا تھا روشانے کو پتہ نہیں تھا کہ وہ کیا کام کرتا ہے نا اس نے کبھی پوچھا تھا وہ صبح کا گیا رات کو آتا اور جب آتا تو اکثر ہی شراب پیا ہوا ہوتا تھا۔۔۔۔ روشانے کو اس سے گھن بھی آتی تھی مگر مجبور تھی کیا کرتی رہنا تو اسکے ساتھ ہی تھا۔۔۔ اپنے ماں باپ بھائی کو یاد کرتی حسن اسکو بہت یاد آتا اور وہ رونے لگ جاتی اس بےچاری کو تو معلوم بھی نہیں تھا کہ اسکے گھر والے کس حال میں ہیں ماں کے انتقال تک کا اس کو نہیں معلوم تھا۔۔۔۔ کئی مہینے گزرگئے شاہ میر نے پھر اسکو نہیں مارا تھا روشانے کو اب اسکی طرف سے سکون تھا مگر پہلے کی طرح اس کایہ سکون بھی اک بہت بڑا طوفان لانے والا تھا