سرمد آغا نے جلدی سے دکان بند کی اور گھر کے لیے روانہ ہوگئے۔۔۔ بائک چلاتے ہوئے انکا دھیان بس گھر کی طرف ہی تھا کہ پتہ نہیں کیا ہوگیا اس طرح اتنی ایمرجنسی میں تو کبھی نہیں بلایا نفیسہ نے پھر آج کیا ہوگیا۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ گھر پہنچ گئے۔۔ دروازے کا لاک کھول کر وہ اندر داخل ہوئے اور نفیسہ بیگم کو آواز دینے لگے۔۔۔۔
نفیسہ۔۔۔ نفیسہ کہاں ہو؟؟؟
جی ادھر روشانے کے کمرے میں آجائیں۔۔۔
وہ روشانے کے کمرے میں چلے گئے۔۔
روشانے کو روتا دیکھا تو پریشان ہوگئے اور پوچھنے لگے کیا ہوا کیا بات ہے؟؟ اور روشانے بیٹا کیوں رورہی ہو؟؟؟
روشانے بہت ڈری ہوئی تھی۔۔ نفیسہ بیگم نے ساری بات بتائی انکو۔۔وہ بھی سن کر پریشان ہوگئے روشانے روتے ہوئے بولی
بابا۔۔۔ میں سچ میں نہیں جانتی اسکو۔۔ مجھے نہیں پتہ وہ کون ہے اسکو میرا نام کیسےمعلوم ہوا۔۔۔
انہوں نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا اور کہا
مجھے اپنی بیٹی پہ پورا بھروسہ ہے تم پریشان نہ ہو وہ اپنے ماں باپ کو بھیجنا چاہتا ہے نا تو آنے دو اسکے ماں باپ کو یہاں۔۔۔۔ وہ لڑکا سمجھدار نہیں ہے تو کیا ہوا اسکے ماں باپ تو سمجھدار ہونگے نا میں ان سے بات کرلوں گا انکو سمجھاؤں گا اور یہ بھی کہ تمہارا رشتہ طے ہوچکا ہے۔۔۔۔ وہ بہت نرمی سے اسکو سمجھارہے تھے۔۔ روشانے کو کچھ ڈھارس ہوئی
شام کے پانچ بجے دروازہ پہ بیل بجی روشانے بیل کی آواز سن کر گھبرا گئی سرمد آغا نے نفیسہ بیگم سے کہا اسکو اندر کمرے میں لے جائیں اگر وہ لوگ ہوئے تو باہر مت لائیے گا میں خود سب سنبھال لوں گا نفیسہ بیگم نے سر ہلایا اور روشانے کو اندر کمرے میں لے گئیں۔۔۔
سرمد آغا نے دروازہ کھولا تو سامنے اک مرد اور اک عورت کھڑے تھے انہوں نے پوچھا۔۔۔
یہ سرمد آغا کا گھر ہے؟؟
جی ہاں مگر آپ لوگ کون ہیں؟؟
اتنے میں پیچھے سے اک لڑکا آیا پینٹ شرٹ پہنا ہوا گریبان کے بٹن کھلے ہوئے ہاتھ میں بینڈز اور کندھوں تک آتے بال، شکل سے تو خوبصورت تھا مگر انداز بدمعاشوں والے تھے۔۔۔۔
"یہ میرے ماں باپ ہیں اور آپکی بیٹی روشانے کے لیے میرا رشتہ کر آئے ہیں"، شکل اور کپڑوں سے وہ کہیں سے بھی اسکے ماں باپ نہیں لگ رہے تھے، سرمد آغا اس سے تفصیل سن کر دروازہ پہ ہی کھڑے رہے تو اس نے کہا
ارےےے انکل کیا یہیں کھڑا رکھنا ہے اپنے ہونے والے سمدھی اور سمدھن کو۔۔۔؟؟؟؟ اندر آنے دیجیے ساری باتیں اندر بیٹھ کر آرام سے ہونگی۔۔۔۔ رستہ دیجیے نااا۔۔۔۔
سرمد آغا نا چاہتے ہوئے بھی رستہ دینے پہ مجبور ہوگئے۔۔۔ وہ اندر آگیا اور ساتھ اسکے ماں باپ بھی۔۔۔ اور اندر آکر لاؤنج میں رکھی کرسیوں میں سے اک پہ بیٹھ گیا اور اپنے ماں باپ سے بھی کہا۔۔۔۔
بیٹھ جائیں مام ڈیڈ۔۔۔۔
روشانے کہاں ہو؟؟ تم سے کہا تھا نا میں آؤں گا مام ڈیڈ کے ساتھ تم نے استقبال کی تیاری نہیں کی ہمارے؟؟ چلو خیر مشرقی لڑکی شرماتی ہی ہے،
اتنے میں سرمد آغا بولے
دیکھیے بہن جی اور بھائی صاحب اس عمر میں لڑکے اور لڑکیاں جذبات میں آجاتے ہیں اور اپنی پسند سے شادی کا سوچ لیتے ہیں پسند کی شادی پہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں مگر میری بیٹی کی بات میرے بھانجے سےطے ہوچکی ہے۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔!!
ارررے انکل۔۔۔۔!!! مجھے پتہ ہے سب مگر میں روشانے سے شادی کرنا چاہتا ہوں بس وہ میری ہوگی اورمیری نا ہوئی تو کسی کی نہیں ہوگی۔۔۔۔۔
سرمد آغا غصے سے بولے
لڑکے۔۔۔۔
وہ انگلی اٹھاتے ہوئے بولا۔۔۔۔شاہ میر نام ہے میرا۔۔۔۔ سنا۔۔۔ شاہ میر۔۔۔
ہاں جو بھی ہو مجھے اس سے کوئی لینا دینا نہیں اور میں تم سے نہیں تمہارے ماں باپ سے بات کررہا ہوں تم چپ بیٹھو۔۔۔
اتنی بےعزتی۔۔۔ وہ بھی شاہ میر کی۔۔۔۔ سرمد آغا اس بےعزتی کا حساب تمہیں چکانا ہوگا۔۔۔۔۔شاہ میر نے دل میں یہ بات کہی اور چپ کرکے سرمد آغا کی بات سننے لگا۔۔۔۔
سرمد آغا نے اسکے ماں باپ کو ساری تفصیل بتائی اور معذرت کی۔۔۔
جب شاہ میر کی برداشت سےباہر ہوگیا تو وہ اٹھا اور اپنے ماں باپ سے کہا مام ڈیڈ چلیں بس بہت ہوگیا۔۔۔۔ وہ لوگ اسکے کہنے پہ اٹھے اور چلے گئے۔۔۔ شاہ میر جاتے جاتے واپس پلٹا اور کہنے لگا۔۔
یاد رکھنا سرمد آغا۔۔۔ یہ بےعزتی بہت بھاری پڑے گی۔۔۔۔یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔۔۔۔
اس کے جانے کے بعد سرمد آغا کو اسکے الفاظ یاد آرہے تھے وہ بیٹی کے باپ تھے اور اک عزت دار شریف انسان بھی اور یہ شاہ میر تو بہت بگڑا ہوا لگ رہا تھا انکے پاس تو کوئی ایسے ذرائع نہیں تھے کہ وہ اسکے خلاف کچھ کاروائی کرسکیں اور ویسے بھی بڑے لوگوں پہ کون ہاتھ ڈالتا ہے وہ یہ سب سوچتے ہوئے اندر آگئے۔۔۔۔
نفیسہ بیگم نے انکو آتے دیکھا تو فورا آگئیں اور پوچھنے لگیں کیا ہوا؟ انہوں نے شاہ میر کی دھمکی والی بات نہیں بتائی باقی کہا کہ میں نے اسکے ماں باپ کو سمجھادیا ہے اور وہ سمجھ گئے ہیں اب کچھ نہیں ہوگا۔۔۔
روشانے بیٹا تم کچھ دن کالج مت جانا روشانے نے سر ہلادیا وہ خود بھی یہی سوچ رہی تھی کہ کچھ دن نا جائے۔۔۔
اسکے بعد اسکے موبائل پہ پھر شاہ میر نے کوئی کال کوئی میسج نہیں کیا وہ مطمئن ہوگئی کہ اب وہ سمجھ گیا ہے اب کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ اک ہفتہ گزرگیا اسنے اپنے بابا سے کہا
بابا میری پڑھائی کا بہت حرج ہوگیا ہے اب میں دوبارہ کالج جانا چاہتی ہوں
بیٹا اس نے دوبارہ تو کوئی کانٹیکٹ نہیں کیا؟؟؟
نہیں بابا اسکے بعد سے تو کوئی کال یا میسج نہیں آیا میرا خیال ہے وہ سمجھ گیا ہوگا۔۔۔۔
اللّٰہ کرے ایسا ہی ہو۔۔۔۔
چلو ٹھیک ہے تم کل سے کالج چلی جانا وہ خوش ہوگئی اور کالج جانے کی تیاری کرنے لگی۔۔ اور اگلے دن وہ سرمد آغا کے ساتھ کالج چلی گئی۔۔
سرمد آغا کو شاہ میر کی دھمکی یاد تھی وہ ڈر بھی رہے تھے کہ کہیں کچھ ہو نا جائے وہ لڑکا کچھ کر نا دے وہ اپنی بیٹی کی طرف سے فکر مند تھے اسکی حفاظت کی دعائیں کرتے رہتے۔۔
اک مہینہ گزرگیا مگر شاہ میر کی طرف سے کوئی کاروائی نا ہوئی تو سرمد آغا بھی مطمئن ہوگئے اور روشانے بھی مطمئن ہوکر اپنی پڑھائی پہ توجہ دینے لگی۔۔۔ اسکے پیپرز ہونے والے تھے اور وہ انکی تیاری میں لگی ہوئی تھی۔۔۔ وہ شاہ میر کو اک طرح سے بھول چکی تھی اور اطمینان کے ساتھ اپنے پیپرز کی تیاری کررہی تھی۔۔۔۔۔ مگر اسکو نہیں معلوم تھا کہ اسکا یہ اطمینان اور سکون اسکی زندگی میں کتنا بڑا طوفان لانے والا ہے وہ اس سےبے خبر تھی۔۔۔۔
****
ارمان کا کمرہ اسکے مام ڈیڈ کے کمرے کے سامنے تھا، وہ دونوں نہیں ہوتے تھے تو انکا کمرے کا دروازہ بند ہی ہوتا تھا، مگر شام کو جب ارمان باہر جانے کے لیے اپنے کمرے سے نکلا تو دروازہ کھلا ہوا تھا۔۔۔۔
آج مام کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔۔۔۔ اس نے انکے کمرے میں جھانکا تو کوئی بھی نہیں تھا وہ سیڑھیوں سے نیچے اتر آیا دیکھا تو نیچے لاؤنج میں صوفے پہ اسکی مام بیٹھی ہوئی تھیں۔۔۔ اسکو حیرت ہوئی کیونکہ خلاف توقع وہ گھر میں نظر آرہی تھیں ورنہ ہفتے کے پانچ دن وہ بوتیک میں ہوتی تھیں اور آٹھ بجے سے پہلے واپس نہیں آتی تھیں اور اس وقت تو شام کے پانچ بجے تھے۔۔۔ اس نے سوچا کہ آج مام گھر میں ہیں کیوں نا میں مام سے روبی کے بارے میں بات کرلوں۔۔۔
ہائے مام۔۔ آج آپ جلدی آگئیں بوتیک سے؟؟؟
وہ موبائل پہ کسی سے بات کرنے میں مصروف تھیں۔۔۔۔اسکو دیکھ کر انہوں نے فون بند کردیا اور کہا ہمممم۔۔۔ آج کام کم تھا سو میں جلدی آگئی۔۔۔ تم بتاؤ کہاں جارہے ہو؟؟
میں شام میں روز یہاں نزدیک پارک میں جاتا ہوں۔۔۔۔
اوہ دیٹس گڈ۔۔۔۔۔
مام مجھے آپ سے اک بات کرنی ہے۔۔۔۔
ہاں کہو کیا بات ہے؟
مام وہ۔۔۔۔
کیا؟؟؟ وہ۔۔؟؟
مام میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔
کیا شادی۔۔۔!!! ٹھیک ہے ہوجائے گی شادی ابھی پڑھائی تو مکمل کرلو پہلے۔۔۔۔ اور کوئی بزنس وغیرہ بھی پھر سوچنا شادی کا ابھی اتنی جلدی کیا سوجھی شادی کی تمہیں۔۔۔
پلیز مام۔۔۔۔ مجھے شادی کرنی ہے اور پڑھائی بھی مکمل ہوجائے گی اور بزنس کا کیا ہے
پاپا فوڈ انڈسٹری کے مالک ہیں مجھے کیا ضرورت کوئی بزنس کرنے کی۔۔۔۔۔
اوہووو۔۔۔۔۔۔ اچھا اچھا۔۔۔۔ کون ہے وہ لڑکی کہاں رہتی ہے؟؟؟ نام کیا ہے؟؟
ارمان بتانے لگا تو اک دم اسکے کانوں میں شعیب کے الفاظ گونجے۔۔۔۔۔"مجھے نہیں لگتا تمہاری مام مانیں گی وہ کسی صورت نہیں مانیں گی"۔۔
مگر بتائے بنا کوئی چارہ نا تھا کیونکہ روبی کا کوئی اور ٹھکانہ نہیں تھا اسکے علاوہ۔۔۔۔۔ وہ کیا بتاتا سو سچ ہی بتانا تھا۔۔۔
ارماان۔۔۔۔ ارماان۔۔۔ کہاں کھوگئے بیٹا؟؟؟
ہمم۔۔ جی۔۔ ہاااں وہ مام وہ لڑکی کا نام روبی ہے اور وہ۔۔۔۔۔ امممم
وہ۔؟؟؟ کہاں رہتی ہے یہ تو بتاؤ۔۔
وہ ریڈ لائٹ ایریا۔۔۔۔۔۔
اسکی مام جو اسکی بات غور سے سن رہیں تھیں اک دم صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔۔
وہاااااٹ۔۔۔؟؟؟ کیا کہا تم نے۔۔۔؟؟ ریڈ لائٹ ایریا۔۔۔۔ اففف میرے خدا ارمان تم وہاں کب سے جانے لگے ہو اور کیوں۔۔۔؟؟؟؟ یہاں سے کبھی کوئی گیا ہے وہاں؟؟؟ تمہاری سات پشتوں میں سے کوئی نہیں گیا ایسی جگہ اور تم۔۔۔ تم وہاں جارہے ہو۔۔۔؟؟؟ اور تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تمہاری شادی کسی ایسی لڑکی سے کروں گی۔۔۔۔ ہم اوپن مائنڈ ضرور ہیں مگر ارمان کسی گندگی کو اپنے گھر برداشت نہیں کرسکتے سنا تم نے اپنے دل اور دماغ سے اس لڑکی کا خیال نکال دو۔۔۔
تمہیں وہاں جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ تم کیسے دوست بنانے لگے ہو آخر۔۔۔؟؟؟
ارمان جو بیٹھا ہوا انکی بات سن رہا تھا اک دم کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا بس مام بس۔۔!!!
بچپن سے لیکر آج تک آپ دونوں کی محبت اور توجہ کو ترسا ہوں میں۔۔۔ جس عمر میں بچے اپنے ماں باپ کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔۔۔ ماں باپ بچوں پہ توجہ دیتے ہیں انکو سمجھتے ہیں اچھا برا سمجھاتے ہیں اس عمر میں تو آپ دونوں نے مجھے گورنس کے پاس چھوڑدیا میں ترستا رہا کہ کبھی توآپ دونوں مجھے پیار بھری نظروں سے دیکھیں۔۔۔ مجھے گلے لگائیں مجھ سے پوچھیں۔۔۔ اچھا برا سمجھائیں مگر نہیں اس وقت کوئی نہیں تھامیرے پاس آپ دونوں میں سے۔۔۔ وقت ہی نہیں ہوتا آپ لوگوں کے پاس میرے لیے۔۔۔ اور پاپا انکو بس پیسہ کمانے سے غرض ہے
پھر مجھے باہر سہارے ڈھونڈنے پڑے اور باہر ہی محبت تلاش کرنی پڑی جو مجھے مل گئی۔۔۔ مام اب بہت وقت گزرگیا میں نے جو کہنا تھا میں کہہ چکا میں شادی کروں گا تو روبی سے بس۔۔۔!!!!
یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔
اسکے جانے کےبعد ناہید بیگم کو اسکے کہے گئے الفاظ گونجتے ہوئے محسوس ہوئے وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئیں اور سوچنے لگیں کہ واقعی ارمان کے معاملے میں ان سے بہت کوتاہی ہوئی ہے۔۔۔ انکو مجتبی سے بات کرنی ہوگی لاکھ وہ غیر ذمہ دار ہوں مگر وہ بھی کسی صورت اس بات کو برداشت نہیں کریں گے کہ اک طوائف ان کے گھر کی بہو بنے۔۔۔۔
انہوں نے مجتبی کو کال کی اور جلدی گھر آنے کا کہا۔۔۔۔
روشانے کے پیپرز شروع ہوگئے تھے اور وہ خوشی خوشی اور اطمینان کے ساتھ اپنے پیپرز دے رہی تھی، سرمد آغا نے اس سے کہا کہ
"روشانے بیٹا صبح تو تم میرے ساتھ چلی جاتی ہو کالج کیوں نا واپسی کے لیے میں وین لگوادوں؟ "
ارےے بابا۔۔!!! پندرہ منٹ کا تو راستہ ہوتا ہے،اب اسکے لیے وین لگوائیں گے تو میری دوستیں مجھ پہ ہنسیں گی کہ اتنی سی دور کے لیے بھی میں نے وین لگوائی ہے،میں انکے ساتھ آجاتی ہوں اور انکا گھر تو پچھلی گلی میں ہے، کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔!
"بس بیٹا مجھے اس شاہ میر کی وجہ سے ڈر لگتا ہے کہ وہ کچھ کر نا دے۔۔۔۔" ان کو اسکی دھمکی یاد تھی بس وہ اس بات سے ہی ڈر رہے تھے
بابا کافی ٹائم ہوگیا اس بات کو اس نے کچھ کرنا ہوتا تو کر چکا ہوتا اب تک تو اس نے کوئی کال یا میسج نہیں کیا اگر ایسی ہی کوئی بات ہوتی تو وہ مجھے میسج یا کال کرکے دھمکی دیتا۔۔۔۔۔ بابا کچھ لوگوں کی مثال ایسی ہوتی ہے " جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں" بس سمجھ لیں۔۔۔۔روشانے اک اطمینان کے ساتھ بولی۔۔۔۔
ٹھیک ہے بیٹا بس تم احتیاط کے ساتھ اور دعائیں پڑھتے ہوئے جایا کرو۔۔۔ اللّٰہ تمہاری حفاظت کرے۔۔۔۔انہوں نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھ کے دعا دی۔۔۔
وہ مسکراتے ہوئے اپنے کمرے میں آگئی اور اپنے پیپر کی تیاری کرنے لگی۔۔۔
اسکے پیپر بہت اچھے ہورہے تھے اور سرمد آغا نے کہا تھا کہ آخری پیپر کے بعد وہ کچھ دنوں کے لیے اپنی پھپھو کے گھر چلی جائے،
آخری پیپر والے دن وہ بہت پرسکون تھی کہ اب وہ سکون سے سوئے گی آج اسکے پڑھنے کی چھٹی ہے، وہ یہی سوچتی ہوئی باہر نکلی، کالج کے باہر ہمیشہ کی طرح بہت بھیڑ تھی کسی کی وین آئی ہوئی تھی تو کسی کے بھائی یا کزن وغیرہ وہاں پڑھنے والوں کو لینے آئے ہوئے تھے اک دم اسکی نظر کالج کے دروازے کے بائیں طرف پڑی خوف کے مارے اسکا سانس رکنے لگا،اسکو یوں محسوس ہوا کہ وہ اب آگے نہیں چل سکے گی۔۔۔۔
*****
ناہید بیگم کے فون کرنے کے کچھ دیر بعد مجتبی عالم گھر آگئے، انہوں نے ناہید بیگم کو لاؤنج میں صوفے پہ پریشان بیٹھا دیکھا تو پوچھنے لگے۔۔۔" کیا ہوا ایسے کیوں بلایا تم نے مجھے؟؟
ناہید بیگم پریشانی کے عالم میں صوفے سے اٹھیں اور انکو ارمان سے ہونے والی گفتگو کے بارے میں بتایا۔۔۔۔
مجتبی عالم ان پہ چڑھ دوڑے۔۔۔
بیگم صاحبہ یہ غلطی تمہاری ہے تمہیں ہی اپنے بوتیک سے فرصت نہیں کہ تم کچھ اور دیکھو۔۔۔
ناہید بیگم انکی بات سن کر کہنے لگیں۔۔۔
"ساری غلطی میری نہیں ہے مجتبی۔۔ کچھ آپکو بھی احساس ہونا چاہیے آپ نے تو کبھی اپنی اولاد پہ ذرا توجہ نہیں دی ریان اور ایان کے بعد میں نے تو بوتیک جانا چھوڑ دیا تھا بعد میں جب جانا شروع کیا تو جب بھی میں بچوں کی طرف سے غافل نہیں تھی دیکھ لیں آج دونوں بچے ڈاکٹر ہیں اور اپنی لائف میں خوش بھی ہیں۔۔ اور عمار وہ بھی ملک سے باہر ہے پڑھنے گیا ہوا ہے۔۔ میں نے توجہ دی تو ہی یہ سب ہوا نا۔۔۔۔ آپ اپنا بتائیں پیسے کے علاوہ آپ نے دیا کیا ہے کبھی محبت سے دیکھا بچوں کی طرف۔۔۔؟؟ کبھی ان سے پیار سے پوچھا۔۔۔؟؟؟ نہیں بس آپ کو تو پیسہ کمانے سے غرض تھی جیسے اولاد آپکی نہیں صرف میری ہے۔۔۔!!"
بس کردو ناہید بیگم۔۔۔۔وہ غصہ سے دھاڑے۔۔۔ پیسہ نا ہوتا تو آج تمہارے بیٹے یہاں تک نا پہنچ پاتے۔۔ پھر میں دیکھتا کہ کون کیسے اور کیا کرتا۔۔۔۔"
ناہید بیگم نرم لہجے میں کہنے لگیں۔۔۔"اچھا خیر یہ وقت ان باتوں کا نہیں ہے ہمیں ارمان کے بارے میں سوچنا چاہیے۔۔۔ وہ جس لڑکی سے شادی کرنے کا کہہ رہا ہے میں ہر گز اس لڑکی کو اپنی بہو نہیں بنا سکتی۔۔۔۔ میں سوچ رہی ہوں ہم کچھ عرصے کے لیے شہر چھوڑ دیں۔۔۔۔ کیا خیال ہے آپکا۔۔؟؟؟
مجتبی عالم بھی انکے نرم لہجے کے آگے کچھ نرم پڑے اور کہنے لگے۔۔ سب سے پہلے تو تم اپنے بوتیک پہ ٹائم کم کردو، گھر اور ارمان پہ توجہ دو میں سوچتا ہوں کیا کرنا ہے۔۔۔۔ ویسے بھی اگر ہم کسی دوسرے شہر میں شفٹ ہوتے ہیں تو تمہارا کیا خیال ہے ارمان اتنی آسانی سے مان جائے گا۔۔؟؟ وہ اس لڑکی کو نہیں چھوڑے گا۔۔۔ اسکو آرام سے سمجھانا ہوگا پہلے پھر ہی کچھ سوچنا ہوگا اس بارے میں۔۔۔۔"
ہاں آپکی بات ٹھیک ہے مجتبی۔۔۔ مگر جو بھی کرنا ہے فوری کرنا ہے اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے۔۔۔۔
مجتبی نے سر ہاں میں ہلایا اور اوپر کمرے میں چلے گئے اور ناہید بیگم وہیں صوفے پہ بیٹھ کر سوچنے لگیں کہ کس طرح ارمان کو ان سب سے روکیں۔۔۔۔
****
ارمان جب شعیب کے پاس پہنچا تو بہت غصے میں تھا شعیب نے اس سے وجہ پوچھی تو اس نے کہا
"یار میں نے مام سے بات کی روبی کے بارے میں۔۔۔۔"
اوہ اچھا پھر؟؟ مان گئیں کیا؟؟
"نہیں یار۔۔۔!!! وہ نہیں مان رہیں مگر میں بھی پیچھے نہیں ہٹوں گا میں نے آج تک ان سے کسی چیز کی فرمائش یا خواہش نہیں کی مگر اس دفعہ نہیں اپنی یہ خواہش میں پوری کرکے رہوں گا اور میں روبی سے بھی بات کرنے کی کوشش کروں گا۔۔۔!!!
اسکی بات سن کر شعیب نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اسکو ریلیکس ہونے کو کہا اور پھر وہ دونوں وہاں چلے گئے۔۔۔۔
وہاں پہلی محفل روبی کی ہی سجتی تھی مگر اس روز کوئی اور تھی جس نے پہلی محفل سجائی، اسکے بعد دوسری کسی اور نے پھر تیسری کسی اور نے۔۔۔۔ مگر روبی نا آئی آخر کار ارمان سے صبر نا ہوا اس نے شعیب سے کہا
"یار آج روبی کیوں نہیں آرہی؟"
ہاں پتہ نہیں۔۔۔ ہوسکتا ہے آج اسکا موڈ نا ہو کل کرے۔۔۔۔چلو گھر چلتے ہیں پھر۔۔۔
اسکی بات سن کر ارمان نے کہا" یار چل کر پوچھ لیتے ہیں پتہ نہیں کیوں دل عجیب ہورہا ہے۔۔۔"
یار چھوڑ نا کیا ہوگیا کل آجائے گی پھر کل ہی دیکھ لیں گے نا تو بھی نا ارمان۔۔۔۔!!!
ارمان نے اسکو دیکھا اور کہا شعیب تو چل رہا ہے یا میں خود جاکر پوچھ لوں۔۔۔؟؟؟
اچھا۔۔۔اچھا۔۔۔!!! چلو چلتے ہیں۔۔۔۔۔
وہ دونوں بائی کے پاس پہنچے اور شعیب نے پوچھا
"سرکار آج روبی نظر نہیں آرہی؟؟؟
ارمان اسکے ساتھ ہی کھڑا اس عورت کے جواب کا منتظر تھا۔۔۔اس عورت نے کہا
"روبی۔۔۔ روبی تو چلی گئی یہاں سے۔۔۔!!!
کک۔۔۔کیااااا؟؟؟ کہاں چلی گئی؟؟؟ارمان نے جب روبی کے جانے کا سنا تو اک دم بوکھلا گیا۔۔۔
شعیب نے اسکو سنبھالا اور بائی کی جانب متوجہ ہوگیا۔۔
ہاں کہاں گئی؟؟کوئی لے گیا کیا اسکو؟؟؟
بائی نے کہا" یہاں رہنے والی کوئی بھی طوائف کسی کی نہیں ہوتی اگر کوئی خریدار آجائے اور اچھی رقم دے تو ہم اسکو دے دیتے ہیں اس سے آگے ہم نہیں پوچھتے کہ وہ کہاں جارہا ہے یا کس شہر کے کر جارہا ہے ہمیں بس اپنی رقم سے مطلب ہوتا ہے۔۔۔۔ وہ عورت منہ بناتے ہوئے بولی۔۔۔!!
ارمان نے جب ساری تفصیل سنی تو رونے لگا اور روتے روتے وہ شعیب سے کہنے لگا
یار۔۔۔ روبی کو لے آ کہیں سے۔۔۔ میں۔۔۔۔ میں اسکے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔ شعیب کچھ کرو یار پلیز۔۔۔۔
وہ عورت عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی ارمان کو۔۔۔۔پھر شعیب سے ہاتھ کے اشارے سے پوچھنے لگی کہ کیا ہوا اسکو۔۔؟؟؟
شعیب نے کہا سرکار یہ محبت کر بیٹھا روبی سے بس اسلیے۔۔۔۔ وہ عورت طنزیہ انداز میں مسکرائی
شعیب ارمان کو سنبھالتا ہوا وہاں سے لے آیا وہ روئے جارہا تھا شعیب نے اسکو پیار سے سمجھایا
یار نا رو۔۔۔ تیری قسمت میں ہوگی تو مل جائے گی اب ہم کہاں ڈھونڈیں اسکو؟؟
ارمان اسکی گاڑی میں بیٹھا اور کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہنے لگا " میں ڈھونڈوں گا اسکو اور میں لکھواؤں گا اسکو اپنی قسمت میں دعاؤں سے۔۔۔۔"