اس رکشے والے کی بیوی نے ان دونوں کو اندر بلالیا تھا،وہ آدمی دس منٹ میں پہنچ گیا اور ان دونوں سے بہت خوش دلی سے ملا، رومانہ کے سر پہ ہاتھ رکھ کے دعا دی اور کہا بیٹا تمہارے جانے کے اور بیوی کے مرنے کے بعد تو وہ بہت ٹوٹ گیا تھا روتا رہتا تھا، کہتا تھا کس کے لیے جئیوں۔۔۔۔ تمہیں بہت ڈھونڈا تھانے میں رپورٹ بھی درج کروائی مگر وہاں سے کوئی پتہ نا چل سکا۔۔۔۔۔ ادھر سب ہی اسکو ہمت دیتے رہتے تھے پھر جہاں سے اسکو نوکری پکی ہونے کی کال آئی تھی سب کے سمجھانے پہ وہ وہیں چلا گیا اور وہیں پہ ہی رہائش اختیار کرلی۔۔۔۔
اسکی یہ ساری بات سن کر رومانہ کی آنکھیں نم ہوگئیں اور وہ کہنے لگی ہمیں لے چلیں آپ۔۔۔۔۔ وہ آدمی اٹھ کھڑا ہوا اور کہا ہاں چلو۔۔۔۔ حسن اور رومانہ اسکے ساتھ باہر نکل آئے اور رکشے میں بیٹھ گئے۔۔۔۔۔آدھے گھنٹے کے بعد وہ اس علاقے میں پہنچ گئے تھے جہاں اصغر نوکری کررہا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ لوگ رکشہ سے اتر آئے رکشہ ڈرائیور نے گیٹ کی بیل بجائی تو اندر کھڑکی سے چوکیدار نے پوچھا۔۔۔۔" کس سے ملنا ہے۔۔؟؟
حسن نے کہا۔۔۔" ادھر اصغر نام کا بندہ ڈرائیور کی نوکری کرتا ہے اس سے ملنا ہے۔۔۔۔!!!
مگر صاب ابی تو وہ ڈیوٹی پہ گیا اے آدھے گھنٹے تک آئے گا۔۔ مگر تم کون او۔۔۔؟؟؟؟ انکو دیکھتے ہوئے چوکیدار نے پوچھا۔۔۔۔!!!
وہ اسکی بیٹی آئی ہے اس سے ملنے۔۔۔۔۔حسن نے بتایا۔۔۔۔
اچھا۔۔۔اچھا۔۔۔ اسکا بیٹی آیا اے رومانہ۔۔۔۔ ہائے بےچارہ بوت یاد کرتا اپنی بیٹی کو بوت روتا صاب۔۔۔۔۔ آپ تھوڑی دیر رکو بس وہ آجائے گا ابی۔۔۔۔۔ چوکیدار نے کہا۔۔۔۔!!
رومانہ پیچھے ہوکر کھڑی ہوئی تھی اسکی نظر اک بورڈ پہ پڑی جو اک مدرسہ کا تھا وہ پڑھنے لگی۔۔۔۔۔ ابھی وہ پڑھ ہی رہی تھی کہ اسکی نظر مدرسہ کے گیٹ سے باہر آتی لڑکی پہ پڑی وہ حیرت زدہ رہ گئی اس لڑکی نے حجاب لیا ہوا تھا نقاب نہیں تھا اور اسکے ساتھ اک بچی تھی شاید اسکو وہ کہیں لیکر جارہی تھی رومانہ نے اسکو لمحہ بھر میں پہچان لیا وہ کوئی اور نہیں بانو تھی۔۔۔۔ رومانہ نے حسن سے کہا ابو میں آتی ہوں اک منٹ۔۔۔۔۔حسن نے پوچھا کہاں جارہی ہو مگر وہ کوئی جواب دیے بنا بانو کے پاس چلی گئی جو تھوڑا آگے جاچکی تھی۔۔۔۔۔ حسن اسکو دیکھ رہے تھے کہ یہ کہاں جارہی ہے۔۔۔۔ اتنے میں چوکیدار نے کہا آپ لوگ اندر آجاؤ۔۔۔ کبتک کھڑے رہو گے۔۔۔؟؟؟
حسن نے کہا نہیں ہم یہیں ٹھیک ہیں انتظار کرلیں گے۔۔۔۔۔
رومانہ نے اسکو آواز دی وہ چونک کر پیچھے مڑی کہ کس نے آواز دی ہے رومانہ اسکو رکنے کا اشارہ دیکر اسکے قریب گئی اور اپنے چہرے سے نقاب ہٹایا بانو اسکو پہچان گئی اور اسکے گلے لگ گئی پھر اسنے بانو سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے۔۔۔۔؟؟؟ بانو نے کہا بس تمہارے جانے کے بعد ہوا یہ سب۔۔۔۔۔!!! اسکو ساری تفصیل بتائی جس پہ رومانہ کو حیرت ہوئی بانو نے کہا امیراں سے ملو گی۔۔۔؟؟؟ رومانہ نے سر ہاں میں ہلادیا؟۔۔۔۔ وہ پلٹ آئی اور بانو کے ساتھ مدرسہ میں جانے لگی پھر حسن کے پاس آئی اور کہا ابو میں آتی ہوں پھر بتاتی ہوں سب حسن نے کہا اچھا ٹھیک ہے جلدی آنا۔۔۔۔۔۔
رومانہ اسکے ساتھ اندر چلی گئی اوپر اک فلور پہ چڑھی تو سامنے ہی کلاس ہورہی تھی جہاں چھوٹی بچیاں پڑھنے بیٹھی ہوئی تھیں۔۔۔۔۔ رومانہ باہر رک گئی اور بانو اندر کمرے میں چلی گئی اور جاکر امیراں سے کہا۔۔۔۔ آپ سے کوئی ملنے آیا ہے۔۔۔۔ امیراں نے پوچھا کون؟۔ بانو نے کہا آپ خود دیکھ لیں۔۔۔ وہ اٹھ کر کمرے سے باہر آگئی۔۔۔۔ بانو واپس چلی گئی تھی۔۔۔۔ رومانہ نے امیراں کو آتے دیکھا تو آگے بڑھ کے اس سے ملی۔۔۔۔۔ امیراں کو تو جیسے یقین ہی نہیں آرہا تھا اسکو لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے اسنے رومانہ کو گلے لگایا اور بہت پیار کیا۔۔۔۔۔ پھر اس سے کہا رومانہ تمہارا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھولوں گی۔۔۔۔ تم نے میری زندگی بدل دی۔۔۔۔ رومانہ نے کہا نہیں ایسا کچھ نہیں ہے بس اللّٰہ ہی ہے جو کسی انسان کو رہبر بناکر بھیجتا ہے۔۔۔۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ نے وہ سب غلط کام چھوڑدیے۔۔۔۔ مجھے امید نہیں تھی کہ میں آپ سے ملوں گی اور ملوں گی تو وہ بھی اسطرح۔۔۔۔۔ امیراں اسکو اندر لیکر جانے لگی۔۔۔۔ اسکا دل کہاں بھرنا تھا رومانہ سے مگر رومانہ نے اپنے آنے کا مقصد بتایا۔۔۔۔ اور یہ بھی کہ اسکو اسکی ماں مل گئی۔۔۔۔ امیراں کو بہت خوشی ہوئی سن کر اور اسنے پھر اسکو ڈھیروں دعاؤں سےنوازا۔۔۔۔ رومانہ اس سے مل کے اور واپس چلی گئی۔۔۔۔ اسکا دل بہت مطمئن اور سرشار تھا۔۔۔۔
مدرسے سے باہر آنے کے بعد وہ حسن کے پاس گئی اور انکو بتایا۔۔۔حسن بھی سن کر بہت خوش ہوئے۔۔۔۔۔ اصغر ابھی تک نہیں آیا تھا۔۔۔۔۔ حسن اسکا انتظار کررہے تھے تھوڑی دیر بعد اک گاڑی آتی دکھائی دی وہ گاڑی اس گھر کے پاس آکر رک گئی اور اس میں سے اصغر باہر نکلا وہ ان سب کو دیکھ رہا تھا اسکی نظر رکشے والے پہ پڑی تو رکشہ والا جلدی سے آگے آیا اور اسکو کہا تمہاری بیٹی۔۔۔۔۔ اصغر نے رومانہ کو پہچان لیا اور اسکو اپنے سینے سے لگایا اسکے سر پہ پیار کیا اسکی آنکھیں برسنے لگیں تھیں۔۔۔۔۔ حسن نے اس سے کہا اصغر اب تم ہمارے ساتھ چلو کراچی وہیں رہنا۔۔۔۔ اپنی بیٹی کے ساتھ۔۔۔۔ اصغر نے کہا صاحب میں کس طرح آپکا شکریہ ادا کروں آپ نے مجھے میری بیٹی سے ملوادیا ترس گیا تھا کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا میں نے اپنی بیٹی کو۔۔۔۔۔ میری بیٹی ہی تو میری دولت ہے۔۔۔۔ اصغر نے اپنے مالک کو فون کیا اور کہا صاحب مجھے میری بیٹی مل گئی اور یہ لوگ مجھے لینے آئے ہیں میں اب اپنی بیٹی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔۔ وہ ویسے بھی وہاں پہ بس مجبوری کے تحت ہی نوکری کررہا تھا تنخواہ وہ لیتا نہیں تھا کہ کس کے لیے لے کس پہ خرچ کرے۔۔۔۔ بس رہائش بھی ملی ہوئی تھی تو رہ رہا تھا اور نوکری کررہا تھا۔۔۔۔۔ رومانہ نے بھی کہا بس بابا اب آپ ہمارے ساتھ چلیں۔۔۔۔ اصغر نے گاڑی پارک کی چابی چوکیدار کے حوالے کی اور اس سے مل کے اسکو خدا حافظ کہا سامان تو کوئی تھا نہیں اسکا اک دو جوڑے تھے اس نے وہی اک شاپر میں رکھے اور انکے ساتھ چل پڑا۔۔۔۔ رومانہ اور اصغر دونوں بہت خوش تھے۔۔۔۔۔۔
حسن نے واپسی کے ٹکٹ بھی پہلے ہی کروالیے تھے سو وہ لوگ جلد ہی کراچی پہنچ گئے۔۔۔۔ روشانے اصغر کی بہت شکر گزار ہورہی تھی اور سکھی کی موت کا بھی افسوس کررہی تھی۔۔۔ اس نے اصغر سے کہا۔۔۔۔"اصغر تمہارا احسان ہے ہم پہ تم نے جس طرح ہماری بیٹی کی پرورش کی اسکو تعلیم دلوائی اسکا خیال رکھا اسکو اپنا سمجھا۔۔۔مگر مجھے سکھی کی موت کا بھی بہت افسوس ہے۔۔۔ اسنے بھی ماں ہونے کا حق ادا کیا۔۔۔۔"اسکے اسطرح کہنے پہ اصغر نے کہا۔۔"روشانے بی بی ہم نے تو کوئی احسان نہیں کیا بلکہ میں تو یہی کہوں گا کہ شاہ میر صاحب لاکھ برے سہی مگر انہوں نے رومانہ کو ہمیں دے کر ہم پہ احسان کیا تھا ہماری ادھوری زندگی مکمل کردی تھی,ہم دونوں رومانہ کو پاکر بہت خوش تھے مگر یقین کریں بی بی کہ ہم یہ بات بھی سوچتے تھے کہ ناجانے شاہ میر صاحب نے ایسا کیوں کیا۔۔۔؟ مگر جی بس نوکر ذات سوال بھی تو نہیں کرسکتے تھے نا۔۔۔۔!! روشانے افسوس سے سر ہلاکر رہ گئی۔۔۔۔ مگر وہ اب خوش تھی۔۔ اس نے سعد کو بھی فون کرکے بتادیا تھا سعد جو پڑھائی کی وجہ سے ہاسٹل میں رہتا تھا اپنی بھانجی کا سنا تو ملنے کے لیے بےچین ہوگیا اور ویک اینڈ پہ آنے کا کہا۔۔۔۔۔۔ حسن نے اصغر کو اپنے پاس ہی ڈرائیور رکھ لیا تھا وہ انکے ساتھ جاتا اور انکے ساتھ ہی واپس آجاتا تھا۔۔۔۔۔ حسن کی دونوں بیٹیاں بھی رومانہ سے ملنے آئیں تھیں اور کچھ دن رکیں تھیں۔۔۔۔ رومانہ بھی ان سب کے ساتھ بہت خوش تھی اسکو تو اک مکمل فیملی مل گئی تھی، جن رشتوں کی محبتوں کو وہ ترسی ہوئی تھی وہ سارے رشتے اسکو مل گئے تھے۔۔۔۔۔ سعد بھی ویک اینڈ پہ پہنچ گیا تھا اور رومانہ سے ملکر اسکو بھی بہت خوشی ہوئی۔۔۔۔۔ حسن نے رومانہ کو آگے تعلیم مکمل کروائی اور اس نے بی ایس سی کرلیا جو اسکی خواہش تھی۔۔۔۔ وہ اللّٰہ کا شکر ادا کرتے نہیں تھکتی تھی جس نے اسکو اسکے صبر کے بعد اسکا اتنا اچھا پھل دیا تھا۔۔۔۔ بےشک یہ اسکا اللّٰہ پہ یقین تھا جو اسکو اس مقام تک لے آیا تھا۔۔۔۔۔۔ بی ایس سی مکمل ہونے کے بعد اسکی شادی ہوگئی ارمان سے۔۔۔۔۔۔
*****
ارمان اور رومانہ دونوں اک دوسرے کی سنگت میں بہت خوش تھے، ولیمہ کے دوسرے دن وہ لوگ گھومنے چلے گئے،جب واپسی ہوئی تو خاندان بھر میں دعوتوں کا سلسہ شروع ہوگیا۔۔۔۔۔ ناہید بیگم اور مجتبی عالم دونوں اپنے بیٹے کو خوش اور مطمئن دیکھتے تو پرسکون ہوجاتے کہ انکا بیٹا اپنی ازواجی زندگی میں خوش ہے مگر حقیقت سے تو دونوں ہی لاعلم تھے۔۔۔۔۔
دعوتوں کے سلسلے ختم ہوئے تو مجتبی نے ارمان سے کہا کہ بیٹا اب میرے ساتھ فیکٹری چل کر اسکے انتظامات سنبھالو مجھے اک دو دن میں شہر سے باہر جانا ہے۔۔۔ ارمان نے کہا جی ٹھیک ہے پاپا۔۔۔۔ اور اگلے دن وہ ناشتہ کرنے کے بعد مجتبی کے ساتھ فیکٹری جانے کے لیے تیار تھا۔۔۔۔ وہ پہلا دن تھا اور اسنے سوچ لیا تھا کہ ہر دن وہ ایسے ہی کرے گا۔۔۔۔ وہ رومانہ کو کمرے میں لایا اور اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور اس سے کہا۔۔" میں فیکٹری جارہا ہوں شام تک آجاؤں گا۔۔۔ ویسے تو تمہیں میک اپ کی بلکل ضرورت نہیں ہے مگر میری خواہش ہے کہ جب میں واپس آؤں تو تم میرے لیے سجی بنی ہو۔۔۔۔ رومانہ نے کہا جو حکم آپکا۔۔۔۔ پھر وہ اسکے ماتھے پہ اپنے پیار کی مہر ثبت کرکے اور اسکے گال کو تھپتھپا کر باہر چلا گیا۔۔۔۔۔ رومانہ کو اسکا یہ اندازبہت اچھا لگا۔۔۔۔۔ پھر وہ کمرے سے باہر چلی گئی ناہید بیگم ملازمہ کو کچھ ہدایت کررہی تھیں وہ انکو دیکھنے لگی۔۔۔۔ گھر میں اسکے لائق کچھ کام تو تھا نہیں وہ نیچے لاؤنج میں آگئی اور وہاں رکھے ہوئے میگزین دیکھنے لگی۔۔۔۔ ناہید بیگم نے کراچی میں بھی اپنا بوتیک کھول لیا تھا مگر وہ پہلے کی نسبت کم وقت دیا کرتی تھیں۔۔۔۔ رومانہ کو بھی وہ اپنے ساتھ لے گئیں تھیں۔۔۔۔۔ اور شام سے پہلے پہلے واپس آگئیں کیونکہ مجتبی اور ارمان کے آنے کا وقت ہورہا تھا اور انہوں نے کھانے کی بھی تیاری کروانی تھی سو وہ آکر اس میں لگ گئیں اور رومانہ سے کہا جاؤ بیٹا تم تیار ہوجاؤ ارمان آنے والا ہے۔۔۔۔ وہ مسکرا کر کمرے میں چلی آئی، اسنے کپڑے چینج کیے اور ہلکا سا میک اپ کیا بلا شبہ وہ بہت حسین لگ رہی تھی۔۔۔ ارمان اور مجتبی آگئے تھے وہ تیار ہوکر کمرے سے نکل کر باہر لاؤنج میں ہی آگئی تھی جیسے ہی وہ لوگ آئے اسنے ان دونوں کو سلام کیا مجتبی نے خوش ہوکر اسکے سر پہ ہاتھ رکھا اور دعا دی جبکہ ارمان تو اسکو دیکھے ہی جارہا تھا اور وہ شرم سے لال ہورہی تھی۔۔۔۔۔۔ مجتبی جب اوپر کمرے میں چلے گئے تو وہ اسکے پاس آیا اور اسکے ماتھے پہ پیار کیا اور کہا بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔۔۔ رومانہ سرشار سی ہوگئی۔۔۔۔ پھر وہ چینج کرنے کے لیے کمرے میں چلا گیا اور رومانہ اسکے لیے ملازمہ سے چائے کا کہنے چلی گئی۔۔۔۔۔ ارمان فریش ہوکر آیا تو رومانہ اسکے لیے چائے لے آئی۔۔۔۔ چائے پینے کے ساتھ ساتھ وہ دونوں باتیں کرنے لگے۔۔۔۔ رومانہ نے ارمان کو بھی سب بتادیا تھا اور ارمان کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ وہ کس جگہ رہی ہے کیونکہ وہ جانتا تھا ہمیشہ سے ہی کہ رومانہ اس وقت بھی وہاں رہنے والی تمام طوائفوں سے مختلف تھی۔۔۔۔۔ اوراب وہ اسکی زندگی میں شامل تھی اسکے لیے اس سےبڑی خوش نصیبی اور کیا ہوسکتی تھی۔۔۔۔۔
وہ رومانہ کو کمرے میں ہمیشہ روبی ہی کہتا تھا کیونکہ وہ تھی ہی اسکی روبی۔۔۔۔مجتبی اس روز شہر سے باہر جارہے تھے اور ارمان کو فیکٹری میں زیادہ دیر رکنا تھا۔۔۔۔ وہ کمرے میں تھا اور مجتبی باہر گاڑی میں اسکا انتظار کررہے تھے وہ گاڑی سے اتر کر آئے اور اوپر اسکے کمرے کی طرف جانے لگے ناہید بیگم نے دیکھا تو کہا آپ رکیں میں بلا کر لے آتی ہوں اسکو۔۔۔۔۔ مجتبی وہیں رک گئے ناہید ارمان کو بلانے کے لیے اسکے کمرے کی طرف گئیں مگر اندر سے آتی ارمان کی آواز نے انکے قدم وہیں روک دیے۔۔۔۔۔ وہ رومانہ سے کہہ رہا تھا کہ" روبی میں آج لیٹ آؤں گا کیونکہ پاپا شہر سے باہر جارہے ہیں دو دن کے لیے تو فیکٹری میں سب انتظامات مجھے دیکھنے ہیں سو تم پریشان نا ہونا اور ایسے ہی تیار ہوکرمیرا انتظار کرنا۔۔۔۔ پھر اسی طرح اسکے گال کو تھپتھپایا اور ماتھے پہ پیار کیا۔۔۔۔ ناہید بیگم سن سی ہوکر رہ گئیں ارمان نے روبی کیوں کہا۔۔۔۔ جبکہ یہ تو رومانہ تھی۔۔۔۔ انکے اندر وہاں مزید کھڑے ہونے کی ہمت نہیں تھی وہ اپنے کمرے میں چلی گئیں اور بیڈ پہ ڈھنے والے انداز میں بیٹھ گئیں۔۔۔۔۔ ارمان کمرے سے نکل کے جاچکا تھا۔۔۔۔۔ اورناہید بیگم کے کانوں میں بس اک ہی لفظ گونج رہا تھا۔۔"روبی" کیا یہ وہی روبی ہے جس سے ارمان محبت کرتا تھا مگر یہ تو۔۔۔۔۔ انکو ارمان کی خوشی کی وجہ بھی سمجھ آگئی کہ وہ رومانہ کے ساتھ کیسے خوش ہے۔۔۔۔ افف میرےخدا ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔ انکے اندر انا کی آگ نےجنم لیا اور وہ سب بھول گئیں کہ رومانہ کو وہ خود بیاہ کر لائی ہیں۔۔۔ وہ اس بات کو نہیں جانتی تھیں کہ وہ لڑکی رومانہ ہے مگر روبی کا نام سنتے ہی انکے دل میں اک گرہ لگ گئی وہ اس بات کو کسی صورت برداشت نہیں کرسکتی تھیں کہ جس کو وہ بہو بنانے سے انکار کرچکی تھیں اور کہا تھا کہ وہ کسی گندگی کو اپنے گھر کی بہو نہیں بنائیں گی اور آج وہ انکے گھر کی بہو تھی جس کو وہ خود بیاہ کر لائیں تھیں۔۔۔۔۔ وہ سرپکڑے بیٹھی تھیں پھر کچھ سوچتے ہوئے اٹھیں اور ارمان کے کمرے کی طرف چلی گئیں